Sunday, February 17, 2013

کوئٹہ: ہر روز ایک نیا کربلا

تحریر: ملک سراج اکبر

 چوں کہ بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ  ہی بدنیتی پر مبنی تھا تو ہفتے کے روز کوئٹہ کے ہزارہ ٹاون میں جو المناک سانحہ پیش آیا اس پر شدید رنج و ملال تو ضرور ہوا لیکن اس واقعے پر ہمیں زیادہ حیرانگی نہیں ہوئی۔ کل کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچاسی سے تجاویز کرچکی ہے جب کہ دو سو کے لگ بھگ عام شہری‘ بشمول عورتوں اور بچوں کے‘ زخمی ہو چکے ہیں۔ حسب معمول  مذہبی دہشت گرد ی کے اس واقعے کی ذمہ داری  لشکر ِ جھنگوئی نے قبول کی تھی۔ دس جنوری کے سانحے کے فوری بعد جب شعیہ علما نے کوئٹہ شہر کو فوج کے سپرد کرنے کی سفارش کی اورآخر کار یہ بات طے ہوئی کہ فوج تو نہیں بلائی جائے گی البتہ ایف سی کو شہر میں پولیس کے اختیارات دئیے جائیں گے اور صوبے کی انتظامی ذمہ داری گورنر نواب ذولفقار علی مگسی کے حوالے کی  جائے گی  تو اسی وقت ہم نے کہا کہ اس سے صوبہ میں فرقہ وارنہ حملوں میں کمی  نہیں آئے گی۔ اس بات میں کوئی نہیں کہ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت انتہائی نا اہل  اور بد عنوا ں رہی لیکن   ان پر یہ الزام لگانا کہ وہ  یا دیگر سویلن حکومتیں لشکرِ جھنگوئی جیسی تنظیموں کی حمایت کر رہے تھے سراسر غلط ہے۔ پچھلے مہینے جب  ہیومن رائٹس واچ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں افواج پاکستان ور اس کے خفیہ ادراوں پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ زیر زمین مذہبی جماعتوں کی پشت پنائی کررہی ہیں توفوج کے ترجما ن نے اگلے روز ہی اس بیان کی شدید تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔ جب فوج نے اس بیان پر توقع سے بڑھ کر احتجاج کیا تو ہمیں دال میں کچھ کالا محسوس ہوا۔ 
کوئٹہ میں فوج طلب کرنے  کا مطالبہ کچھ شعیہ علما نے کیا تھا جب کہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے جوش کے بجائے ہوش سے کا م لیا اور فوج کی امور حکومت میں مداخلت کے تجویز کو یکسر مسترد کردیا ۔ تاہم صدر زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ا س لئے مظاہرین کے مطالبے پر لبیک کہا کیوں کہ یہ الیکشن کا سال ہے اور پی پی پی کو عوامی ووٹ کی ضرورت ہوگی۔ لہذہ بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی  تاکہ لوگوں کے دل جیت لئے جائیں۔ پی پی پی عوام میں اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن دل ہی دل میں تو خودصدر اور وزیرا عظم کو بھی پتہ تھا کہ گورنر راج تو محض دیکھاوا ہے۔  ہم حالات میں بہتری کے حوالے سے اس لئے بھی کم پُر امید تھے کہ گورنر مگسی خود پچھلے پانچ سالوں میں اسی عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ اگرچہ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں گورنر کا امورِ حکومت میں کوئی کردار نہیں  ہوتالیکن اس کے باوجود اگر گورنر مگسی ماضی میں شعیہ مسلک اور ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے شہریوں پر بدستور ہونے والے ان حملوںکا تدارک کرنے میں صوبائی حکومت کی معاونت  نہ کرسکے تو وہ  صوبے کا انتظامی سربراہ بن کر  کیسے یکدم سارے حالات بہتر بنا سکیں گے؟ 
فرقہ واریت ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کا دیرپا حل ڈھونڈنے کے لئے لازمی ہے کہ عوام  اور علما بھی حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ان اہم مسائل کے حوالے سےشعور و آگاہی دے۔ راتو ں رات اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے ۔ جو لوگ ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کی کئی سالوں تک ذہن سازی کی ہوئی ہوتی ہے۔ اب نفرت سے بھرے انہی ذہنوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔  ہفتے کے روز ہونے  والے دھماکہ کے ساتھ ہی گورنر راج کی ناکامی کا باضابطہ ثبوت مل گیا لیکن گورنر مگسی نواب رئیسانی کے مقابلے میں قابل تحسین ہیں کہ انھوں نے  سی ایم ایچ ہسپتال میں جاکر دھماکے میں زخمی ہونے والوں کی عیاد ت کی۔ نواب رئیسانی نے اپنے دورِ حکومت میں ایسی منفی روایات  کی داغ بیل ڈالی کہ ان اثرہماری سیاست اور سماج پر کئی سالوں تک باقی رہے گا۔ انھوں نے عوام اور حکمرانوں کا رشتہ سرے ہی سے ختم کردیا ۔  صوبے میں کوئی بھی طوفان یا آفت آجاتی رئیسانی نے اپنے وزرا کو لوگوں سے ملنے کو نہیں کہا اور یوں عوام اور حکمرانوں کے درمیان تمام رابطے منقطع ہوگئے۔  صوبے میں بڑے سے بڑے سانحے پیش آئے لیکن کوئی صوبائی وزیر عوام کے دکھ درد میں شامل نہیں ہوا۔ ان بُرے دنوں سے نکل کر  اب جب نواب مگسی کو زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو  دلی خوشی ہوتی ہے۔ سی ایم ایچ ہسپتال میں جا کر ز خمیوں کی 
عیادت کرکے نواب مگسی ان پر کوئی احسان نہیں کررہے البتہ وہ ایک گورنرہونے کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔ 

