تحریر: ملک سراج اکبر
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ سال اور بالخصوص پچھلے دو مہینے کوئٹہ کے ہزارہ برادری پر عذاب جھنگوئی بن کر گذرے ہیں۔ان تمام واقعات میں انسانی جانوں کا ضیاع تو
اپنی جگہ پر ایک عظیم المیہ ضرور ہے لیکن ان حالات نے ہزارہ قوم کو اس طوفان سے
آشنا کردیا ہے جس کے بارے میں لگتا ہے کہ علامہ اقبال نے ہزارہ قوم ہی سے شکایت کی تھی ’’کہ بحر کی موجوں میں اضطراب
نہیں‘‘۔میرے خیال میں ہزاروں نے اپنے اتحاد اور یکجہتی سے صرف دو مہینوں میں وہ کام کردیکھایا جو بلوچ سیاست دان دس سالوں
میں نہ کرسکے۔
ہزاروں کو شکایت ہے کہ لشکرِ جھنگوئی کو فوج سے منسلک خفیہ اداروں کی حمایت حاصل ہے اور بلوچ بھی یہی کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے پیچھے فوج اور ایجنسیاں ہیں۔ لیکن ایسا کیو ں ہوا کہ تین سے پانچ لاکھ کی آبادی والے ہزاروں نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے؟ ہزاروں میں کیا خوبی تھی جس نے بلوچستان کی پوری حکومت اکھاڑ کر پھینک دی؟ ہزاروں نے کیا کیا جس کی وجہ سے فوج کے ترجمان کو جھک کر یہ بیان دینا پڑا کہ فوج کا لشکر جھنگوئی کے سا تھ کوئی تعلق نہیں ہے ؟ جو لوگ کہتے تھے کہ پاکستانی میڈیا بلوچستان پر خاموش ہے وہ یہ بتائیں کہ ہزاروں نے کیسے پاکستانی نیوز میڈیا میں اپنی خبر سب سے بڑی خبر بنا کر پیش کی؟ اتنی چھوٹی قوم نے بی بی سی سے لے کر الجزیرہ پر کیسے اپنی ہلاکت کی خبر کو چوبیس گھنٹوں تک زندہ رکھا بلکہ اسے عالمی خبروں میں بھی شہ سرخی بنادی؟
ہزاروں کے پاس جادوکی کونسی چھڑی ہے جس نے سپریم کورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے پر مجبور کیا اور وزیراعظم سے لے کر عمران خان تک سب کوئٹہ کی طرف دوڑیں مارنے پر مجبور ہوگئے؟ ایک ایسی قوم جس کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صرف ایک ایک نشست ہو اس نے وفاقی حکومت ، فوج اور عدلیہ کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر کیسے مجبور کیا ؟ جی ہاں ایک ایسی قوم جس پر ایران اور پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے حوالے سے اس بات کا بھی اعتراف کیا جائے کہ یہ قوم پاکستانی خفیہ اداروں کی حمایت یافتہ لشکر جھنگوئی کی دہشت گردی اور سعودی عرب کی طرف مذہبی انتہا پسندی کو پروان چڑھانے کے لئے آنے والے انسان دشمن پیسوں کی وجہ سے دہشت کا شکار ہوگئی ہے۔ ایک ہزار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود ہزارہ قوم نے ایک گولی چلائے بغیر اپنے مسئلے کو کیسے پوری دنیا کے سامنے اجا گر کیا؟ کون کہتا ہے کہ پاکستان یا بلوچستان میں پر امن تبدیلی نہیں آسکتی؟ کیا ہزاروں نے دو ہفتوں میں یہ سب کچھ کرکے نہیں دیکھا یا؟
جی ہاں لیکن یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ اس کا صرف ایک سادہ سا جواب ہے اور وہ ہےاتحاد ویک جہتی۔ہرگھر اور قبیلے میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں لیکن جب بات ان کی قومی بقا پر آگئی تو انھوں نے ایک دوسرے کا ’’ ایجنٹ‘‘، ’’ غدار‘‘ اور ’’ ہزارہ دشمن‘‘ کہہ کر اپنے دشمن کو فائد ہ نہیں پہنچایا۔ گھریلو اختلافات کو ظاہر کرکے ہزاروں نے اپنے دشمن کو اپنی چھوٹی سے چھوٹی کمزوری نہیں دیکھائی۔جب احتجاج کی باری آئی تو ان کی ماوں، بہنوں ، بچوں اور بوڑھوں نے ہلاک شدگاں کی لاشیں لے کر کوئٹہ کی بد ترین سردی میں کئی دن اور راتوں تک مظاہرے کئے۔ جب قومیں اس حد تک متحد ہوں انھیں دنیا کی کوئی جھنگوئی لشکر شکست نہیں دے سکتی ۔
