تحریر: ملک سراج اکبر
پاکستان میں رہتے ہوئے آپ ہرروز امریکا بہادر کا نام تو ضرورسنتے ہوں گے لیکن ایران بہادر کا نام بہت کم ہی سننے میں آتا ہے۔اسی بات کو دراصل ایران اورسعودی عرب کی خوش قسمتی بھی سمجھی جائے کہ وہ یہاں جو کچھ بھی کریں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ اگر سعودی عرب ہماری نظروں میں دنیا کی مقدست ترین سرزمین ہے تو ہم ایران کو دنیا کا معصوم ترین ملک سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب دنیا میں سنی اسلام کا علم بردار ہے اور اس کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں مذہبی انتہاپسند ی کے مراکز و جہاد ی عناصر کی مالی و سفارتی پشت و پنائی کرے جب کہ ایران سعودی عرب کو شاید اسرائیل سے بھی زیادہ حقارت بھری نظروں سے دیکھتا ہے کیوں کہ ایران دنیامیں شعیہ اسلام کا حامی و سرپرست ہے۔ یوں ایران اور سعودی عرب کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کو اپنے مذہبی اور سیاسی عزائم کی خاطر استعمال کریں۔ حیرت کی بات ہے کہ جہاں ان ممالک کی آپس میں بالکل بھی نہیں بنتی ہے وہاں پاکستان بیک وقت دونوں ممالک کا بہتریں دوست بھی ہے۔ دنوں ممالک ایک ساتھ پاکستان کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ پاکستان کی دوستی کی بنیاد اسلام سے زیادہ مالی مفادات ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ سعودی عرب اور ایران کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی سنی یا شعیہ نظریاتی جنگ کی وجہ سے کتنے معصوم شہری مرتے ہیں انھیں تو بس ایک ایسی سرزمین درکا ر ہے جہاں وہ اپنی مفادات کی جنگ لڑ سکیں اور پاکستان وہ واحد ملک ہے جو بیک وقت امریکہ، چین ، ایران او ر سعودی عرب کے مفادات کی خاطر حاضر ہے۔
ان چاروں ممالک کے مفادات کے عوض کہیں نا کہیں اور کسی نا کسی طرح سے پاکستان میں بسنے والے شہری متاثر ہورہے ہیں ۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہماری باتوں میں اور سازشی نظریوں میں یقین رکھنے والوں میں بھلا کون سی بات مختلف ہے۔ ہم بھی وہی بات کہنے لگے ہیں جو پاکستانی نیوز چینلز پر زید حامد جیسے لوگ بولتے ہیں ۔ میں اپنی بات کو محض اس بنیاد پر سازشی نظریوں سے مختلف سمجھتا ہوں کہ میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ پاکستان میں اگر مذہبی انتہاپسندی پروان چڑھ رہی ہے تو اس سے بھی پاکستانی حکومت کو بیرونی ممالک سے کسی نہ کسی طریقے سے پیسے ملتے ہیں اور اگر فاٹا میں امریکی ڈرون حملوں سے مذہبی دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ جو معصوم پشتون شہری مرتے ہیں تو اس کی بھی پاکستانی ریاست دبے الفاظ میں حمایت کرتی ہے۔
ابھی پچھلے دونوں ایران کے سابق وزیر خارجہ جناب اکبر ولایتی کوئٹہ شہر میں تشریف لائے۔ وہ ایک تیر سے دو نہیں بلکہ پورے تین شکار کر گئے۔ پہلے تو ولایتی صاحب ایرانی حکومت کی طرف سے ان شعیہ شہریوں کی ہلاکت پر مگرمچھ کے آنسو بہانے آئے جو دس جنوری کے المنا ک بم دھماکوں میں شہید ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے موقع کو غنیمت جان کر یہ سیاسی بیان بھی داغ ڈالا کہ ایران بلوچستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کررہا اور تیسر ی بات یہ کہ ایران پاکستان کے ساتھ ہونے والے گیس معاہدے پر بڑا خوش ہے اور چاہتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید بہترئی آئے۔
ہمیں ایران کی سفارت کاری پر شدید حیرت ہوئی کہ انھوں نے شعیہ دنیا کا بے تاج بادشاہ ہونے کے باوجود پاکستان پر تھوڑا بھی زور نہیں دیا کہ وہ جو عناصر شعیوں کے قتل ِ عام میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ بلوچستان کے شہری چاہے بلوچ ہوں یا شعیہ ہزارہ ان کے مقدر میں شاید دنوں ممالک کے اندر ظلم و ستم کا سامنا کرنا لکھا ہے۔پاکستان ایران میں بسنے والی سنی بلوچوں کے ساتھ ایران کی ذیادتیوں پر کبھی سرکاری سطح پر احتجاج کرتا ہے اور نہ ایران پاکستان میں بسنے والے شعیوں کی ہلاکت پر اس طرح احتجاج کرتا ہے جو کہ احتجاج کرنے کا حق بنتا ہے۔ مجھے تو کبھی کبھار لگتا ہے کہ اگر بلوچ برما یا فلسطین میں ہوتے تب بھی پاکستان کا دفترخارجہ ان کے لئے آواز بلند نہیں کرتا۔ ہم تو بڑے سیدھے بنے ہوئے ہیں جو پاکستان سے یہ توقع کرنے لگے ہیں کہ ایران میں بسنے والے سنی بلوچوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر آواز بلند کرے۔
سچ تو یہ ہے کہ دنوں ممالک سرحد کے دونوں اطراف میں انسانی خون بہنے پرخاموشی اختیار کرتے ہیں کیوں کہ وہ خود اس انسان دشمن عمل میں بڑی دیدہ دلیری سے ملوث ہیں۔ اگر ایران امریکا ہوتا تو شاید پاکستانی ٹیلی ویژن چینلز اکبر ولایتی کے بلوچستان آنے کے موقع پر ماتم مچاتے اور ولایتی سے نہ صرف ایران میں بسنے والے سنی بلوچوں کی حالات زار پر سخت سوالات کرتے بلکہ ان کے ساتھ مشرقی بلوچستان میں رہنے والے ان شہریوں کی ہلاکت پر بھی شدید احتجاج کرتے جو وقت فوقتا ً ایرانی سرحد فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے ہلاک کئے جاتے ہیں ۔ ابھی چند دنوں پہلے ہی کی بات ہے کہ بلوچستان میں ایک شہری تنویر احمد بلوچ کی ایرانی افواج کے ہاتھو ں ہلاکت پر صوبہ کے بیشتر علاقوں میں مظاہرے کئے گئے ۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت نے کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی تہران نے کسی قسم کی وضاحت پیش کرنے کی زحمت کی۔ ایک بات تو پکی ہے کہ ملکوں کے درمیان جو سیاست ہوتی ہے اس میں عام شہریوں کے مفادات کا دور دور تک نہیں سوچا جاتا بلکہ عام شہری تو بس اس سیاست کا ایندھن ہی بن جاتے ہیں۔ پھر کہا ں وطن اور کہاں نظریہ۔ یہ تو صرف لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے ہوتاہے۔
کوئٹہ میں بسنے والے بچارے ہزاورں پر عموماً ایرانی ایجنٹ ہونے کا الزام تو لگتا ہے لیکن جب میں نے قریب سے دیکھنے کی کوشش کی تو یوں لگا کہ ایرانیوں کا رویہ ہزاروں کے ساتھ بالکل اسی طرح ہے جس طرح متکبر عربو ں کا ہم غیر عربوں (عجمیوں) کے ساتھ ہوتا ہے۔ پاکستانی دانشور حسن نثار درست فرماتے ہیں جب وہ پاکستانیوں اور عربوں کے تعلقات کے بارے میں کہتے ہیں پاکستانی تو خود کو اسلام کا ٹھیکہ دارسمجھتے ہیں لیکن عرب انھیں گھاس نہیں ڈالتے ۔ اسی طرح ہزاروں کے کچھ علما ضرور ایران کی چاپلوسی کرتے ہیں لیکن فارسی نسل کے گھمنڈ میں سرشار ایرانی بچارے منگول ہزاروں کو منہ نہیں لگاتے۔یہ مذہب اور سیاست کی باتیں ہیں اور شایدعام آدمی کی سمجھ میں نہ آئیں لیکن اس سے بڑھ کر دلچسپ بات یہ ہے کہ خود شعیہ ایرانی قونصل خانہ (کوئٹہ) اور جماعتی اسلامی بلوچستان کے بڑے قریبی مراسم ہوتے ہیں ۔ اب مجھے یہ پتہ نہیں کہ جہاں ملک میں شعیہ سنی فسادات میں ہر روز لوگ مرتے ہیں وہاں کوئٹہ ہی میں سنی شعیہ بھائی چارہ قونصل خانہ اور جماعت اسلامی کی حد تک کیوں کر برادرانہ ہے۔
ایران ہمارے شہریوں کو مارنے میں براہ راست ملوث ہے اور ہزاروں کے قتل عام پر بھی سر اپا احتجاج نہیں ہے اوراس کے باوجود وہ بڑے اعتماد کے ساتھ ہماری سرزمین پر گیس کا منصوبہ بھی شروع کرنا چاہتا ہے۔ بلوچستان میں ایران کے خلاف عوامی جذبات سخت کیوں نہیں ہیں؟
