دوفروری کو پاکستان فوج کے تعلقات ِ عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سےجاری ہونے والے ایک بیان میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ ( ایچ آر ڈبلیو) کی سالانہ رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قراردیا گیا ہے کیوں کہ مذکورہ تنظیم نے نہ صرف فوج اورخفیہ اداروں پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ فرقہ واریت میں ملوث لشکرِ جھنگوی جیسے تنظیموں کی پشت پنائی کر رہی ہیں بلکہ گذشتہ سال چار سو سے زائد شعیہ مسلمانوں کی بے رحمانہ ہلاکت کے باوجود فوج اور اس کے اداروں نے ان انتہا پسندوں کے ساتھ اپنی وابستگتی ختم نہیں کی ہے۔ ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی فوج انتہا پسند تنظیموں کا قلع قمع کرنے کی خواہش رکھتی ہے اور نا ہی استطاعت۔
فوج کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ پاکستان کے خلاف ایک ایسے ادارے کے پروپگنڈے ( ایچ آر ڈبلیو) کے سوا کچھ نہیں جس کی بین الاقوامی سطح پر کوئی ساکھ نہیں ہے ( اب فوجی بھائیوں کو بھی پتہ ہے کہ ایسا بھی نہیں ہے۔ یہ تو بالکل ایسا ہے جیسے جماعت اسلامی کا کوئی امریکا مخالف کارکن کہے کہ ہارورڈ یونی ورسٹی اور اسٹینفرڈ کے ڈگری کی کوئی ساکھ نہیں ہے)۔ فوج کہتی ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک اس سے پہلے بھی مذکورہ تنظیم کے رپورٹس کو بے بنیاد قرار دے کر رد کر چکی ہیں۔ اب ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیسے لیکن فوج کا کہنا ہے کہ ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ سے پاکستان بھر میں فرقہ واریت مزید پروان چڑھے گی۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ فوج نے کسی بین الاقوامی تنظیم کی پاکستان سے متعلق رپورٹ کو محض ’’ جھوٹ کا پلندہ‘‘ قرار دے کر اسے یکسر مستر د کر دیا ہے۔
اس سے پہلے اگر آپ کو یاد ہوگا تو پچھلے سال تیرہ دسمبر کو بھی آئی ایس پی آر نے بالکل اسی طرح کا ایک بیان انسانی حقوق کی ایک دوسری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف بھی جاری کیا تھا بلکہ اس میں بھی بالکل یہی الفاظ یعنی ’’ جھوٹ کا پلندہ‘‘ قرار دے کر اسے یکسر مسترد کردیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں افواج پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ افغانستان سے ملحق پاکستان کے سرحدی علاقوں میں فوج کی مشتبہ طالبان اورمقامی افراد کے ماروائے عدالت قتل میں ملوث ہے۔ فوج جب ہر بار اپنی دفاع میں ایک ہی بات رٹنے لگتی ہے اور اس پر یکے بعد دیگرے بین الاقوامی تنظیموں کے طرف سے الزامات کی بارش ہوتو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دال میں کچھ تو کالا ضرور ہے ۔
ابھی پچھلے مہینے ہی کی بات تو ہے جب کوئٹہ شہر میں شعیہ، ہزارہ برادری کے خلاف دو زبردست بم دھماکوں کے نتیجے میں ایک سو سے زائد افراد جان بحق ہوگئے ۔ اگر فوج سمجھتی ہے کہ خود شہریوں کی ہلاکت بھی ایک غیر ملکی پروپگنڈہ ہے تو ہم میں سے کوئی بھی یا بات ماننے کو تیار نہیں ہے کیوں کہ کوئٹہ کے سینکڑوں باہمت شہریوں نے خود جا کر شہیدوں اور زخمیوں اور ان کے جسم کے بکھرے ٹکڑوں کو اپنے ہاتھوں ہی سے اکٹھا کیاتھا اور پھر ہم نے اخبارات میں یہ بھی پڑھا کہ ایک سنی انتہا پسند تنظیم لشکری ِ جھنگوئی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی۔فرقہ وانہ تشدد کوئی غیر ملکی پروپگنڈہ نہیں ہے بلکہ ہماری نسل کو در پیش خطرناک ترین چیلنج ہے۔
