Saturday, February 9, 2013

ہم سب بھگوڑے ہیں

تحریر: ملک سراج اکبر

میری بہت ساری خامیوں میں سے ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ میں مشتعل نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنی ذات پر لکھی گئی کسی تحریر کا جواب دیتا ہوں کیوں کہ میری عموماً کوشش ہوتی ہے کہ صحافی خبر لکھے نا کہ خود خبر بن جائے۔ کبھی کبھار تو دوست یہ بھی کہتے ہیں کہ  میرے مخالفیں انھیں فون کرکے یہ تک پوچھتے ہیں کہ تمہارا کیا خیال ہے اس نے اپنے خلاف لکھی گئی فلاں تحریر پڑھی ہے یا نہیں اورپھر یہ بھی پوچھتے ہیں کہ آپ کا کیا خیال ہے وہ اس تحریر  یا فیس بک نوٹ کا کبھی جواب دےگا بھی  یا نہیں۔ 
 حامد میراور جنگ اخبار کے خلاف دراصل کالمز  سب سےپہلے میں نے ہی امریکی اخبار ’’ہفنگٹن پوسٹ‘‘  میں    لکھےتھے۔  (میر صاحب کے بارے میری تحریر پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں اور’’ جنگ‘‘ اخبار  ے متعلق تحریر پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں)  ۔
 لہٰذہ  میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا حق بنتا تھا کہ  وہ میری تنقید کا پیشہ وارانہ انداز میں جواب دیتے اور ان کے ایسا کرنے  پر مجھے کوئی شکایت نہیں لیکن انھوں نے جس بوکھلاہٹ کے ساتھ مجھے ’’ بھگوڑہ‘‘ قرار دے کر کالم لکھا ہےاور معاملات کو اصل تناظر سے ہٹ کر پیش کیا ہے  اس پر لوگ چونک ضرور پڑے ہیں۔ لیکن  میر صاحب کے اس لہجے کا جواز بھی تو بنتا ہے۔ اگر آپ کو کوئی یکے بعد دیگرے کانفرنس  میں روک کر یہ کہے کہ آپ کے خلاف فلاں اخبار میں ایک مضمون چھپا ہے اور آپ اس کے بارے میں کیا کہنا چائیں گے توآپ کا آگ بگولہ ہو  کر یہ کہنا بالکل حق بجانب ہے کہ کسی ’’ بھگوڑے‘‘ نے ’’ جھوٹ‘‘ بولا ہے۔ اس سے بڑھ کر
 آ پ کو شرمندگی اس بات پر ہوگی جب آپ کو بتایا جائے کہ وہ ’’ جھوٹ‘‘ تو آپ ہی کے اپنے اخبار ’’ جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین  سے تاریخ اور حوالہ جات و اقتباسات کے ساتھ دیئے گئیے ہیں وہ آپ کیا کہیں گے؟کیا اس کا مطلب ہےجب آپ اپنے کالمز لکھتے ہیں تو وہ سو فیصد سچ پر مبنی ہوتے ہیں لیکن جب کوئی آپ کے انہی تحاریر سے کوئی اقتباس پیش کرے تو وہ ’’ جھوٹ ‘‘ بن جاتا ہے؟ کیا سچ کو جھوٹ میں منتقل کرنے کی کوئی نئی ٹیکنالوجی ایجاد ہوئی ہے؟ 
چلیں  اب موضوع کی طرف آتے ہیں ۔  ’’لفنگا‘‘، ’’آوارہ‘‘’’ چریا‘‘ اور ’’بھگوڑا  ‘‘ تو سارے بازاری الفاظ ہیں  جو صرف بازاری لوگ ہی استعمال کرسکتے ہیں اور ہمیں تو بازاری زندگی گزارنے کا موقع ہی نہیں ملا ہےبلکہ آپ روزمرہ کی زندگی میں جو بھی زبان استعمال کرتے ہیں اس کا اصل تعلق آپ کے گھر کے ماحول اور والدین کی تربیت سے ہوتا ہے۔ میر صاحب کو ان کے پروفیسر والد صاحب  وہ کچھ نہ سیکھا سکے جو مجھے میری ان پڑھ بلوچ والدہ نے سکھایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بلوچستان میں بہت سارے’’ بھگوڑوں‘‘ کو جگہ دی ہے اور ہمیں پتہ ہے کہ’’ بھگوڑے ‘‘ کن نامساعد حالات میں پیدا ہوتے ہیں۔پاکستان کی فوج نے امریکی ڈالرز کی خاطر جب افغانستان میں مجاہدین  کی امداد شروع کی تو فوجیوں کے جیب اور خزانے تو بھر گئے لیکن بچارے پشتونوں کی ایک نسل بے گھر ہوئی اور لاکھوں ضرورت مند افغان بلوچستان تشریف لائے۔ افغان مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہمارے والدین نے ہمیں خبردار کیا کہ  کسی کو ’’ بھگوڑا‘‘ نہ کہو  ، یہ مہاجر ہیں ، ان کی سرزمین حالات ِ جنگ میں ہیں۔انھیں حالات نے در بدر کیا ہے۔ان کی مادی مجبوریوں کو دیکھو نا ان کے پٹے پرانے کپڑوں کو کیوں کہ یہ لوگ بھی کسی زمانے میں اپنی سرزمین پر بڑے خوش باش ،متمول اور صاحب ثروت لوگ ہوا کرتے تھ۔ چنانچہ ہماری ایسی تربیت ہوئی کہ والدیں نے کہا خبردار جو کسی افغان مہاجر کو ’’ رکشہ والا‘‘ یا ’’ بار والا (ویٹر) ‘‘ کہہ کر پکارا۔ یہ بلوچ والدین کی تربیت کا یہ اثر ہے کہ آج بھی کوئٹہ میں بلوچ نوجوان کچھرا اٹھانے والے سے لے کررکشہ چلانے والے افغان مہاجر کو احترام سے ’’ ماما‘‘کہہ کر پکارتا ہے۔ اچھی تعلیم و تربیت  ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ اس کا درو مدار اس بات پر ہے کہ آپ کیسے معاشرے میں جوان ہوتے ہیں۔ میر صاحب کی تربیت ایک  ایسے بدقسمت معاشرے میں ہوئی جہاں دن کی روشنی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو  بہن کہا جاتا ہے اور رات کی روشنی میں انھیں غائب کردیا جاتا ہے ؛ ایک ایسا معاشرہ جہاں میر ایمل کاسی  کو ڈیرہ غازی خان سے اٹھا کر امریکا کے حوالے کیا جاتاہے۔ بلوچستان کا معاشرہ ایسانہیں ہے۔ یہا ں حامد کرزئی جیسا ’’بھگوڑا‘‘ بھی  کوئٹہ کے سیٹلائیٹ ٹاون میں نہ صرف آرام کی نیند سو سکتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کا  صدر بنے کی خواب بھی دیکھ سکتا ہے کیوں کہ اسے یقین ہے کہ یہ بلوچستان ہے پنجاب نہیں اور یہاں چند ڈالرز کے عوض کوئی اسے فروخت نہیں کرےگا۔  میں تو کبھی کبھار مذاق میں کہتا ہوں کہ باقی   پاکستان میں تو اسامہ بن لادن بھی محفوظ نہیں ہے۔ پولیو کے قطرہ پلا پلا کر( بقول حامد میر)  ’’ شیخ اسامہ‘‘ کو  بھی جان سے ماردیا۔ 