ہزاروں کو شکایت ہے کہ لشکرِ جھنگوئی کو فوج سے منسلک خفیہ اداروں کی حمایت حاصل ہے اور بلوچ بھی یہی کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے پیچھے فوج اور ایجنسیاں ہیں۔ لیکن ایسا کیو ں ہوا کہ تین سے پانچ لاکھ کی آبادی والے ہزاروں نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے؟ ہزاروں میں کیا خوبی تھی جس نے بلوچستان کی پوری حکومت اکھاڑ کر پھینک دی؟ ہزاروں نے کیا کیا جس کی وجہ سے فوج کے ترجمان کو جھک کر یہ بیان دینا پڑا کہ فوج کا لشکر جھنگوئی کے سا تھ کوئی تعلق نہیں ہے ؟ جو لوگ کہتے تھے کہ پاکستانی میڈیا بلوچستان پر خاموش ہے وہ یہ بتائیں کہ ہزاروں نے کیسے پاکستانی نیوز میڈیا میں اپنی خبر سب سے بڑی خبر بنا کر پیش کی؟ اتنی چھوٹی قوم نے بی بی سی سے لے کر الجزیرہ پر کیسے اپنی ہلاکت کی خبر کو چوبیس گھنٹوں تک زندہ رکھا بلکہ اسے عالمی خبروں میں بھی شہ سرخی بنادی؟
ہزاروں کے پاس جادوکی کونسی چھڑی ہے جس نے سپریم کورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے پر مجبور کیا اور وزیراعظم سے لے کر عمران خان تک سب کوئٹہ کی طرف دوڑیں مارنے پر مجبور ہوگئے؟ ایک ایسی قوم جس کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صرف ایک ایک نشست ہو اس نے وفاقی حکومت ، فوج اور عدلیہ کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر کیسے مجبور کیا ؟ جی ہاں ایک ایسی قوم جس پر ایران اور پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے حوالے سے اس بات کا بھی اعتراف کیا جائے کہ یہ قوم پاکستانی خفیہ اداروں کی حمایت یافتہ لشکر جھنگوئی کی دہشت گردی اور سعودی عرب کی طرف مذہبی انتہا پسندی کو پروان چڑھانے کے لئے آنے والے انسان دشمن پیسوں کی وجہ سے دہشت کا شکار ہوگئی ہے۔ ایک ہزار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود ہزارہ قوم نے ایک گولی چلائے بغیر اپنے مسئلے کو کیسے پوری دنیا کے سامنے اجا گر کیا؟ کون کہتا ہے کہ پاکستان یا بلوچستان میں پر امن تبدیلی نہیں آسکتی؟ کیا ہزاروں نے دو ہفتوں میں یہ سب کچھ کرکے نہیں دیکھا یا؟
جی ہاں لیکن یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ اس کا صرف ایک سادہ سا جواب ہے اور وہ ہےاتحاد ویک جہتی۔ہرگھر اور قبیلے میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں لیکن جب بات ان کی قومی بقا پر آگئی تو انھوں نے ایک دوسرے کا ’’ ایجنٹ‘‘، ’’ غدار‘‘ اور ’’ ہزارہ دشمن‘‘ کہہ کر اپنے دشمن کو فائد ہ نہیں پہنچایا۔ گھریلو اختلافات کو ظاہر کرکے ہزاروں نے اپنے دشمن کو اپنی چھوٹی سے چھوٹی کمزوری نہیں دیکھائی۔جب احتجاج کی باری آئی تو ان کی ماوں، بہنوں ، بچوں اور بوڑھوں نے ہلاک شدگاں کی لاشیں لے کر کوئٹہ کی بد ترین سردی میں کئی دن اور راتوں تک مظاہرے کئے۔ جب قومیں اس حد تک متحد ہوں انھیں دنیا کی کوئی جھنگوئی لشکر شکست نہیں دے سکتی ۔
