تحریر: ملک سراج اکبر
میری بائیس فروری کی تحریر ’’ ہم نے ہزاروں سے کیا سیکھا‘‘ اور سترہ فروری کی تحریر’’ ہزاروں پر حملے اور بلوچ قوم پرستوں کی بےحسی‘‘ پر قارئین نے بڑی تعداد میں اپنی رائے دی اور مجھے اس بات پر بڑی خوشی ہورہی ہے کہ کم از کم ان تحاریر سے بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں غیر روایتی موضوعات پر بحث ومباحثے کا آغاز ہورہا ہے۔ کسی بھی ایسے مسئلے پر بحث شروع کرنا آسان نہیں ہوتا جس کے بارے میں مختلف قوموں، سیاسی جماعتوں، رہنماوں اور کارکناں کی پہلے ہی سے ایک مضبوط رائے موجود ہو۔ان موضوعات پر لوگوں کی رائے راتوں رات قائم نہیں ہوئی بلکہ آج کسی مسئلے پر وہ جو رائے رکھتے ہیں وہ کئ دہائیوں یا کم از کم کئی سالوں کےسیاسی و سماجی تجربے، مطالعے اورعملی زندگی کا نچوڑ ہوتا ہے۔ لہٰذہ لوگ اپنی موجودہ سوچ و نظریات کو یکدم تبدیل نہیں کرسکتے۔جو لوگ اپنے آپ کو ایک ایسی صورتحال میں پاتے ہیں جب ان کی طے شدہ سیاسی و مذہبی عقائد و نظریات کے مقابلے میں نئے خیالات متعارف کئے جائیں تو وہ یکدم دفاعی پوزیشن میں چلے جاتے ہیں اور انھیں ہر وہ شخص اپنا دشمن نظرآنے لگتا ہے جو ان کی رائے کے برعکس چیزوں کو ایک نئے نقطہ ِ نظر سے دیکھتا ہے۔ سیاسی و سماجی سوچ میں تبدیلی بڑی مشکل سے آتی ہے لیکن یہ تمام پراسس بڑا قابل دید ہوتا ہے جب انسان نئے خیالات کو تسلیم کرنا شروع کردیتا ہے تو وہ اس بچے کی طرح بے حد خوش ہوتا ہے جو ہرروز کوئی نئی چیز سیکھ رہا ہوتا ہے اور اسےدنیا ہر گزرنے والے دن کے ساتھ پہلےسےزیادہ خوبصورت لگنے لگتی ہے۔
کل کے تعریفی کالم کے نتیجے میں بہت سارے ہزارہ دوست کافی خوش ہوئے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کامیابی اور اچھی صلاحیتں انسان کے لیئے ایک اہم امتحان کی طرح ہوتی ہیں۔ ایک تعریفی کالم پر خوش ہونے سے یادہ یہ سوال اہم ہے کہ آیا آپ کے پاس آج جو خوبیا ں ہیں کیا آپ کل بھی انھیں برقرار رکھ سکیں گے یا نہیں؟ کسی انسان یا قوم میں اگر کوئی خوبی (جیسا کہ ہزاروں میں اتحاد) موجود ہوتی ہے تو اس خوبی کو برقرار رکھنا ہی دراصل سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے کیو ں کہ وہ خوبی اس کاروبار کی طرح ہوتی ہے جو روز بروز پھیلاتا جاتا ہے اور اگر اس کی صیح معنوں میں دیکھ بھال نہیں کی جائے تو اس کے نقصانات بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سنگین ہوتے جائیں گے۔ زندگی میں جب بھی آپ کی کسی خوبی کی طرف نشان دہی کی جائے تواس پر خوش ہونے سےزیادہ آپ اس بات پر زیادہ توجہ دیں کہ کہیں وہ خوبی آپ کی شخصیت کا حصہ بن کر غروراور تکبر میں تبدیل نہ ہوجائے۔اچھی اور بُری خوبیوں کے درمیاں ہروقت ایک بہت ہی باریک لکھیر ہوتی ہے اور دنوں (خوبی اور خامی) ایک دوسرے کے حدود پار کرنے کی مستقل کوشش کرتی رئیں گی۔ ہزارہ برادری کے لئے ہنوز دہلی بہت دور ہے اور انھیں یہ اتحاد ہر صورت میں قائم و دائم رکھنا ہے ۔ یہ تو صرف ان کے سفر کا آغاز ہے اور ’’ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘‘۔
اسی طرح میرے کل کے موضو ع کا مقصد قطعا بلوچوں اور ہزاروں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانا نہیں تھا کیوں کہ بلوچوں کا مسئلہ ، اس کی تاریخ اور اس کا پس منظر بالکل مختلف ہے۔اس تحریر میں بلوچ اور ہزارہ اقوام کو تو صرف میں نے بطور مثال ( یا کیس اسٹڈی) پیش کیالیکن اس کا اصل مقصد اتحاد و یک جہتی کی اہمیت اجاگر کرنا تھا۔ لہذٰہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کل کا کالم پڑھ کر ہزارے تکبراور بلوچ مایوسی کا شکار ہوں گے تو ان سے گذارش ہے کہ وہ ایک بارپھر میرےمضمون کو ایسے پڑھ لیں کہ جب بھی دونوں اقوام کا نام آجائے تو اس کی جگہ جنگل کے کسی جانور یا پرندے کا نام ذہن میں لائیں تاکہ ہم زیادہ تر توجہ اپنی قوم کے بجائے مضمون کے سبق آموز حصے پر مرکوز کرسکیں اور ہمیں احساس ہو کہ اتحاد و یکجہتی سےانسان کیا حاصل کرسکتا ہے اور نا تفاقی کے باعث اس کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ قارئین کا چائیے کہ وہ قومیت اور سیاسی نظریے سے بڑھ کر اتحاد و یک جہتی کے اہم موضوع پرغور کریں۔