میر صاحب  گذشتہ چند عرصے سے بلوچستان کے حقوق کے نئے علمبردار بن کر ابھرے ہیں لیکن دل ہی دل میں ہم بلوچو ں کو اب بھی وہ حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ہماری مجبوریوں کو غنیمت سمجھ کر طنز کا  کوئی موقع نہیں گنواتے ۔ان کا خیال ہے کہ پاکستان فوجی کی بلوچ دشمن پالیسوں کی وجہ سے  ہم بلوچوں کی جو ایک پوری نسل بلوچستان بدر ہوگئی ہے وہ سارے کے سارے ’’ بھگوڑے‘‘ ہیں۔ ڈیرھ بگٹی اور کوہلو سے لاکھوں افراد کو گھروں سے ’’ بھگوڑہ‘‘ کرکے ، ہزاروں افراد لاپتہ کرکے اور سینکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں گھر گھر میں بھیج کر  پنجاب کی خونی تشنگی  ابھی تک ختم نہیں ہوئی ۔ وہ چاہتے ہیں کہ بلوچوں کے مزید صحافی ، وکلا، اساتذہ اور سیاسی کارکن ہاتھ آجائیں  تاکہ سب کی مسخ شدہ لاشیں سڑک کے کنارے پھنک دی جائیں۔ میر صاحب کو ایف سی کے خوف سے سہمے ہوئے بلوچوں سے زیادہ ان بلوچ’’ بھگوڑوں ‘‘سے ڈر لگتا ہے جو سی این این اور الجزیرہ پر بلوچوں پر ہونے والے مظالم پر بولتے ہیں اور جو واشنگٹن کے تھنک ٹھینکس میں پاکستانی میڈیا کی منافقت پر بولتے ہیں ۔ یہ میر صاحب کا قصور نہیں ہے کیوں کہ وہ بھی  بلوچوں کے بارے میں جنرل مشرف جیسی رائے رکھتے ہیں جنھوں نے ایک انٹرویو میں کہاتھا کہ ’’یہ بلوچ تو انگریزی بول نہیں سکتےامریکن کانگریس میں قرارداد کیا پیش کریں گے؟‘‘ یہ بات شاید میر صاحب اور جنرل مشرف کی سمجھ میں نہیں آئے گی  کہ  ’’ یہ ستر کا زمانہ نہیں ہے ‘‘۔ آج کا بلوچ  انیس سو ستر کا بلوچ نہیں رہا۔یہ بات آپ کی فہم  میں شاید  نہ آسکے لیکن  وہ زمانہ گزر گیا جب بلوچ رہنما کپٹل ٹاک میں آکر کہتے ’’ میر صاحب آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ نے ہم بلوچوں کو بھی اپنے پروگرام میں آنے کا موقع دیا‘‘۔ اب وہ زمانہ بھی نہیں رہا کہ بلوچ نوجوان ہاتھ میں ایک لفافہ تھامے کوئٹہ کے  جمعیت رائے روڑ(میر خلیل رحمن روڑ)پر قائم جنگ اخبار کے دفتر کے سامنے ایک چوکیدار سے التجا کر تاکہ’’ خدارا مجھے ایڈیٹر صاحب سے ملنے دیں میں نے بلوچستان پر ایک تحریر لکھی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرا مضمون جنگ میں شائع ہوا۔‘‘وہ زمانہ باقی نہیں رہا جب آپ بلوچ کے سامنے ٹکڑے اور ہڈیاں پھنکتے تھے۔ آج کا بلوچ انگریز ی بولتا ہے، فن خطابت بھی سیکھ گیا ہے اور سوراب و مشکے سے لے کر دالبندیں سے پسنی تک بیٹھ کر انٹرنیٹ پر بلاگ لکھتا ہے، ٹویٹر استعمال کرتا اور فیس بک پر اپنی بات کروڑوں لوگوں تک پہنچاتاہے۔ 
بلوچستان جل رہا ہے اور آپ کو طنز کی پڑی ہے ؟ اپنی جان کو درپیش خطرات کے پیش نظر سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں میں‘ میں تنہا نہیں ہوں۔ اس میں حیربیار مری، براہمداغ بگٹی، خان آف قلات اور سابق قائد حزب اختلاف کچکول علی جیسے سیاسی لوگ بھی شامل ہیں جو سب اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ تو کیا میر صاحب کی نظروں میں یہ سارے سیاسی رہنما بھی ’’ بھگوڑے ‘‘ ہیں؟ جس قوم کے لوگ آپ کو’’ بھگوڑے ‘‘ نظر آئیں آپ اس قوم سے کیا مذاکرات کریں گے ؟ جب بات’’ بھگوڑوں‘‘ کی آجاتی ہے تو میر صاحب ہمت کرکے  ملک کے سب سے بڑے اور سعودی عرب کے چہیتے پنجابی ’’ بھگوڑوں‘‘ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کا ذکر بھی کریں۔ عجیب بات ہے کہ جب پنجابی سیاست دان ’’ بھگوڑا‘‘ بن جاتا ہے تو آپ اسےبرادرانہ  اسلامی ملک سعودی عرب  کے ’’ معزز شاہی مہمان‘‘ کہتے ہیں اور جب کوئی بلوچ سیاسی پناہ حاصل کرتا ہے تو آپ کی نظروں میں بھگوڑا بن جا تاہے ۔ میر صاحب کو چایئے کہ وہ نواب بگٹی کے قتل میں عدالتوں کو مطلوب  ملک کے سب سے بڑے بھگوڑے جنرل مشرف  کے بارے میں بھی لب کشائی کریں ۔میر صاحب‘آپ کیا بات کرتے ہیں؟ اب تو ایک دہائی بیتے کو ہے کہ آپ کی شامیں کپیٹل ٹاک میں الطاف حسین ، پروزیر مشرف، نواز شریف، بنیظیر بھٹو اور طاہر القادری   جیسے ’’ بھگوڑوں‘‘  یا ان کے وفاداروں کی جی حضوری کرنے میں گزرتی ہیں۔ جو اقتدار میں آتا ہے آپ جنگ اور جیو کے لئے اشتہارات کے حصول کی خاطر ان کی چاپلوسی کرتے ہیں اور جو اقتدار سے بے دخل ہونے لگتے ہیں آپ ان کے بدا عمالیاں ظاہر کرنا شروع کرتے ہیں۔  آپ کی تو صحافت بھگوڑوں اور لوٹوں کے صدقے چل رہی ہےکبھی اُس کو اِس کے ساتھ اور اِس کو اُس کے ساتھ لڑایا اور  یوں آپ کی صحافت چلتی رہتی ہے۔
آپ کی خوش قسمتی کہ آپ چند سادہ لوح  بلوچ نوجوانوں کے  نئے مسیح بنئے ہوئے ہیں جو آپ کو اپنا غم خوار سمجھ کر گھر کی ساری باتیں بتاتے ہیں اور پھر آپ جاکر شہزاد  رائے سے لے کر پاکستان کے سرکردہ حکمرانوں کو بتاتے ہیں کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ تو ڈاکٹر اللہ نذر ہے ۔ بچارے بلوچ سمجھتے ہیں کہ آپ توان کے رہنما ( ڈاکٹر اللہ نذ ر) کو  ہیرو بنا رہے ہیں  اور آپ کی ہر بات پہ تالیاں بجاتے ہیں۔ جب کہ سچ تو یہ ہے کہ آپ فوج کو اکسارہے ہوتے ہیں کہ جاکر ڈاکٹر اللہ نذر کو ختم کردے۔ یہی وجہ ہے کہ مشکے میں یکے بعد دیگرے آپریشن ہورہے ہیں ۔ میں نے اس سے پہلے بھی ’’ ڈاکٹر اللہ نذر کا مستقبل ‘‘نامی اپنے ایک انگریزی مضمون میں  کہا تھا کہ میڈیا کوریج کے شوقین  چند نادان دوست ڈاکٹر اللہ نذر کو لے ڈوبیں گے۔  