تحریر: ملک سراج اکبر
ایسا لگ رہا ہے کہ چند شعیہ علما ہفتے کے روز کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد پیش آنے والے صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مظاہرین کا زور اس بات پر کیوں ہے کہ کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ فرقہ وارانہ حملے تو کراچی اور پنجاب میں بھی ہوتے ہیں تو پھر کبھی کسی نے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا کہ ملک کے دیگر شہروں کو بھی فوج کے حوالے کیا جائے۔ ہم نے انہی بنیادوں پر بلوچستان میں گورنرراج کے نفاذ کی مخالفت کی تھی کیوں کہ گورنر راج مسئلےکا اصل کا حل نہیں ہے۔
جو لوگ اپنے گھروں سے نکل کر پچھلے دو دنوں سے کوئٹہ شہر میں پرا من مظاہرہ کر رہے ہیں اور اپنے عزیزوں کی لاشیں دفن کرنے پر آمادہ نہیں ہیں وہ بڑی نیک نیتی سے مظاہرے کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف انصاف مانگ رہے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں اس طرح کے گھناونے واقعات پیش نہ آئیں جن سے کسی اور کا گھر تباہ ہو۔ لیکن چند علما ان مظاہرین کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر ایران کی سیاست چمکانے میں مصروف ِ عمل ہیں۔ مثلاً کراچی کے مظاہروں میں امریکہ مردہ باد کے نعرے لگے تو باقی شہروں میں ہزاورں کے خلاف ہونے والی کارروائی کو بین الاقوامی قوتوں کی’’ سازش ‘‘قرار دی گئی۔ غیر ملکی قوتوں پر الزام لگا کر علما عوام کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور اس مسائل سے چشم پوشی کرنا چاہتے ہیں۔ اب تو بچے بچے کو پتہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر اعتراض تو کیا جاسکتا ہے لیکن شعیوں پر ہونے والے حملوں میں امریکہ ملوث نہیں ہو سکتا۔ لشکرِ جھنگوئی کوئی امریکی تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی مذہبی انتہا پسند جماعت ہے جس کا مرکز جنوبی پنجاب میں ہے اور اس کی سرپرستی مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ادارے کررہے ہیں۔ ہر بات پر امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو الزام لگا کر ہمارے حکمران اور علماحقائق پر پردہ پوشی کرنا چاہتے ہیں۔ خود امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں شعیہ بستے ہیں لیکن آج تک وہاں کسی شعیہ کو عبادت سے نہیں روکا گیا اور قتل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
شعیہ علما کو چائیے کہ اس نازک وقت میں سیاست کرنے کے بجائےمختلف اقوام و مسالک کے مابین اچھے تعلقات ہموار کرنے میں مثبت کردار ادا کریں۔ اسی طرح کوئٹہ میں فوج طلب کرکے دراصل وہ ان قوتوں کو مزید مضبو ط کرنا چاہتے ہیں جن پر لشکرِ جھنگوئی کی معاونت کرنے کا پہلے ہی سے شبہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح گورنر راج کے نفاذ سے امن و امان کے معاملے میں کوئی فرق نہیں پڑا با لکل اسی طرح فوج کے آنے کے بعد بھی بلوچستان میں حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
گذشتہ دو دنوں کے مظاہروں کے پیش نظر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سانحہ کوئٹہ کا سوموٹو نوٹس لے لیا ہےاور اس واقعے پر فوری طور پر آج ہی سے سماعت کا آغاز ہوگا ۔ ابھی چند ہفتےقبل ہی سپریم کورٹ نے بلوچستان کے مسئلے پر ایک طویل مقدمے کی سماعت کی تھی جس کے نتیجے میں یہ فیصلہ دیا کہ صوبائی حکومت نا اہل ہوچکی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کو بلوچستان میں بد امنی کے حوالے سے ایک اور نئے سماعت کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ہمارے خیال میں لشکرِ جھنگوئی سمیت بلوچستان میں بد امنی پھیلانے والے تمام گروہوں کا مجموعی جائزہ اسی کیس میں لیا گیا تھا اور اب شاید ہی کوئی نئی بات منظر عام پر آئے ۔ یوں لگتا ہے کہ چیف جسٹس اپنی عادت سے مجبور ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر وہ عوامی توقعات اور ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن جائیں۔ نیز ان کے سوموٹو سے شاید ہزارہ مظاہرین کا غم و غصہ تھوڑا ہلکا ہوجائے لیکن اگر سابقہ مقدمے کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے جوا حکامات جاری کئے تھے اور ان پر عمل درآمد نہ ہوسکا تو پتہ نہیں اب چیف صاحب کے پاس جادو کی کونسی چھڑی ہے جس کو لے کر وہ راتوں رات لشکرِ جھنگوئی کا قلع قمع کریں گے۔