دوسری طرف نظریں ڈالیئے۔ بلوچستان میں گذشتہ دس سالوں میں
بلوچوں پر کون کون سے مظالم نہیں ڈالے گئے؟ کیا ایشیا کے کسی بھی خطے میں اتنے لوگ
ایک ساتھ لاپتہ ہیں جتنے بلوچستان سے
لاپتہ ہوئے ہیں؟ کیا اکیسویں صدی میں کہیں بھی کسی قو م کی نسل کشی اس دیدا دلیری
کی ساتھ کی جارہی ہے کہ مسخ شدہ لاشوں کے ساتھ پرچیاں ڈال کر انھیں ’’عید کا تحفہ‘‘
سمجھ کر بیج دیا جائے۔ کیا دنیا میں کوئی
خطہ ایسا بھی ہے جس کے معدنی وسائل پر دنیا کی دارلحکومتوں میں معائدے طے
پائیں اور عالمی تھنک ٹھینکس میں ان معاہدات کے حوالے سے بحث و مباحثہ ہو اور خود
اس سرزمین پر انسان افریقی ممالک سے بھی بد ترین غربت کی زندگی بسر کررہےہوں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر کبھی ایک بن کر نہیں اٹھ سکے؟ کیا بی این پی ، این پی، جے ڈبلیو پی، بی این ایم ، بی آر پی نے کبھی یہ سوچا کہ آزادی اور خود مختاری پر ہمارا اختلاف رائے تو ہوسکتا ہے لیکن مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ، فوجی آپریشن تو ہمارا قومی مسئلہ ہے؟ کیا دوہزار چھ کو قلات جرگہ کے بعد بلوچ رہنماوں نے دنیا کے کسی بھی کونے میں مل بیٹھ کر ایک پریس کانفرنس کی؟ کیا بلوچ رہنما کسی ایک بات پر متفق ہوسکتے؟ شاید بلوچوں اور ہزاروں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان کے پاس’’ توار‘‘ اور ’’انتخاب ‘‘جیسے اخبار نہیں ہیں اور انھیں اخباری بیان بازی کا شوق نہیں لگا ہے یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ انھیں پتہ ہے کہ قومیں اپنی جنگیں صرف اخباری بیان بازی کے ذریعے نہیں لڑتی ہیں۔
کاش بلوچ کسی ایک مسئلے پرایک ہوتے۔ لاپتہ افراد کو حیربیار مری اور برہمداغ بگٹی کے فریڈم چارٹر سے کوئی غر ض نا اختر مینگل کی سپریم کورٹ سے اور نہ ہی ڈاکٹر مالک کی پارلیمنٹ سے۔ انھیں تو صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ جلد از جلد بازیا ب ہوکر اپنے خاندانوں سے ملیں۔ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں فوجی آپریشن کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے لیکن ان تمام سیاسی رہنماوں کی ذاتی آنا ، حسد اور نااتفاقی نے انھیں ایک دن بھی اکھٹے نہیں ہونے دیا۔گذشتہ ایک دہائی میں بلوچ رہنماوں اور کارکناں نے اپنی نصف سے زیادہ توجہ وتوانائی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے ، غداری اور مخبری کے فتوے لگانے میں ضائع کئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ہوگا کیا؟ بلوچ سیاست دانوں کے رویے اس وقت تبدیل ہوں گے جب ماما قدیر مطالبہ کریں گے کہ ’’توار‘‘ اخبار میں ان کے قصیدے لکھنے یا لکھوانے کے بجائے بلوچ رہنما ان کے شانہ بشانہ اسی طرح گورنر ہاوس اور وزیر اعلیٰ ہاوس کا محاصرہ کریں جس طرح ہزارو نے کیا تھا۔ جب لاپتہ ہونے والے افراد کے بچے انھیں کہیں گے کہ آپ اپنی سیاست شوق سے کریں اور اپنی انا کی پرستش بھی لیکن کم از کم حصول انصاف میں تو آپ ہمارے ساتھ رئیں۔ بلوچوں کے لئے موقع ہے کہ وہ ہزاروں کے اتحاد و یکجہتی سے سبق سیکھیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر کبھی ایک بن کر نہیں اٹھ سکے؟ کیا بی این پی ، این پی، جے ڈبلیو پی، بی این ایم ، بی آر پی نے کبھی یہ سوچا کہ آزادی اور خود مختاری پر ہمارا اختلاف رائے تو ہوسکتا ہے لیکن مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ، فوجی آپریشن تو ہمارا قومی مسئلہ ہے؟ کیا دوہزار چھ کو قلات جرگہ کے بعد بلوچ رہنماوں نے دنیا کے کسی بھی کونے میں مل بیٹھ کر ایک پریس کانفرنس کی؟ کیا بلوچ رہنما کسی ایک بات پر متفق ہوسکتے؟ شاید بلوچوں اور ہزاروں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان کے پاس’’ توار‘‘ اور ’’انتخاب ‘‘جیسے اخبار نہیں ہیں اور انھیں اخباری بیان بازی کا شوق نہیں لگا ہے یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ انھیں پتہ ہے کہ قومیں اپنی جنگیں صرف اخباری بیان بازی کے ذریعے نہیں لڑتی ہیں۔
کاش بلوچ کسی ایک مسئلے پرایک ہوتے۔ لاپتہ افراد کو حیربیار مری اور برہمداغ بگٹی کے فریڈم چارٹر سے کوئی غر ض نا اختر مینگل کی سپریم کورٹ سے اور نہ ہی ڈاکٹر مالک کی پارلیمنٹ سے۔ انھیں تو صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ جلد از جلد بازیا ب ہوکر اپنے خاندانوں سے ملیں۔ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں فوجی آپریشن کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے لیکن ان تمام سیاسی رہنماوں کی ذاتی آنا ، حسد اور نااتفاقی نے انھیں ایک دن بھی اکھٹے نہیں ہونے دیا۔گذشتہ ایک دہائی میں بلوچ رہنماوں اور کارکناں نے اپنی نصف سے زیادہ توجہ وتوانائی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے ، غداری اور مخبری کے فتوے لگانے میں ضائع کئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ہوگا کیا؟ بلوچ سیاست دانوں کے رویے اس وقت تبدیل ہوں گے جب ماما قدیر مطالبہ کریں گے کہ ’’توار‘‘ اخبار میں ان کے قصیدے لکھنے یا لکھوانے کے بجائے بلوچ رہنما ان کے شانہ بشانہ اسی طرح گورنر ہاوس اور وزیر اعلیٰ ہاوس کا محاصرہ کریں جس طرح ہزارو نے کیا تھا۔ جب لاپتہ ہونے والے افراد کے بچے انھیں کہیں گے کہ آپ اپنی سیاست شوق سے کریں اور اپنی انا کی پرستش بھی لیکن کم از کم حصول انصاف میں تو آپ ہمارے ساتھ رئیں۔ بلوچوں کے لئے موقع ہے کہ وہ ہزاروں کے اتحاد و یکجہتی سے سبق سیکھیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ہوگا کیا ؟ بلوچ سیاست دانوں کے رویے اس وقت تبدیل ہوں گے جب ماما قدیر یہ مطالبہ کریں
گے کہ ’’توار‘‘ اخبار میں ان کے قصیدے لکھنے یا لکھوانے کے بجائے بلوچ رہنما ان کا
شانہ بشانہ اسی طرح گورنر ہاوس اور وزیراعلیٰ ہاوس کا محاصرہ کریں جس طرح ہزاروں
نے کیا تھا۔ جب لاپتہ ہونے والوں کے بچے انھیں کہیں کہ آپ اپنی سیاست شوق سے کریں
اور اپنی انا کی پرستش بھی لیکن کم از کم حصول انصاف میں تو ہمارے ساتھ رئیں۔ بلوچوں
کے لئے موقع ہے کہ وہ ہزاروں کے اتحاد