ایران میں جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی نے یہ حماقت کی اور پکڑا گیا ۔ ڈاکٹر اللہ نذر کو طالبان کے رہنماملاّ عمر سے سبق سیکھنی چایئے کہ گوریلا جنگ کیسے لڑی جاتی ہے۔ ملاعمر کی آج تک کوئی قابل بھروسہ تصویر تک دستیاب نہیں ہے۔ خود امریکی فوج دس سال کی انتھک محنت کے باوجود ملاّ عمر کے حلیہ کا تعین نہیں کرسکا ہے۔ اور  دوسری طرف ڈاکٹر اللہ نذر کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ فیس بُک اور ٹیوٹر پر ان کے حامی الٹا بلوچ صحافیوں کو گالیاں دیتے ہیں کہ تم لوگ ہمیں کوریج کیوں نہیں دیتے ہو۔ میں نے دنیا کی کئ گوریلا تحاریک کا مطالعہکیا ہے  لیکن بلوچوں کے طرز کے سادہ لوح گوریلا اور آزادی پسند آج تک نہیں دیکھے۔ پچھلے سال ہی کی بات ہے کہ  ادھر واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی پولیس اہلکاروں کے ایک اعلیٰ وفد سے ملاقات کرنے کا موقع ملا جو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی دعوت پر امریکا آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے بلوچوں کے ہمددر ایک مہربان نے مجھےایک کونے میں لے جاکر کہا کہ میں آپ سے  ہاتھ جوڑ کر کہتاہوں کہ آپ اپنی تحاریر میں بلوچ نوجوانوں سے  کہیںکہ فیس بک، ٹویٹر اور موبائیل فون کا عقلمندانہ استعمال کریں۔ انھوں نے کہا سیکورٹی فورسز کے لئے اب بلوچ نوجوانوں کو  اٹھانا انتہائی آسان کام ہوگیا ہے کیوں کہ پہلے تو انھیں باقاعدہ تحقیق کرنی پڑتی تھی کہ کون کون بلوچستان کی تحریک میں شامل ہیں اب تو سرکار کے لوگ خفیہ ایڈریس بنا کر اپنے آپ کو بلوچ قوم پرست ظاہر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بلوچ تحریک کی حمایت اور کون کون لوگ کرتے  ہیں۔ انھوں نے نہ صرف اس بات کی تصدیق کی کہ کئی معصوم بلوچ نوجوان صرف اپنی فیس بک سرگرمیوں اور کمنٹس کی وجہ سے اٹھائے گئے اور مار دیئے گئے  ہیں بلکہ انھوں نے اس اہم بات کی طرف نشان دہی کی کہ فیس بک سے لوگوں کو ڈھونڈنا اس لئے بھی آسان ہوگیا ہے کہ  پہلے جو لوگ دن کے وقت سرکاری نوکری کرتے تھےاور گھر سے باہر یہ تاثر دیتے تھے کہ  ان کو قومی تحریک سے کوئی تعلق نہیں اور وہ قو م پرستوں کی حمایت نہیں  کرتے اب وہی لوگ رات کو گھر آکر اپنی سیاسی خیالات اور حکمت عملیاں فیس بک پر شئیر کرتے ہیں۔مذکورہ سینئر پولیس آفیسر نے یہ بھی کہا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا نام فیس بک پر  غلام فاروق ہے یا ’’ خارانی سرمچار ‘‘  ہے  حکومت آپ کو کسی وقت بھی ٹریس کرسکتی ہے۔  ان نوجوانوں کی عقل مندی کا یہ عالم ہے کہ مثلاً کبھی کبھار مجھے ٹویٹر اور فیس بک پہ پوچھتے ہیں کہ تم بی ایل اے  کے حامی ہو یا نہیں؟ میں ہنس کہ کہتا ہوں کہ شکل سے بیوقف لگتا ہوں لیکن حقیقت میں نہیں ہوںجو  کروڑوں لوگوں کے سامنے سینہ تھا ن کر بولوں جی ہاں میں  بی ایل اے کا حامی ہوں۔ پھر ناراض شہزادے کہتے ہیں کہ تم نے بلوچ قوم کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اورتم آئی ایس آئی ایجنٹ ہو میں مسکرا کہ کہتا ہوں اللہ مجھے سو ایجنسیوں کی نوکری نصیب کرے لیکن ایسا بے عقل سیاسی کارکن نا بنا ئے۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ حیربیار مری، براہمداغ مینگل ، ڈاکٹر اللہ نذر، جاوید مینگل اور بشیر زیب کو اپنے کارکناں کی یہ حماقتیں نظر نہیں آتی ہیں؟  کیا فیس بک پر فوٹو  ’’ لا ئیک ‘‘ اور ’’ ٹیگ‘‘ کرنے سے بھی ملک آزاد ہوتے ہیں؟
گذشتہ ایک دہائی سے میں نے بلوچ قوم پرست تحریک پررپورٹنگ کی ہے اور بہت سارے اہم لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔بلوچوں کی جو جو خامیاں میری سامنے آئی ہیں ان میں دیکھاوے کا مرض سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ لوگ سامنے آکر اپنے تمام راز اور خیالات آپ کو بتانے سے ہرگز نہیں ہچکچاتے کیوں کہ وہ اس حماقت کو بہادری سمجھتے ہیں۔ انھیں پتہ نہیں کہ آپ اپنی ذاتی زندگی میں بہادری اور حماقت کےمتحمل تو ہوسکتے ہیں لیکن جب آپ ایک تنظیم و تحریک کا حصہ ہیں تو آپ کی غیر ضروری دلیری خود آپ کو تو نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کی تحریک اور باقی ساتھیوں کو بھی نقصان پہنچاسکتی ہے۔ 
 بلوچوں کی ایک بہت بڑی خامی یہ ہے کہ وہ  میڈیا اور  بین الاقوامی توجہ کی ضرورت سے زیادہ ہی خواہش مندہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ باہر سے آنے والے ہر صحافی کااعتبار کرتے ہیں۔ بلوچوں میں دیکھاوے کا مادہ کھوٹ کھوٹ کر بھرا ہوا ہے۔نسیم زہرہ جیسی صحافی جو اپنے ہر پروگرام کا خاتمہ ’’ پاکستان زندہ باد ‘‘ سے کرتی ہیں کوئٹہ آکر اپنی خواہش ظاہر کرتی ہیں کہ وہ آزادی پسند بلوچوں سے ملنا چاہتی ہے اور سادھے بلوچ نوجوان  پھولے نہیں سماتے اور ایک دوسرے کو فون کرکے کہتے ہیں کہ ’’ اڈے ٹی وی والا آتگاں۔ٹی وی والا آتگاں۔ وترا پریس کلب ءَ رسیں‘‘ [ترجمہ: ٹی وی والے آگئے۔ ٹی وی والے آگئے۔ پریس کلب پہنچ جاو]۔ اور پھر آپ منٹوں میں دیکھتے ہیں  بلوچوں کے ذہین ترین اور باصلاحیت ترین نوجوان  کوئٹہ پریس کلب آکر نسیم زہرہ کے سامنے اقرار کرتے ہیں کہ جی ہاں ہم آزادی چاہتے ہیں اورسرمچاروں کی حمایت کرتے ہیں۔ مسئلہ 
