تحریر: ملک سراج اکبر
اگر جام یوسف کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو ان کی موت کو بلاشبہ کم عمری کی موت ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ اپنی انسٹھ سالہ زندگی میں انھوں نے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ، وفاقی وزارت اور پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کی صوبائی قیادت کے علاوہ لسبیلہ کے جام ہونے کی اہم ذمہ داری بھی ادا کی۔ جب ان کی وزارت اعلیٰ ختم ہوئی تو انھوں نے کافی عرصہ دبئی میں گزارا لیکن جوں ہی وہ ملک میں واپس لوٹے تو حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے انھیں وفاقی کابینہ میں نجکاری کا قلمدان سونپا۔ خود ان کے آبائی صوبے بلوچستان میں حکومت سے ناراض بلوچ قوم پرستوں نے پی پی پی کے اس فیصلے پر دبے الفاظ میں اعتراض بھی کیا کہ پی پی پی ایک ایسے شخص کو وفاقی کابینہ میں جگہ کیوں دے رہی ہے جو نواب اکبر بگٹی کے قتل کیس میں نامزد کئے گئے ہیں۔ وہ یہ بھی پوچھتے رہے کہ آخر پی پی پی بلوچ قوم پرستوں کی ساتھ مفاہمت کرنا چاہتی ہے یا ان بلوچ قبائلی رہنماوں کے ساتھ جو بلوچستان کے مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن پی پی پی نے جام صاحب کو یقیناً اس لئے وفاقی کابینہ میں جگہ دی کہ انھیں جام کی سیاسی و قبائلی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا اوربالفاظِ دیگر پی پی پی ان کی اہمیت سے یکسر انکار نہیں کر سکتی تھی۔
اسی طرح حال ہی میں جب حکومت نے آئندہ انتخابات سے قبل بلوچ قوم پرست رہنماوں سے رابطے کی کوشش کی تو اس سلسلے میں جام صاحب ہی کی خدمات حاصل کی گئیں کہ وہ بزرگ بلوچ رہنما سردار عطا اللہ مینگل سے ملاقات کریں۔ سردار مینگل اور جام صاحب کے درمیان خاندانی تعلقات ہیں اور اس طرح کے تعلقات کی موجودگی میں باہمی سیاسی اختلافات جس قدر بھی گہری ہوں اس سے بلوچی حال او حوال منقطع تھوڑی ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جام یوسف کی اچانک موت کی خبر ملک میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔اس خبر میں ملک کے اعلیٰ سیاسی و قبائلی رہنماوں کے علاوہ ان کے مخالفین نےبھی دلچسپی لی۔
جب ہم نے ’’ بلوچ حال‘‘ کے فیس بک کے صفحے پر یہ ’’ بریکنگ نیوز‘‘ کی صورت میں چلائی تو ہمارے قارئین کا ردعمل بہت جلد ہی دیکھنے میں آیا۔ جس طرح سیاست دانوں کی زندگیاں ہوتی ہیں ، اسی طرح جام صاحب کے انتقال کے خبر پر لوگوں نے بھرپور اپنی رائے دی اور عوامی رائے پڑھنے کے فوری بعد دوباتوں کا یقین ہوگیا۔ پہلی بات تو یہ کہ جام صاحب بلوچ نوجوانوں میں بے انتہا غیر مقبول تھے اور ان کو نوجوان ایک قومی ’’غدار‘‘ کی نظر میں دیکھتے ہیں تو دوسری طرف اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ وہ سیاسی اعتبار سے اہم ضرورت تھے اور ان کی ہلاکت اتنی بڑی خبر تھی کہ اسے کو ئی بھی یکسر نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ اچھے یا بُرے لیڈر کی بات چھوڑ یں لیکن اگر بات بڑے یا چھوٹے لیڈر کی ہوتو جام یوسف بلوچستان کے ایک بڑے لیڈر تھےجن کی ناکامیوں اور نا اہلیوں کا بلوچستان پر بڑے اثرات بھی مرتب ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی ہلاکت کے فوری بعد بلوچستان میں ان کے دوست اور دشمن ان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے۔
