Sunday, February 24, 2013

جب اختر لوٹے گا

تحریر: ملک سراج اکبر

باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور صوبے کی سب سے بڑی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی( بی این پی)  کے سربراہ سردار اختر مینگل مارچ کے پہلے ہفتے میں وطن واپس جانے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کی جماعت نے باقاعدہ طور پر یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ وہ مئی میں متوقع عام انتخابات میں حصہ لیں گے لیکن ذرائع کا کہنا ہے بی این پی نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اب صرف باضابطہ طور پر اس فیصلے کا اعلان کرنا باقی ہے۔ پچھلے دنوں کوئٹہ میں پیش آنے والے بم دھماکے کے بعدسردار اختر مینگل نے کہا تھا کہ بگڑتے ہوئے حالات  کے پیش نظر بلوچستان میں  پرامن انتخابات کا انعقاد حکومت کے لئے ایک چیلنج ہوگا۔ 
بلوچستان میں آئندہ انتخابات کی کامیابی اور سیاسی قبولیت کا دارو مدار بی این پی کی انتخابات میں شمولیت پرہے۔ اگر بی این پی انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو پھر کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ بلوچستان میں قوم پرستوں نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ صوبے میں جو حکومت قائم ہوئی ہے وہ عوامی امنگوں کا ترجمان نہیں ہے۔ سال دوہزار آٹھ میں جب بی این پی، نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا تو اگلے پانچ سالوں تک نواب رئیسانی کی حکومت کو یہ طعنے لگتے رہے کہ یہ حکومت تو صرف اس لئے معرض وجود میں آئی کیوں کہ بلوچستان کی حقیقی سیاسی جماعتوں نے تو انتخابات کا بائیکاٹ کیاتھا اور ایسے لوگ اسمبلیوں میں آئے جن کی کوئی سیاسی ساکھ نہیں ہے۔
پچھلے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں میں سے نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے حوالے سے تو یہ بات پکی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گی لیکن بی این پی ابھی تک واضح فیصلہ نہیں کرسکی ہےاس کی دو بنیاد ی وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خود بی این پی کو پتہ نہیں کہ اسٹبلشمنٹ انھیں بلوچستان کی سیاست میں کس حد تک برداشت کرےگی۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں جب سردار اختر مینگل نے حکومتی پالیسوں کے خلاف گوادر سے کوئٹہ تک ’’لشکرِ بلوچستان‘‘ کے نام سے ایک لانگ مارچ کا اعلان کیا تو مشرف نےیہ کہہ کر مینگل کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے کہ ’’اس ملک میں صرف ایک لشکر ہے اور وہ ہے پاکستان آرمی۔ اس کے علاوہ  ہمیں کوئی لشکرقبول نہیں ہے۔‘‘ سردار مینگل ایک سال تک زیر حراست رہےاور انھیں اس وقت رہا کیا گیا جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بلوچستان میں ’’ عام معافی اور مفاہمت‘‘ کی پالیسی لے کر اقتدار میں آئی لیکن پی پی پی کے دور حکومت میں مینگل جیسے قوم پرست رہنماوں کے لئے حکومت تو کُجا خود سیاست کے دروازے بند کردئیے گئے اور یوں ان کے اپنے آبائی علاقے خضدار میں ان کے قبائلی مخالفین کو خفیہ اداروں نے اس قدر اختیارات دے دیئے کہ انھوں نے قوم پرست سیاسی کارکناں کو اٹھا کر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکے کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا۔ 
اب بی این پی کو جس بات کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ یہ ہے کہ ان کے انتخابی ریلی کس حد تک محفوظ ہوں گے اور خود سردار اختر کیسے ممکنہ قاتلانہ حملوں سے بچیں گے۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ نیشنل پارٹی کے ساتھ ساتھ بی این پی کو بھی خود علیحدگی پسند بلوچ قوم پرستوں کی مخالفت کا خطرہ ہے ۔ زیرزمین تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ نے بلوچوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات کا بائیکاٹ کریں کیوں کہ پارلیمانی انتخابات سے پاکستان کا بلوچستان پر بقول ان کے ’’ قبضہ‘‘ زیادہ مضبوط ہوگا اوراگربلوچ شہریوں نے انتخابات میں اپنی رائے دی تو اس سے علیحدگی پسند قوتوں کی غیر مقبولیت ظاہر ہوگی۔ 