ویکجہتی سے سبق سیکھیں ۔ بی بی سی اردو کا کہنا ہے کہ دو لاکھ کے قریب ہزارہ کوئٹہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور شاید باقی بچارے بھی بلوچستان اور پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگرد دنیا کے کسی کونے (مثلاً آسٹریلیا) میں چند ہزار ہزارے بھی باقی رئیں گے تو یہ قوم یہودیوں کی طرح ایک بار پھر ابھرے گی۔ ( میں یہودیوں کا بڑا احترام کرتا ہوں ۔ لہٰذہ مذہبی سوچ رکھنے والے لوگ اس مشابہت پر ناراض نہ ہوں۔ میں یہودیوں کو ایک کامیاب اور گر کر اٹھنے والی سمجھ دار قوم تصور کرتا ہوں۔) پڑھنے والوں کےلئے یہ بات اس لئےتحریر کر رہا ہوں کہ مجھے
یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑے کہ ’’میر ی بات لکھ
کر یاد رکھیں‘‘۔ اس منظم قوم کے بچے آج سےچند سال بعد بڑے ہوں گے اور ان
میں سے عالمی شہرت کے سائنس دان اور مصنفیں و منصفیں پیدا ہوں گے کیوں کہ یہ قوم
متحد ہے اور اور دنیا میں متحد و منظم
لوگوں کو دنیا کی کوئی طاقت جھکا نہیں سکی ہے۔ اور جو قومیں تقسیم در تقسیم رہتی
ہیں انھیں دنیا کی کوئی قوت اکھٹی نہیں رکھ سکتی۔

بلوچ قوم کبھی بھی اپنی منزل نھـیں پاسکتی جب تک وہ بلوچستان میں مقیم تمام برادراقوام کو اعتماد میں نہ لیں
ReplyDeletePlease also consider that:
ReplyDelete1. Hazara killings are happening in Quetta, an urban center, more accessible to the media. Baloch abductions and killings are taking place in much smaller towns, far away from media's reach. [It is also unfortunate that many in Pakistani media are scared of traveling deeper in Baloch areas where they can be killed because of their Punjabi or Muhajir ethnicity.]
2. Hazara killings are perceived to be a part of the wider Shia genocide problem in Pakistan--and are therefore receiving more national and international attention.
واجہ سراج یکیں گپیں و ایش کہ ھرکس سرپد ببیت کہ ھزارہ ہمک وکت ریاستے دست راست بوتگاں اگان کولیٹرل ڈیمج ءِ تہا لیتیں مردیت کجام تاوان بیت بلے ریاست چریں چیزا چہ بازیں فائدگ چست کنت۔ نو تو وت بچار! نوں کلیں دنیا ہمیں گشگاں انت کہ بلوچستانی لوٹ کنگا آں کہ فوج بیت۔ رحمان ملک گشیت کہ لشکری جھنگوٗی ھو طالبان بلوچستان ءَ ووٹ ءِ دارگے پندل سازگاں آں فوج منگا ایں کہ آئی بلوچستان بازیں آپرشن کتگ ھو ٓ نوں آھارا آپریشن کنگے سرٹفیکٹ رستگ ۔ چونا ھم بلوچ پاکستنانءِ منوک نہ اں نیوز نبشتہ کنوک نیوز وانوک پاکستان ءِ پروشگاں چوں لوٹاں کہ بلوچانی توارا دنیا سر بکن انت ۔
ReplyDeleteIn an academic sense it could be right rather 100% right but in baloch context it would not be that much fruitful coz it was baloch to sit they would have shot dead and sit in dispersed. As far as one the part ur blog abt the unity of the baloch is concern that is true and nobody's concerns are different than urs'. Mr. Malik I appreciate your efforts whatever you are doing or highlighting the baloch cause.
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDelete@Barmsh Baloch. we Hazaras are not the men of establishment. it must be clear for u.
ReplyDeletebut establishment is trying to use us a key role in proxy war, same as iran.
i totally agree with you.
ReplyDeleteStop hazara killing in quetta pakistan .
ReplyDelete