جام یوسف کا تعلق بلوچستان کے ان سیاسی و قبائلی گھرانوں سے رہا ہے جو شروع ہی سے پاکستان نواز رہے ہیں ۔ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ضرور ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان مخالف اور پاکستان پرست قبائل اپنی اپنی زمینوں پر مقیم ہیں اور ان کے درمیان کو ئی براہ راست چپقلش نہیں ہے۔جو لوگ آزاد بلوچستان کے حامی ہیں وہ ان قبائل پر الزام لگاتے ہیں کہ برطانوی سامراج نے اس خطے پر اپنا تسلط جمانے کی خاطر چند قبائلوں کوزمینیں اور دیگر مراعات دے کر خوب نوازا تا کہ وہ اپنے علاقوں میں کسی قسم کی قبائلی بغاوت کو راتوں رات کچل دیں اور قیام پاکستان کے بعد ملک کے مقتدر طبقہ نے بالکل اسی پالیسی کو برقرار رکھا اور بلوچستان کے چند قبائلوں کو ہر طریقے سے نواز کر اپنا حامی بنالیا۔ ان قبائل میں جمالی ، جام اور مگسی سرفہرست ہیں جو کہ شروع دن ہی سے اہم مقتدرحلقوں کے وفادار رہے ہیں۔ بلوچ قوم پرست ان قبائل کے بارے میں لفاظی کی حد تک تو کہتے ہیں کہ وہ ’’قومی غدار‘‘ ہیں لیکن اس سے آگے ان قبائل کے درمیان باہمی احترام کا رشتہ بھی رہا ہے جسے حیرت انگیز طور پر کبھی خراب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ دوسری طرف وہ جنگجو بلوچ قبائل ہیں جو یا تو آزاد بلوچستان کے حامی ہیں یا بلوچوں کے لئے حقِ خود ارادیت کے طلب گار ہیں۔ ان میں مری، مینگل اور بگٹی قبائلی سرفہرست ہیں۔ سیاست اپنی جگہ پھر لیکن ان قبائل کے درمیان وقتافوقتاً رشتہ داریاں بھی تو ہوتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ جہاں سیاست کام نہ آئے تو وہاں قبائلی و خاندنی تعلقات کام آتے ہیں۔
جام یوسف اس وقت تک بلوچستان کی سیاست میں متنازعہ نہیں بنے تھے جب تک وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے ۔ جب دو ہزار دو کے عام انتخابات کے بعد وہ بلوچستان کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار بنے تو نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی ( جس کے بلوچستان اسمبلی میں چار نشستیں تھیں)نے بھی جام صاحب کے حق میں ووٹ دیا۔ بلوچستان کی سیاست میں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایک دو وزرا اعلیٰ کو چھوڑ کر کوئی بھی وزیراعلیٰ عوام میں اتنا مقبول نہیں رہا ہے کہ اسے لوگوں کی دل کی دھڑکن کہا جائے۔ لہٰذہ ہم اس موقع پر جام یوسف کی مقبولیت کے گراف کےحوالے سےبھی کوئی بات نہیں کریں گے کہ وہ عوام میں کتنے مقبول تھے لیکن ان کی غیرمقبولیت کی وجوہات کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں ہے۔ جب جنرل مشرف نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں سینکڑوںبلوچ سیاسی کارکن لاپتہ ہوئے اور نواب اکبر خان بگٹی ہلاک کئے گئے تو لوگوں نے اس کی ذمہ داری جام یوسف کی صوبائی حکومت پر ڈالی ۔
نواب بگٹی کے اہلخانہ نے جام یوسف کو نواب بگٹی قتل کیس کے ایف آئی آر میں نامزد کیا جب کہ بلوچ مسلح تنظیموں نے ان کا نام اپنے ہٹ لسٹ میں ڈال دیا ۔ اگرچہ جام خود تو کسی بھی قاتلانہ حملے سےبچ گئے لیکن بلو چ لبریشن آرمی نے دو ہزار سات میں ان کے ترجما ن رازق بگٹی کوکوئٹہ میں وزیر اعلیٰ ہاوس کے قریب ہی ہلاک کیا۔ جام یوسف اور ان کی حکومت میں شامل دیگر کئی رہنماوں نے اپنی دفاع میں وہی بات کی جو اس سے پہلے نواب بگٹی انیس سو ستر کے آپریشن کے حوالے سے اور سردار اختر مینگل چاغی کے ایٹمی دھماکوں کے بارے میں کہتے آرہے ہیں کہ وفاقی حکومت نے کبھی انھیں اعتماد میں نہیں لیا اور نہ ہی ان کے پاس اتنے اختیارات تھے کہ وہ بلوچستان میں وفاقی حکومت کی زیادتیوں کا تدارک کرسکتے۔
