Tuesday, February 12, 2013

دس ہزار لوگ

تحریر: ملک سراج اکبر
سب سے پہلے تو میں آپ تمام دوستوں کا بے حد مشکور ہوں کہ آپ نے میرے بلاگ کو بے حد پسند کیا۔ پہلے ہفتے ہی میں دس ہزار سے زائد لوگوں نے میرے بلاگ کو وزٹ کیا جن میں پاکستان ، امریکا ، مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا کے اور کئی ممالک میں بسنے والے لوگ شامل ہیں۔ مثلاً چوں کہ آسٹریلیا میں ہزارہ قوم سےتعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد مقیم ہے تو’’ ایران بہادر‘‘ والی تحریر کو کئی ہزار لوگوں نے آسٹریلیا سے وزٹ کیا۔ مجھے انگریزی میں لکھتے  لکھتے دس سال تو ہو ہی گئے ہیں لیکن  سچ پوچھئے تو خود مجھے قطعا اندازہ نہیں تھا کہ اردو پڑھنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ مجھے یہ تو پتہ ہے کہ پاکستان میں انگریزی صحافت کی رسائی بمشکل دس فیصد لوگوں تک ہے اور اس میں بھی زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور دیہی علاقوںمیں رہنے والے لوگ زیادہ  اپنی خبریں تر اردو اخبارات یا ریڈیو کے زریعے حاصل کرتے ہیں۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال صرف پڑھے لکھے نوجوان ہی کرسکتے ہیں اور دور دراز کے علاقوں میں بسنے والے لوگ خبریں اور تبصرے پڑھنے کی خاطر انٹرنیٹ تھوڑی ہی استعمال کرتے ہیں۔  اب میری یہ غلط فہمی بڑی حد تک دور ہوگئی ہے۔سوشل میڈیا نے سونے پہ سہاگہ کا کام کردیا ہے۔ اب جو لوگ سیاست یا صحافت میں دلچسپی نہیں لیتے وہ بھی اپنے دوستوں کے مشورے کا احترام کرکے وہ تحاریر ضرورپڑھ لیتے ہیں جس پر کسی دوست نے محض ’’ مسٹ ریڈ‘‘ لکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا کا ہم لکھنے والوں پر یہ احسان ہے کہ اس کی مدد سے ہمارے پڑھنے والوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہوا ہے اور اب شاعروں کی طرح لوگوں کو کندھے سےپکڑ کر کسی چائنکی ہوٹل میں بیٹھا کر یہ گذارش کرنے کی ضرورت نہیں رہی کہ بھائی جان براہ کرم میرا تازہ کلام سن لیں۔  اب توشاعروں کے لئے بھی کام آسان ہوگیا ہے۔ بلکہ ہم سب کے لئے زندگی آسان ہوگئ ہے۔ پہلے لوگ اگر ایک دن اخبار مس کرتے تھے تو سمجھو وہ آپ کی تحریر ہی مس کرتے تھے لیکن اب آپ کی دس سال پرانی تحاریر بھی ایک کلک کے فاصلے پر  ہوتے ہیں۔ 
 جب سے میں نے اردو میں باقاعدگی سے لکھنا شروع کیا ہے تو میرے قارئین کی تعداد میں نو سو گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے۔  بلاگ کے بارے میں جب بھی کسی سے پوچھو کہ بلاگ ہو تا کیا ہے تو سب سے پہلا تعارف جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ بلاگ ڈائری کی ماند ہےاور میں بھی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بلاگ ڈائری سے صرف اس لحاظ سے تھوڑا مختلف ہے کہ لکھنے والا اپنے خیالات کو دوسروں کے ساتھ شئیر کرنے پر راضی ہوتا ہے۔ بلاگ اخباری کالمز کا نیم البدل نہیں ہوسکتا کیوں کہ ہم بلاگ میں اپنی مرضی کی باتیں لکھتے ہیں جب کہ اخباری کالم میں سب سے پہلا شرط یہ ہے کہ آپ کی تحریر جس اخبار میں شائع ہورہی ہے آپ اس کی پالیسی سے اتفاق کریں۔ دوسری بات جو مجھے بلاگ کے بارے میں پسند ہے وہ یہ کہ آپ اپنی تحریر مختصر رکھنے کے پابند نہیں ہوتے۔  میری تحریر’’ ہم سب بھگورڑے ہیں‘‘  پڑھ کر کچھ دوستوں نے کہا کہ تحریر تو اچھی تھی لیکن بہت طویل تھی۔ مجھے اس بات کا احسا س بالکل تھا  لیکن جو کوئی بلاگنگ کرتا ہے اس کی دو بنیادی خواہشتات ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی تحاریر بروقت، بلا ایڈٹنگ اور تسلسل کے ساتھ شائع ہواوردوسری بات یہ ہے کہ آپ کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیاہو جہاں آپ اپنے‘ نا کہ ایڈیٹر صاحب کی‘ دل کی بات کہہ سکیں ۔ میں اخباری پالیسی کی بات نہیں کررہا بلکہ اسپیس کی بات کررہا ہوں کہ آپ کی تحریر کتنی لمبی ہونی چائیے ۔ لہذہ اس بلاگ پر آپ کبھی مختصر تحاریر پڑھیں گے اور کبھی لمبی بلکہ بہت ہی لمبی تحاریر بھی پڑھیں  گے۔ شاید انہی ضروریات کی وجہ سے مجھے بلاگ شروع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اخباری صحافت کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں ۔آج سے دس سال پہلے جب ہم روزنامہ آساپ میں لکھتے تھے اور اخبار کے مدیراعلیٰ محترم جان محمد دشتی سے شکایت کرتے تھے کہ وہ ہماری تحاریر مختصر کرکے یا ا ن کی تصیح کرکے شائع  کرتے تھے تو  انھوں نے بڑی عمدہ بات کی کہ’’اچھا تو پھر تم لوگ اپنے لئے کوئی ایسے اخبار کا بندو بست کیوں نہیں کرتے جس کا سرے سے کوئی ایڈیٹر ہی نہ ہو۔‘‘  میں نے تربت میں صحافی پھلان خان کے گھر میں دئیے گئے افطار پارٹی پر اپنے محترم قلم کار ساتھی خالید ولید سیفی سےہنس کر کہا’’ بات تو بڑی وزنی کی ہے دشتی صاحب نے‘‘۔   جب پنجگور میں ملاّوں نے ماری اسٹوپ نامی این جی او  کے دفتر پر حملہ کیا اور اس واقعے کے خلاف میں نے ایک تحریر لکھی تو آساپ نےیہ  کہہ کر وہ تحریر واپس کردی  کہ ’’ این جی اوز کا کردار مشکوک ہے‘‘ اس دن سے سے میں نے آساپ میں لکھنا چھوڑ دیا  ( یاآپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے مجھے چھاپنا بند کردیا)۔  سال دوہزار پانچ میں کوئٹہ میں روزنامہ ’’بلوچستان ایکسپریس‘‘ میں لکھنا شروع کیا تو ان کے اردواخبار روزنامہ ’’آزادی ‘‘ میں وقتا فوقتاً ’’ گوشہ چشم ‘‘کے نام سے تحاریر لکھنے لگا لیکن چوں کہ میری دلچسپی انگریزی کی طرف تھی تو اردو ترک کرکے  مستقل انگریزی میں لکھنا شروع کردیا۔