  یہ نہیں  کہ آپ درست یا غلط بات کررہےہیں مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ غلط جگہ اور غلط موقع پر خود کو ظاہر کر رہے ہو۔ مسئلہ آپ کی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ ہے۔جہاں دنیا کی اور تحاریک میں ایک سیاسی کارکن کی تصویر حاصل کرنا حکومت کے لئے بڑا درد ِ سر ہوتا ہے وہاںآپ بی ایس او کی ٹاپ لیڈر شپ کو پاکستانی ٹی وی کیمروں کے سامنے لاکر حکومت کو ہر نوجوان کی مکمل فوٹیج فراہم کرتے ہیں  اور پھر توقع کرتے ہیں کہ آپ پر ظلم نہ ہو۔ نسیم زہرا کے پروگرام میں آنے والے نوجوانوں میں سے ایک شعلہ بیان مقرر شہید کمبر چاکر تھا جن کو بعد میں لاپتہ کیا گیا ۔ ذاکر مجید کی بہن کھلے عام کہتی ہے کہ  ’’ میں بلوچ اور پاکستانی نہیں ہوں ‘‘ اور ان کے بھائی آج تک لاپتہ ہیں ۔یاد رئے گوریلا جنگ میں جذبات کی کوئی حثیت نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ بات معنی رکھتی ہے کہ آپ کس حد تک حق پر ہیں اور سچ بول رہے ہیں اور آپ کا دشمن کس حد تک  غلط ہے اور جھوٹ بول رہا ہے۔ جنگوں میں اخلاقیات  کی باتیں کب سے آگئیں؟  اب منیر مینگل کو دیکھ لیں ۔ ایوب اسٹیڈیم میں جلسہ کرکے کہتا ہے کہ میں پاکستان کے خلاف ایک ٹی وی چینلز شروع کررہاہوں ۔ تمام بلوچوں سے گذارش ہے کہ میری مالی مدد کریں۔ بھئی بلوچ آپ کی مدد کریں گے یا نہیں یہ تو بعد کی بات ہے لیکن ریاست تو آپ کو ٹھکانے لگانے ضرور پہنچے گی۔  جن دنوں میں شہید غلام محمد کراچی کے وسط میں سخت تقریر یں کرتے تھے تو نواب خیربخش مری  کے ساتھ باقاعدگی سے نشستیں کرنے والے ایک صاحب نے  ہمیں بتایا کہ نواب ایسے جارحانہ انداز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’ پتہ نہیں یہ ریاست ( پاکستان) بہت کمزور  ہوگئی ہے یا ہمارے نوجوان ناقابل تسخیر ہوگئے ہیں‘‘ ۔  مجھے یاد پڑتا ہے جب میں نے پانچ سال قبل نواب  مری کی ان کے رہائش گاہ پر انٹرویو کیا تو میں نے  حماقت یا تجسس یا شرارت میں نواب صاحب سے دریافت کیا۔ ’’ نواب صاحب کیا یہ بات درست ہے کہ آپ بی ایل اے کے سرپرست ہیں‘‘ تو انھوں نے زور سے  ہنس کر کہا ’’ایسا اقبال ِ جرم کون کرتاہے؟‘‘ ۔ ( نواب خیر بخش مری کے ساتھ میرا تفصیلی انٹرویو پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں)۔ 
پچھلے دس سالوں کی بلوچ قومی سیاست کا اگر جائز ہ لیا جائے تو میں اس کو نواب مری اور سردار عطاللہ مینگل مکاتب ِ فکر  میں تقسیم کروں گا ۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ان دو رہنما میں کون بہتر ہے یا کون درست اور کوں غلط ہے۔ میں صرف دونوں رہنماوں کے لیڈرشپ کے مختلف طرایق  اور سیاسی رویوںکی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ۔نواب مری بہت ہی کم گو ہیں اور ذرائع ابلاغ  کے ساتھ بہت کم روابط رکھتے ہیں ۔ وہ  خود نمائی کے شوقین نہیں ہیں۔ اس لئے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ انھوں نے بی ایل اے کے بارے  میں پوچھے گئے میرے سوال کا قہقہ لگا کر کیوں جواب دیا ۔ اس کے برعکس جب آج سے سات سال قبل جب میں ’’ فرائیڈے ٹائمز‘‘ کے لئے سردار عطااللہ مینگل سے یہی سوال پوچھا کہ کیا آپ کا بی ایل اے سے کوئی  تعلق ہے۔ انھوں نے جوش میں آکر کہا ’’ کاش میں بی ایل اے کا سربراہ ہوتا‘‘۔(سردار عطااللہ مینگل کے ساتھ میرا تفصیلی انٹرویو پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں)۔ 
سردار مینگل کا جواب اس لئے قابل غور ہے کہ اس سے دیکھاوے کی اس بلوچ رویے کی عکاسی ہوتی ہے جس کے بارے میں بات کررہا تھا کہ اگرآپ کچھ کرنہیں رہے یا کسی چیز کا حصہ نہیں ہیں تو پھر آپ کیوں کر اتنی بڑی بات کرتےہیں؟ اسی طرح سے قارئین کو یاد ہوگا کہ نواب بگٹی کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی سے پہلے سردار عطااللہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ڈیرہ بگٹی میں ایک گولی چلتی ہے تو ان کے علاقے جھالاون میں دس گولیاں چلیں گی لیکن جب بگٹی کے علاقے میں واقعی گولیاں چلنی شروع ہوگئیں اور فوجی آپریشن کا سلسلہ شروع ہوا تو مینگل کی طرف سے کوئی گولی نہیں چلی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ان رویوں میں مزید تبدیلی آگئی ہے۔ نواب مری کے پیروکار اور بی ایس او آزاد کے نوجوان اب زیادہ باتیں کرنا چاہئے ہیں  ، میڈیا پہ آنا چاہتے ہیں ، جو کوئی ان کی کوریج نہ کرے وہ ان کو گالیاں دیتے ہیں ۔ یہ نواب مری کی سیاست اور رویے سے بالکل مختلف ہے اگر  نواب مری کی دس سال پہلے کی زندگی کا جائزہ لیا جائے۔ وہ قطعاً میڈیا سے بات چیت کرنے کا شوق ظاہرنہیں کرتے تھے۔ جب میں نے ان سے اس کی وجوہات دریافت کیں تو انھوں نے کہا کہ میڈیا والے ان کے الفاط توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور جب بار بار ان کی باتیں غلط انداز میں میڈیا میں پیش ہوئیں تو اس کے بعد انھو ں نے فیصلہ کیا کہ وہ میڈیا سے بات ہی نہیں کریں گے۔ جہاں ایک طرف نواب مری کے پیرو کاروں کے  رویے میں تبدیلی آئی ہے تو ادھر سردار مینگل کے متکبہ فکر میں سرمچاری کی ایک نئی لہر آگئ ہے۔ بی این پی کے دوست  ا بھی تک مجھ سے کافی ناراض ہیں کہ میں نے سردار اختر مینگل کی سپریم کورٹ کے سامنے حاضری کی شدید مخالفت کیوں کی۔ ( میر ااداریہ ’’ مینگل کی سیاسی غلطی‘‘ پڑھنے کے لئے یہاں کلک  کریں اور ’’مینگل کے چھ نکات کامسئلہ ہے‘‘ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں)۔  میرا صرف کہنا یہ ہے کہ بی این پی اگر سرمچاری نہیں کرسکتی تو ایسی سخت باتیں کرکے اپنی ہی پارٹی اور کارکناں کے لئے مسائل کیوں پیدا کر رہی ہے۔ایک طرف توسردار اختر مینگل سپریم کورٹ پراعتماد کا اظہار کرتے ہوپھر دوسری طرف یہ دھمکی بھی دیتے ہیں کہ ان کے چھ نکات کو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات سے مختلف نہ سمجھا جائے۔ بھئی
جب آپ کام ( سپریم کورٹ کے سامنے حاضری)  ایسے کریں گے جس سے ریاست خوش ہو اور بات (شیخ  مجیب الرحمن ) جیسی  ( ملک دشمن) کریں گے تو اسٹبلشمنٹ کو کس پاگل کُتے نے کاٹا ہے کہ بی این پی عوامی اور جمعیت علمائے اسلام کو کچھرے کے ڈبے میں پھنک کرآپ کو سیاسی دھارے میں لائے۔ چناں چہ بلوچ سیاست کے دونوں مکاتب فکر اس وقت ایک مخمصے کا شکار ہیں اور اپنی حکمت عملی و خواہش صیح معنوں میں طے نہیں کرپارہے۔  بلوچی میں کہتے ہیں کہ ’’ دو سود پیگمبران ءَ ہم نراسیتء‘‘ یعنی دو فوائد ایک ساتھ تو پیغمبروں کو بھی نہیں ملتے تھے۔  اب مسئلہ یہ ہے کہ نواب مری کے حامی ( جن کا بنیادی فوکس ماضی میں گوریلا جنگ رہا ہے) میڈیا  اور سرفیس سیاست  کی سیاسست کے شوقین بن گئےہیں جب کہ مینگل ( جو بلوچستان کی سب سےبڑی سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت کررہے ہیں) کبھی مفاہمت کی بات کرتے ہیں تو کبھی ریاست کو دھمکیاں بھی دیتے ہیں اور( اور وہ بھی ایسی دھمکیاں جن کا خود ان کو بھی پتہ ہے کہ وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کریں گے)۔ جب تک بی این پی اس طرح سیاست کرے گی تب تک وہ اپنے ووٹ بینک اور کارکناں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔ 
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں حامد میر کو بھول کر اصل موضوع سے ہٹ گیا ہوں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ میں پس پردہ یہ جو باتیں کررہاہوں چاہتا ہوں کہ اپنے قارئین کے لئے بہت ساری چیزیں سمجھنے میں سہل بنا دوں۔ مجھے حامد میر جیسے صحافیوں کے بلوچوں کے ساتھ اظہار ہمدردی پر اس لئے اعتراض ہے کہ ان کے مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں جو ہمارے سادہ لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی ہیں کیوں کہ انھیں اسکرین اور کمرے کے پیچھے ہونے والی چیزوں کا قطعا پتہ نہیں ہوتا اور چوں کہ خود ہمارا تعلق میڈیا سے ہے ہمیں پتہ ہے کہ اصل قصہ کیا ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ بلوچ نوجوان جو سیاسی تحریک کا حصہ ہیں ان کے لئے پاکستانی  میڈیا  کے ساتھ قربت اس لئے نقصان دہ ہے کہ ان کی معلومات  نیوز رومز سے پہلے  خفیہ اداروں کے  پہنچ جاتی ہیں۔ 
ابھی چند سال پہلے کی بات ہے جب پاکستان فوج کی تعلقات عامہ  کے ادارے آئی ایس پی آر  نے  کوئٹہ کے صحافیوں کو چمالنگ پر ایک پریس بریفنگ میں کینٹ کے علاقے میں مدعو کیا ۔ بریفنگ میں دو درجن کے قریب صحافی موجود تھے اور چند دوستوں کو وہ بریفنگ اب بھی ضرور یا د ہوگا جب ہمیں چمالنگ کی اہمیت کے بارے میں ایک  ویڈیو بریفنگ دی گئی جس میں مقامی لوگوں سے منصوبے کے  بارے میں رائے طلب کی گئی۔ ہم سب ششدر رہ گئے کہ  جو صحافی انٹرویوز کر رہا تھا اس کے ہاتھ میں جیو ٹی وی کا مائیک تھا اور ابھی تک اس ویڈیو پر  جیوٹی کا  لوگو  تک نہیں لگا تھا جس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے  کہ  یہ ویڈیو جیوٹی وی پر چلنے کے بعد  فو ج کو دی گئی تھی لیکن سچ تو یہ ہے کہ جو فوٹیج ہمیں دیکھائی گئی وہ  اصلی ویڈیو تھی جو پہلے فوج کے پاس پہنچائی گئی تھی اور اس کے بعد  ٹی وی پر چلائی گی تھی۔ جو لوگ کوئٹہ میں بطور صحافی کام کرتے ہیں ان کے لئے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ بہت ساروں کوپتہ ہے کہ  آج ٹی وی سمیت اور کن کن ٹی وی چینلز کے فوٹیج  سب سے پہلے ایف سی کو پہنچائی جاتی ہیں۔ یہ باتیں میں صرف اس لئے کررہا ہوں کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ بلوچوں کے ساتھ نہ صرف پاکستانی فوج ناانصافی کررہی ہے بلکہ میڈیا بھی ان کی سادگی کا بے حد فائدہ اٹھاتی ہے۔ جس قوم کو اپنے دوست اور دشمن کا پتہ نہ چلے  اس کے لئے  کامیابی ممکن نہیں ہوتی۔ 
وہ زمانہ گزر گیا جب پنجایوں میں اسد رحمان اور طارق فتح جیسے  بلوچ دوست لوگ پید اہوتے تھے۔ پنجاب کا دانشور اور انسانی حقوق کا علم بردار کتنا ہی لبرل اور انسان دوست  کیوںنہ ہووہ بلوچستان کے معاملے میں بلوچ حق خود ارادیت کی ہرگز حمایت نہیں کرتا۔ میں نے اس موضوع پر کئی مرتبہ لکھا ہے ۔ قارئین کی یاداشت کئے لئے ایک مرتبہ پھر عرض کروں کہ ہندوستان اور بلوچستان کے معاملے میں پاکستان کا لبرل سے لبرل ترین دانشور یک دم ’’ محب الوطن پاکستانی‘‘ بن جاتاہے۔ اس سلسلے میں جنوری دو ہزار دس میں نئی دہلی میں ہونے والی کانفرنس قابل ذکر ہے جس میں بلوچستان کے موضوع پر ہمیں بولنے کی دعوت دی گئی تو میں اور سینٹر حاصل   خان بزنجو وہاں گئے ۔ ( ’’ دہلی کانفرنس میں کیا ہوا؟  اس بارے میں میری تفصیلی رپورٹ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں ) ۔
