Tuesday, February 5, 2013

بلوچستان میں ژولیدگی کا راج

تحریر: ملک سراج اکبر
چند ہفتوں قبل بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد صوبے کے حالات اب ایک بار پھر’’ نارمل‘‘ ہورہے ہیں۔  لیکن صورتحال  صرف بلوچستان کے منفرد انداز میں نارمل ہورہی ہے یعنی صوبے میں ایک بار پھر بلوچ قوم پرستوں کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کردیا گیا ہے، شعیہ ہزاروں پر از سرے نو حملوں کاآغاز ہوگیا ہے، سرکاری اہل کاروں اور پنجابی آباد کاروں پر بھی اسی طرح کے حملے دوبارہ شروع ہوگئے ہیں۔ اگر بدامنی، خوف و ہراس بلوچستان کی روزمرہ زندگی کا ایک تلخ حصہ بن چکی ہیں تو صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد  حالات بدستور ماضی کی طرح ہی نارمل ہیں یعنی بہتری کی طرف کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔  ابھی چند ہفتے قبل ہی باور کیا جارہا تھا کہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بد امنی، بد عنوانی اور سیاسی عدم استحکام کا واحدحل گورنر راج  ہے لیکن اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ جن مقاصد کے حصول کی خاطر گورنر نواب ذولفقار علی مگسی کو انتظامی اختیارات دے دئے گئے ہیں  اور ان کے حصول میں ناکامی کے بعد   بلوچستان کے لئیے مستقبل قریب میں کیا رکھا ہے؟ 
گورنر راج کی مدت ساٹھ دن ہے اور اس دوران گورنر مگسی کے سامنے انتہائی غیرمعمولی اہداف  ہیں۔ ان سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ صوبے میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنائیں گے،ناراض بلوچ قوم پرست رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور پچھلی حکومت میں بد عنوانی میں ملوث وزرا کے خلاف بےلاگ احتسابی عمل کا آغاز کریں گے۔ علاوہ ازیں گورنر مگسی سے یہ امید یں بھی وابستہ کی جارہی ہیں کہ وہ صوبے میں آئندہ عام انتخابات کے  پیش نظر ایسے سازگار حالات پید ا کریں جن سے متاثر ہوکر بلوچ قوم پرست بھی انتخابات میں حصہ لیں اور ایک بار پھر قومی دھارے میں آجائیں۔ 
خو د سیاسی جماعتوں نے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے خلاف بھرپور احتجاج نہیں کی ہے۔ حتیٰ کہ خود پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت نے سابق وزیر اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کی حکومت کی برطرفی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ رئیسانی حکومت  کاور نا اہل تھی اور ایک ناایک دن اس حکومت  کا یہی انجام ہونا تھا۔صرف نواب رئیسانی کی مخلوط حکومت میں شامل جمعیت علما اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نے  گورنر راج کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے  اور وفاقی حکومت کے فیصلے کی پرزور مذمت کی ہے۔ مذکورہ دونوں جماعتوں کے مظاہروں اور سینٹ سے  مسلسل بائیکاٹ  کے باوجود اس با ت کا دور دور تک عندیہ نہیں مل رہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری  کسی قسم کے دباو میں آکر گورنر راج ختم کردیں گے۔  اگرچہ صوبے میں گورنر راج کے خلاف کوئی پرجوش تحریک تو نہیں چل رہی لیکن اصل مسئلہ تو امن و امان کا ہے جس میں فرنٹیر کور ( ایف سی ) کو پولیس کے اختیارات دینے کے باوجود کوئی  بہتری نہیں آ رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بلوچستان میں بدامنی کی یہ لہر جاری رہتی ہے تو کیاصوبے میں عام انتخابات کا انعقاد  ممکن ہو سکے گا؟ 
26 جنوری کومشتبہ بلوچ حملہ آوروں نے حکومت کے حامی ایک امن فورس پر ڈیرہ بگٹی میں حملہ کرکے تین افراد کو ہلاک اور چار کو اغوا کرلیا۔ اس واقعے کے دو دن بعد اٹھائیس جنوری کو آزاد بلوچستان کے حامی زیر زمین تنظیم بلو چ لبریش فرنٹ (بی ایل ایف) نے گوادر میں پسنی کے علاقے میں پاکستان ائیر فورس کے اہلکاروں پر حملہ کرکے دو افراد کو ہلاک کردیا جب کہ اسی دن پسنی ہی میں تین پنجابی آبادکاروں کو بھی نشانہ بنا کر ہلاک کردیا گیا ۔ سرداری نظام سے پاک مکران ڈویژن جس میں گوادر کے ساتھ ساتھ تربت اور پنجگور کے اضلاع شامل ہیں اب بلوچ علحیدگی پسند تحریک کا  ایک اور مرکز بن چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بلوچستان کے جو جو اضلا ع قدرتی وسائل یا سمندر کی وجہ سے اہمیت کے حامل ہیں  وہ سب قوم پرست تحریک کے گڑھ بن چکے ہیں۔ مسلح بلوچ قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ  گورنر راج کے نفاذ کے بعد حکومت نے کئی بلوچ اضلا ع میں فوجی آپریشن شروع کی ہے جس کے ردعمل میں انھوں نے بھی حکومتی اہلکاروں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائی ہے۔ 