جام یوسف کی بات کا اس لئے بھی اعتبار کیا جاسکتا ہے کہ نواب بگٹی اور سردار اختر کے برعکس وہ تو براہ راست ایک فوجی آمر کے ماتحت کام کررہے تھے اور جنرل مشرف نے بلوچستان کے حوالے سے جو جارحانہ پالیسی اپنائی تھی اس میں کور کمانڈرز کی رائے کو صوبائی حکومت کے مشورے یا بلوچستان اسمبلی کی قراردادوں پر فوقیت دی جاتی تھی۔ جام یوسف کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں تھا لیکن فلسفہ ضرور تھا۔ وہ محاذ آرائی کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے تھے اور وہ انھیں اس بات سےبھی کوئی غرض نہیں رکھتے تھے کہ کون سی جماعت حکومت میں ہے ۔ وہ صرف اس بات کی پروا کرتے تھے کہ آیاد وہ خود اقتدار میں ہیں یا نہیں اور وہ ہر ممکن کوشش کرتے کہ اقتدار سے بے دخل نہ ہوں کیوں کہ ان کو پتہ تھا کہ حزب اختلاف میں رہ کر کوئی بھی سیاست دان اپناکام نہیں کرواسکتا۔
وہ ایک نرم گو انسان تھے۔ ان کے بارے میں یہ کہنا تو درست ہے ک بہت سارے لوگ ان سےنفرت کرتے ہیں لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھی اتنے ہی سارے لوگوں سےنفرت کرتے تھے۔انھوں نے بہت سارے سیاستدانوں کے برعکس جان بوجھ کر کسی کو اپنا دشمن نہیں بنایا۔ کئی اہم عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود وہ سیاسی حوالے سے بہت ہی سادہ تھے۔ وہ کسی کے ساتھ محاذآرائی نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی دوسروں پر قابض ہونا چاہتے تھےیہی وجہ ہے کہ وہ بہت کم پریس کانفرنس کرتے تھے اور ان کے اخباری بیانات بھی بہت جاری ہوتے تھے۔ ان پر سیاسی مخالفین الزامات تواتر کےساتھ لگاتے تھے لیکن وہ روایتی اخباری بیان بازی کی سیاست نہیں کرتے تھے۔ وہ کبھی اپنی حریفوں کو اخباری بیانات میں للکارتے نہیں تھے اور نہ ہی کسی پر کیچڑا اچھالتے تھے۔ ان کا اپنی سیاست کے بارے میں رویہ معذرت خواہانہ نہیں تھا اور ان کا شمار ان رہنماوں میں بھی نہیں ہوتا جو اپنی زندگی کے کسی دور میں قوم پرستی کا دم بھرتے تھے اور پھر مراعات دیکھ کر حکومت میں شامل ہوگئے۔ لہٰذہ جام یوسف کو ایک لالچی سیاست دان کہا جاسکتا ہے لیکن وہ منافق اور جھوٹا نہیں تھے۔ انھوں نے مذہب اور قوم پرستی کا سہارا لے کر سیاست نہیں کیا۔ وہ پہلے دن سے لے کر آخر تک ایک ہی (پاکستان و اقتدار پرست) سیاسی فکر سے منسلک رہے۔
وہ اپنی ہی سیاسی دنیا میں رہتے تھے اور کبھی رحمن ملک کی طرز پر اپنے سیاسی حریفوں ( بلوچ قوم پرستوں) کا مذاق نہیں اڑاتے تھے اور نہ ہی انھیں مجبور کرتے کہ وہ اپنی سیاست چھوڑ کر پاکستان مسلم لیگ ق میں شامل ہوں۔ تاریخ میں جب بھی جام یوسف کا مقابلہ ان کے پیش رو نواب اسلم رئیسانی سے کیا جائے گا تو جام یقناً ایک بہتر وزیراعلیٰ کے طور پر یاد کئے جائیں گے کیوں کہ ان کے دور میں ملک میں فرد واحد ( جنرل مشرف) کی حکمرانی تھی لیکن اس کے باوجود اتنے سارے لاپتہ بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشیں نہیں ملی تھی لیکن رئیسانی کے دور حکومت میں تو بلوچستان میں سیاسی کارکناں، صحافیوں، ڈاکٹرز اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہلاک کیا گیا۔ رئیسانی حکومت جہاں ایک طرف مفاہمت کی بات کرتی رہی تو دوسری طرف اس نے بلوچ نسل کشی میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ جام یوسف کے دور حکومت میں گوادر پورٹ، کچھی کینال اور مکران کوسٹل ہائی وے کے منصوبے مکمل کئے گے جن پر بلوچ قوم پرستوں نے کہ کہہ کر اعتراض کیا کہ ان منصوبوں کا اصل مقصد بلوچ وسائل پر قبضہ جمانا ہے۔ لیکن اس حوالے سے جام حکومت کی دو رائے نہیں تھی اور جنرل مشرف کے مدد سے یہ ترقیاتی منصوبے مکمل کئے گئے لیکن پی پی پی کے دور حکومت میں بلوچستان میں ایک بھی ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا جس کو لے کر حکومت کم از کم یہ کہتی ہے ق لیگ کے مقابلے میں پی پی پی نے بلوچستان میں زیادہ ترقیاتی کام کئے۔ جام یوسف اچھے تھے یا بُرے اس کا فیصلہ تو بلوچستان کے لوگ اور مورخیں کریں گے لیکن ان کی بے وقت موت سے بلوچستان ایک اہم سیاسی و قبائلی شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔

No comments:
Post a Comment