اگرچہ ہمیں کانفرنس سے دو مہینے پہلے کہا گیا تھا کہ ہم بلوچستان کے موضوع پر بات کریں گے اور ہمارے ساتھ پینل پر محترمہ عاصمہ جہانگیر بھی ہوں گی لیکن کانفرنس کے روز ہی اعتزاز احسن اور مرحوم اقبال حیدرنے بلوچستان کے موضوع کو دہلی میں زیر بحث لانے کی اسٹیج پر پُرزور مذمت کی اور عاصمہ بھی بلوچستان کے موضوع پر بولنے کے وعدے سے  عین اسی دن مکر گئیں ۔ مذکورہ تین افراد ( عاصمہ جہانگیر، اعتزاز احسن اور اقبال حیدر ) تو پاکستان میں لبرل ازم کے سر چشمہ سمجھے جا تے ہیں  لیکن بلوچستان کے مسئلے پر وہ انسانی حقوق کی حدتک تو شاید بلوچوں کی حمایت کریں لیکن حقِ خود ارادیت پر جب بات آجاتی ہے تو وہ یکدم محب الوطن پاکستانی بن جاتےہیں۔ پاکستان میں اور کون سے لبرل  کے ذہن میں آتے ہیں؟  احمد رشید تو پاکستان کے ایک مایہ ناز قلم کار مانے جاتے ہیں اور ستر کی دہائی میں بلوچوں کے ساتھ گوریلا جنگ  میں شانہ بشانہ لڑتے بھی رہے  لیکن  اب وہ بلوچستان کے مسئلے کو  بیرونی ممالک کی شرارت قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنی تازہ ترین کتاب ’’ پاکستا ن ان د ابرنک‘‘ میں کہتے ہیں کہ’’  بلوچستان کی ہر تحریک میں بھارت کسی نہ کسی طریقے  سے ملوث رہی ہے‘‘۔ (احمد رشید کی کتاب پر میرا تجزیہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں)۔ 
 جب میں نے ان سے یہاں واشنگٹن میں’’ پالیٹیکس اینڈ پروز‘‘ ( جو واشنگٹن  میں کتابوں کی مشہور ترین دکان ہے) ان کی کتاب کی تقریب رونمائی میں بلوچستان کے حوالے سے ان پوچھا تو انھوں نے یہی بات دہرائی کہ کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ بلوچستان میں بھارت مداخلت کر رہا ہے اور  بلوچ آزادی کی بات کرتے ہیں جس کے عوض یقناً فوج ان پر تشدید کرے گی۔احمد رشید نے پچھلے سال اٹھائیس فروری کو بی بی سی جنوبی ایشیا کی ویب سائٹ پر  لکھے گئے ایک مضمون میں کہا تھا کہ بلوچستان میں اکثریت پشتونوں کی ہے اور بلوچ تو محض اقلیت ہیں۔  یہ ایک ایسے دانشور کی بد دیانتی تھی جو خود بلوچستان کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور ان کی کتابیں  افغانستان اور طالبان پر مستند سمجھی جاتی ہیں۔( اس سلسلے میں میرا تفصیلی مضمون’’ احمد رشید کا بلوچستان‘‘ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں)۔ 
اسی طرح آپ نے دیکھا ہوگا کہ پاکستان پیپلز پارٹی خود کو  ملک کی سب سے لبرل جماعت کہتی ہے لیکن پی پی پی  کی نسل در نسل قیادت نے  بلوچوں پر مظالم ڈھائے ہیں ۔ جب پچھلے سال فروری میں امریکی کانگریس نے بلوچستان کے معاملے پر ایک قرارد اد پیش کی  تو اس پر سب سے زیادہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر شیری رحمن نے احتجاج کیا۔بالفاظِ دیگر شیر ی رحمن تو پاکستان کی ایک اور سرکردہ لبرل رہنما سمجھی جاتی ہیں لیکن ان کے لبرل خیالات محض چند معاملات تک محدود ہیں اور جب با ت بلوچستان پہ پہنچ جائے تو وہ بھی بالکل اسی طرح اپنے ردِ عمل کا اظہار کریں گی جس طرح پاکستان کے  دائیں بازو کے رہنما کرتے ہیں ۔ کانگریس میں بلوچستان کے معاملے کے اٹھنے کے فوری بعد امریکہ میں بلوچستان کے مسئلے پر مزید دلچسپی بڑھ گئ اور اس کے بعد  امریکی محکمہ دفاع نے سال دوہزار چودہ  میں افغانستان  سے امریکی افواج کے انخلا  کے بعد ’’ بلوچستان اور فاٹا کے مستقبل‘‘ کے موضو ع پر ایک کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ کانفرنس میں انتہائی معتبرمندوبین کو بولنے کی دعوت دی گئی تھی جن میں سی این این کے قومی سلامتی کے تجزیہ نگار  پیٹر برگن،  ممتاز دانش ور  طارق فتح، نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی کے حسن عباس، نیویارک ٹائمز کے  پیر زبیر شاہ ، وال اسٹریٹ جرنل کی عصرانعمانی جیسے معتبر مقررین کو دعوت گئی تھی۔اس کانفرنس میں صرف دو بلوچوں کو بولنے کی دعوت دی گئی تھی جن میں راقم الحروف کے علاوہ بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکر اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( بی ایس او) کے سابق چئیر مین محترم وحید بلوچ بھی شامل تھے۔