 کوئٹہ  میں دس جنوری کےالمناک بم دھماکوں کےبعد  جن کے نتیجے میں سو سے زاہد افراد جان بحق ہوگئے اور وفاقی حکومت نےاس واقعہ کو  جواز بنا کر گورنر راج نافذ کیا  ایک بار پھر شعیہ ہزارہ برادری کے خلاف بھی حملوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ انتیس جنوری کو ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے دو پولیس اہلکاروں کو کوئٹہ میں نشانہ بناکر ہلاک کردیا گیا۔ گورنر راج کے نفاذ کے بعد یہ کوئٹہ میں ہزاروں پرپہلا حملہ تھا۔ اس واقعے کی ذمہ داری ایک نسبتاً نامعلوم تنظیم  جیش الاسلام نے قبول کی۔ بلوچستان میں شعیہ اور ہزاروں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی  ذمہ داری عموماً لشکر ِ جھنگوی ہی  قبول کرتی ہے لیکن  جیش الاسلام کی جانب سے تازہ ترین  واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے سے  اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں فرقہ وارانہ تنظیموں کی تعداد میں بدستور اضافہ ہورہا ہے۔  جیش الاسلام اس وقت منظر عام پر نمودار ہوئی جب اس تنظیم نے  پچھلے سال تیس دسمبر کو مستونگ میں شعیہ زاہرین کے بس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ۔ اس واقعہ میں  یس شعیہ زائرین ہلاک ہوئے تھے۔ 
کوئٹہ اور اسلام آباد کے پاس فرقہ واریت سے نمٹنے کے لئے سرے سے ہی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ جو عناصر شعیوں اور ہزاروں کے قتل عام میں ملوث ہیں  حکومت نے ان میں سے کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی کو اس ضمن میں سزا ہوئی ہے۔ اگر حکومت چاہے تو جمعیت علمائے اسلام اور دیگر سنی مذہبی علما اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہیں کہ لشکر جھنگوئی کے ساتھ بات چیت کرکے انھیں معصوم شہریوں کے خلاف کارروائیوں سے روک دیں۔ تاحال حکومت نے(گورنرراج کے بعد) صرف بلوچ قوم پرستوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ بلکہ ایک ہی مہینے میں حکومت نے بلوچ قوم پرستوں کو دو مواقع پر ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کی ہے اور کہا ہے کہ جو مزحمت کار حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالیں گے حکومت انھیں اس کے عوض ہاہانہ دس ہزار روپے بطور وظیفہ دے گی۔
اس کے علاوہ حکومت نے یہ پیشکش بھی کی ہے کہ ہتھیار ڈالنے والے افراد کو ان کی تعلیمی قابلیت کے  بنیاد پرسرکاری نوکریاں بھی فراہم کی جائیں گی۔  ماضی کی طرح اس بار بھی بلوچ قوم پرستوں نے نہ صرف حکومتی پیشکش کو یکسر مسترد کردیا ہے بلکہ اس پر طنز بھی کی ہے۔ مسلح بلوچ قوم پرستوں کے ایک ترجما ن نے سرکاری پیش کش کے جواب میں کہا کہ ’’اگر گورنر نواب ذولفقار علی مگسی اپنی نوکری چھوڑ کر بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں ہمارا ساتھ دیں گے تو ہم انھیں تین گنا زیادہ تنخواہ دیں گے‘‘۔
مسلح بلوچ تنظیموں نے عام انتخابات کے دوران گڑبڑ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے اور عوام سے اپیل کی ہے  وہ انتخابات کا بائیکا ٹ کریں کیوں کہ بقول ان کے انتخابات ان کی ’’تحریک آزادی‘‘ کو کمزور کریں گی۔ یوں لگتا ہے کہ اس دھمکی کے بعد حکومت اور بلوچ قوم پرستوں کے درمیان جو ڈیڈ لاک ہے اس میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ 
گورنر راج کے نفاذ سے بلوچستان کے مسائل میں بہتری آنے کے بجائے اضافہ ہوگیا ہے۔ جو لوگ وفاقی پارلیمانی سیاست میں یقین رکھتے ہیں وہ گورنر راج کے نفاذ کے بعد یہ یقین نہیں کرپار ہے کہ  وفاقی حکومت راتوں رات صوبے کے لوگوں کے مینڈیٹ کو ٹوکر مار کر اپنی مرضی کی حکومت قائم کرسکتی ہے۔ جہاں تک بلوچ قوم پرستوں کا تعلق ہے تو وہ حکومت کی اس پالیسی کے حق میں نہیں ہیں کہ ایک طرف تو ان کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے اور دوسری طرف انھیں وظیفہ اور دیگر سرکاری  مراعات کی پیشکش بھی کی جائے۔ اس تمام صورت حال میں سب سے زیادہ فائدہ فرقہ وارانہ جماعتوں کو ہورہا ہے جن کی طرف حکومت نے ایسی پالیسی اپنائی ہوئی ہے کہ نہ ان سےکچھ پوچھا جائے اور نہ ہی وہ اپنے بارے میں کچھ بتانے کی زحمت کریں اور یوں فرقہ وارانہ تنظیموں روز بروز مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment