گذشتہ روز‘ سولہ فروری‘ کو الجزیرہ انگلش نے کوئٹہ میں ہونے والے سانحہ کے حوالے سے میرا براہ راست انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویو الجزیرہ کے واشنگٹن ڈی سی بیورو میں شام چھ بجے کی نیوز بلیٹن میں لیا گیا۔ الجزیرہ نے سانحہ کوئٹہ کو چوبیس گھنٹوں تک اپنے نیوز بلیٹن میں شہ سرخی کا درجہ دیا۔ مجھ سے الجزیرہ نے وہی سوال پوچھا جو عموماً لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر لشکرِ جھنگوئی چاہتی کیا ہے اور اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ میں نے کہا کہ لشکر کا بنیادی مطالبہ ہے کہ تمام شعیہ سنی بن جائیں یا بلوچستان ( بلکہ پاکستان بھی) چھوڑ کر چلے جائیں اور باور کیا جاتا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے ان کی محض اس لئے معاونت کرتے ہیں کہ وہ اسلامی انتہا پسندی کے ذریعے بلوچستان میں جاری قوم پرست تحریک کا مقابلہ کریں۔مذہبی عناصر کو بلوچستان میں کئی محاذ پر مدد ملتی ہے اور ان میں سعودی عرب کی طرف سے ملنی والی مالی امداد کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام کا بلوچستان حکومت میں شامل ہونا بھی ہے۔ بلوچستان میں قائم پچانوے فیصد مدارس کی قیادت ان علما کے پاس ہے جن کی کسی نہ کسی طرح سےجمعیت علما اسلام سے تعلق ہے اور جمیعت طالبان کا حامی ہے۔اور اس کے زیراہتمام چلنے والے یہی مدارس لشکر سمیت دیگر مذہبی قوتوں کے لئے مقامی سطح پر افراد ی قوت پیدا کرتے ہیں ۔ چوں کہ جمعیت پچھلی دوصوبائی حکومتوں کا اہم حصہ رہی ہے اس لئے بلوچستان میں مدارس کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا ناممکن ہوگیا ہے اور یہ پتہ لگانا اور مشکل ہوگیا ہے کہ ان مدارس کے اندر کیا ہوتا ہے۔ جمعیت مذہبی عناصر کو سیاسی وانتظامی حمایت فراہم کرتی ہے جس کی ایک واضح مثال دوسال قبل بلوچستان اسمبلی میں پیش کی جانے والی وہ قرارداد ہے جس میں کوئٹہ شوریٰ کے خلاف ہونے والے مجوزہ امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس سے یہی ظاہر ہوا کہ جمعیت بلوچستان اسمبلی میں بیٹھ کر طالبان اور ان کے ہمدردوں کے لئے سیاسی و حکومتی سطح پر قانون سازی کا فریضہ انجام دیتی ہےاور اس کے رہنما ہر اس حکومتی اقدام کی مخالفت کرتے ہیں جس کا مقصد صوبے میں مذہبی انتہا پسندی کی جڑوں کا اکھاڑنا ہوتا ہے۔ انٹرویو میں میں نے گورنر راج کے نفاذ کے باوجود حالات میں بہتری نہ آنے کی وجوہات بھی بیان کیں۔ الجزیرہ نے یہ انٹرویو چھ بجے کی بلیٹن کے ساتھ ساتھ آٹھ اور نو بجے کی بلیٹن میں بھی نشر کی۔ جوں ہی انٹرویو کا کوئی آن لائن لنک مل جاتا ہے میں قارئین کی خدمت میں شئیر کروں گا۔ تاہم اس سلسلے میں الجزیرہ نے اپنی ایک دوسری رپورٹ میں میرے انٹرویو کے کچھ حوالے دئیے ہیں جسے پڑھنے کے لئےیہاں کلک کریں۔

No comments:
Post a Comment