جب بھی مجھ سے میرے بلوچ دوست پوچھتے ہیں کہ ہزارہ بلوچستان میں فوج طلب کرنے کے حق میں کیوں ہیں تو مجھے یہ سوال بالکل ایسا ہی لگتا ہے جب پنجاب سے تعلق رکھنے والے دوست پوچھتے ہیں کہ بلوچ سردار اتنے ظالم کیوں ہیں اور بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنے ہوئے ہیں۔ جب لوگ مجھے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہزارے دراصل ایران کے ایجنٹ ہیں تو مجھے یہ سن کر اتنا ہی غصہ آتا ہے جتنا رحمن ملک کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ بلوچ انڈیا کے ایجنٹ ہیں اور بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو انڈیا سپورٹ کررہا ہے۔
جیسا کہ میں اوپر ذکر کیا ، ہماری رائے اور ہمارے سوالات آسمان سے نہیں آتے بلکہ وہ ہماری اسی سوچ و فکر کا مجوعہ ہوتے ہیں اور بیشتر اوقات ہماری رائے سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے جو کبھی کبھار خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ ہمارا ذہن بیورکریسی کی طرح ہے اور اس میں رہنے والی باتیں سرکاری فاعل کی طرح ہوتی ہیں یعنی اگر ہمارے ذہن میں کوئی بات ایک سرکاری فاعل کی طرح بیٹھ گئی تو وہ کئی سالوں تک ادھر ہی رہے گی۔ ذہن کے فاعل کو اگلے درجے تک لے جانے کے لئے لازمی ہے کہ اسے مطالعے ، مکالمے او ر ملاقاتوں کی ’’ رشوت‘‘ سے نواز جائے بصورت دیگر وہ فاعل ادھر ہی رہے گی اور دھول اور مٹی تلے دب جائے گی۔
ہمارا بطور سماج المیہ یہ ہے کہ ہم نے اکثر و بیشتر ایک دوسرے سے ملے بغیر اور ایک دوسرے کی رائے سنے بغیر ہی ایک دوسرے کے بارے میں اپنی رائے قائم کی ہوئی ہوتی ہےاور اپنے رائے کی تصدیق کرکے اس کی تصیح کرنے کی کوشش تلک نہیں کرتے؟ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ ہم اپنی تصیح کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں کوئی بات معلوم نہ تھی تو ہماری عزت خراب ہوجائے گی۔ اصل میں تو یہی سوچ آپ کی توئین کے لئے کافی ہے۔عمو ماً ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم نے گذرے کل کو جو بات کی ہوئی ہوتی ہے اس کے بارے میں چند دن کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر تھے اور جن شواہد اور دلائل کے بنیاد پر ہم نے اپنی رائے قائم کی تھی وہ درست نہیں تھی۔ عقلمند اپنی رائے میں تبدیلی لاتے ہیں اور نادان تکرار کرتے رہیں گے۔ انسان ہر روز نئی باتیں سیکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے ذہن کے دروازے کھلا چھوڑے اورنئی باتوں اور خیالات کو اپنے ذہن اور انا کا دشمن نہ سمجھے۔ ہمیں نئے خیالات نہیں بلکہ اپنے انا سے ڈرنا چائیے۔
جیسا کہ میں اوپر ذکر کیا ، ہماری رائے اور ہمارے سوالات آسمان سے نہیں آتے بلکہ وہ ہماری اسی سوچ و فکر کا مجوعہ ہوتے ہیں اور بیشتر اوقات ہماری رائے سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے جو کبھی کبھار خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ ہمارا ذہن بیورکریسی کی طرح ہے اور اس میں رہنے والی باتیں سرکاری فاعل کی طرح ہوتی ہیں یعنی اگر ہمارے ذہن میں کوئی بات ایک سرکاری فاعل کی طرح بیٹھ گئی تو وہ کئی سالوں تک ادھر ہی رہے گی۔ ذہن کے فاعل کو اگلے درجے تک لے جانے کے لئے لازمی ہے کہ اسے مطالعے ، مکالمے او ر ملاقاتوں کی ’’ رشوت‘‘ سے نواز جائے بصورت دیگر وہ فاعل ادھر ہی رہے گی اور دھول اور مٹی تلے دب جائے گی۔
