وش ٹی وی بلوچی زبان کا واحد سیٹلائیٹ نیوز چینل ہےاور اس کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے۔ انیس فروری کی رات کو اس چینل پر چلنے والے کرنٹ افئیر پروگرام ’’ سینٹرل پوائنٹ‘‘ کے میزبان الطاف بلوچ نے اپنےپروگرام میں میرا انٹرویو لیا ۔ انٹرویو میں حکومت اور شعیہ ہزارہ مظاہرین کےدرمیان طے پانے والے تصفیے پر بات ہوئی۔ انھوں نے پوچھا کہ آیا حکومتی یقین دہانی کے بعد ہزاروں کے خلاف لشکر ِ جھنگوئی کی کارروائیوں میں کمی آئے گی جس کے جواب میں میں نے یہی کہا کہ یہ سوال گورنر راج کے نفاذ کے وقت بھی پوچھا گیا تھا لیکن اس کا ہمیں بہت جلد ہی (منفی) جواب مل گیا۔ لشکر جھنگوئی نے ہزارہ ٹاون کے واقعے کے فوری بعد نہ صرف اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ یہ واضح کیا کہ وہ گورنر راج یا فوج سے خوف زدہ نہیں ہے اور اپنی کارروائیاں مستقبل میں بھی بددستوری جاری رکھے گی۔
اگرچہ لشکرِ جھنگوئی کا مرکز صوبہ پنجاب ہے لیکن بلوچستان میں ہونے والی کارروائیوں کے لئے لشکر مقامی نوجوان بھرتی کرتی ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ مستونگ اب لشکر کا نیا گڑھ بن چکا ہے۔ اس سے پہلے مستونگ میں شعیہ زائرین کی بس پر بھی حملے ہوئے تھےجن میں کئی افرا د ہلاک ہوگئے تھے۔ بلوچ قوم پرستوں کو لشکرِ جھنگوئی کی کارروائیوں کے پیش نظرحال سے بھی زیادہ دشوار گزار مستقبل کے لئے تیار ہونا چائیے کیوں کہ لشکر کی مقامی قیادت کا زیاہ تر تعلق براہوئی بولنے والے بلوچوں کے ہاتھ میں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے لشکر کےاہم رہنما عثمان سیف اللہ کوئٹہ مٰیں انسداد ِ دہشت گردی کی فورس ( اے ٹی ایف ) کے کوئٹہ کینٹ میں قائم جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ لشکر کو بلوچستان بھر میں پھیلے ہوئے مدارس میں بے پناہ حمایت حاصل ہے اور اس کے لئے ان مدارس سے نوجوان بھرتی کرنا اور کارروائیوں کے بعد وہاں چھپنا نا ممکن نہیں ہے۔ پنجاب سے آئے ہوئے جہادیوں کے مقابلے میں مقامی جہادی زیادہ خطرنا ک ہیں کیوں کہ انھیں مقامی زبان، جغرافیہ اور فرار ہونے کے راستوں کا علم ہے۔
No comments:
Post a Comment