اگرچہ علیحدگی پسند سمجھتے ہیں اور ( اور شایدخود مینگل بھی اعتراف کرتے ہیں) کہ آزادی کی تحریک میں مینگل کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن بہت کم لوگوں کا مینگل کی سیاسی اہمیت کا اندازہ ہے اور اگروہ صرف انتخابات میں حصہ لیتے ہیں (اور کوئی نشست بھی حاصل نہیں کرتے ہیں لیکن تب بھی)اس سےانتخابات کو قبولیت کا مہر لگ جائے گا اور مسلح تنظیمیں ایک طرح سے نظر انداز ہوں گی۔ 
آج سے پانچ سال پہلے بی این پی اور این پی کے تعلقات مسلح تنظیموں کے ساتھ اس قدر کشید ہ نہیں تھے ۔ اس وقت یہ تمام قوتیں ایک دوسرے کو کسی نہ کسی طریقے سے برداشت کرتی تھیں اور پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتیں یہ کہہ کر مسلح تنظیموں کی حمایت کرتی تھیں کہ ہم بلوچ حقو ق کے حصول کے لئے جدو جہد کے تمام طرایق زیر استعمال لانا چاہتے ہیں۔ آج مسلح تنظیمیں بی این پی اور این پی کو پی پی پی اورمسلم لیگ سے بھی بڑا دشمن سمجھتی ہیں کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ کم از کم وہ جماعتیں قوم پرستی کا نعرہ تو نہیں لگاتی ہیں جب کہ بی این پی اور این پی بھی مسلح تنظیموں کو اپنا جانی دشمن سمجھتی ہیں اور شکایت کرتی ہیں کہ انھیں بی این پی عوامی،مسلم لیگ اور پی پی پی میں شامل بلوچ تو نظر نہیں آتے اور بس انھوں نے اپنی بندوقوں کا رخ ان دو جماعتوں کی طرف کیا ہے۔ مسلح تنظیموں نے مختلف سیاسی سوچ  و طریقہ جدوجہد رکھنے والے بلوچوں کو نشانہ بنا کر ایک بڑی اسٹریٹجک غلطی کی اور اس سے ان کی عوامی مقبولیت میں پانچ سال پہلے کے مقابلے میں آج نسبتاً کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ 
جب پچھلے سال ستمبر کو سردار اختر مینگل سپریم کورٹ کے سامنے حاضر ہونے پاکستان پہنچے تو ہم نے ان کے اس فیصلے کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ انھیں ایک ایسے وقت میں واپس نہیں جانا چائیے تھا جب اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی لاپتہ افراد پر کام کررہی تھی اور ان کی سپریم کورٹ میں حاضری سے بلوچ مسئلے کو عالمی سطح پر جو توجہ ملنے والی تھی وہ کم ہوگی اورہمارا یہ خدشہ سچ ثابت ہوا۔ سپریم کورٹ میں مینگل کے چھ نکات کے پیش ہونے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر پاکستانی حکومت اور خفیہ اداروں نے سپریم کورٹ میں اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ بلوچستان میں کوئی آپریشن ہورہا ہے اور نہ ہی کوئی ڈیتھ اسکوڈ ہیں۔حتیٰ کہ انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہ صوبہ میں کوئی شخص لاپتہ بھی نہیں ہے۔ 
سپریم کورٹ لاپتہ بلوچوں کو بازیاب کرنے میں کامیاب ہوئی نا ہی سردار مینگل کی حاضری کا کوئی فائدہ ہوا۔ تاہم خان قلات میر سلیمان داو د جیسے غیر سیاسی لوگوں نےان پر یہ الزام لگایا کہ مینگل اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک ڈیل کے نتیجے میں پاکستان پہنچے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فوج کی مرضی سے کوئی پتا بھی ہل نہیں سکتاتو مینگل کیسے پاکستان جا سکے۔ 