ہمارا بطور سماج المیہ یہ ہے کہ ہم نے اکثر و بیشتر ایک دوسرے سے ملے بغیر اور ایک دوسرے کی رائے سنے بغیر ہی ایک دوسرے کے بارے میں اپنی رائے قائم کی ہوئی ہوتی ہےاور اپنے رائے کی تصدیق کرکے اس کی تصیح کرنے کی کوشش تلک نہیں کرتے؟ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ ہم اپنی تصیح کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں کوئی بات معلوم نہ تھی تو ہماری عزت خراب ہوجائے گی۔ اصل میں تو یہی سوچ آپ کی توئین کے لئے کافی ہے۔عمو ماً ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم نے گذرے کل کو جو بات کی ہوئی ہوتی ہے اس کے بارے میں چند دن کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر تھے اور جن شواہد اور دلائل کے بنیاد پر ہم نے اپنی رائے قائم کی تھی وہ درست نہیں تھی۔ عقلمند اپنی رائے میں تبدیلی لاتے ہیں اور نادان تکرار کرتے رہیں گے۔ انسان ہر روز نئی باتیں سیکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے ذہن کے دروازے کھلا چھوڑے اورنئی باتوں اور خیالات کو اپنے ذہن اور انا کا دشمن نہ سمجھے۔ ہمیں نئے خیالات نہیں بلکہ اپنے انا سے ڈرنا چائیے۔
اگر ہم ہزاروں کے ساتھ اظہارہمدردی نہیں کرسکتے اور ان کی سیاست سمجھنے کی زحمت نہیں کرسکتے تو کم از کم ان پر غلط الزامات تو نہ لگائیں۔ جس طرح قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ نواب رئیسانی اور نواب مگسی بلوچوں کی ترجمانی نہیں کرتے تو اسی طرح سے جو مٹھی بھر مذہبی عناصر کوئٹہ شہر میں فوج طلب کر رہے ہیں وہ ہزارہ قوم کی ترجمان نہیں ہیں۔ جس طرح بلوچ قوم پرستوں کو شکایت ہے کہ ان کی صفوں میں ایسے ’’ مفاد پرست‘‘ لوگ ہیں جو فوج کی خوشنودی کے لئے کام کر رہے ہیں تو ہزاروں میں بھی کچھ ایسے علما ہیں جو ایران اور پاکستانی خفیہ اداروں سے بیک وقت فوائد حاصل کر رہے ہیں لیکن ہمیں دونوں میں واضح طریقے سے فرق محسوس کرنا چائیے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں مذہبی عناصر طاقت کے سرچشمے کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں اور یہی ان کی سیاسی زندگی کا جواز بھی ہوتا ہے۔
پچھلے چند سالوں میں ہزاروں کو غیرمعمولی حالات سے نمٹنا پڑا ہے۔ یہ قوم اس کم سن بچے کی طرح ہے جو اپنے والد کی موت کی وجہ سے بہت جلد ہی عملی زندگی کے چیلنجز سے آشنا ہوجاتا ہے اور اپنے عمر کے دیگر بچوں کے مقابلے میں کئی سال پہلے ہی بالغ ہوجاتا ہے۔ جب باقی بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے ہیں یہ چھوٹا سے بچہ محنت مزدوری کررہا ہوتا ہے۔اسی طرح ہزاروں پر ہونے والی ناانصافی نے اس چھوٹی سی قوم پراس کے براشت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے۔ ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی بنیاد آج سے صرف دس سے قبل ڈالی گئی اور سیاسی تنظیمو ں کی تاریخ میں دس سال تو کچھ بھی نہیں ہے سال دو ہزار نو کو ایچ ڈی پی کی چئیرمین حسین علی یوسفی کو کوئٹہ میں ہلاک کیا گیا لیکن اس کے باوجود ایچ ڈی پی نے غیر معمولی سیاسی پختگی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس پارٹی نے ابھی تک لوٹوں اور اقتدار کے بھوکے لوگوں کو جنم نہیں دیا ہے۔