چوں کہ یہ انتخابات کا سال ہےتو پی پی پی حکومت بھی شدید دباو میں ہے کہ کیا کیا جائے جس سے ووٹرز بدظن نہ ہوجائیں ۔ اسی بات کے پیش نظر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے گذشتہ روز سانحہ کوئٹہ کی تحقیق کے لئے ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس سے قبل جب دس جنوری کا واقعہ پیش آیا تو وزیراعظم نے مذہبی امور کے وفاقی وزیر سید خورشید شاہ کو اپنا مندوب بنا کر کوئٹہ روانہ کیا تھا لیکن وہ مظاہرین سے مذاکرات کرنے میں ناکام ہوکر واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔ بعد میں جب وزیراعظم خود کوئٹہ تشریف لے گئے اور صوبائی حکومت کی برطرفی کا اعلان کیا تو مظاہرین اپنا دھرنہ ختم کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اب کی بار مظاہرین کو منانے کی خاطر کیا کرے گی کیوں کہ اب واضح ہوگیا ہے کہ گورنر لوگوں کی جان و مال کی تحفظ میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
وزیرا عظم کے اس نئے چھ رکنی کمیٹی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والا کوئی رکن اسمبلی شامل نہیں ہے۔ شاید وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی کمیٹی جس میں سب اراکین غیر بلوچستانی ہوں ایک غیر جانبدارنہ رپورٹ پیش کر سکے گی لیکن اس سوچ سے اتفاق کرنا ممکن نہیں ہے۔ وزیراعظم کو اس کمیٹی میں کم از کم پچاس فیصد ( یعنی تین اراکین) بلوچستان سے شامل کرنے چائیں تاکہ مقامی لوگوں کو اس کمیٹی پر بھروسہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ کمیٹی کے باقی تین غیر بلوچستانی اراکین مقامی ممبران کے تجربات اور زمینی حقائق سےآگاہی کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔
اگرچہ مظاہرین کا غم و غصہ قابل ِ فہم ہے لیکن تمام فریقین کو چائیے کہ وہ جذبات کے بجائے فراست سے فرقہ وارانہ حملوں کا حل ڈھونڈیں۔ فوج مسائل کا حل نہیں ہے کیوں کہ فوج پولیس کا کام نہیں کرسکتی اس لئے کہ اس کی تربیت جنگ لڑنے کی ہوتی ہے نا کہ پولیس کا فریضہ انجام دینے کی۔ جس طرح ایک کامیاب پائلیٹ سرجری نہیں کرسکتا اسی طرح ایک اچھا فوجی کامیاب پولیس آفیسر بھی نہیں بن سکتا۔ پولیس اور فوج کی ذمہ داریاں مختلف ہوتی ہیں اور جو کام پولیس نہیں کرسکی ہے وہ فو ج ہرگز نہیں کرسکے گی۔گورنر مگسی کی یہ بات تو درست ہے کہ ہزارہ ٹاون کا واقعہ خفیہ ادراوں کی نااہلی کے باعث پیش آیا لیکن پولیس پر تمام ذمہ داری ڈالنے کے بجائے یہ بات سمجھ لینی چائیے کہ دہشت گردی کے یہ تمام واقعات ایک لمبے عمل سے گزر کر پیش آتے ہیں۔ اس کی مثال فٹ بال کے کھیل کی طرح ہے کہ دس کھلاڑی بال کو مخالف ٹیم کے قبضے سے حاصل نہیں کرسکتے اور پھر بھی گول ہونے کی صورت میں سب کھلاڑی بچارے گول کیپر پر برس پڑتے ہیں۔ اسی طرح پولیس ( جسے میں یہاں گول کیپر سے تشبہ دے رہا ہوں) تک پہنچنے سے پہلے دہشت گردوں کے پس منطر کو دیکھنا بے حد لازمی ہے۔ مسئلہ ان کی تعلیم و تربیت میں ہے۔