اردو کالمز پڑھنے اور لکھنے کا شوق مجھے انیس سو نوے کی دہائی میں ہوا جب روزنامہ ’’ انتخاب‘‘ ہمارے گھر میں آنا شروع ہوا۔ روزنامہ ’’ جنگ‘‘ اور ’’مشرق‘‘ کے برعکس ’’ انتخاب‘‘ کے ادراتی صفحات پر بلوچستان کے بارے میں مضامین شائع ہوتے تھے اور مضامین کے جواب میں مزید مضامین لکھے جاتے اور یو ں یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری  رہا۔ وہ بلوچستان کی سیاست وصحافت کا ایک سنہرا دور تھا جب ہمارے معاشرے میں صحافی ، دانشور اور لکھاری کا ایک بہت ہی اہم کردار ہوا کرتا تھا۔ لوگ تنقید برداشت کرتے تھے  اور تنقید کا جواب تحریر سے دیتے تھے۔ ہم عمرمیں بہت چھوٹے ہوتے تھے لیکن جب بھی پڑھے لکھے لوگوں کے بیچ میں بیٹھنے کا موقع ملتا  انور ساجدی اور صورت خان مری  جیسے لوگوں کا تذکرہ ضرور ہوتاتھا۔ کچھ لوگ ان کی تحاریر کو پسند کرتے تھے اور باقی ماندہ لوگ ان کو ناپسندکرتے تھے لیکن میں عموماً سوچتا کہ یہ لوگ ہیں کون ؟ ان کی رائے اتنی اہمیت کیوںرکھتی ہے؟ کیوں کہ آپ جب چھوٹے ہوتے ہیں تو آپ کے نزدیک دنیا کے عالم و فاضل ترین لوگ آپ کے والد، چچا اور اسکول کے اساتذہ ہی ہوتے ہیں اور جب وہ کسی اور کی رائے  کو مستند سمجھیں اور اس پربحث و مباحثہ کرنے لگیں اور اسے اہمیت دیں تو اس عمر میں آپ کی شخصیت پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے اور آپ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ باکمال لوگ کون ہیں۔ جوں جوں میں جوان ہوتا گیا اور ان اخبارات میں کالمز پڑھنے لگا تو سینکڑوں کالمز میں سے ایک کالم اور اس کے جواب میں آنے والے ردعمل نے مجھے چونکا دیا اور مجھے پہلی مرتبہ اپنے معاشرے کے تلخ حقائق کا پتہ چل گیا اور احساس ہوا کہ ہم جس معاشر ے میں ہم  رہتے ہیں یہ قدیم زمانے کا یونان یا روم نہیں ہے۔ یہاں آپ کی رائے اور آپ کی تحریر آپ کے لئے بہت سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے۔جس نے میرے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے وہ ’’ انتخاب‘‘ کی ایڈیٹر نرگس بلوچ  کے حوالے سے تھا جب محترمہ’’ ماہکان دستونکی‘‘ کے نام سے کالمز لکھتی تھیں اورایک روز انھوں نے اپنے کالم میں (بی این  پی عوامی کے اس وقت کے سربراہ) مہیم خان کو طنزیہ طور پر مبہم خان ہی  کیا لکھ دیا کہ اسرار اللہ زہری نے اگلے دن ان کے دفتر میں غنڈے بھیج کر غلیظ گالیاں دیں ۔ اس دن مجھے یہ پڑھ کر شدید صدمہ ہوا کہ میں لکھاریوں کی طاقت اور عظمت کے بارے میں سوچ رہا تھا حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک قلم کار کی حثییت میں معاشرے کو باشعور کرنا بہت ہی مشکل کام ہے کیوں کہ جب تک قلم کار اور اس کے اردگرد رہنے والے لوگوں ذہنی حوالے سے ایک لیول پر نہ ہوں تب تک  ان میں ٹکراو  ہونا ایک فطری عمل ہے۔اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ہاں ایسے مرد  ہیں جو کسی عورت کو ننگا کرنے دینے کی دھمکی کو بہادری سمجھتے ہیں اورخواتین کوزندہ درگور کرنے کو اپنی روایت سمجھتے ہیں۔ جوں جوں میں عملی زندگی میں داخل ہوتا گیا مجھے بلوچستان کے معاشرے میں قلم کاروں کی مجبوریوں کا احساس ہونا شروع ہوا۔ اگرچہ ہم قلم کار سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے قلم کے زور سے اس دنیا کا رخ موڑسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ میر ی یہ تمام کنفیوژن ممتاز دانش ور ڈاکٹر شاہ محمدمری نے اپنے شاہ لیب میں اس وقت دور کی جب میں ’’ بلوچ حال ‘‘ کے اجرا کے تیسرے دن  ان کے پاس آشرباد لینے پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب کا کلینک کیاادھر تو آپ کو ایک چھت کے سائے تلے ایک مکمل اکیڈمی ملے گی۔آپ کو ان کی کلینک سے دوائیاں ملیں یا نہ ملیں چند عمدہ کتابیں تو ضرور ملیں گی۔ کتابیں توآپ کو  پرنس روڑ اور جناح روڑ پر  بھی ملیں گی۔ڈاکٹر صاحب کتاب فروش تھوڑی ہیں وہ تو علم و حکمت کے  ایک درخشان مکتب ہیں۔ وہ آپ کو ہر وقت مسکراتے ملیں گے۔  مہمانوں کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہیں ۔ اپنی کم سناتے ہیں اور آپ کی زیادہ تر سنیں گے ۔ جب وہ  سننے لگتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ  درجنوں کتابوں کے خالق اور بلوچستان کے عمدہ مورخ  نہیں بلکہ کالج  کے پہلے دن لیکچر سننے والا نیا طالب علم ہے۔وہ آپ کو اتنی عزت  و حوصلہ دیں گے کہ آپ کی گھبراہٹ اور جھجک ہی ختم ہوگی اور آپ ایک عالم کے سامنے لب کشائی کرنے کی جسارت کرسکیں گے۔ 
 میں نے پوچھا تو ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے کہ جو آپ اپنی کتابوں میں سرداروں کا مذاق اڑاتے ہیں کبھی آپ کو ڈر نہیں لگتا؟
میرےسوال پر تو وہ مسکرائے لیکن ان کے جواب پر ہم نے اتنا زوردار قہقہ لگایا کہ پاس بیٹھے ’’سنگت‘‘ رسالہ کمپوز کرنے والا نوجوان چونک پڑا۔ ( کیا آپ نے کوئی ایسا میڈیکل کلینک دیکھا ہے جس کے اندر بیک وقت ادبی رسالہ کمپوز ہو؟شاہ لیب کوئٹہ میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ ویل کم ٹو کوئٹہ)۔
انھوں نے جواب میں کہا’’ بیٹا سردار کو کیوں ڈر لگے گا؟  سردار میری کتابیں  تھوڑی پڑھتےہیں ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ لوگ بھی میر ی کتابیں  نہیں پڑھتے۔ سردار کو قلم کار سے ڈر نہیں لگتا ۔ اسے تو صرف اس شخص سے ڈر لگتا ہے جو بندوق اٹھا کر اس کے سامنے کھڑا ہوجا تاہے‘‘۔
آج ہمارا بلوچستان بہت ہی  بدل گیا ہے۔ بلوچستان میں صحافی اور دانش ور کی کوئی قدر باقی نہیں رہا۔ لکھاری ( جائز وجوہات کی بنا پر)لکھنے سے ڈرتے ہیں ۔ ( میرے لئے واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل پریس کلب کی عمارت  کے تیراہویں منزل پر بیٹھ کر یہ لکھنا تو بہت آسان ہے لیکن جو لوگ بلوچستان میں موجود ہیں انھیں اصل حالات کا پتہ ہے۔ تاہم  مجھے بھی ان بدلتے  حالات کا  بخوبی اندازہ ہے)۔ بلوچستان میں آج دانشور کی کوئی بات نہیں سنتا۔ بلوچستان سے علم و دانش کوچ کرچکا ہے۔ جس روزنامہ انتخاب  ( کے مضامین ) نے ہماری عادتیں بھگاڑ دیں اور ہمیں لکھنے والوں سے متاثر کرکے صحافی  بنے پر مجبور کیا آج اس ’’ انتخاب‘‘ کے صفحات پر آپ کو میر بالاچ کے قلم سے ’’’ افکار پریشان‘‘ پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ اب ’’سقوطِ بولان‘‘ کی طرز پر تحاریر نہیں لکھے جاتے۔ اب گھر گھر میں  مہر افلاک زیر بحث نہیں ہوتا۔ اب ماہکان دستونکی  کے نام نامے نہیں آتے۔اب منظور بلوچ کے ’’گدان‘‘ میں بیٹھنے کا موقع نہیں ملتا۔ اب امان اللہ گچکی  کے مضامین بحث و مباحثہ شروع نہیں کرتے۔ اب حکیم بلوچ ھانی و شہ مرید  کے زمانے کو اسلم رئیسانی کے دورِ حکومت سے تشبہ نہیں دیتے۔ اب ستا رسیلانی مچھ سے فکرانگیز تحاریر نہیں لکھتے ۔’’ انتخاب‘‘ کے ادارتی صفحہ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ملک ریاض سے لے کر  میمو گیٹ پر اداریے نظر آتے ہیں، فلسطین اور کوسو و پر مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں لیکن ’’ اداس بلوچستان ‘‘ پر  خالد  ولید سیفی  کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں اور نا ہی شکیل بلوچ کی زبانی ’’بلوچستان کی پکار  ‘‘سننے کو ملتی ہے۔  ’’ مظلوم بلوچستان ‘‘ پر ثنابلوچ کی دلائل سے بھرپور تحاریر اب صرف انگریزی کے اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ بلوچستان کے بگڑتے حالات نے بلوچستان کے قلم قبیلے کو اجاڑ دیا ہے۔ منظور عز ت کا اتا نہیں تو عابد میر کا پتہ نہیں۔ اب جو باقی رہ گیا ہے وہ گالی گلوچ والی قلم کاری ہے۔ قلم کاری و کالم نویسی کہاں ؟ ہمارے ہاں تو  فتوں کے فیکٹری لگ گئے ہیں۔ اب تو صرف لوگوں کے نام کُھلے خطوط لکھے جاتے ہیں۔ اب تو بلوچ قلم کار کے قلم کی نب سے ’’غدار‘‘، ’’ مخبر‘‘، ’’مصلحت پسند‘‘، ’’ایجنٹ‘‘،’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘، ’’دوست یا دشمن‘‘ کی سیاہی ٹپکتی ہے۔  اب تو صرف آپ کو فیس بک پر سلام صابر اور قاضی داد ریحان لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔  میر وماہر خود لکھتے ہیں اور خود ہی لوگوں کو ٹیگ کرتے ہیں۔  نوجوانو ں کو جب پڑھنے کے لئے اچھا لڑیچر دستیاب نہ ہو تو وہ رحمت بلوچ کی شتروگن سنہا کے ساتھ تصویر کو ’’ لائیک ‘‘ نہیں کریں گے تو اور کیا کریں؟جو لوگ رحمت بلوچ کی تصویر نہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ یقینا  گدھے پر بیٹھے ڈاکٹر مالک اور حاصل بزنجو کی فوٹو شاپ شدہ کسی تصویر پر فاضلانہ گالی لکھ رہے ہوتے ہیں ۔ ادھر جان بلیدی نیشنل پارٹی کو پڑنے والی تمام گالیوں سے لاتعلق اور بے فکر ہوکر نیشنل پارٹی کی تازہ ترین پریس ریلیز کی نوٹ شائع کررہےہوتے ہیں اور کوئٹہ کے روزناموں سے لے کر سالانموں کے رپورٹرز کو ٹیگ کرنا ہرگز نہیں بھولتے۔اور یوں زندگی کی گاڑی رواں دواں  ہوتی ہے۔ ہم قلمکار اپنی نئی نسل کو صحت مند لٹریچر دینے میں بالکل ناکام ہوگئے ہیں۔ 
ان حالات میں ہمارے سنجیدہ قلم کار دوستوں نے جان بچا کر خاموشی اختیار کرلی ہے تو کچھ نے گالی گلو چ کی صحافت سے کنارہ کشی اختیار کیا ہوا ہے۔ بلوچستان کی صحافتی نثر کو موت اس دن آئی جب  ’’آساپ ‘‘ اخبار کے مدیر  اعلیٰ جان محمد دشتی پر کوئٹہ میں  قاتلانہ حملہ ہوا ۔ اس حملے کے چند مہینے بعد ’’آساپ‘‘ اخبار بند ہوگیا ۔ ’’آساپ‘‘ نے بلوچستان کی صحافتی تاریخ کا رخ ہی موڈ دیا ۔ اپنی اشاعت کے ساتھ ہی تربت اور کوئٹہ سے بیک وقت نکلنے والے اس اخبار نے نئے لکھاریوں کی ایک نئی نسل پیدا کی۔ اس اخبار  نے بلوچستان کے کونے کونے سے نئے قلم کار دریافت کئے۔یہ بلوچستان کی تاریخ کا تا حال واحد اخبار تھا جس نے لکھنے والوں کو ان کی تحاریر کے عوض باقاعدہ معاوضہ دیا۔ بلوچستان کے ابھرتے ہوئے لکھنے والوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا گیا جہاں باقاعدگی سے ان کی تحاریر کے اصلاح کا اہتمام کیا جاتا تھا۔’’آساپ‘‘ بلاشبہ بلوچستان کے لکھاریوں کا سب سے بڑامکتب تھا۔ اس ادارے نے ہماری نئی نسل میں اعتماد پیدا کیا۔ آساپ نے لیڈرشپ نوجوانوں کے ہاتھوں میں دے دی اور ہمیں سوچنے پر مجبور کردیا کہ ایک کالم نویس ہونے کے لئے لازمی نہیں ہے کہ آپ کی عمر (مرحوم) ارشاد احمد حقانی  یا ہارون الرشید کے برابر ہو۔ اس اخبار نے عابد میر جیسے نو عمر کو اپنا ایڈیٹر بنا کر ہماری سوچ ہی بدل دی کہ ایڈیٹر بننے کے لئے آپ کو محمود شام جیسی بڑی عمر نہیں بلکہ عابد جیسی صلاحیتیں چائیں۔ عابد سچ ہی کہتے ہیں کہ جس کسی کو آساپ کا چسکا لگا ہے وہ پھر کسی اور اخبار کا نہ ہوسکتا۔
اس بلاگ پر آپ کوبکرے  کا ڈی این اے کثرت سے ملے گا۔ ارے بھئ بکرے کا ڈی این اے کیا ہوتا ہے؟ یہ تو بتا نا ہی بھول گیا کہ بکرے کا ڈی این اے کیا ہوتا ہے۔ بکرے کے ڈی این اے سے مراد بکرے کی طرح ’’ میں میں میں‘‘ کرنا ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ میراذاتی بلاگ ہے تو اس میں ، میں اپنے تجربات کے حوالے  بات کروں گا۔کبھی کسے ایونٹ کے بارے میں لکھوں گا تو کبھی کسی فلم کے بارے میں۔ کبھی میں نےیہ کیا تو کبھی میں نے وہ کہا۔ اگر کسی کو میر ی ڈائر ی میں کوئی بات پسند آجاتی ہے اور کسی کا بھلا ہوجاتا ہے تو یہ میری خوش قسمتی۔ یار ڈائری کا مقصد اور کیا ہوتا ہے؟ میری ڈائری میرے بارے ہی میں ہوگی ناں؟میرے ایک دوست فیس بک کے وال کے حوالے سے مذاقاً کہتے ہیں کہ ’’ یار میر وال ہے۔ میں پر پیشاب کروں یا لکھوں ’’ یہا ں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ میر ی مرضی۔ کیا  دنیا اس قدر عدم  برداشت کا شکار ہوگئی ہے کہ ہم اپنی دیوار کا فیصلہ بھی نہیں کرسکتےتھے؟‘‘۔میں چاہتا ہوں کہ اس بلاگ پر اپنے تجربات شئیر کروں لیکن میں سقراط ہوں اور نہ ہی لقمان ِ حکیم۔ جوبات آپ کو ناگوار گزرے اس کو درگزر کریں ۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے آپ کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چائیے۔کبھی خود پہ بھی ہنسا سیکھنا ہوگا۔ میں جب اپنی ڈائر ی لکھتا ہوں تو   کوشش ہوگی کہ وہ غیر اخباری زبان  میں ہو۔ کبھی کبھار ادبی چاشنی برقرار رکھنے کے لئے گندے  گندے الفاظ بھی زیر قلم آئیں گے۔میں منٹو،چغتائی یا عینی نہیں ہوںلیکن ان کی بے باک تحاریر نے مجھے بے حد مثاثر ضرور کیا ہے۔قارئین کی رائے بڑی اچھی بات ہوتی ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ ہر تحریر کے بعد کسی شخص پر ’’جواب شکوہ ‘‘لکھناواجب ہوجائے۔ میں چاہتاہوں کہ دوست اپنی ذہانت ، عقل اور  وقت  دوسرے  اچھے کاموں میں گزاریں ۔ہم انتاکشری نہیں کھیل رہے ۔ہر تحریر کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ سو فیصد درست ہو۔ میری رائے ایک فرد کی رائے ہےجو غلط بھی ہوسکتی ہے لیکن اچھے معاشرے اور اچھے قلم کار کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ نئے خیالات کو لے کر نئے بحث و مباحثے کو جنم دیتا ہے۔ جب میں نے حامد میر کی تحریر کا جواب دیا تھا تو میں  نے جان بوجھ کر کہا تھا کہ اس تحریر میں حامد میر ایک بہانہ ضرور  ہےلیکن  اس کا اصل مقصد اپنے لوگوں کو  دیگر اہم امور پر باشعور کرنا  تھا۔  
اس بلاگ کا مقصدبلوچستان کی اردو صحافت میں ایک لبرل پلیٹ فارم کر آغاز کرنا ہے۔ میں شاعر نہیں ہوں ۔ لہذہ میں ’’واہ واہ‘‘ کا شوقین نہیں ہوں۔ اس بلاگ پر آپ کو بہت ساری ایسی تحاریر نظر آئیں گی جن سےآپ سو فیصد اختلاف کریں گے اور  مجھے اس بات پر بڑی خوشی ہوگی  کیو ں کہ میں نہیں چاہتا کہ میر ی سوچ اکثریت کی طرح ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ میں منفرد  طریقے سے سوچوں ۔میں چاہتا ہوں کہ اپنے سماج کے ان موضوعات پر لکھوں جن کے بارے میں اکثریت کی سوچ روایتی ہے ۔
 میں نے پانچ سال تک پنجگور میں ’’ دی اوئیس اسکول ‘‘ میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا ۔ دوہزار چار میں کوئٹہ میں حصولِ تعلیم کے لئے جانے کے پیش نظر  پنجگورچھوڑنا پڑا لیکن اپنے پیچھے کئی ہزار طالبہ و طالبا ت بھی چھوڑ دئے۔  میں چاہتا ہوں کہ اپنے طالبہ و طالبات کے ساتھ ایک بار پھر رابطہ جوڑوں۔  لگتا ہے کہ کمبختوں کو میں نے جتنی انگریز ی پڑھائی تھی وہ سب بھول  گئے ہیں اور کوئی میری انگریزی تحاریر پڑھتا ہی نہیں ۔تو سوچا کہ وہ  گفتگو دو بارہ اردو میں شروع کروں۔  (یہ بات تو صرف میں مذاقاً کہہ رہا ہوں ۔ مجھے اپنے طلبہ پر بہت  فخر ہےکہ آج وہ میڈیکل کالجز اور لا کالجز میں زیر تعلیم ہیں۔ کچھ پی سی ایس اور سی ایس ایس کے امتحانات  میں امتیازی نمبروں کے ساتھ کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔ لگے رہو منا بھائی۔)۔ لیکن اس بلاگ کا  مرکز و محور بلوچستان کی سیاست ہوگی۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ بلاگ محض ایک ڈائری نہ رہے بلکہ مستقبل کے مورخین کو بلوچستان پر تحقیق  کرتے وقت اس بلاگ سے فائدہ ہو۔ لہذہ اس ان صفحا ت پر آپ کو ایک سے زیادہ مرتبہ لمبی تحاریر نظر آئیں گی تاکہ جہاں جہاں تاریخی حقائق و واقعات کی درستگی مقصود ہو وہاں کوتاہی نہ ہو۔ 
ایک مرتبہ پھر میں ان دس ہزار افراد کا بے حد ممنوں ہوں جھنوں نے دنیا کے کونے کونے سے وقت نکال کر اس بلاگ کو وزٹ کیا۔ میں آپ کا بے حد شکرگزار ہوں۔ 
زندگی کی ہر دعا آپ کے نام۔


4 comments:

  1. Today I was reading your post, I remember the ASAP, when I was a regular reader of that, yes I agreed our all writers are out of space, now we don’t have healthy material for reading
    Really dear we miss ASAP
    Allah Bless you dear

    Fazeel Baloch

    ReplyDelete
  2. بھاءی ملک سراج اکبر
    آپ کی یہ تحریر پڑھ کر مزا آگیا۔ مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ آپ بہترین انگریزی کے ساتھ ساتھ اس قدر عمدہ اردو بھی لکھ سکتے ہیں۔ اب آپ کا یہ بلاگ بلوچستان پہ میرا پسندیدہ بلاگ رہے گا۔ آپ بلوچستان کے صحافیوں اور لکھنے والوں کے نام اپنے بلاگ کے ذریعے مشتہر کر کے بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ اس طرح قارءین کو ان لوگوں کو گوگل کرنے میں آسانی ہوگی۔
    نیازمند
    سمندطور

    بعد از تحریر: آپ کے انٹرویو والی ویڈیو فوٹیج اب تک میرے پاس محفوظ ہے۔ اپنی کاہلی کی وجہ سے اس کی ایڈیٹنگ کا کام اب تک نہیں کر سکا ہوں۔

    ReplyDelete
  3. محترم سمنطور صاحب
    امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ کا بے حد شکریہ کے آپ نے میری تحریر پڑھی اوراپنی قیمتی رائے سے بھی آگاہ کیا۔ جی ہاں ، جیسا کہ میں نے اس تحریر میں بھی ذکرکیا تھا کہ اس بلاگ کا ایک بنیاد ی مقصد بلوچستان کو ایک لبرل پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے اور دنیا بھر میں بسنے والے لوگوں کو بلوچستان کے شاعروں، ادیبوں اور قلماروں کے بارے میں آگاہی دینا مقصود ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ آپ نے میرے بلاگ کو اپنے پسندیدہ بلاگ کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ یہ میرے لئے بڑی عزت اور حوصلہ کی بات ہے۔
    جہاں تک میرے انٹرویو کا تعلق ہے تو میں بھی اس بارے میں کئ دنوں سے سوش رہا تھا کہ آپ کو یاد دہانی کروں۔ پتہ نہیں انٹرویو آپ کے معیار پر پورا نہیں اترا یا کیا۔ لیکن جناب کی بڑی نوازش ہوگی اگر آپ ایڈ یٹ کرکے نیٹ پر اپ لوڈ کریں میرے خیال میں اس میں ہم نے کچھ اہم باتیں کیں۔
    رابطہ میں رئیے اور اپنی قیمتی رائے سے ضرور نوازئیے۔

    ReplyDelete