سیکولرو جمہوری ذہن رکھنے والے ہزارے بالکل اسی مخمصے کا شکار ہیں جس کا سامنا بلوچوں کو بھی ہے۔ جس طرح بلوچوں میں بہت سارے سیاست دان اسٹبلشمنٹ کے وفادار ہیں اور اپنی اقتدار کی خاطر بلوچوں کا قتل عام کرانے سے نہیں کتراتے بلکہ اسی طرح ہزاروں میں بھی شعیہ علما کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایچ ڈی پی کی جمہوری و سیکولر قیادت کو نظر انداز کریں اور ایران نوازعناصر کو ہزارہ قوم کا اصلی ترجمان ظاہر کریں۔یہ لمحہ فکریہ ہے۔ تاہم یہ ایچ ڈی پی کی قیادت خاص کر میرے محترم دوست چیئرمین عبدالخالق ہزارہ قابل تحسین ہیں کہ وہ بیک وقت کئ محاذوں پر لڑ رہے ہیں اور انھوں نے کل ہی کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں جماعت مجلس وحدت المسلمین کو تنبی کی ہے کہ وہ ہزارہ شہریوں کی لاشوں پر سیاست نہ کرے ۔ ایچ ڈی پی نے ایک ایسے وقت میں کوئٹہ میں فوج کی تعیناتی کی مخالفت کی ہے جب خود ان کی برادری میں پچھلے دو مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب چند مہینوں کے بعد ملک بھر میں انتخابات ہونے والے ہیں تو ایچ ڈی پی بھی الیکشن میں کامیاب ہونے کے لئے اپنے لوگوں کو مشتعل کرسکتی تھی لیکن پارٹی کی قیادت نے ایسی کوئی بھی بچگانہ اور غیر جمہوری حرکت نہیں کی جو کہ ایک مثبت اورذمہ دارانہ رویے کے عکاسی کرتا ہے۔
کوئٹہ میں فوج کی تعیناتی کے خلاف ہزارہ برادری کا موقف بہتریں طریقے سے ہزارہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر عصمت یاری نے ’’ تنقید‘‘ نامی جریدے میں یہ کہہ کر کیا ہے کہ اگر فوج کشی بلوچستان کے مسئلے کا حل ہوتے تو بلوچستان میں پانچ بار فوج کشی کے بعد صوبے کے تمام مسائل کو حل ہوجانا چائیے تھا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہزارہ قوم بلوچستان میں فوج طلب کر رہی ہے وہ دراصل ہزارہ سیاست کی باریک بینی اور اسے درپیش چیلنجز سے ناواقف ہیں یا وہ صرف سنی سنائی باتوں پر بھروسہ کر رہے ہیں ۔جہاں تک مجھے یاد ہے تو ایچ ڈی پی نے گورنر راج کے نفاذ کی بھی مخالفت کی تھی جب کہ بلوچ قوم پرستوں کا یہ حال تھا کہ حاصل خان بزنجو نے سینٹ کا بتایا کہ بلوچستان میں تو لوگ رئیسانی حکومت کی برطرفی پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ اور پشتون قوم پرست اور ملک کی دیگر بڑی جماعتیں معتدل و جمہوری سوچ رکھنے والی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ساتھ دیں اور اس کے ہاتھ مضبوط کریں نا کہ ان مذہنی عناصر کا جو شعیہ برداری میں ایران کی سیاست کو تقویت دے رہے ہیں اور مذہبی انتہا پسندی اور عدم رواداری کا پرچار کر رہے ہیں۔ ان تمام سیاسی قوتوں کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چائیے جو بلوچستان میں فوج کےسیاسی و انتظامی کردار کے خلاف ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ اور پشتون قوم پرست اور ملک کی دیگر بڑی جماعتیں معتدل و جمہوری سوچ رکھنے والی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ساتھ دیں اور اس کے ہاتھ مضبوط کریں نا کہ ان مذہنی عناصر کا جو شعیہ برداری میں ایران کی سیاست کو تقویت دے رہے ہیں اور مذہبی انتہا پسندی اور عدم رواداری کا پرچار کر رہے ہیں۔ ان تمام سیاسی قوتوں کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چائیے جو بلوچستان میں فوج کےسیاسی و انتظامی کردار کے خلاف ہیں۔

Yes dear I am agreed with you, and Baloch politics is such other phenomena and Hazar is an other, but for both nation military is not the solution
ReplyDeleteyour words are appreciable brother.
ReplyDeleteGhulam Murtaza Zehri
ReplyDeleteI am 100 percent agree with you sir ..