عام شہری معلومات کے لئے ذرائع ابلاغ ہی کا سہارا لیتے ہیں اور ذرائع ابلاغ کے نمائند ے عموماً اعداد و شمار اور ماہرانہ رائے کی خاطر ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ایچ آر ڈبلیو، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان،عورت فاونڈیشن یا دیگر ملکی و غیر ملکی یونی ورسٹی اور تھنک ٹھینک کا سہارا لیتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس بہتر مالی اور افرادی قوت ہوتی ہے اور وہ اپنے شعبہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ کم از کم عوام ، ذرائع ابلاغ اور ان اداروں کے درمیان بڑی حد تک اعتماد و احترام کا فضا قائم ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ صرف فوج اور حکومت کو مسلسل انسانی حقو ق کی تنظیمو ں اورذرائع ابلاغ کے ساتھ مسئلہ ہوتا ہے اور وہ کسی نہ کسی بہانے سے ان تنظیموں پر کھچڑ اچھالتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان اداروں کو جھوٹا ثابت کیا جائے ، ان پر دباو ڈالا جائے، وہاں کام کرنےوالوں کو ڈرایا دھمکایا جائے اور جب وہ سختی کے با وجود سرکاری قابو میں نا آئیں تو ان کے سربراہاں اور کارکناں کو رشوت دے کر خریدا جائے ۔
علاوہ ازیں ایک اورطریقہ یہ بھی ہے کہ حکومت سے وفاداری کرنے والے نئے نام نہاد اخبارات و چینلز کا اجرا کیا جائے اور ایسے تھنک ٹھینک قائم کئے جائیں جو فوج کی تعریف میں بیانات اور رپورٹس جاری کریں۔ یہ پیشہ وارانہ اعتبار سے بد دیانتی ضرور ہے لیکن یہ فوج کی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر فوج اپنی حمایت کی خاطر دائیں بازوں کی سیاسی جماعتوں اور جہادی عناصر کی پشت پنائی کرتی ہے تو بالکل اسی طرح اسے اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنا ساکھ بہتر بنانے کی خاطر جعلی صحافیوں، دانشوروں اور تھنک ٹھینکس کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
جن جن لوگوں نے کوئٹہ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں شعیہ ، ہزارہ شہریوں کے خلاف حملے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ یقیناً فو ج کے بیان پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس سے اتفاق کریں گے کہ واقعی پاکستان میں شعیہ برادری کے خلاف حملوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور اس کی گواہی پاکستان کے عام شہری بھی دیتے ہیں ۔
جہاں تک فرقہ واریت میں ملوث تنظیموں کو فوج و ایجنسیوں کی حمایت کا سوال ہے تو عام شہریوں کو اس بارے میں کیا پتہ؟ وہ بچارے تو اخباری رپورٹس پر ہی اعتبار کرتے ہیں اور اگر اخبارات میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالے سے ہلاک شدگان کے صیح اعداد و شمار شائع ہوتے ہیں تووہ کیونکر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے اس حصے پر اعتبار نہ کریں جس میں ان عناصر کو بے پردہ کیا جاتا ہے جو ان تنظیموں کی پشت پنائی میں ملوث ہیں؟ فوج کو چاہئے کہ جب کبھی انسانی حقو ق کے معاملے کو اٹھایا جاتا ہے تو وہ اسے محض جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش نہ کرے۔ فرقہ واریت ملک میں ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کے خاتمے کے لئے فوج کو چاہئے کہ وہ مظلوم عوام کا ساتھ دے نہ کہ ظالم حملہ آوروں کےدفاع میں بیان جاری کرے۔ یہ بے گناہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے اور اس میں تو کم از کم
فوجی حکمت عملی اور سیاست کو ایک کونے میں رکھا جائے۔
نوٹ: اس مضمون کا انگریزی ورژن امریکی اخبار ہفنگٹن پوسٹ میں چار فروری کو شائع ہوا۔ انگریزی میں پڑھنے کے لئے براہ مہربائی یہاں کلک کریں
فوجی حکمت عملی اور سیاست کو ایک کونے میں رکھا جائے۔
نوٹ: اس مضمون کا انگریزی ورژن امریکی اخبار ہفنگٹن پوسٹ میں چار فروری کو شائع ہوا۔ انگریزی میں پڑھنے کے لئے براہ مہربائی یہاں کلک کریں

No comments:
Post a Comment