جب تک ہم ان جگہوں کا تعین اور اصلاح نہیں کرتے جہاں ان کے ننھے ذہنوں کو مذہبی نفرتوں سے بھر دیا جاتا ہے اور انھیں مذہب کی غلط تعلیم دی جاتی ہے تب تک مذہبی دہشت گردی کے واقعات کا سدباب ناممکن ہے چاہے اس کےلئے حکومت گورنر راج نافذکرے یا فوج بلائے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ چند شعیہ علما ہفتے کے روز کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد پیش آنے والے صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مظاہرین کا زور اس بات پر کیوں ہے کہ کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ فرقہ وارانہ حملے تو کراچی اور پنجاب میں بھی ہوتے ہیں تو پھر کبھی کسی نے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا کہ ملک کے دیگر شہروں کو بھی فوج کے حوالے کیا جائے۔ ہم نے انہی بنیادوں پر بلوچستان میں گورنرراج کے نفاذ کی مخالفت کی تھی کیوں کہ گورنر راج مسئلےکا اصل کا حل نہیں ہے۔
جو لوگ اپنے گھروں سے نکل کر پچھلے دو دنوں سے کوئٹہ شہر میں پرا من مظاہرہ کر رہے ہیں اور اپنے عزیزوں کی لاشیں دفن کرنے پر آمادہ نہیں ہیں وہ بڑی نیک نیتی سے مظاہرے کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف انصاف مانگ رہے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں اس طرح کے گھناونے واقعات پیش نہ آئیں جن سے کسی اور کا گھر تباہ ہو۔ لیکن چند علما ان مظاہرین کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر ایران کی سیاست چمکانے میں مصروف ِ عمل ہیں۔ مثلاً کراچی کے مظاہروں میں امریکہ مردہ باد کے نعرے لگے تو باقی شہروں میں ہزاورں کے خلاف ہونے والی کارروائی کو بین الاقوامی قوتوں کی’’ سازش ‘‘قرار دی گئی۔ غیر ملکی قوتوں پر الزام لگا کر علما عوام کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور اس مسائل سے چشم پوشی کرنا چاہتے ہیں۔ اب تو بچے بچے کو پتہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر اعتراض تو کیا جاسکتا ہے لیکن شعیوں پر ہونے والے حملوں میں امریکہ ملوث نہیں ہو سکتا۔ لشکرِ جھنگوئی کوئی امریکی تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی مذہبی انتہا پسند جماعت ہے جس کا مرکز جنوبی پنجاب میں ہے اور اس کی سرپرستی مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ادارے کررہے ہیں۔ ہر بات پر امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو الزام لگا کر ہمارے حکمران اور علماحقائق پر پردہ پوشی کرنا چاہتے ہیں۔ خود امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں شعیہ بستے ہیں لیکن آج تک وہاں کسی شعیہ کو عبادت سے نہیں روکا گیا اور قتل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
شعیہ علما کو چائیے کہ اس نازک وقت میں سیاست کرنے کے بجائےمختلف اقوام و مسالک کے مابین اچھے تعلقات ہموار کرنے میں مثبت کردار ادا کریں۔ اسی طرح کوئٹہ میں فوج طلب کرکے دراصل وہ ان قوتوں کو مزید مضبو ط کرنا چاہتے ہیں جن پر لشکرِ جھنگوئی کی معاونت کرنے کا پہلے ہی سے شبہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح گورنر راج کے نفاذ سے امن و امان کے معاملے میں کوئی فرق نہیں پڑا با لکل اسی طرح فوج کے آنے کے بعد بھی بلوچستان میں حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
گذشتہ دو دنوں کے مظاہروں کے پیش نظر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سانحہ کوئٹہ کا سوموٹو نوٹس لے لیا ہےاور اس واقعے پر فوری طور پر آج ہی سے سماعت کا آغاز ہوگا ۔ ابھی چند ہفتےقبل ہی سپریم کورٹ نے بلوچستان کے مسئلے پر ایک طویل مقدمے کی سماعت کی تھی جس کے نتیجے میں یہ فیصلہ دیا کہ صوبائی حکومت نا اہل ہوچکی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کو بلوچستان میں بد امنی کے حوالے سے ایک اور نئے سماعت کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ہمارے خیال میں لشکرِ جھنگوئی سمیت بلوچستان میں بد امنی پھیلانے والے تمام گروہوں کا مجموعی جائزہ اسی کیس میں لیا گیا تھا اور اب شاید ہی کوئی نئی بات منظر عام پر آئے ۔ یوں لگتا ہے کہ چیف جسٹس اپنی عادت سے مجبور ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر وہ عوامی توقعات اور ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن جائیں۔ نیز ان کے سوموٹو سے شاید ہزارہ مظاہرین کا غم و غصہ تھوڑا ہلکا ہوجائے لیکن اگر سابقہ مقدمے کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے جوا حکامات جاری کئے تھے اور ان پر عمل درآمد نہ ہوسکا تو پتہ نہیں اب چیف صاحب کے پاس جادو کی کونسی چھڑی ہے جس کو لے کر وہ راتوں رات لشکرِ جھنگوئی کا قلع قمع کریں گے۔