گورنر نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ ہفتے کے روزپیش آنے والا واقعہ خفیہ اداروں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ کسی اعلیٰ سرکاری اہلکار کی جانب سے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا بھی بڑی بات ہوتی ہے کیوں کہ اس سے قبل تو بس ایک ہی روایت قائم رہی ہے کہ واقعے کے فوری بعد حکومت اسے بیرونی عناصر کی سازش کہہ کر اصل مسئلے سے توجہ ہٹا دیتی تھی۔ چوں کہ گورنر مگسی اس وقت صوبے کے انتظامی سربراہ ہیں  وہ محض خفیہ اداروں کی ناکامی اور نا اہلی کو دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ نہیں قرار دے سکتے ۔ انھیں چائیے کہ وہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچیں اور معلوم کریں کہ کن کن عناصر کو لشکر ِ جھنگوئی کی حمایت حاصل ہے اور گورنر راج کے نفاذ کے دو مہینے بعد بھی لشکر کا ایک رکن تک  کیوں کر گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ حکومت کے مذمتی بیانات ناکافی ہیں کیوں کہ  ہمیں بھی پتہ ہے کہ سیاسی رہنماوں کے یہ بیانات تو پہلے ہی سے سرکاری کمپیوٹر میں موجود ہوتے ہیں  اور اسٹاف انھیں فوری طور پر اخبارات اور ٹی وی چینلز کو جاری کردیتے ہیں تاکہ میڈیا میں توجہ حاصل کریں۔ فرقہ واریت سے نمٹنے کے لئے حکومت کو لفاظی کم اور عملی کام زیادہ کرنے ہوں گے۔  لشکرِ جھنگوئی کے ترجمان نے تو ایک بار پھر حکومت کو للکارکر یہ تک کہہ دیا ہے کہ ’’ ہمیں گورنر راج اور فوج کی موجودگی سے کوئی ڈر نہیں لگتا۔ ہماری کارروائیاں اس وقت تک جاری رئیں گی جب تک کوئٹہ شعیوں کا قبرستان نہیں بن جاتا۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لشکرِ جھنگوئی اتنے پراعتماد انداز میں یہ بیانات کیوں دے رہی ہے؟ اس اعتماد اور دیدہ دلیری کے پسِ پردہ کس کا ہاتھ ہے؟  

No comments:

Post a Comment