 کانفرنس کی تیاریوں کا جب واشنگٹن میں قائم پاکستانی سفارت خانہ کو پتہ چل گیا تو شیر ی رحمن نے امریکی حکومت کے ساتھ شدید احتجاج کیااور یہاں تک کہ کانفرنس شروع ہونے کے دو دن قبل منتظمین کو  مذکورہ کانفرنس منسوخ کرنی پڑی؟ لوگوں نے مجھ سے پوچھنا شروع کیا کہ کانفرنس کی منسوخی پاکستانی حکومت کی شرارت تھی تو میں نے کہا کہ میں سازشی نظریات پر یقین نہیں رکھتا اور یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ اس میں پاکستانی حکومت کا ہاتھ ہے لیکن اس کے دو دن بعد ہی ہماری تمام خدشات صیح ثابت ہوئیں جب ڈان  اخبارنے ایک خبر شائع کی کہ پاکستانی حکومت کے احتجاج پر امریکی محکمہ دفاع نے بلوچستان اور فاٹا پر ہونے والی کانفرنس منسوخ کرائی ہے۔ یہ بات تو سمجھ میں آنے والی تھی لیکن اس  سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ ڈان کے نمائندے نےپاکستانی اہلکاروں کے حوالے سے یہ خبر دی کہ  کانفرنس اس لئے منسوخ کی گئی ہے کہ اس میں بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) کے کچھ کمانڈرز بطورِ مقرر شامل ہونے والے تھے۔ یہ  غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی انتہا تھی کیوں کہ کانفرنس میں مدعو تمام مقررین کے نام و کوائف محکمہ دفاع کی ویب سائیٹ پر درج تھیں اور اس میں تو ہم صرف دو بلوچ مقررین تھے ۔ لہٰذہ کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ ہم ڈان کے مدیر ظفر عباس سے اس معاملے میں احتجاج کریں کہ جب انھیں پتہ ہے کہ کانفرنس کے لئے  دو بلوچوں کے نام واضح طور پر  دیئے گئے ہیں جن میں ایک پیشہ وارانہ صحافی اور دوسرا بلوچستان اسمبلی کا ایک سابق اسپیکر ہیں تو بھلا اب ہم دونوں میں سے کو ن بی ایل اے کا کمانڈر ہے۔ ’’ڈان ‘‘  اگلے روز اس خبر پر معذرت کی اس حصے کی تردید بھی کہ بلوچ مقررین کا کسی مسلح تنظیم سے تعلق ہے۔ 

یہ تمام حربے پاکستانی میڈیا اس لئے استعمال کرتی ہے کہ وہ بلوچ صحافیوں کو کانفرنسز میں بولنے سے روک دے۔ لیکن چوں کہ ڈان کے واشنگٹن کے نمائندے کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں تو میں نے سے اس خبر کےپس منظر کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہ جب اس خبر کے حوالے سے ان کی شیری رحمن سے براہ راست بات ہوئی تھی اور شیری نے انھیں بتایا تھا کہ کانفرنس میں بی ایل اے کے کمانڈر مدعو تھے۔ مذکورہ صحافی نے اعتراف کیا کہ انھوں نے  خود مقررین کی فہرست اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی تھی  ۔ میں پوچھا ،’’ توآپ نے سفیرصاحبہ کی بات کا  اعتبار کر لیا؟‘‘ انھوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر جمہوری دور حکومت نہ ہوتی اور اگر کسی فوجی حکومت  کی سفیر مجھے یہ بات بتاتی تو میں یقیناً خبر شائع کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کرتا لیکن میں سمجھ رہا تھا کہ پی پی پی والے تو کم از کم غلط بیانی نہیں کریں گے۔  
اسی طرح چودہ نومبر دوہزار گیارہ کو ’’ واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے میرا انٹرویو شائع کیا جس میں یہ دیکھ کر مجھے حیر ت ہوئی کہ میرے سابق مدیر نجم سیٹھی نے  مجھے اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ میں نے فوج کے خلاف  بولتے بولتے تمام ’’ریڈلائن‘‘ ( یا حدود)  پار کئے ۔ مجھے یہ سن کر شدید افسوس ہو ا کہ جس بندے کو کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے آزادیِ صحافت کا عالمی ایوارڈ دیا گیا ہے وہ مجھ سے یہ شکایت کر رہے ہیں کہ میں نے فوج و حکومت پر حد سے زیادہ ہی تنقید کی ہے۔ میرا سوال ہمیشہ یہ رہا ہے کہ’’ ریڈ لائن‘‘ کا تعین کون کرتا ہے؟ اگر ہم صحافیوں کی آزادی ِ رائے کو سلب کرنے کے لئے ’’ریڈ لائن‘‘ متعین کئے جاتے ہیں تو یہ ہم سب کے لئے لازمی ہے کہ ان لائنز کو با ر بار پار کریں اور اس وقت تک پار کریں جب  ایسے لائن  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسخ ہوجائیں اور آزادی ِ رائے و جمہوریت کا بول بالا ہو۔ پاکستان کے لبرل کو چایئے کہ وہ بلوچستان کے بارےمیں اپنارویہ تبدیل کریں ۔ یہ کہنا کہ بلوچ آزاد رہ نہیں سکتے یا اپنا ملک نہیں چلاسکتے ایک طرح سے علمی و فکری بد دیانتی ہے ۔عجیب بات ہے کہ اگر آپ پاکستان میں کہیں کہ آپ کشمیریوں کے لئےحقِ خود ارادیت  کی مخالفت کرتے ہیں تو لوگ آپ کو غدار اور ملک دشمن کہیں گے اور اگر آپ فلسطین کے لئے آزادمملکت  کی مخالفت کریں تو آپ اسلام دشمن بن جاتے ہیں اور جب بات بلوچوں پر آجائے تو آ پ یکدم اس کو ملک دشمنی سے تعبیر کرتےہیں۔ آپ یقیناً مجھ سے یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ صحافی ہوکر کیا میں یہاں سیاست نہیں کر رہا کیا مجھے صحافی ہونے کے ناطے کسی کئےلئے حقِ خودارادیت کی حمایت کرنی چائیے؟  میرے خیال میں حق خود ارادیت ان بنیادی انسانی حقو ق کی ماند ہے جن کی حمایت کرنے کے لئے آپ کا قوم پرست، صحافی ، مرد یا عورت، مسلمان یا یہودی ہونا لازمی نہیں ہے۔ میں اس کو’’  کامن سنس‘‘ سمجھتا ہوں۔ جس طرح ہر انسان کو سچ بولنا چایئے، چوری نہیں کرنی چایئے، صحت و تعلیم کی سہولیات مہیا ہونی چائیں بلکہ اس طرح ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہم مختلف معاملات میں اپنی پسند و نا پسند کے بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں ۔ جو چیز ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں تو ہم اس کی بڑی شدت سے وکالت کریں گے لیکن ہمارا رویہ اس وقت یکدم بدل جاتا ہے جب ہم سے کہا جا تا ہے کہ آیا ہم وہ سب کچھ دوسروں کے لئے پسندکرتے ہیں یا نہیں۔ 