چوں کہ یہ انتخابات کا سال ہےتو پی پی پی حکومت بھی شدید دباو میں ہے کہ کیا کیا جائے جس سے ووٹرز بدظن نہ ہوجائیں ۔ اسی بات کے پیش نظر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے گذشتہ روز سانحہ کوئٹہ کی تحقیق کے لئے ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس سے قبل جب دس جنوری کا واقعہ پیش آیا تو وزیراعظم نے مذہبی امور کے وفاقی وزیر سید خورشید شاہ کو اپنا مندوب بنا کر کوئٹہ روانہ کیا تھا لیکن وہ مظاہرین سے مذاکرات کرنے میں ناکام ہوکر واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔ بعد میں جب وزیراعظم خود کوئٹہ تشریف لے گئے اور صوبائی حکومت کی برطرفی کا اعلان کیا تو مظاہرین اپنا دھرنہ ختم کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اب کی بار مظاہرین کو منانے کی خاطر کیا کرے گی کیوں کہ اب واضح ہوگیا ہے کہ گورنر لوگوں کی جان و مال کی تحفظ میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
وزیرا عظم کے اس نئے چھ رکنی کمیٹی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والا کوئی رکن اسمبلی شامل نہیں ہے۔ شاید وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی کمیٹی جس میں سب اراکین غیر بلوچستانی ہوں ایک غیر جانبدارنہ رپورٹ پیش کر سکے گی لیکن اس سوچ سے اتفاق کرنا ممکن نہیں ہے۔ وزیراعظم کو اس کمیٹی میں کم از کم پچاس فیصد ( یعنی تین اراکین) بلوچستان سے شامل کرنے چائیں تاکہ مقامی لوگوں کو اس کمیٹی پر بھروسہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ کمیٹی کے باقی تین غیر بلوچستانی اراکین مقامی ممبران کے تجربات اور زمینی حقائق سےآگاہی کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔
اگرچہ مظاہرین کا غم و غصہ قابل ِ فہم ہے لیکن تمام فریقین کو چائیے کہ وہ جذبات کے بجائے فراست سے فرقہ وارانہ حملوں کا حل ڈھونڈیں۔ فوج مسائل کا حل نہیں ہے کیوں کہ فوج پولیس کا کام نہیں کرسکتی اس لئے کہ اس کی تربیت جنگ لڑنے کی ہوتی ہے نا کہ پولیس کا فریضہ انجام دینے کی۔ جس طرح ایک کامیاب پائلیٹ سرجری نہیں کرسکتا اسی طرح ایک اچھا فوجی کامیاب پولیس آفیسر بھی نہیں بن سکتا۔ پولیس اور فوج کی ذمہ داریاں مختلف ہوتی ہیں اور جو کام پولیس نہیں کرسکی ہے وہ فو ج ہرگز نہیں کرسکے گی۔گورنر مگسی کی یہ بات تو درست ہے کہ ہزارہ ٹاون کا واقعہ خفیہ ادراوں کی نااہلی کے باعث پیش آیا لیکن پولیس پر تمام ذمہ داری ڈالنے کے بجائے یہ بات سمجھ لینی چائیے کہ دہشت گردی کے یہ تمام واقعات ایک لمبے عمل سے گزر کر پیش آتے ہیں۔ اس کی مثال فٹ بال کے کھیل کی طرح ہے کہ دس کھلاڑی بال کو مخالف ٹیم کے قبضے سے حاصل نہیں کرسکتے اور پھر بھی گول ہونے کی صورت میں سب کھلاڑی بچارے گول کیپر پر برس پڑتے ہیں۔ اسی طرح پولیس ( جسے میں یہاں گول کیپر سے تشبہ دے رہا ہوں) تک پہنچنے سے پہلے دہشت گردوں کے پس منطر کو دیکھنا بے حد لازمی ہے۔ مسئلہ ان کی تعلیم و تربیت میں ہے۔جب تک ہم ان جگہوں کا تعین اور اصلاح نہیں کرتے جہاں ان کے ننھے ذہنوں کو مذہبی نفرتوں سے بھر دیا جاتا ہے اور انھیں مذہب کی غلط تعلیم دی جاتی ہے تب تک مذہبی دہشت گردی کے واقعات کا سدباب ناممکن ہے چاہے اس کےلئے حکومت گورنر راج نافذکرے یا فوج بلائے۔
.jpg)
No comments:
Post a Comment