خود میرا خیا ل ہے کہ ایران بلوچستان میں اپنا ساکھ بہتر بنانے اور رائے عامہ میں خود کو قابل قبول بنانے کی خاطربیک وقت سنی شعیہ علما کو کسی نا کسی طریقے سے رشوتیں دیتا ہے۔ کبھی آپ نے کوئٹہ سےنکلنے والا’’ روزنامہ مشرق‘‘ اخبار پڑھا ہے؟ کبھی آپ کو ادراتی صفحے یا سنڈے میگزین میں امام خمینی کے قصدے پڑھنے کو ملے ہیں ؟ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ایران کے شان میں لکھے گئے مضامین اتنے طویل کیوں ہوتے ہیں کہ انھیں قسط وار شائع کرنا پڑتا ہے ؟ کبھی آپ نےسوچا ہے کہ پورے بلوچستان میں ایران کا وقار بلند کرنے کا ٹھیکہ ایک شخص ہی نے کیوں اٹھا رکھا ہے؟ اگر آپ بلوچستان کے اردو اخبارات کے باقاعدگی سےمطالعہ کرتے ہیں تو آپ امان اللہ شادیزئی کے نام سے بخوبی واقعف ہوں گے۔ موصوف کوئی شعیہ نہیں ہیں بلکہ جماعت اسلامی بلوچستان کے دوسرے اہم ترین رہنما ہیں۔ میرا مقصد کسی کا نام لے کر دل آزاری کرنا ہرگز نہیں ۔ ویسے بھی وہ کہتے ہیں ناں کہ نام میں کیا رکھا ہے؟ نام تو کسی کا بھی ہوسکتا ہے میری با ت کا اصل محور یہ نقطہ ہے کہ ایرانی حکومت ان افراد اور اذہان پر کام کرتی ہے جو کہ سنی مذہب اور تنظیموں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں کیوں کہ انھیں پتہ ہے کہ جو بچارے عام شعیہ ہیں وہ تو اپنے مذہبی جذبہ و جنونیت میں لشکر ِ جھنگوئی سے ڈرتے ڈرتے ، بسوں پر حملے برداشت کرتے کرتے اپنے ہی خرچے پر خود ہی قم اور مشہد کے مقدس شہروں پہنچ جائیں گے۔ لہٰذہ ایران کا اصل ہدف وہ سنی عالم اور دانش ور ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ بلوچستان میں ایران کے حق میں کالم لکھوانے اور تقریر کرنے کا’’ کار خیر‘‘ کروانا چاہتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ کروانے کی خاطر ایران وقت فوقتاً ان صحافیوں کو ’’ مطالعاتی دوروں‘‘ اور ’’ علمی کانفرنسز‘‘ کے لئے لے جاتا ہے۔ اب مستونگ اور قلات سے تعلق رکھنے والے جو سادہ لوح بلوچ لشکرِ جھنگوئی کے ہاتھوں میں استعمال ہوتے ہیں انھیں خود اتنا بھی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ اوپر کے سطح پر یہ سنی شعیہ اختلافات کچھ بھی نہیں ہیں ۔
یہ سارے سنی شعیہ علما اور سفارت کار اپنے مفادات کی خاطر ایک ہیں اور افطار پارٹیوں میں روح افزے پہ روح افزے پیتے ہیں اور ادھر میزان چوک پر بچارے لشکر کے نوجوان انسانی خون چوس رہے ہوتے ہیں۔ کبھی زحمت کرکے دیکھا جائے تو بڑے لوگوں کی آپس میں کوئی دشمنی نہیں ہوتی وہ جو عام لوگ ہیں ان کی تو ہر بات پہ اختلاف ہے ۔ اس حد تک اختلاف کہ لوگ زحمت کرکے بسوں کو روکتے ہیں ، لوگوں سے شناختی کارڑ مانگے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں کہ تمہارا نام حسین ، مرزا، نقوی کیوں ہے۔ ارے یار اب نام دیکھ کر بھی کسی کو مارنے کا کوئی تُک بنتا ہے؟ بس لگتا ہے جب تک بڑے لوگ روح افزے پر روح افزے اور جلیبی پر جلیبی پیتے اور کھاتے رہیں گے ہم عام لوگ گردنوں پر گردنیں کاٹتے رہیں گے۔
چناں چہ ایران ہرسال باقاعدگی کے ساتھ اپنے جشن آزادی کے موقع پر بلوچستان کے مختلف اخبارات میں اپنے انقلاب کی ’’ عظمت‘‘ سے متعلق مضامین و خصوصی ضمیمے شائع کرتا ہے۔بنیادی طور پر ایران کا جو منافقانہ کردار ہے وہ قابل اعتراض ہے ۔ ایران اگر اپنے ملک میں بلوچوںکو سر عام پھانسی پہ چڑھتا ہے اور ہمارے شہریوں پر سرحدوں پر بے رحمی سے فائرنگ کرتا ہے تو ہمیں نہیں لگتا کہ وہ بلوچستان میں مقیم شعیوں ، ہزاورں کے ساتھ صدق ِ دل سے تعزیت کرسکتا ہے۔ ایران کو چائیے کہ وہ بلوچوں کی جانب اپنے رویے میں بہتری لائے اور جہاں تک ہزاورں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا تعلق ہے اس پر محض تعزیت کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ایران کو پاکستانی حکومت کے ساتھ سخت احتجاج کرنا ہوگا۔ اگر ایران بلوچوں کے خلاف کارروائیوں میں پاکستان کی فوجی معاونت کرسکتا ہے تو وہ لشکر ِجھنگوئی کو جڑسے اکھاڑنے کی خاطر کیوں کر اسی طرح کے تعاون کی پیش کش نہیں کرتا؟

Nicely written Malik Siraj Sahib. I totally agree with you.
ReplyDeleteBalochs and Hazaras must learn from the history otherwise be ready for destruction
ReplyDelete