تحریر: ملک سراج اکبر
بہت سارے قارئین میری تحاریر پڑھ کر اپنی رائے مجھے ارسال کرتے ہیں۔ کاش کہ میں ہر ای میل اور تبصرے کابراہ راست جواب دے سکتا یا انھیں اس بلاگ میں زیر قلم لاتا۔ لیکن مجھے تمام تبصروں میں سے ایک قاری کی رائے بہت اہم لگی جس پر میں نے سوچا آج کا کالم لکھوں ۔
پچیس فروری کو ’’سرمچارگردی ‘‘ پڑھنے کے بعد موصوف نے مجھے ای میل کرکے بتایا کہ وہ میر ی چند باتوں سے اتفاق کرتے ہیں اور چند سے نہیں لیکن انھوں نے ایک بات ضرور نوٹ کی کہ میں نے ایک ہی کالم میں آزادی پسند بلوچ قوم پرستوں اور پارلیمانی سیاست میں یقین رکھنے والوں کو بیک وقت خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے جس پر ہم صحافی سرے سے سوچتے ہی نہیں ہیں لیکن جن جن سیاسی جماعتوں یا فریقوں کی آپس میں مخالفت ہوتی ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ صحافی بھی اپنے تعلقات محض ان لوگوں تک محدود رکھیں جو ان کی سیاسی و مذہبی سوچ سے اتفاق کرتے ہیں۔
ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک صحافی بیک وقت دونوں فریقین سے مل رہا ہے تو وہ یقیناً منافق ہوگا یا مخبر ۔ یہ سوچ سیاسی کم عقلی یا شعبہ ِ صحافت کی بنیادی ضروریات سے نا واقفیت کی وجہ سے ہے ۔یہ ایک اچھے صحافی کی خوبی ہی نہیں بلکہ پیشہ وارانہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ سب کے ساتھ کسی بھی تنازعہ کے تمام فریقین سے رابطہ رکھے اور ان سے اپنی خبر حاصل کرے۔حکومت اور سیاسی فریقین کو جاننا چائیے کہ اگر ہم ایک تنظیم کی کوریج کرتے ہیں یا کسی رہنما کے گھر میں پہنچ کر ان کی پریس کانفرنس کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ان کے مخالفین کی کورئج نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ صحافتی ادارے اپنی پالیسی اور ضروریات کے مطابق ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ انھیں کون سے خبر چھاپنی ہے یا کون سی خبر اہمیت نہیں رکھتی۔
میرے خیال میں ہمارے پیشے کی یہی سب سے اہم خوبی ہے کہ ہم ایک ہی دن میں ان لوگوں سے ملتے ہیں اور اان کے انٹرویوز کرتے ہیں جن کا ایک دوسرے سے باقاعدہ سماجی بائیکاٹ ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے ہیں ۔پتہ نہیں جس شعبے سے ہم وابستہ ہیں یہ اس کی خوبصورتی ہے یا جبر کہ ہمیں بیک وقت کسی بم دھماکے کی کورئج کرنی پڑتی ہے اور اسی لمحے لشکرِ جھنگوئی کےترجما ن کی کال بھی ٹیلی فون پرسننی پڑتی ہے۔ یقیناً یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے کہ جس صحافی نے ابھی چند لمحے قبل جائےوقوع پر سینکڑوں معصوم انسانوں کو تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھا لیکن اس کے باوجود اسے یکسوئی کے ساتھ اپنےذاتی جذبات پر قابو رکھ کر لشکرِ جھنگوئی کے ترجما ن کا بیان بھی لکھنا اور چھاپنا پڑتا ہے جب جو دیدہ دلیری سے اس طرح کی اور کارروائیوں کی دھمکی بھی دہتا ہے۔ اسی طرح یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے جب آپ بطورصحافی بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھی ہوئی روتی ہوئی ایک ایسی والدہ کا انٹرویو کرتے ہیں جس کا لخت جگر کئی سالوں سے لاپتہ ہے لیکن چند گھنٹوں کے بعد آپ کوئٹہ کے حالی روڑ پر قائم ایف سی کے ہیڈکوارٹر بھی پہنچ جاتے ہیں جہاںآئی جی صاحب کی پریس کانفرنس کی رپورٹنگ بھی کرنی ہوتی ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی شخص لاپتہ نہیں ہے ۔ جو جو غائب ہوئے ہیں وہ دراصل اپنی مرضی سے دبئی یا افغانستان چلے گئے ہیں۔
جس دن صحافی نے اپنے لئے مذہب، قومیت، رنگ اور نسل کا انتخاب کیا اس دن سے وہ اپنے پیشہ سے فارغ کیوں کہ وہ اپنے شعبہ سے انصاف نہیں کرسکے گا۔ کیوں کہ ہونا تو یہ چائیے کہ بطوراچھے مسلمان آ پ کو تحریک طالبان پاکستان اور لشکر ِ جھنگوئی کی کورئج نہیں کرنی چائیے اور اچھے بلوچ کو پاکستان فوج کی طرف سے بلوچستان کے دورافتادہ کسی علاقے میں لگائے گئے میڈیکل کیمپ کی خبر نہیں لکھنی چائیے۔ میں اس کو ایک بری بات نہیں سمجھتا اور ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چائیے کہ ہم صرف ایک گروہ کی دھمکی یا لالچ میں آکر رپورٹنگ نہ کریں۔
جن صاحب نے میری توجہ اس بات کی طرف دلائی کہ میں نے دونوں فریقین کو خوش کرنے کی کوشش کی تھی تو میں نے پوچھا کہ آپ کو نہیں لگتا کہ میرے تحریر کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ دونوں فریقین خوش ہوں۔ جب آپ بطور صحافی ایک تحریر لکھ رہے ہیں تو آپ کو چائیے کہ اسے بار بار پڑھیں اور ہر بار جب آپ پڑھ رہے ہوں تو اپنے آپ کو قاری کے ایک نئےروپ میں ڈالیں۔ مثلاً کبھی سوچیں کہ اگر آپ کی یہ تحریر وزیراعلیٰ پڑھ رہے ہوں توان کا کیا ردعمل ہوگا، اگر یہی تحریر حزب اختلاف کے رہنما پڑھ رہے ہوں تو وہ کیا سمجھیں گے اور اسی طرح جب آپ کی تحریر آپ کے صوبے، آپ کی قومیت یا آپ کے فرقے سے باہر کا قاری پڑھے گا توآپ اس کے علم میں کس حدتک اضافہ کررہے ہیں اور ان لوگوں کو آپ کیسے اپنی رائے سے متفق کریں گے جن کی سیاسی، مذہبی اور سماجی سوچ آپ کی سوچ سے یکسر مختلف ہے۔ اگر آپ یہ مشق کریں گے تو یقناً آپ کو اپنے پڑھنے والوں کے حلقے کو بڑھانے میں بڑی حد تک مدد مل سکے گی۔
آپ کی تحریر اور تجزیے میں اتنی جان ضرور ہونے چائیے کہ سب آپ کی تحریر پڑھیں ۔جب تک آپ بطورِ صحافی سب سے بات نہیں کرتے اور سب کے سیاسی خیالات کی صیح معنوں میں منظر کشی نہیں کریں گے تب تک آپ کی کوئی پیشہ وارانہ ساکھ نہیں ہوگی بلکہ آپ ایک ایسے حلقے تک محدود رئیں گے جو یا تو آپ کی ہربات سے اتفاق کرکے واہ واہ کریں یا تنقید برائے تنقید کریں گے۔ جب آپ کو ہر طرف سے داد ملے تو آپ کو جان لینا چائیے کہ جس طرح کی صحافت آپ کررہے ہیں اس میں کوئی مسئلہ ضرور ہے۔
مجھے صحافت سے اس لئے لگاو ہے کہ مجھے اس شعبے میں رہ کر ہر روز نئی نئی چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں اور مختلف خیالات سننے کا موقع ملا۔ پچھلے مہینے جب ادھر امریکا میں صدر اوبا نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو صبح ڈاکٹر اللہ نذر سے آدھے گھنٹے تک فون پر بات ہوئی ۔ اس کے بعد ایک گھنٹے تک بی این پی کے رہنما ثنا اللہ بلوچ سے بات ہوئی اور پھر شام کو نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر اسحاق سے آنے والے انتخابات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔
ان تین افراد یا ان کی جماعتیں شاید ہی کبھی کسی بات پر متفق ہوںاور وہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں لیکن بطورِ صحافی میں خود کو اس حوالے سے خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ ہرقسم کی سیاسی رائے رکھنے والے رہنماآج بھی احترام کرتے ہیں اور بلا جھجک اپنی رائے دیتے ہیں۔ صحافیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سب کے ساتھ بات کریں لیکن اصل جھگڑا اس وقت شروع ہوجاتا ہے جب اخبار چھپ کر مارکیٹ میں آجاتا ہے یا خبر ٹی وی یا ریڈیو پر نشر ہوتی ہے۔ پھرحکومت اور سیاسی جماعتوں کا صحافیوں کے ساتھ اس بات پر تکرار ہوتی ہے کہ صفحہ اول پر ان کی خبر اور تصویر اپنی جگہ پر لیکن ان کے مخالفین کی خبر یا تصویر کیوں لگی ہے؟ وہ چاہتے ہیں کہ صحافی ان کی پسند اور نا پسند کے بالکل اسی طرح تابع ہوں جس طرح ان کے اپنے سیاسی کارکن ہوتے ہیں جو کہ ایک اچھی خواہش ضرور ہے لیکن حقیقت میں ممکن نہیں ہے۔
حکومت اور سیاست دان اپنے مخالفین کی کوریج روکنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے؟ جن دنوں میں کوئٹہ میں بطورِ صحافی کام کرتا تھا تو مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی کہ جس دن پونم یا آے آر ڈی جیسی حزب اختلاف کی سیاسی اتحاد جلسہ کرتی تھی تو حکومت ِ بلوچستان اس روز تمام بڑے اخبارات کو فل فرنٹ پیچ سرکاری اشتہار دیتی تاکہ اگلے روز جلسے کی کوریج فرنٹ پیچ پر نہ آئے۔ اسی طرح جب مکران میں سیلاب آئے تو بلوچستان میں قائد حزب اختلاف کچکول علی ایڈوکیٹ نے اپنے چیمبر میں پریس کانفرنس کی لیکن اسے سبوتاژ کرنے کی خاطر گورنر اویس احمد غنی نے بھی اسی دن اور اسی وقت ایمرجنسی پریس کانفرنس کا اعلان کیا۔ پنجگوری ہونے کے ناطے نہیں بلکہ میں ایمانداری سے کہہ رہا ہوں کہ بلوچ قوم پرستوں میں اگر صیح معنوں میں تاریخ اور نیشنلزم کے پڑھنے والے چند لوگ ہیں تو ان میں کچکول کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ( جب پڑھے لکھے بلوچوں کی بات آجائے مرحوم حبیب جالب کیسے ذہن میں نہیں آئیں گے؟)۔ ہمیں تو حاشے کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی اور کچکول کا یہ عالم تھا کہ ایک روز ہمیں اسلام آباد میں مارکیٹ سے ہوٹل آتے ہوئےجب ملے اور انھوں نے اپنی خریدی ہوئی کتابیں دیکھائیں تو اس میں نصف درجن کتابیں تو اردو حاشیے کے ساتھ صرف شیکسپئر کی تھیں۔ جی تو بات ہورہی تھی کچکول کی پریس کانفرنس کی۔ تو جب انھیں پتہ چلا کہ گورنر نے بھی اسی وقت پریس کانفرنس کا ل کی ہے تو انھوں نے بلوچستان اسمبلی کے اسٹاف کو تلقین کیاکہ صحافیوں کے لئے جلد از جلد چائے اور بسکٹ کا اہتمام بھی کیا جائے لیکن اس کے باوجود جب صحافیوں نے جانا شروع کیا تو کچکول نے جل کر بی بی سی کے صحافی کے نمائندے سے کہا ’’ اڑے عزیز اللہ ان چاہوں کو کون پیے گا؟‘‘ ۔ صحافیوں نے یک زبان ہو کر کہا ’’ واجہ یہ چاہوں کیا ہوتا ہے؟ ‘‘ ۔صحافی قہقہ مار کر دوسری پریس کانفرنس میں روانہ ہوئے۔ وہ بڑے اچھے دن تھے جب صحافی بلوچستان میں بڑی آزادی سے کام کرتے تھے لیکن اب صحافیوں کو حکومت اور حکومت مخالف زوروں سے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ یہ ہمارے صحافیوں کے لئے ایک مشکل کا وقت ہے لیکن ان حالات کے باوجود بلوچستان کے صحافی بڑی بہادری سے کام کررہے ہیں اور امید ہے کہ ہمارے اس پیشہ میں مستقل مزاج اور نڈر صحافی آتے رہیں گے۔ یہ ایک کھٹن پیشہ بن گیا ہے لیکن ہم میں سے بیشتر صحافیوں نے اپنی مرضی سے اس پرخطر پیشے کا انتخاب کیا۔آج کے کالم کا خاتمہ ایک ایسے واقعے پر کروں گا جسے دیکھ کر مجھے پکا یقین ہوا کہ صحافت پر دباو کتنارہے، حکومت اسے خریدنے کی کوشش کرے اور چند صحافی اس شعبے کو اپنے ذاتی مفادات و شوق کے لئے کیوں نہ استعمال کریں لیکن ایک اس میں آخر تک ایک بندہ ایساباقی ضرور رہے گا جو اس پیشے کی لاج رکھے گا۔
یہ اس دن کی بات ہے جب جام یوسف کی حکومت نے بجٹ والے دن بجٹ ڈاکومنٹ بر وقت تقسیم نہ کرکے ہم صحافیوں کے نازک انا کو ٹھیس پہنچایا۔ بجٹ کارروائی کے شروع ہوتے ہی تمام صحافیوں نے واک آوٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پریس گیلری بالکل خالی پڑ گئی بس ایک صحافی ادھر بیٹھا رہا اور اسمبلی کی کارروائی سنتا رہا اور اپنی خبر لکھتا گیا۔ ڈان اخبار سے منسلک اس صحافی امان اللہ کاسی سے میں پوچھا کہ وہ کیوں بیٹھے رہے، مجھے ان کے الفاظ لفظ بہ لفظ تو یاد نہیں لیکن انھوں نے جو بات کی اس کاسبق آموز نچوڑ یہ تھا ’’ بیٹا صحافی کا کام خبر لکھنا ہوتا ہےاور یہ ہمارا کام ہے ۔ ہمارا کام خبر حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس سے بھاگنا‘‘۔



.jpg)



