Sunday, February 17, 2013

ہزاروں پر حملے اور بلوچ قوم پرستوں کی بےحسی

تحریر: ملک سراج اکبر

ہفتہ کے روز کوئٹہ میں قیامت ِ صغریٰ برپا ہوا۔  اس کے ایک دن بعد اتوار کے دن کوئٹہ سے نکلنے والے بیشتر اخبارات کے صفحہ اول  نے ماتم کی چارد اُڑھ لی تھی۔  کوئٹہ کے اخبارات قابل داد ہیں کہ تمام خطرات اور دھمکیوں کے باوجود  سب نے اتنے بڑے سانحے کے مختلف پہلوں کا جائزہ لیا۔پہلے صفحے پر ہزارہ ٹاون پر ہونے والے حملے کی  خبربڑی شہ سرخی کی صورت میں نمایاں طور پر شائع ہوئی، واقعے کی تصاویرلگیں ، ہسپتال کی منظر کشی کی گئی ، سیاسی رہنماوں کے مذمتی بیانات شائع کئے گیے تھے۔ اس بات پر تو ہم سب کا اتفاق ہے کہ سیاست دانوں کے مذمتی بیانات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی لیکن اس سے بھی تو کم از کم  متاثرین کے دل کو تسلی تو ہوتی ہے کیوں کہ کسی کے ساتھ تعزیت کرنا سیاست سے بڑھ کر ایک  مثبت انسانی رویہ ہوتا ہے۔ لیکن اتوار کے اخبارات پڑھ کر مجھے  ایک بار پھر بلوچ قوم پرست رہنماوں سے اسی طرح مایوسی ہوئی جس طرح دس جنوری کو علمدار روڑ پر ہونے والے واقعے کے بعد بلوچ رہنماوں کے سردرویے سے ہوئی تھی۔ اتوار کے اخبارات میں آپ کو  نیشنل پارٹی کےصدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا ایک بیان نظر آئے گا جس میں انھیں صرف آنے والے انتخابات کی فکر پڑی ہوئی ہے اور موصوف نے دھمکی دی ہے کہ اگر انتخابات میں دھندلی ہوئی تو اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا ایک بیان صرف اس حوالے سے اخبارت میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے خضدار میں اپنی جماعت کے ایک اہم رہنما کے گھر پر پڑنے والے چھاپے کی مذمت کی ہے۔ اتوار کے روز حیربیار مری، مہران مری، براہمداغ بگٹی ، ڈاکٹر اللہ نذر ، کچکول علی ایڈو کیٹ یا ثنابلوچ کی طرف سے کوئی بیان نہیں چھپا ہے جس سے یہ تاثر ملے کہ بلوچ ہزارہ برادری کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔  یہ بلوچ سیاست کی نااہلی کی  واضح مثال ہے۔
 اس کے برعکس پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے نہ صرف پچھلے  مہینے ہونے والے دھماکے کی پر زور مذمت بلکہ اس حوالے سے شٹر ڈاون ہڑتال کی کال بھی دی۔جب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور تحریک انصا ف کے سربرہ عمران خان  کوئٹہ پہنچ گئے تھے تو تب کہیں سردار اختر مینگل کا بیان اخبارات میں نظر آیا۔ کاش ایساہوتا کہ سردار اختر مینگل  دبئی سے اسلام آباد سفر کرکے پاکستان کے سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونےکے بجائے علمدار روڑ پہنچ جاتے ۔ کاش عمران خان اور راجہ پرویز اشرف کے  پہنچنے سے پہلے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما  عبدالخالق ہزارہ کے دائیں طرف حاصل خان بزنجو ہوتے اور بائیں طرف ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی۔ کاش جب ہمارے ہزارہ بھائی اشک بار تھے تو اس وقت بی ایس او کے نوجوان ہزارہ قبرستان میں قبریں کھودنے میں مصروف ہوتے۔ کاش بلوچ سیاسی کارکناں  کفن دفن کا انتظام کررہے ہوتےاس لئے نہیں کہ ہماری ہزاروں کی ساتھ کوئی سیاسی اتحاد ہے بلکہ اس لئے کہ یہ ہماری بلوچ روایات ہیں۔ ہزارے ہماری سرزمین پر رہ رہے ہیں اور جو بلوچ رہنما آزادی سے لے کر خود مختاری کی بات کررہے ہیں وہ اپنے گھر میں ہونے والے اتنے بڑے سانحے پر  جب خواب خرگوش میں سو رہے ہوتے ہیں تو اس قیادت سے زیادہ خیر کی توقع نہیں رکھنی چائیے۔ 
کون کہتا ہے کہ لاشوں پر سیاست کرنا غلط ہے؟ کیا عمران خان اور راجہ پرویز اشرف نے لاشوں  پر سیاست نہیں کی؟ کیاانھوں نے کچھ غلط کیا؟ جی نہیں۔ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ اگر سیاست عبادت ہے اور دس جنوری کے سانحے کے بعد کسی سیاست دان نے سیاست کی تو انھوں اعلیٰ درجے کی سیاست کی جس پر وہ قابل تحسین ہیں۔ تاریخ جب لکھی جائے گی تو اس میں عمران خان اور راجہ پرویز اشرف کو یاد رکھا جائے گا ۔ محمود خان اچکزائی  بھی یاد کئے جائیں گے کیوں کہ ان کی جماعت نے شٹر ڈاون ہڑتال کی کا ل دی تھی۔ جب مستقبل میں کوئی لکھاری بیٹھ کر  ہزاروں کے خلاف ہونے والے حملوںکی تاریخ لکھے گا تو  اس کی کتاب  میں کسی بلوچ رہنما کا ذکر نہیں ہوگا جس کو ہزاروں کا غم خوار سمجھ کر تاریخ میں جگہ دی جائے۔ تاریخ میں صرف ان لوگوں کو جگہ ملتی ہے جو بروقت آگے بڑھ کر لیڈرشپ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 
یہ باتیں معنی نہیں رکھتی ہیں کہ بلوچوں کے ساتھ ہزاروں نے کس حد تک اظہار یک جہتی کی ہے اور  کس حد تک مشکل کے وقت میں بلوچوں کے ساتھ رہے ۔ بات صرف یہ ہے کہ بلوچستان کا مطلب ہے بلوچوں کی سرزمین اور بلوچ اس صوبے کی اکثریتی لوگ ہیں۔ بلوچ صوبے میں بڑے بھائی ہیں اور بڑے بھائی کی جہاں کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں تو وہاں اس سے کئی توقعات بھی وابستہ ہوتی ہیں۔ اگر بلوچستان بلوچوں کی سرزمین ہے تو بلوچ سیاسی قیادت صوبے میں ہونے والے کسی بھی واقعے سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔  بلوچوں کی اس کوتاہی پر چندماہ قبل  ہمارے محترم استاد میرمحمدعلی تالپر نے  بھی ڈیلی ٹائمز میں ایک اہم مضمون لکھا تھا اور اسی مسئلے کی طرف توجہ دلائی تھی کہ بلوچ قیادت کو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ صوبے میں بسنے والے تمام شہریوں کے لئے سوچنا چائیے۔ بلوچ سب کی قیادت کریں اور سب کا خیال کریں۔
 لشکرِ جھنگوئی کی کارروائیاں صرف ہزاروں کا مسئلہ نہیں ہیں ۔ لشکر کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہے جو صرف ہزارہ ٹاون اور علمدار روڑ پر آسکتی ہے۔ آج لشکر ہزاروں پر قہر گرارہی ہے تو کل ہمارے  بچے اور عورتیں اور گھریں محفوظ نہیں ہوں گے۔آج اگر شعیہ  (بقولِ لشکر)کافر ہے تو کل کو کلین شوڈ بلوچ قوم پرست بھی کافر قرارد دے کر لشکرکے ہاتھوں ماردیا جائے گا۔ لشکر ِ جھگوئی بلوچستان کا تحریک طالبا ن پاکستان ہے۔ جس طرح تحریک طالبان پاکستان  ترقی پسند سوچ رکھنے والوں کا دشمن ہے اسی طرح لشکرِ جھنگوئی بھی بلوچستان میں پرامن  شہریوں  بلکہ انسانیت کا دشمن ہے۔ اس کے بندوقوں کا اگلا ہدف بلوچ قوم پرست ہی ہوں گے۔ 
یہ کہنا تو آسان ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے نام نہاد جہادی عناصر کی حمایت کرررہی ہیں ۔ہمیں اندازہ ہے کہ بلوچ قوم پرست ایجنسیوں کو مذہبی قوتوں کی حمایت سے نہیں روک سکتے لیکن ایک سانحہ کے بعد اپنی ہمدردی کا بروقت اظہار تو کر سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر مالک کی ایسی انتخابی کامیابی کیا کام آئے گی جب وہ ہزاروں کے ساتھ چند منٹ بیٹھنے کے لئے وقت نہیں نکال سکتے؟  بلوچ قیادت اس حوالے سے لاتعلق کیوں ہے؟ جب عبدالخالق ہزارہ ہر موقع پر بلوچوں کے حقوق پر بلوچوں کے ساتھ ہیں تو ماتم کے وقت ان کے دائیں بائیں جانب بلوچ رہنما کیوں تین دن تک بیٹھ کر سوگ نہیں منا سکتے؟ یہ کیسی سیاست اور کیسی قوم پرستی ( یا قوم دوستی ) ہے؟ بلوچ قیادت کو اپنا اندازِ سیاست بدلنا ہوگا۔ بلوچوں کو اپنی سیاست صرف اپنے  حقوق  تک محدود نہیں کرنی چائیے بلکہ دوسری قوموں کے دل  بھی جیتے ہوں گے۔ بلوچستان ہم سب کا مشترکہ مسکن ہے۔ اگر بلوچستان میں بلوچ پر مظالم ہورہے ہیں تو ہزارہ بھی اسی قیامت سے گزر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر تو اقوام متحدہ کی مداخلت کا مطالبہ کریں اور خود اپنے ہے شہر میں مرنے والے ہزاروں کے گھر میں  جاکر تعزیت کرنے کی زحمت تک نہ کریں۔یہ ہماری کوتاہی ہے یا سیاسی عاقبت نا اندیشی ہے اس پر نظر ثانی کرنے فوری ضرورت ہے ۔

1 comment:

  1. یہ لشکر مشکر آئندہ بلوچوں کیلئے بھی دردسر بن جائیں، جنت کے شوقین اور کتنے مظلوموں کے خون بہائیں گے۔

    ReplyDelete