جہاں تک مجھے پتہ ہےسردار مینگل اب کی بار کسی ڈیل کے تحت واپس نہیں جارہے بلکہ خود اپنی جماعت کے کچھ لوگوں کی طرف سے ان پر دباو ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں حصہ لیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ بی این پی نے ستمبر دو ہزار چھ میں نواب بگٹی کی ہلاکت کے خلاف احتجاجاًبلوچستان اسمبلی کی دو اورقومی اسمبلی اور  سینٹ کی ایک ایک نشست سے استعفیٰ دیا تھا جب کہ دوہزار آٹھ کے انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کیا تھا۔ حقیقت میں یہ بات درست نہیں تھی کیوں کہ خفیہ طور پر بی این پی نے اپنے رہنماوں عبدالرحمن مینگل رکن صوبائی اسمبلی اور رکن قومی اسمبلی عثمان ایڈوکیٹ کو آزاد امیدوار کے حیثیت سے کھڑا کیا تھا۔ خود بی این پی کے اندر چند لوگ بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو محاذ آرائی سے تشبہ دے رہے ہیں اورسینکڑوں نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے کے بعد سمجھتے ہیں کہ چند قوم پرست رہنما آزادی کے نام پر بلوچوں کی ایک پوری نسل کو مرنے پر مجبور کر رہے ہیں اور بی این پی کے یہ رہنما سمجھتے ہیں کہ ماردھاڑ کے اس سلسلے کو روکنے کی ضرورت ہے اور وہ باہر رہ کر حکومتی نظام اور پالیسوں میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ اسی طرح جو لوگ الیکشن کے حق میں ہیں ان کا کہنا ہے کہ بائیکاٹ کرکے قوم پرست دارصل کرپٹ اور اسٹبلشمنٹ نواز لوگوں کے لئے منتخب ہونے کا راستہ ہموار کررہے ہیں۔ 
جب بی این پی اور نیشنل پارٹی نے پارلیمان کو خیر باد کہا تھا تو بلوچستان آج کے مقابلے میں نسبتاً بہتر اور زیادہ پرامن تھا لیکن پچھلے پانچ سالوں میں بلوچستان میں امن تباہ ہوگئ ہے اور کوئی شخص بھی محفوظ نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دو بلوچ قوم پرست پارٹیوں کی پاس اتنی  مالی و افرادی قوت ہے کہ وہ پی پی پی، ق لیگ، جمعیت علمائے اسلام اور بی این پی عوامی کے سابقہ اراکین اسمبلی کے خلاف انتخابی مہم لڑسکیں۔ علاوہ ازیں انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرنا یا نہ کرنا تو صرف ایک بنیادی عمل ہے ۔ اس کے بعد جو دشوار  گزار مراحل طے کرنے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ان جماعتوں کے ساتھ مستقبل میں مخلوط حکومت کی تشکیل کے لئے بیٹھنا ہےجن پر قوم پرست الزام لگاتے ہیں کہ وہ نواب بگٹی اور سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کی ہلاکت کےذمہ دار ہیں۔ 
مینگل کے لئے ملک میں واپس جانا خطروں اور مشکلات سے خالی نہیں ہے۔ پاکستان مخالف  بلوچ نوجوان انھیں غدار قرار دیں گے، بی این پی عوامی جیسی جماعتیں انھیں اپنے لئے انتخابی خطرہ  سمجھیں گی جب کہ فوج انھیں سیاست دان کے روپ میں ملک دشمن کی نگاہوں سے دیکھے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مینگل کے پاس کیا منشور اور حکمت عملی ہے جسے استعمال میں لاکروہ بیک وقت اپنے تین اہم حریفین کو مئطمین کرسکیں۔ 

3 comments:

  1. وتی ھیال ءُ سَسّاھاں اردو ءَ شنگ کنگ ءُ مارا سرپدی دیگ ءِ منت وار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  2. That's a nice article Mr Siraj, I would apreciat it but I think a seat of Balochistan assembly going to be a thorn crown for Mr Mengal as well as for other so called National figures like Malik , Hasil and so on . At the moment what our nation needs to servive is table dialogue with freedom fighting forces ,like BLA, BRA and BLF. And Mr Mengal is the only Baloch leader who is capable of doing so , so let's hope for a better and peaceful Balochistan. All of us should give a chance to peace for a prosperous future. Peace is the only solution for us to servive. Whether by election Or selection! Would love to read more and more from you. Godbless.

    ReplyDelete
  3. بلوچستأن کی أزأدی أیک لأزمی أمر هےے

    ReplyDelete