Saturday, February 9, 2013

سی این این انٹرویو

 چھ فروری کو سی این این نے میرا انٹرویو  اپنے پروگرام نیوز روم میں نشرکیا۔ سی این این کا ہیڈکوارٹر ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹامیں ہے لیکن میرا یہ انٹرویو  واشنگٹن ڈی سی بیورو میں لیا گیا۔خود میرے لئے دنیا کے سب سے اہم ترین نیوز چینل پر آنا بڑی خوشی کی بات تھی۔ انٹرویو کا فوکس میری  صحافتی زندگی تھی  کہ کس طرح میں  نے بلوچستان میں کم عمر بیور چیف کی حثیت میں اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا اور کن حالات کے پیش نظر  میں نے امریکہ میں سیاسی پناہ حاصل کی ۔ انٹرویو میں بلوچستان میں ان دنوں صحافیوں کے حالات پر بات ہوئی اور ان چند صحافیوں کی تصویریں بھی دیکھائی گئیں جو صوبے میں پرتشدد واقعات کی کوریج کرتے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انٹرویو کے دوران میری صحافتی زندگی کے  کئی اہم ایام کی تصاویر بھی دیکھائی گئیں جن میں بلوچستان کے سابق گورنراویس احمد غنی ،بلوچستان قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری اور سابق گوریلا لیڈر مرحوم شیخ اسد رحمان کے انٹرویوز کرتے ہوئے دیکھایاگیا۔  اس کے علاوہ سال دوہزار سات میں جب ہم جنرل مشرف کے ایمرجنسی کے خلاف ہم  مظاہرے کررہے تھے تو پولیس  ہمیں پکڑ کر لے گئی اور  انٹریو کے دوران میری تصویر پریس کلب کوئٹہ کے سابق صدر اور سینئر ساتھی شہزادہ ذولفقاراور روزنامہ جنگ کے سابق ایڈیٹر مرحوم اختر مرزا کے ساتھ  انٹرویو کے دوران نظر آئے گی۔  انٹرویو کا آغاز میری بلوچستان کے سابق وزیر برائے زراعت میر اسد اللہ بلوچ سے کوئٹہ پریس کلب میں ایوارڈ لینے سے ہوتا ہے۔ بہت سارے دوستوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یو ٹیوب پر سرکاری پابندی کی وجہ سے ابھی بھی وہ یہ ویڈیو نہیں دیکھ پا رہے ۔  میں کوشش کررہا ہوں کہ اپنے فیس بک کے صفحے پر یہ انٹرویو شئیر کروں۔ 
جب میں سی این این کے اسٹوڈیو میں اپنا انٹرویو ریکارڈ کر رہا تھا  تو مجھے تین لوگ یاد آئے اور دل ہی دل میں ، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا جن کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے  مجھے یہ موقع ملا۔ میں سمجھتا ہوں انسان کو زندگی کے ہر موقع پر اپنے  محسنو ں اور اساتذہ کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چائیے۔ جولوگ ہم پر احسان کرتے ہیں اور ہماری رہنمائی کرتے ہیں ان کا شکر ادا کرنا ہماری اہم ترین ذمہ دار ی ہے۔ ان تین اشخاص میں سے دو تو وہی اشخاص ہیں جن کے نام میں نے اپنی پہلی کتاب منسوب کی تھی یعنی میرے انگریزی کے استاد واجہ ظاہر حسین بلوچ اور میرے صحافتی استاد لالہ صدیق بلوچ۔ میں نےاپنی زندگی میں جب بھی کوئی کامیابی حاصل کی ہے تو مڑ کر دیکھا کہ تو خود کو ان مہربانوں کے احسانات تلے دبا پایا۔ اگرچہ ہمارے پاس آنکھیں تو پیدائشی ہوتی ہیں لیکن ہماری آنکھیں صیح معنوں میں تو ہمارے اساتذہ ہی کھولتے ہیں اور میں اس معاملے میں خوش قسمت ہوں کہ میرے اساتذہ نے میری آنکھ کھول کر مجھے دنیا کو دیکھنے اور مزید تلاش کرنے کا درس دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ  جب میں سی این این کے اسٹوڈیو میں چلاگیا تو مجھے بلوچی زبان کے ممتاز دانشور ڈاکٹر علی دوست بلوچ  بہت یاد آئے  جنھوں نے آج سے آٹھ سال قبل کوئٹہ میں مجھے اپنے پروگرام میں بطور ِ مہمان بلایا۔ وہ مجھے میری زندگی میں پہلی مرتبہ کسی ٹی وی اسٹوڈیو  کے اندر لے کر گئے اور مجھے انھوں نے  میرا حوصلہ اور اعتماد بڑھایا اور یہ سکھایا کہ میں ٹی وی پر کیسے بات کروں۔ 

No comments:

Post a Comment