ہمارے دہرے معیار کی وجہ سے بلوچستان آج آگ اور شعلہ کے زد میں ہے۔ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی ہے اور نفسانفسی کا عالم ہے۔ اس تمام صورت حال میں ہم نے کوشش کی ہے کہ بطور قلم کار اپنی سرزمین پر سیاست کو انسانیت پر غالب نہ ہونے دیں ۔ہم نے کوشش کی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل لئے حکمرانوں اور رہنماوں کو  مسائل حل کرنے کی خاطرمشورے دیں اور ایک دوسرے کی معاونت کریں نا کہ ایک دوسرے کی مجبوری کا مذاق اڑائیں۔  جب میں بلوچوں کے خلاف فوج اور ایف سی نا انصافیوں پر لکھتا ہوں تو واہ واہ کے پیغامات ملتے ہیں اور لوگ بڑی تعریفیں کرتے ہیں لیکن جب میں آباد کاروں پر ہونے والے حملوں پر تنقید   کرتا ہوں تو یک دم بلوچ دشمن ہونے کے فتوے لگتےہیں۔  یہی وہ دہرے معیار ہیں جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے اور جنگ کی سی صورت حال میں صرف صحافی اور قلم کار ہی اپنے ذاتی جذبات پر قابو پا کر تصویر کے دونوں رخ پیش کرسکتے ہیں۔مجھے سیاست سے کوئی غرض نہیں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ سب انسانوں کے لئے برابر حقوق، احترام اور برابری کا مطالبہ کرنا سیاست نہیں اور نہ ہی قوم پرستی ہے۔ یہ انسانیت کا پہلا درس ہے ۔لہٰذہ اگر میں بلوچوں کی مسخ شدہ  لاشوں  کے خلاف لکھتا ہوں تو بالکل اسی طرح سے  پنجابیوں، ہزاروں اور ہندوں پر ہونے والے  حملوں کو غلط سمجھتا ہوں۔ سیاست جیسی بھی ہو ، چائے مذہبی  ہو یا قوم پرستانہ ، اسے انسانیت کے تابع ہونا چایئے نا کہ اس کا مقصد محض ایک گروہ کے مفادات کا تحفظ ہو ۔ پاکستان میں ہر کوئی اپنے حقوق و مقاصد کے حصول کے لئے لڑنے والی جنگ کو مقدس سمجھتا ہے لیکن دوسروں کے حقوق کی جب بات کی جاتی ہے تو یکدم ہمارے روئے بدل جاتے ہیں۔ یہ ہماری سیاست کی بنیادی کمزوری اور سماج کے انحطاط پزیر ہونے کی علامت ہے۔ 
بات کچھ لمبی  ہی ہوگئی  ۔۔۔۔ 
آخر میں ایک بار پھر حامد میر  کےمضمون کی طرف آتا ہوں۔  بلوچی میں ایک محاورہ ہے کہ جب آگ لگ جاتی ہے تو وہ ترو خشک میں فرق نہیں کرتی۔ بلوچستان میں جو آگ لگی ہے  اس پر آپ کو بلوچ ’’بھگوڑے‘‘ نظر آتے ہیں لیکن آپ شاید بھول گئے کہ جس اخبار میں آپ کام کرتےہیں خود اس کے کوئٹہ کے مدیر مجید اصغر بھی ’’ بھگوڑے‘‘ بن کر اپنی جان بچا کر بلوچستان سے بھاگ گئے ہیں۔ اگر مجید اصغر آپ سے بہت دور ہیں تو  اپنی ہی کپٹل ٹاک کی ٹیم پر نظردوڈائیں کہیں آپ کو  اپنی ہی ٹیم  میں جاوید نور نامی ’’ بھگوڑہ‘‘  نظر آئے گا یا نہیں؟ تھوڑی دیر کے لئے دنیا ٹی وی پر نگاہ ڈالیں تو ادھر بھی آپ کو راو محمد اقبال نام کا ایک اور ’’ بھگوڑہ‘‘ نظر آئیں گے جنھوں نے اپنی پوری زندگی روزنامہ ’’ مشرق‘‘میں غیر متنازعہ سیاسی ڈائر یاں لکھ  لکھ کر گزار دی لیکن جب انھیں احساس ہوا کہ بلوچستان میں صحافت کرنا اب نا  ممکن  ہے تو وہ  اپنی بوریاں  بستر باندھ کر لاہور چلے جانے پر مجبور ہوگئے۔ آپ تو بلوچستان  کے ہزارہ برادری  سے تعلق رکھنے والے باکمال صحافی امجد حسین کو ’’ بھگوڑہ‘‘ ہونے سے روک نہ سکے۔ ( امجد حسین پر میرا تفصیلی مضمون پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں)۔
امجد بلاشبہ صحافت کے شعبے میں اپنی برادری کے ماتھے کا جھومر تھےجنھوں نے اے پی پی سے اپنے کیئریر کا آغاز کیا اور ڈان ٹی وی میں اپنے آپ کو کوئٹہ  اور اسلام آباد میں منوا یا۔ جس شہر میں ہزاروں کے لئے جینا محال ہوگیا ہے ، اسی شہر میں امجد حسین نے فجر کی اذانوں اور رات کی تاریکیوں میں خبریں تلاش کرکر کے اپنے آپ کو ایک مستند صحافی کے طور پر منوایا ۔ پھر آپ ایک نظر دوڈائیں بی بی سی اردو  کے باہمت صحافی ایوب ترین کی طرف جو بلوچستان کے شورش کی وجہ سے اپنا اسٹیشن چھوڑ کر ’’ بھگوڑا‘‘ ہونے پر مجبور ہوگئے۔میرصاحب کو کیا پتہ کہ ہم سب’’ بھگوڑوں‘‘ کو بلوچستان نے کیا کچھ دیا ہے اور  بلوچستان ہمارے لئے کیا معنی رکھتا ہے۔جب میرصاحب کوئٹہ کے سیرینا یا لوڈز ہوٹل میں آتے ہیں تو  آپ کے لئے تو بلوچستان محض ایک ’اسٹوری‘ ہے۔ آپ بلوچستان کو ایک کالم کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔آپ تو بلوچستان کو  ایک گھنٹے کے  ٹاک شو کے تناظر میں دیکھتے ہیں کہ کس کس کو بلاکر لڑایا جائے تو کہیں ’’جی ناظرین اب بلوچستان میں پھڈا ہوگیا ہے۔‘‘ بلوچستان کے جو جو صحافی ’’ بھگوڑے ‘‘ ہوئے ہیں ان کو مختلف اداروں اور گرہوں کی وجہ سے بھاگنا پڑالیکن ہم سب بھگوڑے کسی زمانے میںانتہائی کا میاباور خوش حال رہے ہیں۔ بلوچستان کے بہشت نے ہمیں بہت پیار اور عزت دی لیکن غلط سیاست اور ناکام پالیسوں نے ہماری بہشت کو جہنم بنادیا ہے جس کا اب  صرف ایک ہی ایندھن ہے اور وہ ہے انسان۔ آپ کو ان ’’ بھگوڑے‘‘ صحافیوں کا کیسے پتہ چلے گا؟ آپ تو اپنی خبریں بھی ایسی(جعلی) خواتین صحافیوں سے لیتے ہیں جو دراصل اقوام متحدہ کے ادراہ برائے مہاجرین ( یو این ایچ سی آر) میں  بطورپی آر او کام کررہی ہیں بس آپ جیسے ’’ مہربان‘‘ مدیران کے ریفرنس لیٹرز کا کما ل ہے 
 کہ  خواتین پی آر او بھی صحافی بن کر واشنگٹن کے دورے پر آتی ہیں اور  اسلام آباد میں کانفرنس میں آپ  ساتھ فوٹو بھی بنواتی ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ جب تک میر صاحب بلوچستان کو سمجھنے کے لئے  خواتین پی آراو پر انحصار کرتے رہیں گے  تب تک کم از کم وہ خود تو کبھی’’ بھگوڑہ‘‘ نہیں ہوں گے۔ 

1 comment:

  1. بازیں چیزاں چہ سرپدی دیگ ءِ منت وار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete