Wednesday, February 27, 2013

صحافی منافق

تحریر: ملک سراج اکبر 

بہت سارے قارئین میری تحاریر پڑھ کر اپنی رائے مجھے ارسال کرتے ہیں۔ کاش کہ میں ہر ای میل اور تبصرے کابراہ راست جواب دے سکتا یا انھیں اس بلاگ میں زیر قلم لاتا۔ لیکن مجھے تمام تبصروں میں سے ایک قاری کی رائے بہت اہم لگی جس پر میں نے سوچا آج کا کالم لکھوں ۔
پچیس فروری کو ’’سرمچارگردی ‘‘ پڑھنے کے بعد موصوف نے  مجھے ای میل کرکے بتایا  کہ وہ میر ی چند باتوں سے اتفاق کرتے ہیں اور چند سے نہیں لیکن انھوں نے ایک بات ضرور نوٹ کی کہ میں نے ایک ہی کالم میں آزادی پسند بلوچ قوم پرستوں اور پارلیمانی سیاست میں یقین رکھنے والوں کو بیک وقت خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے جس پر ہم صحافی سرے سے سوچتے ہی نہیں ہیں لیکن جن جن سیاسی جماعتوں یا فریقوں کی آپس میں مخالفت ہوتی ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ صحافی بھی اپنے تعلقات محض ان لوگوں تک محدود رکھیں جو ان کی سیاسی و مذہبی سوچ سے اتفاق کرتے ہیں۔
ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک صحافی بیک وقت دونوں فریقین سے مل رہا ہے تو وہ یقیناً منافق ہوگا یا مخبر ۔ یہ سوچ سیاسی کم عقلی یا شعبہ ِ صحافت کی بنیادی ضروریات سے نا واقفیت کی وجہ سے ہے ۔یہ ایک اچھے صحافی کی خوبی ہی نہیں بلکہ پیشہ وارانہ ذمہ داری  بھی ہے کہ وہ سب کے ساتھ کسی بھی تنازعہ کے تمام فریقین سے رابطہ رکھے اور ان سے اپنی خبر حاصل کرے۔حکومت اور سیاسی فریقین کو جاننا چائیے کہ اگر ہم ایک تنظیم کی کوریج کرتے ہیں یا کسی رہنما کے گھر میں پہنچ کر ان کی پریس کانفرنس کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ان کے مخالفین کی کورئج نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ صحافتی ادارے اپنی پالیسی اور ضروریات کے مطابق ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ انھیں کون سے خبر چھاپنی ہے یا کون سی خبر اہمیت نہیں رکھتی۔ 
میرے خیال میں ہمارے پیشے کی یہی سب سے اہم خوبی ہے کہ ہم ایک ہی دن میں ان لوگوں سے ملتے ہیں اور اان کے انٹرویوز کرتے ہیں جن کا ایک دوسرے سے باقاعدہ سماجی بائیکاٹ ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے ہیں ۔پتہ نہیں جس شعبے سے ہم وابستہ ہیں یہ اس کی خوبصورتی ہے یا جبر کہ ہمیں بیک وقت کسی بم دھماکے کی کورئج کرنی پڑتی ہے اور اسی لمحے لشکرِ جھنگوئی کےترجما ن کی کال بھی ٹیلی فون پرسننی پڑتی ہے۔ یقیناً یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے کہ جس صحافی نے  ابھی چند لمحے قبل جائےوقوع پر سینکڑوں معصوم انسانوں کو تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھا لیکن اس کے باوجود اسے یکسوئی کے ساتھ اپنےذاتی جذبات پر قابو رکھ کر لشکرِ جھنگوئی کے ترجما ن کا بیان بھی لکھنا اور چھاپنا پڑتا ہے جب جو دیدہ دلیری سے اس طرح کی اور کارروائیوں کی دھمکی بھی دہتا ہے۔ اسی طرح یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے جب آپ بطورصحافی بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھی ہوئی روتی ہوئی ایک ایسی والدہ کا انٹرویو کرتے ہیں جس کا لخت جگر کئی سالوں سے لاپتہ ہے لیکن چند گھنٹوں کے بعد آپ کوئٹہ کے حالی روڑ پر قائم ایف سی کے ہیڈکوارٹر بھی  پہنچ جاتے ہیں جہاںآئی جی صاحب کی پریس کانفرنس کی رپورٹنگ بھی کرنی ہوتی ہے  اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی شخص لاپتہ نہیں ہے ۔ جو جو غائب ہوئے ہیں وہ دراصل اپنی مرضی سے دبئی یا افغانستان چلے گئے ہیں۔ 
جس دن صحافی نے اپنے لئے مذہب، قومیت، رنگ اور نسل کا انتخاب کیا اس دن سے وہ اپنے پیشہ سے فارغ کیوں کہ وہ اپنے شعبہ سے انصاف نہیں کرسکے گا۔ کیوں کہ ہونا تو یہ چائیے کہ بطوراچھے مسلمان آ پ کو تحریک طالبان پاکستان اور لشکر ِ جھنگوئی کی کورئج نہیں کرنی چائیے اور اچھے بلوچ کو پاکستان فوج کی طرف سے  بلوچستان کے دورافتادہ کسی علاقے میں لگائے گئے میڈیکل کیمپ کی خبر نہیں لکھنی چائیے۔ میں اس کو ایک بری بات نہیں سمجھتا اور ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چائیے کہ ہم صرف ایک گروہ کی دھمکی یا لالچ میں آکر رپورٹنگ نہ کریں۔ 
 جن صاحب نے  میری توجہ اس بات کی طرف دلائی کہ میں نے دونوں فریقین کو خوش کرنے کی کوشش کی تھی تو میں نے پوچھا کہ آپ کو نہیں لگتا کہ میرے تحریر کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ دونوں فریقین خوش ہوں۔ جب آپ بطور صحافی ایک تحریر لکھ رہے ہیں تو آپ کو چائیے کہ اسے بار بار پڑھیں اور ہر بار جب آپ پڑھ رہے ہوں تو اپنے آپ کو قاری کے ایک نئےروپ میں ڈالیں۔ مثلاً کبھی سوچیں کہ اگر آپ کی یہ تحریر وزیراعلیٰ پڑھ رہے ہوں توان کا کیا ردعمل ہوگا، اگر یہی تحریر حزب اختلاف کے رہنما پڑھ رہے ہوں تو وہ کیا سمجھیں گے اور اسی طرح جب آپ کی تحریر آپ کے صوبے، آپ کی قومیت یا آپ کے فرقے سے باہر کا قاری پڑھے گا توآپ اس کے علم میں کس حدتک اضافہ کررہے ہیں اور ان لوگوں کو آپ کیسے اپنی رائے سے متفق کریں گے جن کی سیاسی، مذہبی اور سماجی سوچ آپ کی سوچ سے یکسر مختلف ہے۔ اگر آپ یہ مشق کریں گے تو یقناً آپ کو اپنے پڑھنے والوں کے حلقے کو بڑھانے میں بڑی حد تک مدد مل سکے گی۔ 
آپ کی تحریر اور تجزیے میں اتنی جان ضرور ہونے چائیے کہ سب آپ کی تحریر پڑھیں ۔جب تک آپ بطورِ صحافی سب سے بات نہیں کرتے اور سب کے سیاسی خیالات کی صیح معنوں میں منظر کشی نہیں کریں گے تب تک آپ کی  کوئی پیشہ وارانہ ساکھ نہیں ہوگی بلکہ آپ ایک ایسے حلقے تک محدود رئیں گے جو یا تو آپ کی ہربات سے اتفاق کرکے واہ واہ کریں یا تنقید برائے تنقید کریں گے۔ جب آپ کو ہر طرف سے داد ملے تو آپ کو جان لینا چائیے کہ جس طرح کی صحافت آپ کررہے ہیں اس میں کوئی مسئلہ ضرور ہے۔
مجھے صحافت سے اس لئے لگاو ہے کہ مجھے اس شعبے میں رہ کر ہر روز نئی نئی چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں اور مختلف خیالات سننے کا موقع ملا۔ پچھلے مہینے جب ادھر امریکا میں صدر اوبا نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو صبح ڈاکٹر اللہ نذر سے آدھے گھنٹے تک فون پر بات ہوئی ۔ اس کے بعد ایک گھنٹے تک بی این پی کے رہنما ثنا اللہ بلوچ سے  بات ہوئی اور پھر شام کو نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر اسحاق سے آنے والے انتخابات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔
 ان تین افراد یا ان کی جماعتیں شاید ہی کبھی کسی بات پر متفق ہوںاور وہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں لیکن بطورِ صحافی میں خود کو اس حوالے سے خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ ہرقسم کی سیاسی رائے رکھنے والے رہنماآج بھی احترام کرتے ہیں اور بلا جھجک اپنی رائے دیتے ہیں۔ صحافیوں کی کوشش ہوتی ہے  کہ  وہ سب کے ساتھ بات کریں لیکن اصل جھگڑا اس وقت شروع ہوجاتا ہے جب اخبار چھپ کر مارکیٹ میں آجاتا ہے یا خبر ٹی وی یا ریڈیو پر نشر ہوتی ہے۔ پھرحکومت اور سیاسی جماعتوں کا صحافیوں کے ساتھ اس بات پر تکرار ہوتی ہے کہ  صفحہ اول پر ان کی خبر اور تصویر اپنی جگہ پر لیکن ان کے مخالفین کی خبر یا تصویر کیوں لگی ہے؟ وہ چاہتے ہیں کہ صحافی ان کی پسند اور نا پسند کے بالکل اسی طرح تابع ہوں جس طرح ان کے اپنے سیاسی کارکن ہوتے ہیں جو کہ  ایک اچھی خواہش ضرور ہے لیکن حقیقت میں ممکن نہیں ہے۔  
حکومت اور سیاست دان اپنے مخالفین کی کوریج روکنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے؟ جن دنوں میں کوئٹہ میں بطورِ صحافی کام کرتا تھا تو مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی کہ جس دن  پونم یا آے آر ڈی جیسی حزب اختلاف کی  سیاسی اتحاد جلسہ کرتی تھی تو حکومت ِ بلوچستان اس روز تمام بڑے اخبارات کو فل فرنٹ پیچ سرکاری اشتہار دیتی تاکہ اگلے روز جلسے کی کوریج فرنٹ پیچ پر نہ آئے۔ اسی طرح جب مکران میں سیلاب آئے تو بلوچستان میں قائد حزب اختلاف کچکول علی ایڈوکیٹ نے اپنے چیمبر میں پریس کانفرنس کی لیکن اسے سبوتاژ کرنے کی خاطر گورنر اویس احمد غنی نے بھی اسی دن اور اسی وقت ایمرجنسی پریس کانفرنس کا اعلان کیا۔ پنجگوری  ہونے کے ناطے نہیں بلکہ میں ایمانداری سے کہہ رہا ہوں کہ بلوچ قوم پرستوں میں اگر صیح معنوں میں تاریخ اور نیشنلزم کے پڑھنے والے چند لوگ ہیں تو ان میں کچکول کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ( جب  پڑھے لکھے بلوچوں کی بات آجائے مرحوم حبیب جالب  کیسے  ذہن میں نہیں آئیں گے؟)۔ ہمیں تو حاشے کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی اور کچکول کا یہ عالم تھا کہ ایک روز ہمیں اسلام آباد میں مارکیٹ سے ہوٹل آتے ہوئےجب ملے اور انھوں نے اپنی خریدی ہوئی کتابیں دیکھائیں تو اس میں نصف درجن کتابیں  تو اردو حاشیے کے ساتھ صرف شیکسپئر کی تھیں۔ جی تو بات ہورہی تھی کچکول کی پریس کانفرنس کی۔ تو جب انھیں پتہ چلا کہ گورنر نے بھی اسی وقت پریس کانفرنس کا ل کی ہے تو انھوں نے بلوچستان اسمبلی کے اسٹاف کو تلقین کیاکہ صحافیوں کے لئے جلد از جلد چائے اور بسکٹ کا اہتمام بھی کیا جائے لیکن اس کے باوجود جب صحافیوں نے جانا شروع کیا تو کچکول نے جل کر بی بی سی کے صحافی کے نمائندے سے کہا ’’ اڑے عزیز اللہ ان چاہوں کو کون پیے گا؟‘‘ ۔ صحافیوں نے یک زبان ہو کر کہا ’’ واجہ یہ چاہوں کیا ہوتا ہے؟ ‘‘ ۔صحافی قہقہ مار کر دوسری پریس   کانفرنس میں روانہ ہوئے۔  وہ بڑے اچھے دن تھے جب صحافی بلوچستان میں بڑی آزادی سے کام کرتے تھے لیکن اب صحافیوں کو حکومت  اور حکومت مخالف زوروں سے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ یہ ہمارے صحافیوں کے لئے ایک مشکل کا وقت ہے لیکن ان حالات کے باوجود بلوچستان کے صحافی بڑی بہادری سے کام کررہے ہیں اور امید ہے کہ ہمارے اس پیشہ میں مستقل مزاج اور نڈر صحافی آتے رہیں گے۔ یہ ایک کھٹن پیشہ بن گیا ہے لیکن ہم میں سے بیشتر صحافیوں نے اپنی مرضی سے اس پرخطر پیشے کا انتخاب کیا۔آج کے کالم کا خاتمہ ایک ایسے واقعے پر کروں گا جسے دیکھ کر مجھے پکا یقین ہوا کہ صحافت پر دباو کتنارہے، حکومت اسے خریدنے کی  کوشش کرے اور چند صحافی اس شعبے کو اپنے ذاتی مفادات و شوق کے لئے کیوں نہ استعمال کریں لیکن ایک اس میں آخر تک ایک بندہ  ایساباقی ضرور رہے گا جو اس پیشے کی لاج رکھے گا۔ 
 یہ اس دن کی بات ہے جب جام یوسف کی حکومت نے بجٹ والے دن  بجٹ ڈاکومنٹ بر وقت تقسیم نہ کرکے  ہم صحافیوں کے نازک انا کو ٹھیس پہنچایا۔ بجٹ  کارروائی کے شروع ہوتے ہی تمام صحافیوں نے واک آوٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پریس گیلری بالکل خالی پڑ گئی  بس ایک صحافی ادھر بیٹھا رہا اور اسمبلی کی کارروائی سنتا رہا اور اپنی خبر لکھتا گیا۔ ڈان اخبار سے منسلک اس صحافی امان اللہ کاسی سے میں پوچھا کہ وہ کیوں بیٹھے رہے، مجھے ان کے الفاظ لفظ بہ لفظ تو یاد نہیں لیکن انھوں نے جو بات کی اس کاسبق آموز نچوڑ یہ تھا ’’ بیٹا صحافی کا کام خبر لکھنا ہوتا ہےاور یہ ہمارا کام ہے ۔ ہمارا کام خبر حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس سے بھاگنا‘‘۔ 

Sunday, February 24, 2013

جب اختر لوٹے گا

تحریر: ملک سراج اکبر

باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور صوبے کی سب سے بڑی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی( بی این پی)  کے سربراہ سردار اختر مینگل مارچ کے پہلے ہفتے میں وطن واپس جانے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کی جماعت نے باقاعدہ طور پر یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ وہ مئی میں متوقع عام انتخابات میں حصہ لیں گے لیکن ذرائع کا کہنا ہے بی این پی نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اب صرف باضابطہ طور پر اس فیصلے کا اعلان کرنا باقی ہے۔ پچھلے دنوں کوئٹہ میں پیش آنے والے بم دھماکے کے بعدسردار اختر مینگل نے کہا تھا کہ بگڑتے ہوئے حالات  کے پیش نظر بلوچستان میں  پرامن انتخابات کا انعقاد حکومت کے لئے ایک چیلنج ہوگا۔ 
بلوچستان میں آئندہ انتخابات کی کامیابی اور سیاسی قبولیت کا دارو مدار بی این پی کی انتخابات میں شمولیت پرہے۔ اگر بی این پی انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو پھر کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ بلوچستان میں قوم پرستوں نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ صوبے میں جو حکومت قائم ہوئی ہے وہ عوامی امنگوں کا ترجمان نہیں ہے۔ سال دوہزار آٹھ میں جب بی این پی، نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا تو اگلے پانچ سالوں تک نواب رئیسانی کی حکومت کو یہ طعنے لگتے رہے کہ یہ حکومت تو صرف اس لئے معرض وجود میں آئی کیوں کہ بلوچستان کی حقیقی سیاسی جماعتوں نے تو انتخابات کا بائیکاٹ کیاتھا اور ایسے لوگ اسمبلیوں میں آئے جن کی کوئی سیاسی ساکھ نہیں ہے۔
پچھلے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں میں سے نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے حوالے سے تو یہ بات پکی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گی لیکن بی این پی ابھی تک واضح فیصلہ نہیں کرسکی ہےاس کی دو بنیاد ی وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خود بی این پی کو پتہ نہیں کہ اسٹبلشمنٹ انھیں بلوچستان کی سیاست میں کس حد تک برداشت کرےگی۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں جب سردار اختر مینگل نے حکومتی پالیسوں کے خلاف گوادر سے کوئٹہ تک ’’لشکرِ بلوچستان‘‘ کے نام سے ایک لانگ مارچ کا اعلان کیا تو مشرف نےیہ کہہ کر مینگل کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے کہ ’’اس ملک میں صرف ایک لشکر ہے اور وہ ہے پاکستان آرمی۔ اس کے علاوہ  ہمیں کوئی لشکرقبول نہیں ہے۔‘‘ سردار مینگل ایک سال تک زیر حراست رہےاور انھیں اس وقت رہا کیا گیا جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بلوچستان میں ’’ عام معافی اور مفاہمت‘‘ کی پالیسی لے کر اقتدار میں آئی لیکن پی پی پی کے دور حکومت میں مینگل جیسے قوم پرست رہنماوں کے لئے حکومت تو کُجا خود سیاست کے دروازے بند کردئیے گئے اور یوں ان کے اپنے آبائی علاقے خضدار میں ان کے قبائلی مخالفین کو خفیہ اداروں نے اس قدر اختیارات دے دیئے کہ انھوں نے قوم پرست سیاسی کارکناں کو اٹھا کر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکے کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا۔ 
اب بی این پی کو جس بات کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ یہ ہے کہ ان کے انتخابی ریلی کس حد تک محفوظ ہوں گے اور خود سردار اختر کیسے ممکنہ قاتلانہ حملوں سے بچیں گے۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ نیشنل پارٹی کے ساتھ ساتھ بی این پی کو بھی خود علیحدگی پسند بلوچ قوم پرستوں کی مخالفت کا خطرہ ہے ۔ زیرزمین تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ نے بلوچوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات کا بائیکاٹ کریں کیوں کہ پارلیمانی انتخابات سے پاکستان کا بلوچستان پر بقول ان کے ’’ قبضہ‘‘ زیادہ مضبوط ہوگا اوراگربلوچ شہریوں نے انتخابات میں اپنی رائے دی تو اس سے علیحدگی پسند قوتوں کی غیر مقبولیت ظاہر ہوگی۔ 
اگرچہ علیحدگی پسند سمجھتے ہیں اور ( اور شایدخود مینگل بھی اعتراف کرتے ہیں) کہ آزادی کی تحریک میں مینگل کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن بہت کم لوگوں کا مینگل کی سیاسی اہمیت کا اندازہ ہے اور اگروہ صرف انتخابات میں حصہ لیتے ہیں (اور کوئی نشست بھی حاصل نہیں کرتے ہیں لیکن تب بھی)اس سےانتخابات کو قبولیت کا مہر لگ جائے گا اور مسلح تنظیمیں ایک طرح سے نظر انداز ہوں گی۔ 
آج سے پانچ سال پہلے بی این پی اور این پی کے تعلقات مسلح تنظیموں کے ساتھ اس قدر کشید ہ نہیں تھے ۔ اس وقت یہ تمام قوتیں ایک دوسرے کو کسی نہ کسی طریقے سے برداشت کرتی تھیں اور پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتیں یہ کہہ کر مسلح تنظیموں کی حمایت کرتی تھیں کہ ہم بلوچ حقو ق کے حصول کے لئے جدو جہد کے تمام طرایق زیر استعمال لانا چاہتے ہیں۔ آج مسلح تنظیمیں بی این پی اور این پی کو پی پی پی اورمسلم لیگ سے بھی بڑا دشمن سمجھتی ہیں کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ کم از کم وہ جماعتیں قوم پرستی کا نعرہ تو نہیں لگاتی ہیں جب کہ بی این پی اور این پی بھی مسلح تنظیموں کو اپنا جانی دشمن سمجھتی ہیں اور شکایت کرتی ہیں کہ انھیں بی این پی عوامی،مسلم لیگ اور پی پی پی میں شامل بلوچ تو نظر نہیں آتے اور بس انھوں نے اپنی بندوقوں کا رخ ان دو جماعتوں کی طرف کیا ہے۔ مسلح تنظیموں نے مختلف سیاسی سوچ  و طریقہ جدوجہد رکھنے والے بلوچوں کو نشانہ بنا کر ایک بڑی اسٹریٹجک غلطی کی اور اس سے ان کی عوامی مقبولیت میں پانچ سال پہلے کے مقابلے میں آج نسبتاً کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ 
جب پچھلے سال ستمبر کو سردار اختر مینگل سپریم کورٹ کے سامنے حاضر ہونے پاکستان پہنچے تو ہم نے ان کے اس فیصلے کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ انھیں ایک ایسے وقت میں واپس نہیں جانا چائیے تھا جب اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی لاپتہ افراد پر کام کررہی تھی اور ان کی سپریم کورٹ میں حاضری سے بلوچ مسئلے کو عالمی سطح پر جو توجہ ملنے والی تھی وہ کم ہوگی اورہمارا یہ خدشہ سچ ثابت ہوا۔ سپریم کورٹ میں مینگل کے چھ نکات کے پیش ہونے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر پاکستانی حکومت اور خفیہ اداروں نے سپریم کورٹ میں اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ بلوچستان میں کوئی آپریشن ہورہا ہے اور نہ ہی کوئی ڈیتھ اسکوڈ ہیں۔حتیٰ کہ انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہ صوبہ میں کوئی شخص لاپتہ بھی نہیں ہے۔ 
سپریم کورٹ لاپتہ بلوچوں کو بازیاب کرنے میں کامیاب ہوئی نا ہی سردار مینگل کی حاضری کا کوئی فائدہ ہوا۔ تاہم خان قلات میر سلیمان داو د جیسے غیر سیاسی لوگوں نےان پر یہ الزام لگایا کہ مینگل اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک ڈیل کے نتیجے میں پاکستان پہنچے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فوج کی مرضی سے کوئی پتا بھی ہل نہیں سکتاتو مینگل کیسے پاکستان جا سکے۔ 
جہاں تک مجھے پتہ ہےسردار مینگل اب کی بار کسی ڈیل کے تحت واپس نہیں جارہے بلکہ خود اپنی جماعت کے کچھ لوگوں کی طرف سے ان پر دباو ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں حصہ لیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ بی این پی نے ستمبر دو ہزار چھ میں نواب بگٹی کی ہلاکت کے خلاف احتجاجاًبلوچستان اسمبلی کی دو اورقومی اسمبلی اور  سینٹ کی ایک ایک نشست سے استعفیٰ دیا تھا جب کہ دوہزار آٹھ کے انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کیا تھا۔ حقیقت میں یہ بات درست نہیں تھی کیوں کہ خفیہ طور پر بی این پی نے اپنے رہنماوں عبدالرحمن مینگل رکن صوبائی اسمبلی اور رکن قومی اسمبلی عثمان ایڈوکیٹ کو آزاد امیدوار کے حیثیت سے کھڑا کیا تھا۔ خود بی این پی کے اندر چند لوگ بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو محاذ آرائی سے تشبہ دے رہے ہیں اورسینکڑوں نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے کے بعد سمجھتے ہیں کہ چند قوم پرست رہنما آزادی کے نام پر بلوچوں کی ایک پوری نسل کو مرنے پر مجبور کر رہے ہیں اور بی این پی کے یہ رہنما سمجھتے ہیں کہ ماردھاڑ کے اس سلسلے کو روکنے کی ضرورت ہے اور وہ باہر رہ کر حکومتی نظام اور پالیسوں میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ اسی طرح جو لوگ الیکشن کے حق میں ہیں ان کا کہنا ہے کہ بائیکاٹ کرکے قوم پرست دارصل کرپٹ اور اسٹبلشمنٹ نواز لوگوں کے لئے منتخب ہونے کا راستہ ہموار کررہے ہیں۔ 
جب بی این پی اور نیشنل پارٹی نے پارلیمان کو خیر باد کہا تھا تو بلوچستان آج کے مقابلے میں نسبتاً بہتر اور زیادہ پرامن تھا لیکن پچھلے پانچ سالوں میں بلوچستان میں امن تباہ ہوگئ ہے اور کوئی شخص بھی محفوظ نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دو بلوچ قوم پرست پارٹیوں کی پاس اتنی  مالی و افرادی قوت ہے کہ وہ پی پی پی، ق لیگ، جمعیت علمائے اسلام اور بی این پی عوامی کے سابقہ اراکین اسمبلی کے خلاف انتخابی مہم لڑسکیں۔ علاوہ ازیں انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرنا یا نہ کرنا تو صرف ایک بنیادی عمل ہے ۔ اس کے بعد جو دشوار  گزار مراحل طے کرنے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ان جماعتوں کے ساتھ مستقبل میں مخلوط حکومت کی تشکیل کے لئے بیٹھنا ہےجن پر قوم پرست الزام لگاتے ہیں کہ وہ نواب بگٹی اور سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کی ہلاکت کےذمہ دار ہیں۔ 
مینگل کے لئے ملک میں واپس جانا خطروں اور مشکلات سے خالی نہیں ہے۔ پاکستان مخالف  بلوچ نوجوان انھیں غدار قرار دیں گے، بی این پی عوامی جیسی جماعتیں انھیں اپنے لئے انتخابی خطرہ  سمجھیں گی جب کہ فوج انھیں سیاست دان کے روپ میں ملک دشمن کی نگاہوں سے دیکھے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مینگل کے پاس کیا منشور اور حکمت عملی ہے جسے استعمال میں لاکروہ بیک وقت اپنے تین اہم حریفین کو مئطمین کرسکیں۔ 

Saturday, February 23, 2013

لیکن ہزارے فوج کے حق میں کیوں ہیں؟

تحریر: ملک سراج اکبر

میری بائیس فروری کی تحریر ’’ ہم نے ہزاروں سے کیا سیکھا‘‘ اور سترہ فروری کی تحریر’’ ہزاروں پر حملے اور بلوچ قوم پرستوں کی بےحسی‘پر قارئین نے بڑی تعداد میں اپنی رائے دی اور مجھے اس بات پر بڑی خوشی ہورہی ہے کہ کم از کم ان تحاریر سے بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں غیر روایتی موضوعات پر بحث ومباحثے کا آغاز ہورہا ہے۔ کسی بھی ایسے مسئلے پر بحث شروع کرنا آسان نہیں ہوتا جس کے بارے میں مختلف قوموں، سیاسی جماعتوں، رہنماوں اور کارکناں کی پہلے ہی سے ایک مضبوط رائے موجود ہو۔ان موضوعات پر لوگوں کی رائے راتوں رات قائم نہیں ہوئی بلکہ آج کسی مسئلے پر وہ جو رائے رکھتے ہیں وہ کئ دہائیوں یا کم از کم کئی سالوں کےسیاسی و سماجی تجربے، مطالعے اورعملی زندگی کا نچوڑ ہوتا ہے۔ لہٰذہ لوگ اپنی موجودہ سوچ و نظریات کو یکدم تبدیل نہیں کرسکتے۔جو لوگ اپنے آپ کو ایک ایسی صورتحال میں پاتے ہیں جب ان کی طے شدہ سیاسی و مذہبی عقائد و نظریات کے مقابلے میں نئے خیالات متعارف کئے جائیں تو وہ یکدم دفاعی پوزیشن میں چلے جاتے ہیں اور انھیں ہر وہ شخص اپنا دشمن نظرآنے لگتا ہے جو ان کی رائے کے برعکس چیزوں کو ایک نئے نقطہ ِ نظر سے دیکھتا ہے۔ سیاسی و سماجی سوچ میں تبدیلی بڑی مشکل سے آتی ہے لیکن یہ تمام پراسس بڑا قابل دید ہوتا ہے جب انسان نئے خیالات کو تسلیم کرنا شروع کردیتا ہے تو وہ اس بچے کی طرح بے حد خوش ہوتا ہے جو ہرروز کوئی نئی چیز سیکھ رہا ہوتا ہے اور اسےدنیا  ہر گزرنے والے دن کے ساتھ پہلےسےزیادہ  خوبصورت لگنے لگتی ہے۔ 
کل کے تعریفی کالم کے نتیجے میں بہت سارے ہزارہ دوست کافی خوش ہوئے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کامیابی اور اچھی صلاحیتں انسان کے لیئے ایک اہم امتحان کی طرح ہوتی ہیں۔ ایک تعریفی کالم پر خوش ہونے سے  یادہ یہ سوال اہم ہے  کہ آیا آپ کے پاس آج جو خوبیا ں ہیں کیا آپ کل بھی انھیں برقرار رکھ سکیں گے یا نہیں؟ کسی انسان یا قوم میں اگر کوئی خوبی (جیسا کہ ہزاروں میں اتحاد) موجود ہوتی ہے تو اس خوبی کو برقرار رکھنا ہی دراصل سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے کیو ں کہ وہ خوبی اس کاروبار کی طرح ہوتی ہے جو روز بروز پھیلاتا جاتا ہے اور اگر اس کی صیح معنوں میں دیکھ بھال نہیں کی جائے تو اس کے نقصانات بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  زیادہ سنگین ہوتے جائیں گے۔ زندگی میں جب بھی آپ کی کسی خوبی کی طرف نشان دہی کی جائے تواس پر خوش ہونے سےزیادہ آپ اس بات پر زیادہ توجہ دیں کہ کہیں وہ خوبی آپ کی شخصیت کا حصہ بن کر غروراور تکبر میں تبدیل نہ ہوجائے۔اچھی اور بُری خوبیوں کے درمیاں ہروقت ایک بہت ہی باریک لکھیر ہوتی ہے اور دنوں (خوبی اور خامی) ایک دوسرے کے حدود پار کرنے کی مستقل کوشش کرتی رئیں گی۔ ہزارہ برادری کے لئے ہنوز دہلی بہت دور ہے اور انھیں یہ اتحاد ہر صورت میں قائم و دائم رکھنا ہے ۔ یہ تو صرف ان کے سفر کا آغاز ہے اور ’’ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘‘۔ 
اسی طرح میرے کل کے موضو ع کا مقصد قطعا بلوچوں اور ہزاروں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانا نہیں تھا کیوں کہ بلوچوں کا مسئلہ ، اس کی تاریخ اور اس کا پس منظر بالکل مختلف ہے۔اس تحریر میں بلوچ اور ہزارہ اقوام کو تو صرف میں نے بطور مثال ( یا کیس اسٹڈی) پیش کیالیکن اس کا اصل مقصد اتحاد و یک جہتی کی اہمیت اجاگر کرنا تھا۔ لہذٰہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کل کا کالم پڑھ کر ہزارے تکبراور بلوچ مایوسی کا شکار ہوں گے تو ان سے گذارش ہے کہ وہ ایک بارپھر میرےمضمون کو ایسے پڑھ لیں کہ جب بھی دونوں اقوام کا نام آجائے تو اس کی جگہ جنگل کے کسی جانور یا پرندے کا نام ذہن میں لائیں تاکہ ہم زیادہ تر توجہ اپنی قوم کے بجائے مضمون کے سبق آموز حصے پر مرکوز کرسکیں اور ہمیں احساس ہو کہ اتحاد و یکجہتی سےانسان کیا حاصل کرسکتا ہے اور نا تفاقی کے باعث اس کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ قارئین کا چائیے کہ وہ قومیت اور سیاسی نظریے سے  بڑھ کر اتحاد و یک جہتی کے اہم موضوع پرغور کریں۔ 
جب بھی مجھ سے میرے بلوچ دوست پوچھتے ہیں کہ ہزارہ بلوچستان میں فوج طلب کرنے کے حق میں کیوں ہیں تو مجھے یہ سوال بالکل ایسا ہی لگتا ہے جب پنجاب سے تعلق رکھنے والے دوست پوچھتے ہیں کہ بلوچ سردار اتنے ظالم کیوں ہیں اور بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنے ہوئے ہیں۔ جب لوگ مجھے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہزارے دراصل ایران کے ایجنٹ ہیں تو مجھے یہ سن کر اتنا ہی غصہ آتا ہے جتنا رحمن ملک کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ بلوچ انڈیا کے ایجنٹ ہیں اور بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو انڈیا سپورٹ کررہا ہے۔ 
جیسا کہ میں اوپر ذکر کیا ، ہماری رائے اور ہمارے سوالات آسمان سے نہیں آتے بلکہ وہ ہماری اسی سوچ و فکر کا مجوعہ ہوتے ہیں اور  بیشتر اوقات  ہماری رائے سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے جو کبھی کبھار خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ ہمارا ذہن بیورکریسی کی طرح ہے اور اس میں رہنے والی باتیں سرکاری فاعل کی طرح ہوتی ہیں یعنی اگر ہمارے ذہن میں کوئی بات ایک سرکاری فاعل کی طرح بیٹھ گئی تو وہ کئی سالوں تک ادھر ہی رہے گی۔ ذہن کے فاعل کو اگلے درجے تک لے جانے کے لئے لازمی ہے کہ اسے مطالعے ، مکالمے او ر ملاقاتوں کی ’’ رشوت‘‘ سے نواز جائے  بصورت دیگر وہ فاعل ادھر ہی رہے گی اور دھول اور مٹی تلے دب جائے گی۔
ہمارا بطور سماج المیہ یہ ہے کہ ہم نے اکثر و بیشتر ایک دوسرے سے ملے بغیر اور ایک دوسرے کی رائے سنے بغیر ہی ایک دوسرے کے بارے میں اپنی رائے قائم کی ہوئی ہوتی ہےاور اپنے رائے کی تصدیق کرکے اس کی  تصیح  کرنے کی کوشش تلک نہیں کرتے؟ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ ہم اپنی تصیح کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں کوئی بات معلوم نہ تھی تو ہماری عزت خراب ہوجائے گی۔ اصل میں تو یہی سوچ آپ کی توئین کے لئے کافی ہے۔عمو ماً ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم نے گذرے کل کو جو بات کی  ہوئی ہوتی ہے  اس کے بارے میں چند دن کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر تھے اور جن شواہد اور دلائل کے بنیاد پر ہم نے اپنی رائے قائم کی تھی وہ درست نہیں تھی۔ عقلمند اپنی رائے میں تبدیلی لاتے ہیں اور نادان تکرار کرتے رہیں گے۔ انسان ہر روز نئی باتیں سیکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے ذہن کے دروازے کھلا چھوڑے اورنئی باتوں اور خیالات کو اپنے ذہن اور انا کا دشمن نہ سمجھے۔ ہمیں نئے خیالات نہیں بلکہ اپنے انا سے ڈرنا چائیے۔  
اگر ہم ہزاروں کے ساتھ اظہارہمدردی نہیں کرسکتے اور ان کی سیاست سمجھنے کی زحمت نہیں کرسکتے تو کم از کم ان پر غلط الزامات  تو نہ لگائیں۔ جس طرح قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ نواب رئیسانی اور نواب مگسی بلوچوں کی ترجمانی نہیں کرتے تو اسی طرح سے جو مٹھی بھر مذہبی عناصر کوئٹہ شہر میں فوج طلب کر رہے ہیں وہ ہزارہ قوم کی ترجمان نہیں  ہیں۔ جس طرح بلوچ قوم پرستوں کو شکایت ہے کہ ان کی صفوں میں ایسے ’’ مفاد پرست‘‘ لوگ ہیں جو فوج کی خوشنودی کے لئے کام کر رہے ہیں تو ہزاروں میں بھی کچھ ایسے علما ہیں جو ایران اور پاکستانی خفیہ اداروں سے بیک وقت فوائد حاصل کر رہے ہیں لیکن ہمیں دونوں میں واضح طریقے سے فرق محسوس کرنا چائیے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں مذہبی عناصر طاقت کے سرچشمے کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں اور یہی ان کی سیاسی زندگی کا جواز بھی ہوتا ہے۔ 
پچھلے چند سالوں میں ہزاروں کو غیرمعمولی حالات سے نمٹنا پڑا ہے۔ یہ قوم اس کم سن بچے کی طرح ہے جو اپنے والد کی موت کی وجہ سے بہت جلد ہی عملی زندگی کے چیلنجز سے آشنا ہوجاتا ہے اور اپنے عمر کے دیگر بچوں کے مقابلے میں کئی سال پہلے ہی بالغ ہوجاتا ہے۔ جب باقی بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے ہیں یہ چھوٹا سے بچہ محنت مزدوری کررہا ہوتا ہے۔اسی طرح ہزاروں پر ہونے والی ناانصافی نے اس چھوٹی سی قوم پراس کے براشت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے۔ ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی بنیاد آج سے صرف دس سے قبل ڈالی گئی اور سیاسی تنظیمو ں کی تاریخ میں دس سال تو کچھ بھی نہیں ہے سال دو ہزار نو کو ایچ ڈی پی کی چئیرمین حسین علی یوسفی کو کوئٹہ میں ہلاک کیا گیا لیکن اس کے باوجود ایچ ڈی پی نے غیر معمولی سیاسی پختگی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس پارٹی نے ابھی تک لوٹوں اور اقتدار کے بھوکے لوگوں کو جنم نہیں دیا ہے۔ 
سیکولرو جمہوری ذہن رکھنے والے ہزارے بالکل اسی مخمصے کا شکار ہیں جس کا سامنا بلوچوں کو بھی ہے۔ جس طرح بلوچوں میں بہت سارے سیاست دان اسٹبلشمنٹ کے وفادار ہیں اور اپنی اقتدار کی خاطر بلوچوں کا قتل عام کرانے سے نہیں کتراتے بلکہ اسی طرح ہزاروں میں بھی شعیہ علما کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایچ ڈی پی کی جمہوری و سیکولر قیادت کو نظر انداز کریں اور ایران نوازعناصر کو ہزارہ قوم کا اصلی ترجمان ظاہر کریں۔یہ لمحہ فکریہ ہے۔ تاہم یہ ایچ ڈی پی کی قیادت خاص کر میرے محترم دوست چیئرمین عبدالخالق ہزارہ قابل تحسین ہیں کہ وہ بیک وقت کئ محاذوں پر لڑ رہے ہیں اور انھوں  نے کل ہی کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں جماعت مجلس وحدت المسلمین کو تنبی کی ہے کہ وہ ہزارہ شہریوں کی لاشوں پر سیاست نہ کرے ۔ ایچ ڈی پی نے ایک ایسے وقت میں کوئٹہ میں فوج کی تعیناتی کی مخالفت کی ہے جب خود ان کی برادری میں پچھلے دو مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب چند مہینوں کے بعد ملک بھر میں انتخابات ہونے والے ہیں تو ایچ ڈی پی بھی الیکشن میں کامیاب ہونے کے لئے اپنے لوگوں کو مشتعل کرسکتی تھی لیکن پارٹی کی قیادت نے ایسی کوئی بھی بچگانہ اور غیر جمہوری حرکت نہیں کی جو کہ ایک مثبت اورذمہ دارانہ رویے کے عکاسی کرتا ہے۔ 
کوئٹہ میں فوج کی تعیناتی کے خلاف  ہزارہ برادری کا موقف بہتریں طریقے سے ہزارہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر عصمت یاری نے ’’ تنقید‘‘ نامی جریدے میں یہ کہہ کر کیا ہے کہ اگر فوج کشی بلوچستان کے مسئلے کا حل ہوتے تو بلوچستان میں پانچ بار فوج کشی کے بعد صوبے کے تمام مسائل کو حل ہوجانا چائیے تھا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہزارہ قوم بلوچستان میں فوج طلب کر رہی ہے وہ دراصل ہزارہ سیاست کی باریک بینی اور اسے درپیش چیلنجز سے ناواقف ہیں یا وہ صرف سنی سنائی باتوں پر بھروسہ کر رہے ہیں ۔جہاں تک مجھے یاد ہے تو ایچ ڈی پی نے گورنر راج کے نفاذ کی بھی مخالفت کی تھی جب کہ بلوچ قوم پرستوں کا یہ حال تھا کہ حاصل خان بزنجو نے سینٹ کا بتایا کہ بلوچستان میں تو لوگ رئیسانی حکومت کی برطرفی پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں۔ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ اور پشتون قوم پرست اور ملک کی دیگر بڑی جماعتیں معتدل و جمہوری سوچ رکھنے والی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ساتھ دیں اور اس کے ہاتھ مضبوط کریں نا کہ ان مذہنی عناصر کا جو شعیہ برداری میں ایران کی سیاست کو تقویت دے رہے ہیں اور مذہبی انتہا پسندی اور عدم رواداری کا پرچار کر رہے ہیں۔ ان تمام سیاسی قوتوں کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چائیے جو بلوچستان میں فوج کےسیاسی و انتظامی کردار کے خلاف ہیں۔ 

Friday, February 22, 2013

ہم نے ہزاروں سےکیا سیکھا؟

تحریر: ملک سراج اکبر 

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ سال اور بالخصوص پچھلے دو مہینے کوئٹہ کے ہزارہ برادری پر عذاب جھنگوئی بن کر گذرے ہیں۔ان تمام واقعات میں انسانی جانوں کا ضیاع تو اپنی جگہ پر ایک عظیم المیہ ضرور ہے لیکن ان حالات نے ہزارہ قوم کو اس طوفان سے آشنا کردیا ہے جس کے بارے میں لگتا ہے کہ  علامہ اقبال نے ہزارہ قوم ہی  سے شکایت کی تھی ’’کہ بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں‘‘۔میرے خیال میں ہزاروں نے اپنے اتحاد  اور یکجہتی سے صرف دو مہینوں میں  وہ کام کردیکھایا جو بلوچ سیاست دان دس سالوں میں نہ کرسکے۔ 
ہزاروں کو شکایت ہے کہ لشکرِ جھنگوئی کو فوج سے منسلک خفیہ اداروں کی حمایت حاصل ہے اور بلوچ بھی یہی کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے پیچھے فوج اور ایجنسیاں ہیں۔  لیکن ایسا کیو ں ہوا کہ تین سے پانچ لاکھ کی آبادی والے ہزاروں نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے؟ ہزاروں میں کیا خوبی تھی جس نے بلوچستان کی پوری حکومت اکھاڑ کر پھینک دی؟ ہزاروں نے کیا کیا جس کی وجہ سے فوج کے ترجمان کو جھک کر یہ بیان دینا پڑا کہ فوج کا لشکر جھنگوئی کے سا تھ کوئی تعلق نہیں ہے ؟ جو لوگ کہتے تھے کہ پاکستانی میڈیا بلوچستان  پر خاموش ہے وہ یہ بتائیں کہ ہزاروں نے کیسے پاکستانی نیوز میڈیا میں اپنی خبر سب سے بڑی خبر بنا کر پیش کی؟ اتنی چھوٹی قوم نے بی بی سی سے لے کر الجزیرہ پر  کیسے اپنی ہلاکت کی خبر کو  چوبیس گھنٹوں تک زندہ رکھا بلکہ اسے عالمی خبروں میں بھی شہ سرخی بنادی؟ 
ہزاروں کے پاس جادوکی کونسی چھڑی ہے  جس نے سپریم کورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے پر مجبور کیا  اور وزیراعظم سے لے کر عمران خان تک سب کوئٹہ کی طرف دوڑیں مارنے پر مجبور ہوگئے؟ ایک ایسی قوم جس کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صرف ایک ایک نشست ہو اس نے وفاقی حکومت ، فوج اور عدلیہ کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر کیسے مجبور کیا ؟ جی ہاں ایک ایسی قوم جس پر ایران اور پاکستان  کا ایجنٹ ہونے کا الزام ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے حوالے سے اس بات کا بھی اعتراف کیا جائے کہ یہ قوم  پاکستانی خفیہ اداروں کی حمایت یافتہ لشکر جھنگوئی کی دہشت گردی اور سعودی عرب کی طرف مذہبی انتہا پسندی کو پروان چڑھانے کے لئے آنے والے انسان دشمن پیسوں کی وجہ سے دہشت کا  شکار  ہوگئی  ہے۔ ایک ہزار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود ہزارہ قوم نے ایک گولی چلائے بغیر اپنے مسئلے کو کیسے پوری دنیا کے سامنے اجا گر کیا؟ کون کہتا ہے کہ پاکستان یا بلوچستان میں پر امن تبدیلی نہیں آسکتی؟ کیا ہزاروں نے دو ہفتوں میں یہ سب کچھ کرکے نہیں دیکھا یا؟
 جی ہاں لیکن یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ اس کا صرف ایک سادہ سا جواب ہے اور وہ ہےاتحاد ویک جہتی۔ہرگھر اور قبیلے میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں لیکن جب بات ان کی قومی بقا پر آگئی تو انھوں نے ایک دوسرے کا ’’ ایجنٹ‘‘، ’’ غدار‘‘ اور ’’ ہزارہ دشمن‘‘  کہہ کر اپنے دشمن کو فائد ہ نہیں پہنچایا۔ گھریلو اختلافات کو ظاہر کرکے ہزاروں نے اپنے دشمن کو اپنی  چھوٹی سے چھوٹی کمزوری نہیں دیکھائی۔جب احتجاج کی باری آئی تو ان کی  ماوں، بہنوں ، بچوں اور بوڑھوں نے ہلاک شدگاں کی لاشیں لے کر  کوئٹہ کی بد ترین سردی میں کئی دن اور راتوں تک مظاہرے کئے۔  جب قومیں اس حد تک متحد ہوں انھیں  دنیا کی کوئی جھنگوئی لشکر شکست نہیں  دے سکتی ۔  

دوسری طرف نظریں ڈالیئے۔ بلوچستان میں گذشتہ دس سالوں میں بلوچوں پر کون کون سے مظالم نہیں ڈالے گئے؟ کیا ایشیا کے کسی بھی خطے میں اتنے لوگ   ایک ساتھ لاپتہ ہیں جتنے بلوچستان سے لاپتہ ہوئے ہیں؟ کیا اکیسویں صدی میں کہیں بھی کسی قو م کی نسل کشی اس دیدا دلیری کی ساتھ کی جارہی ہے کہ مسخ شدہ لاشوں کے ساتھ پرچیاں ڈال کر انھیں ’’عید کا تحفہ‘‘ سمجھ کر بیج دیا جائے۔ کیا دنیا میں کوئی  خطہ ایسا بھی ہے جس کے معدنی وسائل پر دنیا کی دارلحکومتوں میں معائدے طے پائیں اور عالمی تھنک ٹھینکس میں ان معاہدات کے حوالے سے بحث و مباحثہ ہو اور خود اس سرزمین پر انسان افریقی ممالک سے بھی بد ترین غربت کی زندگی بسر کررہےہوں؟  
اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر کبھی ایک بن کر نہیں اٹھ سکے؟ کیا بی این پی ، این پی، جے ڈبلیو پی، بی این ایم ، بی آر پی نے کبھی یہ سوچا کہ  آزادی اور خود مختاری پر ہمارا اختلاف رائے تو ہوسکتا ہے لیکن مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ، فوجی آپریشن تو ہمارا قومی مسئلہ ہے؟  کیا دوہزار چھ کو قلات جرگہ کے بعد بلوچ رہنماوں نے دنیا کے کسی بھی کونے میں مل بیٹھ کر ایک پریس کانفرنس کی؟  کیا بلوچ رہنما کسی ایک بات پر متفق ہوسکتے؟  شاید بلوچوں اور ہزاروں میں بنیادی فرق  یہ ہے کہ ان کے پاس’’ توار‘‘ اور ’’انتخاب ‘‘جیسے اخبار نہیں ہیں اور انھیں اخباری بیان بازی کا شوق نہیں لگا ہے یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ  انھیں پتہ ہے کہ قومیں اپنی جنگیں صرف اخباری بیان بازی  کے ذریعے  نہیں لڑتی ہیں۔
کاش بلوچ کسی ایک مسئلے پرایک ہوتے۔ لاپتہ افراد  کو حیربیار مری اور برہمداغ بگٹی کے فریڈم چارٹر سے کوئی غر ض  نا اختر مینگل کی سپریم کورٹ سے اور نہ ہی ڈاکٹر مالک کی پارلیمنٹ سے۔ انھیں تو صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ جلد از جلد بازیا ب ہوکر اپنے خاندانوں سے ملیں۔ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں فوجی آپریشن کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے لیکن ان تمام سیاسی رہنماوں کی ذاتی آنا ، حسد اور نااتفاقی نے انھیں ایک دن بھی اکھٹے نہیں ہونے دیا۔گذشتہ ایک دہائی میں بلوچ رہنماوں اور کارکناں نے اپنی نصف سے زیادہ توجہ وتوانائی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے ، غداری اور مخبری کے فتوے لگانے میں ضائع کئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ہوگا کیا؟ بلوچ سیاست دانوں کے رویے اس وقت تبدیل ہوں گے جب ماما قدیر مطالبہ کریں گے کہ ’’توار‘‘  اخبار میں ان کے قصیدے لکھنے یا لکھوانے کے بجائے بلوچ رہنما ان کے شانہ بشانہ اسی طرح گورنر ہاوس اور وزیر اعلیٰ ہاوس کا محاصرہ کریں جس طرح ہزارو نے کیا تھا۔ جب لاپتہ ہونے والے افراد کے بچے انھیں کہیں گے کہ آپ اپنی سیاست شوق سے کریں اور اپنی انا کی پرستش بھی لیکن کم از کم  حصول انصاف میں تو آپ ہمارے ساتھ رئیں۔ بلوچوں کے لئے موقع ہے کہ وہ ہزاروں کے اتحاد و یکجہتی سے سبق سیکھیں۔ 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  اب ہوگا کیا ؟ بلوچ سیاست دانوں کے رویے اس  وقت تبدیل ہوں گے جب ماما قدیر یہ مطالبہ کریں گے کہ ’’توار‘‘ اخبار میں ان کے قصیدے لکھنے یا لکھوانے کے بجائے بلوچ رہنما ان کا شانہ بشانہ اسی طرح گورنر ہاوس اور وزیراعلیٰ ہاوس کا محاصرہ کریں جس طرح ہزاروں نے کیا تھا۔ جب لاپتہ ہونے والوں کے بچے انھیں کہیں کہ آپ اپنی سیاست شوق سے کریں اور اپنی انا کی پرستش بھی لیکن کم از کم حصول انصاف میں تو ہمارے ساتھ رئیں۔ بلوچوں کے لئے موقع ہے کہ وہ  ہزاروں کے اتحاد ویکجہتی سے سبق سیکھیں ۔ بی بی سی اردو کا کہنا ہے کہ دو لاکھ کے قریب ہزارہ کوئٹہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور شاید باقی بچارے بھی بلوچستان اور پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگرد دنیا کے کسی کونے (مثلاً آسٹریلیا) میں چند ہزار ہزارے بھی باقی رئیں گے تو یہ قوم یہودیوں کی طرح ایک بار پھر ابھرے گی۔ ( میں یہودیوں کا بڑا احترام کرتا ہوں ۔ لہٰذہ مذہبی سوچ رکھنے والے لوگ اس مشابہت پر ناراض نہ ہوں۔ میں یہودیوں کو ایک کامیاب اور گر کر اٹھنے والی سمجھ دار قوم تصور کرتا ہوں۔) پڑھنے والوں کےلئے یہ بات اس لئےتحریر  کر رہا ہوں کہ مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑے کہ ’’میر ی بات لکھ  کر یاد رکھیں‘‘۔ اس منظم قوم کے بچے آج سےچند سال بعد بڑے ہوں گے اور ان میں سے عالمی شہرت کے سائنس دان اور مصنفیں و منصفیں پیدا ہوں گے کیوں کہ یہ قوم متحد ہے اور  اور دنیا میں متحد و منظم لوگوں کو دنیا کی کوئی طاقت جھکا نہیں سکی ہے۔ اور جو قومیں تقسیم در تقسیم رہتی ہیں انھیں دنیا کی کوئی قوت اکھٹی نہیں رکھ سکتی۔  


Tuesday, February 19, 2013

وش ٹی وی انٹرویو

 وش ٹی وی بلوچی زبان کا واحد سیٹلائیٹ نیوز چینل   ہےاور اس کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے۔ انیس فروری کی رات کو اس چینل پر چلنے والے کرنٹ افئیر پروگرام ’’ سینٹرل پوائنٹ‘‘ کے میزبان الطاف بلوچ نے اپنےپروگرام میں میرا انٹرویو لیا ۔ انٹرویو میں حکومت اور شعیہ ہزارہ مظاہرین کےدرمیان طے پانے والے تصفیے پر بات ہوئی۔ انھوں نے پوچھا کہ آیا حکومتی یقین دہانی کے بعد ہزاروں کے خلاف لشکر ِ جھنگوئی کی کارروائیوں میں کمی آئے گی جس کے جواب میں میں نے یہی کہا کہ یہ سوال گورنر راج کے نفاذ کے وقت بھی پوچھا گیا تھا لیکن اس کا ہمیں بہت جلد ہی  (منفی) جواب مل گیا۔ لشکر جھنگوئی نے  ہزارہ ٹاون کے واقعے کے فوری بعد نہ صرف اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ یہ واضح کیا کہ وہ گورنر راج یا فوج سے خوف زدہ نہیں ہے اور اپنی کارروائیاں مستقبل میں بھی بددستوری جاری رکھے گی۔ 
اگرچہ لشکرِ جھنگوئی کا مرکز صوبہ پنجاب ہے لیکن بلوچستان میں ہونے والی کارروائیوں کے لئے لشکر مقامی نوجوان بھرتی کرتی ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ مستونگ اب لشکر کا نیا گڑھ بن چکا ہے۔ اس سے پہلے مستونگ میں شعیہ زائرین کی بس پر بھی حملے ہوئے تھےجن میں کئی افرا د ہلاک ہوگئے تھے۔ بلوچ قوم پرستوں کو لشکرِ جھنگوئی کی کارروائیوں کے پیش نظرحال سے بھی زیادہ دشوار گزار مستقبل کے لئے تیار ہونا چائیے کیوں کہ لشکر کی مقامی قیادت کا زیاہ تر تعلق براہوئی بولنے والے بلوچوں کے ہاتھ میں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے لشکر کےاہم رہنما  عثمان سیف اللہ کوئٹہ مٰیں انسداد ِ دہشت گردی کی فورس ( اے ٹی ایف ) کے کوئٹہ کینٹ میں قائم جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ لشکر کو بلوچستان بھر میں پھیلے ہوئے مدارس میں بے پناہ حمایت حاصل ہے اور اس کے لئے ان مدارس سے نوجوان بھرتی کرنا اور کارروائیوں کے بعد وہاں چھپنا نا ممکن نہیں ہے۔  پنجاب سے آئے ہوئے جہادیوں کے مقابلے میں مقامی جہادی زیادہ خطرنا ک ہیں کیوں کہ انھیں مقامی زبان، جغرافیہ اور فرار ہونے کے راستوں کا علم ہے۔ 

Monday, February 18, 2013

فوج نہیں انصاف

تحریر: ملک سراج اکبر


ایسا لگ رہا ہے کہ چند شعیہ علما ہفتے کے روز کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد پیش آنے والے صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ  مظاہرین کا زور اس بات پر کیوں ہے کہ کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ فرقہ وارانہ حملے تو کراچی اور پنجاب میں بھی ہوتے ہیں تو پھر کبھی کسی نے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا کہ ملک کے دیگر شہروں کو بھی فوج کے حوالے کیا جائے۔ ہم نے انہی بنیادوں پر بلوچستان میں گورنرراج کے نفاذ کی مخالفت کی تھی  کیوں کہ  گورنر راج مسئلےکا اصل کا حل نہیں ہے۔
جو لوگ اپنے گھروں سے نکل کر پچھلے دو دنوں سے کوئٹہ شہر میں پرا من مظاہرہ کر رہے ہیں اور اپنے عزیزوں کی لاشیں دفن کرنے پر آمادہ نہیں ہیں وہ بڑی نیک نیتی سے مظاہرے کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف انصاف مانگ رہے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں اس طرح کے گھناونے واقعات پیش نہ آئیں جن سے کسی اور کا گھر تباہ ہو۔ لیکن چند علما  ان مظاہرین کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر ایران کی سیاست چمکانے میں مصروف ِ عمل ہیں۔ مثلاً کراچی کے مظاہروں میں امریکہ مردہ باد کے نعرے لگے تو باقی شہروں میں ہزاورں کے خلاف ہونے والی کارروائی کو بین الاقوامی قوتوں کی’’ سازش ‘‘قرار دی گئی۔ غیر ملکی قوتوں پر الزام لگا کر علما عوام کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور اس مسائل سے چشم پوشی کرنا چاہتے ہیں۔ اب تو بچے بچے کو پتہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر اعتراض تو کیا جاسکتا ہے لیکن شعیوں پر ہونے والے حملوں میں امریکہ ملوث نہیں ہو سکتا۔ لشکرِ جھنگوئی کوئی امریکی تنظیم نہیں ہے بلکہ  یہ پاکستانی مذہبی انتہا پسند جماعت ہے جس کا مرکز جنوبی پنجاب میں ہے اور اس کی سرپرستی مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ادارے کررہے ہیں۔ ہر بات پر امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو الزام لگا کر ہمارے حکمران اور علماحقائق پر پردہ پوشی کرنا چاہتے ہیں۔ خود امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں شعیہ بستے ہیں لیکن آج تک وہاں کسی شعیہ کو عبادت سے نہیں روکا گیا اور قتل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ 
شعیہ علما کو چائیے کہ اس نازک وقت میں سیاست کرنے کے بجائےمختلف اقوام و مسالک کے مابین اچھے تعلقات ہموار کرنے میں مثبت کردار ادا کریں۔ اسی طرح کوئٹہ میں فوج طلب کرکے دراصل وہ ان قوتوں کو مزید مضبو ط کرنا چاہتے ہیں جن پر لشکرِ جھنگوئی کی معاونت کرنے کا پہلے ہی سے شبہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح گورنر راج کے نفاذ سے امن و امان کے معاملے میں  کوئی فرق نہیں پڑا با لکل اسی طرح  فوج کے آنے کے بعد بھی بلوچستان میں حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ 
گذشتہ دو دنوں کے مظاہروں کے پیش نظر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سانحہ کوئٹہ کا سوموٹو نوٹس لے  لیا ہےاور اس واقعے پر فوری طور پر آج ہی سے سماعت کا آغاز ہوگا ۔ ابھی چند ہفتےقبل ہی سپریم کورٹ نے بلوچستان کے مسئلے پر ایک طویل مقدمے کی سماعت کی تھی جس کے نتیجے میں یہ فیصلہ دیا کہ صوبائی حکومت نا اہل ہوچکی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کو بلوچستان میں بد امنی کے حوالے سے ایک اور نئے سماعت کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ہمارے خیال میں لشکرِ جھنگوئی سمیت بلوچستان میں بد امنی پھیلانے والے تمام گروہوں کا مجموعی جائزہ  اسی کیس میں لیا گیا تھا اور  اب شاید ہی کوئی نئی بات منظر عام پر آئے ۔  یوں لگتا ہے کہ چیف جسٹس اپنی عادت سے مجبور ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر وہ عوامی توقعات اور ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن جائیں۔ نیز ان کے سوموٹو سے شاید ہزارہ  مظاہرین کا غم و غصہ تھوڑا ہلکا ہوجائے لیکن اگر سابقہ مقدمے کے  نتیجے میں سپریم کورٹ نے جوا حکامات جاری کئے تھے اور ان پر عمل درآمد نہ ہوسکا تو پتہ نہیں اب چیف صاحب کے پاس جادو کی کونسی چھڑی ہے جس کو لے کر وہ راتوں رات لشکرِ جھنگوئی کا قلع قمع کریں گے۔ 
چوں کہ یہ انتخابات کا سال ہےتو پی پی پی حکومت بھی شدید دباو  میں ہے کہ  کیا کیا جائے جس سے ووٹرز بدظن نہ ہوجائیں ۔ اسی بات کے پیش نظر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے گذشتہ روز سانحہ کوئٹہ کی تحقیق کے لئے ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس سے قبل جب دس جنوری کا واقعہ پیش آیا تو وزیراعظم نے مذہبی امور کے وفاقی وزیر سید خورشید شاہ کو  اپنا مندوب بنا کر کوئٹہ روانہ کیا تھا لیکن وہ مظاہرین سے مذاکرات کرنے میں ناکام ہوکر واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔ بعد میں جب وزیراعظم خود کوئٹہ تشریف لے گئے اور صوبائی حکومت کی  برطرفی کا اعلان کیا تو مظاہرین اپنا دھرنہ ختم کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اب کی بار مظاہرین کو منانے کی خاطر کیا کرے گی کیوں کہ اب واضح ہوگیا ہے کہ گورنر لوگوں کی جان و مال کی تحفظ میں  کامیاب نہیں ہوسکی۔  
وزیرا عظم کے اس نئے چھ رکنی کمیٹی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والا کوئی رکن اسمبلی شامل نہیں ہے۔ شاید وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی کمیٹی جس میں سب اراکین غیر بلوچستانی ہوں ایک غیر جانبدارنہ رپورٹ پیش کر سکے گی لیکن اس سوچ سے اتفاق کرنا ممکن نہیں ہے۔ وزیراعظم کو اس کمیٹی میں کم از کم پچاس فیصد ( یعنی تین اراکین) بلوچستان سے شامل کرنے چائیں تاکہ مقامی لوگوں کو اس کمیٹی پر بھروسہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ کمیٹی کے باقی تین غیر بلوچستانی اراکین مقامی ممبران کے تجربات اور زمینی حقائق سےآگاہی کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ 
اگرچہ مظاہرین کا غم و غصہ قابل ِ فہم ہے لیکن تمام فریقین کو چائیے کہ وہ جذبات کے بجائے  فراست سے فرقہ وارانہ حملوں  کا حل ڈھونڈیں۔ فوج مسائل کا حل نہیں ہے کیوں کہ فوج پولیس کا کام نہیں کرسکتی اس لئے کہ اس کی تربیت جنگ لڑنے کی ہوتی ہے نا کہ پولیس کا فریضہ انجام دینے کی۔ جس طرح ایک کامیاب پائلیٹ سرجری نہیں کرسکتا اسی طرح ایک اچھا فوجی کامیاب پولیس آفیسر بھی نہیں بن سکتا۔ پولیس اور فوج کی ذمہ داریاں مختلف ہوتی ہیں اور جو کام پولیس نہیں کرسکی ہے وہ فو ج ہرگز نہیں کرسکے گی۔گورنر مگسی کی یہ بات تو درست ہے کہ  ہزارہ ٹاون کا واقعہ خفیہ ادراوں کی نااہلی کے باعث پیش آیا لیکن پولیس پر تمام ذمہ داری ڈالنے کے بجائے یہ بات سمجھ لینی چائیے کہ  دہشت گردی کے یہ تمام واقعات ایک لمبے عمل سے گزر کر پیش آتے ہیں۔ اس کی مثال فٹ بال کے کھیل کی طرح ہے کہ دس کھلاڑی بال  کو مخالف ٹیم کے قبضے سے حاصل نہیں کرسکتے اور پھر بھی گول ہونے کی صورت میں سب کھلاڑی بچارے گول کیپر پر برس پڑتے ہیں۔ اسی طرح پولیس ( جسے میں یہاں گول کیپر سے تشبہ دے رہا ہوں) تک پہنچنے سے پہلے دہشت گردوں کے پس منطر کو دیکھنا بے حد لازمی ہے۔ مسئلہ ان کی تعلیم و تربیت میں ہے۔جب تک ہم ان جگہوں کا تعین اور اصلاح نہیں کرتے جہاں ان کے ننھے ذہنوں کو مذہبی نفرتوں سے بھر دیا جاتا ہے اور انھیں مذہب کی غلط تعلیم دی جاتی ہے تب تک مذہبی دہشت گردی کے واقعات کا سدباب ناممکن ہے چاہے اس کےلئے حکومت گورنر راج نافذکرے یا فوج بلائے۔ 

Sunday, February 17, 2013

الجزیرہ انٹرویو

گذشتہ روز‘ سولہ فروری‘ کو الجزیرہ انگلش نے کوئٹہ میں ہونے والے سانحہ کے حوالے سے میرا براہ راست انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویو الجزیرہ کے واشنگٹن  ڈی سی بیورو میں شام چھ بجے کی نیوز بلیٹن  میں لیا گیا۔ الجزیرہ نے سانحہ کوئٹہ کو چوبیس گھنٹوں تک اپنے نیوز بلیٹن میں شہ سرخی کا درجہ دیا۔ مجھ سے الجزیرہ نے وہی سوال پوچھا جو عموماً لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر لشکرِ جھنگوئی چاہتی کیا ہے اور اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ میں نے کہا کہ لشکر کا بنیادی مطالبہ ہے کہ تمام شعیہ سنی بن جائیں یا بلوچستان ( بلکہ پاکستان بھی) چھوڑ کر چلے جائیں اور باور کیا جاتا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے ان کی محض اس لئے معاونت کرتے ہیں کہ وہ اسلامی انتہا پسندی کے ذریعے بلوچستان میں جاری قوم پرست تحریک کا مقابلہ کریں۔مذہبی عناصر کو بلوچستان میں کئی محاذ پر مدد ملتی ہے اور ان میں سعودی عرب کی طرف سے ملنی والی مالی امداد کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام کا بلوچستان حکومت میں شامل ہونا بھی ہے۔ بلوچستان میں قائم پچانوے فیصد مدارس کی قیادت ان علما کے پاس ہے جن کی کسی نہ کسی طرح سےجمعیت علما اسلام سے تعلق ہے اور جمیعت طالبان کا حامی ہے۔اور اس کے زیراہتمام چلنے والے یہی مدارس لشکر سمیت دیگر مذہبی قوتوں کے لئے  مقامی سطح پر افراد ی قوت پیدا کرتے ہیں ۔ چوں کہ جمعیت   پچھلی دوصوبائی حکومتوں کا اہم حصہ رہی ہے اس لئے بلوچستان میں مدارس کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا ناممکن ہوگیا ہے اور یہ پتہ لگانا اور مشکل ہوگیا ہے کہ ان  مدارس کے اندر کیا ہوتا ہے۔ جمعیت مذہبی عناصر کو سیاسی وانتظامی حمایت فراہم کرتی ہے جس کی ایک واضح مثال دوسال قبل بلوچستان اسمبلی میں پیش کی جانے والی وہ قرارداد ہے جس میں کوئٹہ شوریٰ کے خلاف ہونے والے مجوزہ امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس سے یہی ظاہر ہوا کہ جمعیت بلوچستان اسمبلی میں بیٹھ کر طالبان اور ان کے ہمدردوں کے لئے سیاسی و حکومتی سطح پر قانون سازی کا فریضہ انجام دیتی ہےاور اس کے رہنما ہر اس حکومتی اقدام کی مخالفت کرتے ہیں جس کا مقصد صوبے میں مذہبی انتہا پسندی کی جڑوں کا اکھاڑنا ہوتا ہے۔ انٹرویو میں میں نے گورنر راج کے نفاذ کے باوجود حالات میں بہتری نہ آنے کی وجوہات بھی بیان کیں۔ الجزیرہ نے یہ انٹرویو چھ بجے کی بلیٹن کے ساتھ ساتھ آٹھ اور نو بجے کی بلیٹن میں بھی نشر کی۔ جوں ہی انٹرویو کا کوئی آن لائن لنک مل جاتا ہے میں قارئین کی خدمت میں شئیر کروں گا۔ تاہم اس سلسلے میں الجزیرہ نے اپنی ایک دوسری رپورٹ میں میرے انٹرویو کے کچھ حوالے دئیے ہیں جسے پڑھنے کے لئےیہاں کلک کریں۔ 

ہزاروں پر حملے اور بلوچ قوم پرستوں کی بےحسی

تحریر: ملک سراج اکبر

ہفتہ کے روز کوئٹہ میں قیامت ِ صغریٰ برپا ہوا۔  اس کے ایک دن بعد اتوار کے دن کوئٹہ سے نکلنے والے بیشتر اخبارات کے صفحہ اول  نے ماتم کی چارد اُڑھ لی تھی۔  کوئٹہ کے اخبارات قابل داد ہیں کہ تمام خطرات اور دھمکیوں کے باوجود  سب نے اتنے بڑے سانحے کے مختلف پہلوں کا جائزہ لیا۔پہلے صفحے پر ہزارہ ٹاون پر ہونے والے حملے کی  خبربڑی شہ سرخی کی صورت میں نمایاں طور پر شائع ہوئی، واقعے کی تصاویرلگیں ، ہسپتال کی منظر کشی کی گئی ، سیاسی رہنماوں کے مذمتی بیانات شائع کئے گیے تھے۔ اس بات پر تو ہم سب کا اتفاق ہے کہ سیاست دانوں کے مذمتی بیانات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی لیکن اس سے بھی تو کم از کم  متاثرین کے دل کو تسلی تو ہوتی ہے کیوں کہ کسی کے ساتھ تعزیت کرنا سیاست سے بڑھ کر ایک  مثبت انسانی رویہ ہوتا ہے۔ لیکن اتوار کے اخبارات پڑھ کر مجھے  ایک بار پھر بلوچ قوم پرست رہنماوں سے اسی طرح مایوسی ہوئی جس طرح دس جنوری کو علمدار روڑ پر ہونے والے واقعے کے بعد بلوچ رہنماوں کے سردرویے سے ہوئی تھی۔ اتوار کے اخبارات میں آپ کو  نیشنل پارٹی کےصدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا ایک بیان نظر آئے گا جس میں انھیں صرف آنے والے انتخابات کی فکر پڑی ہوئی ہے اور موصوف نے دھمکی دی ہے کہ اگر انتخابات میں دھندلی ہوئی تو اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا ایک بیان صرف اس حوالے سے اخبارت میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے خضدار میں اپنی جماعت کے ایک اہم رہنما کے گھر پر پڑنے والے چھاپے کی مذمت کی ہے۔ اتوار کے روز حیربیار مری، مہران مری، براہمداغ بگٹی ، ڈاکٹر اللہ نذر ، کچکول علی ایڈو کیٹ یا ثنابلوچ کی طرف سے کوئی بیان نہیں چھپا ہے جس سے یہ تاثر ملے کہ بلوچ ہزارہ برادری کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔  یہ بلوچ سیاست کی نااہلی کی  واضح مثال ہے۔
 اس کے برعکس پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے نہ صرف پچھلے  مہینے ہونے والے دھماکے کی پر زور مذمت بلکہ اس حوالے سے شٹر ڈاون ہڑتال کی کال بھی دی۔جب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور تحریک انصا ف کے سربرہ عمران خان  کوئٹہ پہنچ گئے تھے تو تب کہیں سردار اختر مینگل کا بیان اخبارات میں نظر آیا۔ کاش ایساہوتا کہ سردار اختر مینگل  دبئی سے اسلام آباد سفر کرکے پاکستان کے سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونےکے بجائے علمدار روڑ پہنچ جاتے ۔ کاش عمران خان اور راجہ پرویز اشرف کے  پہنچنے سے پہلے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما  عبدالخالق ہزارہ کے دائیں طرف حاصل خان بزنجو ہوتے اور بائیں طرف ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی۔ کاش جب ہمارے ہزارہ بھائی اشک بار تھے تو اس وقت بی ایس او کے نوجوان ہزارہ قبرستان میں قبریں کھودنے میں مصروف ہوتے۔ کاش بلوچ سیاسی کارکناں  کفن دفن کا انتظام کررہے ہوتےاس لئے نہیں کہ ہماری ہزاروں کی ساتھ کوئی سیاسی اتحاد ہے بلکہ اس لئے کہ یہ ہماری بلوچ روایات ہیں۔ ہزارے ہماری سرزمین پر رہ رہے ہیں اور جو بلوچ رہنما آزادی سے لے کر خود مختاری کی بات کررہے ہیں وہ اپنے گھر میں ہونے والے اتنے بڑے سانحے پر  جب خواب خرگوش میں سو رہے ہوتے ہیں تو اس قیادت سے زیادہ خیر کی توقع نہیں رکھنی چائیے۔ 
کون کہتا ہے کہ لاشوں پر سیاست کرنا غلط ہے؟ کیا عمران خان اور راجہ پرویز اشرف نے لاشوں  پر سیاست نہیں کی؟ کیاانھوں نے کچھ غلط کیا؟ جی نہیں۔ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ اگر سیاست عبادت ہے اور دس جنوری کے سانحے کے بعد کسی سیاست دان نے سیاست کی تو انھوں اعلیٰ درجے کی سیاست کی جس پر وہ قابل تحسین ہیں۔ تاریخ جب لکھی جائے گی تو اس میں عمران خان اور راجہ پرویز اشرف کو یاد رکھا جائے گا ۔ محمود خان اچکزائی  بھی یاد کئے جائیں گے کیوں کہ ان کی جماعت نے شٹر ڈاون ہڑتال کی کا ل دی تھی۔ جب مستقبل میں کوئی لکھاری بیٹھ کر  ہزاروں کے خلاف ہونے والے حملوںکی تاریخ لکھے گا تو  اس کی کتاب  میں کسی بلوچ رہنما کا ذکر نہیں ہوگا جس کو ہزاروں کا غم خوار سمجھ کر تاریخ میں جگہ دی جائے۔ تاریخ میں صرف ان لوگوں کو جگہ ملتی ہے جو بروقت آگے بڑھ کر لیڈرشپ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 
یہ باتیں معنی نہیں رکھتی ہیں کہ بلوچوں کے ساتھ ہزاروں نے کس حد تک اظہار یک جہتی کی ہے اور  کس حد تک مشکل کے وقت میں بلوچوں کے ساتھ رہے ۔ بات صرف یہ ہے کہ بلوچستان کا مطلب ہے بلوچوں کی سرزمین اور بلوچ اس صوبے کی اکثریتی لوگ ہیں۔ بلوچ صوبے میں بڑے بھائی ہیں اور بڑے بھائی کی جہاں کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں تو وہاں اس سے کئی توقعات بھی وابستہ ہوتی ہیں۔ اگر بلوچستان بلوچوں کی سرزمین ہے تو بلوچ سیاسی قیادت صوبے میں ہونے والے کسی بھی واقعے سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔  بلوچوں کی اس کوتاہی پر چندماہ قبل  ہمارے محترم استاد میرمحمدعلی تالپر نے  بھی ڈیلی ٹائمز میں ایک اہم مضمون لکھا تھا اور اسی مسئلے کی طرف توجہ دلائی تھی کہ بلوچ قیادت کو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ صوبے میں بسنے والے تمام شہریوں کے لئے سوچنا چائیے۔ بلوچ سب کی قیادت کریں اور سب کا خیال کریں۔
 لشکرِ جھنگوئی کی کارروائیاں صرف ہزاروں کا مسئلہ نہیں ہیں ۔ لشکر کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہے جو صرف ہزارہ ٹاون اور علمدار روڑ پر آسکتی ہے۔ آج لشکر ہزاروں پر قہر گرارہی ہے تو کل ہمارے  بچے اور عورتیں اور گھریں محفوظ نہیں ہوں گے۔آج اگر شعیہ  (بقولِ لشکر)کافر ہے تو کل کو کلین شوڈ بلوچ قوم پرست بھی کافر قرارد دے کر لشکرکے ہاتھوں ماردیا جائے گا۔ لشکر ِ جھگوئی بلوچستان کا تحریک طالبا ن پاکستان ہے۔ جس طرح تحریک طالبان پاکستان  ترقی پسند سوچ رکھنے والوں کا دشمن ہے اسی طرح لشکرِ جھنگوئی بھی بلوچستان میں پرامن  شہریوں  بلکہ انسانیت کا دشمن ہے۔ اس کے بندوقوں کا اگلا ہدف بلوچ قوم پرست ہی ہوں گے۔ 
یہ کہنا تو آسان ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے نام نہاد جہادی عناصر کی حمایت کرررہی ہیں ۔ہمیں اندازہ ہے کہ بلوچ قوم پرست ایجنسیوں کو مذہبی قوتوں کی حمایت سے نہیں روک سکتے لیکن ایک سانحہ کے بعد اپنی ہمدردی کا بروقت اظہار تو کر سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر مالک کی ایسی انتخابی کامیابی کیا کام آئے گی جب وہ ہزاروں کے ساتھ چند منٹ بیٹھنے کے لئے وقت نہیں نکال سکتے؟  بلوچ قیادت اس حوالے سے لاتعلق کیوں ہے؟ جب عبدالخالق ہزارہ ہر موقع پر بلوچوں کے حقوق پر بلوچوں کے ساتھ ہیں تو ماتم کے وقت ان کے دائیں بائیں جانب بلوچ رہنما کیوں تین دن تک بیٹھ کر سوگ نہیں منا سکتے؟ یہ کیسی سیاست اور کیسی قوم پرستی ( یا قوم دوستی ) ہے؟ بلوچ قیادت کو اپنا اندازِ سیاست بدلنا ہوگا۔ بلوچوں کو اپنی سیاست صرف اپنے  حقوق  تک محدود نہیں کرنی چائیے بلکہ دوسری قوموں کے دل  بھی جیتے ہوں گے۔ بلوچستان ہم سب کا مشترکہ مسکن ہے۔ اگر بلوچستان میں بلوچ پر مظالم ہورہے ہیں تو ہزارہ بھی اسی قیامت سے گزر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر تو اقوام متحدہ کی مداخلت کا مطالبہ کریں اور خود اپنے ہے شہر میں مرنے والے ہزاروں کے گھر میں  جاکر تعزیت کرنے کی زحمت تک نہ کریں۔یہ ہماری کوتاہی ہے یا سیاسی عاقبت نا اندیشی ہے اس پر نظر ثانی کرنے فوری ضرورت ہے ۔

کوئٹہ: ہر روز ایک نیا کربلا

تحریر: ملک سراج اکبر

 چوں کہ بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ  ہی بدنیتی پر مبنی تھا تو ہفتے کے روز کوئٹہ کے ہزارہ ٹاون میں جو المناک سانحہ پیش آیا اس پر شدید رنج و ملال تو ضرور ہوا لیکن اس واقعے پر ہمیں زیادہ حیرانگی نہیں ہوئی۔ کل کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچاسی سے تجاویز کرچکی ہے جب کہ دو سو کے لگ بھگ عام شہری‘ بشمول عورتوں اور بچوں کے‘ زخمی ہو چکے ہیں۔ حسب معمول  مذہبی دہشت گرد ی کے اس واقعے کی ذمہ داری  لشکر ِ جھنگوئی نے قبول کی تھی۔ دس جنوری کے سانحے کے فوری بعد جب شعیہ علما نے کوئٹہ شہر کو فوج کے سپرد کرنے کی سفارش کی اورآخر کار یہ بات طے ہوئی کہ فوج تو نہیں بلائی جائے گی البتہ ایف سی کو شہر میں پولیس کے اختیارات دئیے جائیں گے اور صوبے کی انتظامی ذمہ داری گورنر نواب ذولفقار علی مگسی کے حوالے کی  جائے گی  تو اسی وقت ہم نے کہا کہ اس سے صوبہ میں فرقہ وارنہ حملوں میں کمی  نہیں آئے گی۔ اس بات میں کوئی نہیں کہ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت انتہائی نا اہل  اور بد عنوا ں رہی لیکن   ان پر یہ الزام لگانا کہ وہ  یا دیگر سویلن حکومتیں لشکرِ جھنگوئی جیسی تنظیموں کی حمایت کر رہے تھے سراسر غلط ہے۔ پچھلے مہینے جب  ہیومن رائٹس واچ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں افواج پاکستان ور اس کے خفیہ ادراوں پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ زیر زمین مذہبی جماعتوں کی پشت پنائی کررہی ہیں توفوج کے ترجما ن نے اگلے روز ہی اس بیان کی شدید تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔ جب فوج نے اس بیان پر توقع سے بڑھ کر احتجاج کیا تو ہمیں دال میں کچھ کالا محسوس ہوا۔ 
کوئٹہ میں فوج طلب کرنے  کا مطالبہ کچھ شعیہ علما نے کیا تھا جب کہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے جوش کے بجائے ہوش سے کا م لیا اور فوج کی امور حکومت میں مداخلت کے تجویز کو یکسر مسترد کردیا ۔ تاہم صدر زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ا س لئے مظاہرین کے مطالبے پر لبیک کہا کیوں کہ یہ الیکشن کا سال ہے اور پی پی پی کو عوامی ووٹ کی ضرورت ہوگی۔ لہذہ بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی  تاکہ لوگوں کے دل جیت لئے جائیں۔ پی پی پی عوام میں اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن دل ہی دل میں تو خودصدر اور وزیرا عظم کو بھی پتہ تھا کہ گورنر راج تو محض دیکھاوا ہے۔  ہم حالات میں بہتری کے حوالے سے اس لئے بھی کم پُر امید تھے کہ گورنر مگسی خود پچھلے پانچ سالوں میں اسی عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ اگرچہ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں گورنر کا امورِ حکومت میں کوئی کردار نہیں  ہوتالیکن اس کے باوجود اگر گورنر مگسی ماضی میں شعیہ مسلک اور ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے شہریوں پر بدستور ہونے والے ان حملوںکا تدارک کرنے میں صوبائی حکومت کی معاونت  نہ کرسکے تو وہ  صوبے کا انتظامی سربراہ بن کر  کیسے یکدم سارے حالات بہتر بنا سکیں گے؟ 
فرقہ واریت ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کا دیرپا حل ڈھونڈنے کے لئے لازمی ہے کہ عوام  اور علما بھی حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ان اہم مسائل کے حوالے سےشعور و آگاہی دے۔ راتو ں رات اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے ۔ جو لوگ ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کی کئی سالوں تک ذہن سازی کی ہوئی ہوتی ہے۔ اب نفرت سے بھرے انہی ذہنوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔  ہفتے کے روز ہونے  والے دھماکہ کے ساتھ ہی گورنر راج کی ناکامی کا باضابطہ ثبوت مل گیا لیکن گورنر مگسی نواب رئیسانی کے مقابلے میں قابل تحسین ہیں کہ انھوں نے  سی ایم ایچ ہسپتال میں جاکر دھماکے میں زخمی ہونے والوں کی عیاد ت کی۔ نواب رئیسانی نے اپنے دورِ حکومت میں ایسی منفی روایات  کی داغ بیل ڈالی کہ ان اثرہماری سیاست اور سماج پر کئی سالوں تک باقی رہے گا۔ انھوں نے عوام اور حکمرانوں کا رشتہ سرے ہی سے ختم کردیا ۔  صوبے میں کوئی بھی طوفان یا آفت آجاتی رئیسانی نے اپنے وزرا کو لوگوں سے ملنے کو نہیں کہا اور یوں عوام اور حکمرانوں کے درمیان تمام رابطے منقطع ہوگئے۔  صوبے میں بڑے سے بڑے سانحے پیش آئے لیکن کوئی صوبائی وزیر عوام کے دکھ درد میں شامل نہیں ہوا۔ ان بُرے دنوں سے نکل کر  اب جب نواب مگسی کو زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو  دلی خوشی ہوتی ہے۔ سی ایم ایچ ہسپتال میں جا کر ز خمیوں کی 
عیادت کرکے نواب مگسی ان پر کوئی احسان نہیں کررہے البتہ وہ ایک گورنرہونے کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔ 

گورنر نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ ہفتے کے روزپیش آنے والا واقعہ خفیہ اداروں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ کسی اعلیٰ سرکاری اہلکار کی جانب سے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا بھی بڑی بات ہوتی ہے کیوں کہ اس سے قبل تو بس ایک ہی روایت قائم رہی ہے کہ واقعے کے فوری بعد حکومت اسے بیرونی عناصر کی سازش کہہ کر اصل مسئلے سے توجہ ہٹا دیتی تھی۔ چوں کہ گورنر مگسی اس وقت صوبے کے انتظامی سربراہ ہیں  وہ محض خفیہ اداروں کی ناکامی اور نا اہلی کو دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ نہیں قرار دے سکتے ۔ انھیں چائیے کہ وہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچیں اور معلوم کریں کہ کن کن عناصر کو لشکر ِ جھنگوئی کی حمایت حاصل ہے اور گورنر راج کے نفاذ کے دو مہینے بعد بھی لشکر کا ایک رکن تک  کیوں کر گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ حکومت کے مذمتی بیانات ناکافی ہیں کیوں کہ  ہمیں بھی پتہ ہے کہ سیاسی رہنماوں کے یہ بیانات تو پہلے ہی سے سرکاری کمپیوٹر میں موجود ہوتے ہیں  اور اسٹاف انھیں فوری طور پر اخبارات اور ٹی وی چینلز کو جاری کردیتے ہیں تاکہ میڈیا میں توجہ حاصل کریں۔ فرقہ واریت سے نمٹنے کے لئے حکومت کو لفاظی کم اور عملی کام زیادہ کرنے ہوں گے۔  لشکرِ جھنگوئی کے ترجمان نے تو ایک بار پھر حکومت کو للکارکر یہ تک کہہ دیا ہے کہ ’’ ہمیں گورنر راج اور فوج کی موجودگی سے کوئی ڈر نہیں لگتا۔ ہماری کارروائیاں اس وقت تک جاری رئیں گی جب تک کوئٹہ شعیوں کا قبرستان نہیں بن جاتا۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لشکرِ جھنگوئی اتنے پراعتماد انداز میں یہ بیانات کیوں دے رہی ہے؟ اس اعتماد اور دیدہ دلیری کے پسِ پردہ کس کا ہاتھ ہے؟  

Tuesday, February 12, 2013

دس ہزار لوگ

تحریر: ملک سراج اکبر
سب سے پہلے تو میں آپ تمام دوستوں کا بے حد مشکور ہوں کہ آپ نے میرے بلاگ کو بے حد پسند کیا۔ پہلے ہفتے ہی میں دس ہزار سے زائد لوگوں نے میرے بلاگ کو وزٹ کیا جن میں پاکستان ، امریکا ، مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا کے اور کئی ممالک میں بسنے والے لوگ شامل ہیں۔ مثلاً چوں کہ آسٹریلیا میں ہزارہ قوم سےتعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد مقیم ہے تو’’ ایران بہادر‘‘ والی تحریر کو کئی ہزار لوگوں نے آسٹریلیا سے وزٹ کیا۔ مجھے انگریزی میں لکھتے  لکھتے دس سال تو ہو ہی گئے ہیں لیکن  سچ پوچھئے تو خود مجھے قطعا اندازہ نہیں تھا کہ اردو پڑھنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ مجھے یہ تو پتہ ہے کہ پاکستان میں انگریزی صحافت کی رسائی بمشکل دس فیصد لوگوں تک ہے اور اس میں بھی زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور دیہی علاقوںمیں رہنے والے لوگ زیادہ  اپنی خبریں تر اردو اخبارات یا ریڈیو کے زریعے حاصل کرتے ہیں۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال صرف پڑھے لکھے نوجوان ہی کرسکتے ہیں اور دور دراز کے علاقوں میں بسنے والے لوگ خبریں اور تبصرے پڑھنے کی خاطر انٹرنیٹ تھوڑی ہی استعمال کرتے ہیں۔  اب میری یہ غلط فہمی بڑی حد تک دور ہوگئی ہے۔سوشل میڈیا نے سونے پہ سہاگہ کا کام کردیا ہے۔ اب جو لوگ سیاست یا صحافت میں دلچسپی نہیں لیتے وہ بھی اپنے دوستوں کے مشورے کا احترام کرکے وہ تحاریر ضرورپڑھ لیتے ہیں جس پر کسی دوست نے محض ’’ مسٹ ریڈ‘‘ لکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا کا ہم لکھنے والوں پر یہ احسان ہے کہ اس کی مدد سے ہمارے پڑھنے والوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہوا ہے اور اب شاعروں کی طرح لوگوں کو کندھے سےپکڑ کر کسی چائنکی ہوٹل میں بیٹھا کر یہ گذارش کرنے کی ضرورت نہیں رہی کہ بھائی جان براہ کرم میرا تازہ کلام سن لیں۔  اب توشاعروں کے لئے بھی کام آسان ہوگیا ہے۔ بلکہ ہم سب کے لئے زندگی آسان ہوگئ ہے۔ پہلے لوگ اگر ایک دن اخبار مس کرتے تھے تو سمجھو وہ آپ کی تحریر ہی مس کرتے تھے لیکن اب آپ کی دس سال پرانی تحاریر بھی ایک کلک کے فاصلے پر  ہوتے ہیں۔ 
 جب سے میں نے اردو میں باقاعدگی سے لکھنا شروع کیا ہے تو میرے قارئین کی تعداد میں نو سو گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے۔  بلاگ کے بارے میں جب بھی کسی سے پوچھو کہ بلاگ ہو تا کیا ہے تو سب سے پہلا تعارف جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ بلاگ ڈائری کی ماند ہےاور میں بھی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بلاگ ڈائری سے صرف اس لحاظ سے تھوڑا مختلف ہے کہ لکھنے والا اپنے خیالات کو دوسروں کے ساتھ شئیر کرنے پر راضی ہوتا ہے۔ بلاگ اخباری کالمز کا نیم البدل نہیں ہوسکتا کیوں کہ ہم بلاگ میں اپنی مرضی کی باتیں لکھتے ہیں جب کہ اخباری کالم میں سب سے پہلا شرط یہ ہے کہ آپ کی تحریر جس اخبار میں شائع ہورہی ہے آپ اس کی پالیسی سے اتفاق کریں۔ دوسری بات جو مجھے بلاگ کے بارے میں پسند ہے وہ یہ کہ آپ اپنی تحریر مختصر رکھنے کے پابند نہیں ہوتے۔  میری تحریر’’ ہم سب بھگورڑے ہیں‘‘  پڑھ کر کچھ دوستوں نے کہا کہ تحریر تو اچھی تھی لیکن بہت طویل تھی۔ مجھے اس بات کا احسا س بالکل تھا  لیکن جو کوئی بلاگنگ کرتا ہے اس کی دو بنیادی خواہشتات ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی تحاریر بروقت، بلا ایڈٹنگ اور تسلسل کے ساتھ شائع ہواوردوسری بات یہ ہے کہ آپ کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیاہو جہاں آپ اپنے‘ نا کہ ایڈیٹر صاحب کی‘ دل کی بات کہہ سکیں ۔ میں اخباری پالیسی کی بات نہیں کررہا بلکہ اسپیس کی بات کررہا ہوں کہ آپ کی تحریر کتنی لمبی ہونی چائیے ۔ لہذہ اس بلاگ پر آپ کبھی مختصر تحاریر پڑھیں گے اور کبھی لمبی بلکہ بہت ہی لمبی تحاریر بھی پڑھیں  گے۔ شاید انہی ضروریات کی وجہ سے مجھے بلاگ شروع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اخباری صحافت کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں ۔آج سے دس سال پہلے جب ہم روزنامہ آساپ میں لکھتے تھے اور اخبار کے مدیراعلیٰ محترم جان محمد دشتی سے شکایت کرتے تھے کہ وہ ہماری تحاریر مختصر کرکے یا ا ن کی تصیح کرکے شائع  کرتے تھے تو  انھوں نے بڑی عمدہ بات کی کہ’’اچھا تو پھر تم لوگ اپنے لئے کوئی ایسے اخبار کا بندو بست کیوں نہیں کرتے جس کا سرے سے کوئی ایڈیٹر ہی نہ ہو۔‘‘  میں نے تربت میں صحافی پھلان خان کے گھر میں دئیے گئے افطار پارٹی پر اپنے محترم قلم کار ساتھی خالید ولید سیفی سےہنس کر کہا’’ بات تو بڑی وزنی کی ہے دشتی صاحب نے‘‘۔   جب پنجگور میں ملاّوں نے ماری اسٹوپ نامی این جی او  کے دفتر پر حملہ کیا اور اس واقعے کے خلاف میں نے ایک تحریر لکھی تو آساپ نےیہ  کہہ کر وہ تحریر واپس کردی  کہ ’’ این جی اوز کا کردار مشکوک ہے‘‘ اس دن سے سے میں نے آساپ میں لکھنا چھوڑ دیا  ( یاآپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے مجھے چھاپنا بند کردیا)۔  سال دوہزار پانچ میں کوئٹہ میں روزنامہ ’’بلوچستان ایکسپریس‘‘ میں لکھنا شروع کیا تو ان کے اردواخبار روزنامہ ’’آزادی ‘‘ میں وقتا فوقتاً ’’ گوشہ چشم ‘‘کے نام سے تحاریر لکھنے لگا لیکن چوں کہ میری دلچسپی انگریزی کی طرف تھی تو اردو ترک کرکے  مستقل انگریزی میں لکھنا شروع کردیا۔
اردو کالمز پڑھنے اور لکھنے کا شوق مجھے انیس سو نوے کی دہائی میں ہوا جب روزنامہ ’’ انتخاب‘‘ ہمارے گھر میں آنا شروع ہوا۔ روزنامہ ’’ جنگ‘‘ اور ’’مشرق‘‘ کے برعکس ’’ انتخاب‘‘ کے ادراتی صفحات پر بلوچستان کے بارے میں مضامین شائع ہوتے تھے اور مضامین کے جواب میں مزید مضامین لکھے جاتے اور یو ں یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری  رہا۔ وہ بلوچستان کی سیاست وصحافت کا ایک سنہرا دور تھا جب ہمارے معاشرے میں صحافی ، دانشور اور لکھاری کا ایک بہت ہی اہم کردار ہوا کرتا تھا۔ لوگ تنقید برداشت کرتے تھے  اور تنقید کا جواب تحریر سے دیتے تھے۔ ہم عمرمیں بہت چھوٹے ہوتے تھے لیکن جب بھی پڑھے لکھے لوگوں کے بیچ میں بیٹھنے کا موقع ملتا  انور ساجدی اور صورت خان مری  جیسے لوگوں کا تذکرہ ضرور ہوتاتھا۔ کچھ لوگ ان کی تحاریر کو پسند کرتے تھے اور باقی ماندہ لوگ ان کو ناپسندکرتے تھے لیکن میں عموماً سوچتا کہ یہ لوگ ہیں کون ؟ ان کی رائے اتنی اہمیت کیوںرکھتی ہے؟ کیوں کہ آپ جب چھوٹے ہوتے ہیں تو آپ کے نزدیک دنیا کے عالم و فاضل ترین لوگ آپ کے والد، چچا اور اسکول کے اساتذہ ہی ہوتے ہیں اور جب وہ کسی اور کی رائے  کو مستند سمجھیں اور اس پربحث و مباحثہ کرنے لگیں اور اسے اہمیت دیں تو اس عمر میں آپ کی شخصیت پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے اور آپ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ باکمال لوگ کون ہیں۔ جوں جوں میں جوان ہوتا گیا اور ان اخبارات میں کالمز پڑھنے لگا تو سینکڑوں کالمز میں سے ایک کالم اور اس کے جواب میں آنے والے ردعمل نے مجھے چونکا دیا اور مجھے پہلی مرتبہ اپنے معاشرے کے تلخ حقائق کا پتہ چل گیا اور احساس ہوا کہ ہم جس معاشر ے میں ہم  رہتے ہیں یہ قدیم زمانے کا یونان یا روم نہیں ہے۔ یہاں آپ کی رائے اور آپ کی تحریر آپ کے لئے بہت سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے۔جس نے میرے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے وہ ’’ انتخاب‘‘ کی ایڈیٹر نرگس بلوچ  کے حوالے سے تھا جب محترمہ’’ ماہکان دستونکی‘‘ کے نام سے کالمز لکھتی تھیں اورایک روز انھوں نے اپنے کالم میں (بی این  پی عوامی کے اس وقت کے سربراہ) مہیم خان کو طنزیہ طور پر مبہم خان ہی  کیا لکھ دیا کہ اسرار اللہ زہری نے اگلے دن ان کے دفتر میں غنڈے بھیج کر غلیظ گالیاں دیں ۔ اس دن مجھے یہ پڑھ کر شدید صدمہ ہوا کہ میں لکھاریوں کی طاقت اور عظمت کے بارے میں سوچ رہا تھا حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک قلم کار کی حثییت میں معاشرے کو باشعور کرنا بہت ہی مشکل کام ہے کیوں کہ جب تک قلم کار اور اس کے اردگرد رہنے والے لوگوں ذہنی حوالے سے ایک لیول پر نہ ہوں تب تک  ان میں ٹکراو  ہونا ایک فطری عمل ہے۔اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ہاں ایسے مرد  ہیں جو کسی عورت کو ننگا کرنے دینے کی دھمکی کو بہادری سمجھتے ہیں اورخواتین کوزندہ درگور کرنے کو اپنی روایت سمجھتے ہیں۔ جوں جوں میں عملی زندگی میں داخل ہوتا گیا مجھے بلوچستان کے معاشرے میں قلم کاروں کی مجبوریوں کا احساس ہونا شروع ہوا۔ اگرچہ ہم قلم کار سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے قلم کے زور سے اس دنیا کا رخ موڑسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ میر ی یہ تمام کنفیوژن ممتاز دانش ور ڈاکٹر شاہ محمدمری نے اپنے شاہ لیب میں اس وقت دور کی جب میں ’’ بلوچ حال ‘‘ کے اجرا کے تیسرے دن  ان کے پاس آشرباد لینے پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب کا کلینک کیاادھر تو آپ کو ایک چھت کے سائے تلے ایک مکمل اکیڈمی ملے گی۔آپ کو ان کی کلینک سے دوائیاں ملیں یا نہ ملیں چند عمدہ کتابیں تو ضرور ملیں گی۔ کتابیں توآپ کو  پرنس روڑ اور جناح روڑ پر  بھی ملیں گی۔ڈاکٹر صاحب کتاب فروش تھوڑی ہیں وہ تو علم و حکمت کے  ایک درخشان مکتب ہیں۔ وہ آپ کو ہر وقت مسکراتے ملیں گے۔  مہمانوں کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہیں ۔ اپنی کم سناتے ہیں اور آپ کی زیادہ تر سنیں گے ۔ جب وہ  سننے لگتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ  درجنوں کتابوں کے خالق اور بلوچستان کے عمدہ مورخ  نہیں بلکہ کالج  کے پہلے دن لیکچر سننے والا نیا طالب علم ہے۔وہ آپ کو اتنی عزت  و حوصلہ دیں گے کہ آپ کی گھبراہٹ اور جھجک ہی ختم ہوگی اور آپ ایک عالم کے سامنے لب کشائی کرنے کی جسارت کرسکیں گے۔ 
 میں نے پوچھا تو ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے کہ جو آپ اپنی کتابوں میں سرداروں کا مذاق اڑاتے ہیں کبھی آپ کو ڈر نہیں لگتا؟
میرےسوال پر تو وہ مسکرائے لیکن ان کے جواب پر ہم نے اتنا زوردار قہقہ لگایا کہ پاس بیٹھے ’’سنگت‘‘ رسالہ کمپوز کرنے والا نوجوان چونک پڑا۔ ( کیا آپ نے کوئی ایسا میڈیکل کلینک دیکھا ہے جس کے اندر بیک وقت ادبی رسالہ کمپوز ہو؟شاہ لیب کوئٹہ میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ ویل کم ٹو کوئٹہ)۔
انھوں نے جواب میں کہا’’ بیٹا سردار کو کیوں ڈر لگے گا؟  سردار میری کتابیں  تھوڑی پڑھتےہیں ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ لوگ بھی میر ی کتابیں  نہیں پڑھتے۔ سردار کو قلم کار سے ڈر نہیں لگتا ۔ اسے تو صرف اس شخص سے ڈر لگتا ہے جو بندوق اٹھا کر اس کے سامنے کھڑا ہوجا تاہے‘‘۔
آج ہمارا بلوچستان بہت ہی  بدل گیا ہے۔ بلوچستان میں صحافی اور دانش ور کی کوئی قدر باقی نہیں رہا۔ لکھاری ( جائز وجوہات کی بنا پر)لکھنے سے ڈرتے ہیں ۔ ( میرے لئے واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل پریس کلب کی عمارت  کے تیراہویں منزل پر بیٹھ کر یہ لکھنا تو بہت آسان ہے لیکن جو لوگ بلوچستان میں موجود ہیں انھیں اصل حالات کا پتہ ہے۔ تاہم  مجھے بھی ان بدلتے  حالات کا  بخوبی اندازہ ہے)۔ بلوچستان میں آج دانشور کی کوئی بات نہیں سنتا۔ بلوچستان سے علم و دانش کوچ کرچکا ہے۔ جس روزنامہ انتخاب  ( کے مضامین ) نے ہماری عادتیں بھگاڑ دیں اور ہمیں لکھنے والوں سے متاثر کرکے صحافی  بنے پر مجبور کیا آج اس ’’ انتخاب‘‘ کے صفحات پر آپ کو میر بالاچ کے قلم سے ’’’ افکار پریشان‘‘ پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ اب ’’سقوطِ بولان‘‘ کی طرز پر تحاریر نہیں لکھے جاتے۔ اب گھر گھر میں  مہر افلاک زیر بحث نہیں ہوتا۔ اب ماہکان دستونکی  کے نام نامے نہیں آتے۔اب منظور بلوچ کے ’’گدان‘‘ میں بیٹھنے کا موقع نہیں ملتا۔ اب امان اللہ گچکی  کے مضامین بحث و مباحثہ شروع نہیں کرتے۔ اب حکیم بلوچ ھانی و شہ مرید  کے زمانے کو اسلم رئیسانی کے دورِ حکومت سے تشبہ نہیں دیتے۔ اب ستا رسیلانی مچھ سے فکرانگیز تحاریر نہیں لکھتے ۔’’ انتخاب‘‘ کے ادارتی صفحہ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ملک ریاض سے لے کر  میمو گیٹ پر اداریے نظر آتے ہیں، فلسطین اور کوسو و پر مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں لیکن ’’ اداس بلوچستان ‘‘ پر  خالد  ولید سیفی  کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں اور نا ہی شکیل بلوچ کی زبانی ’’بلوچستان کی پکار  ‘‘سننے کو ملتی ہے۔  ’’ مظلوم بلوچستان ‘‘ پر ثنابلوچ کی دلائل سے بھرپور تحاریر اب صرف انگریزی کے اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ بلوچستان کے بگڑتے حالات نے بلوچستان کے قلم قبیلے کو اجاڑ دیا ہے۔ منظور عز ت کا اتا نہیں تو عابد میر کا پتہ نہیں۔ اب جو باقی رہ گیا ہے وہ گالی گلوچ والی قلم کاری ہے۔ قلم کاری و کالم نویسی کہاں ؟ ہمارے ہاں تو  فتوں کے فیکٹری لگ گئے ہیں۔ اب تو صرف لوگوں کے نام کُھلے خطوط لکھے جاتے ہیں۔ اب تو بلوچ قلم کار کے قلم کی نب سے ’’غدار‘‘، ’’ مخبر‘‘، ’’مصلحت پسند‘‘، ’’ایجنٹ‘‘،’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘، ’’دوست یا دشمن‘‘ کی سیاہی ٹپکتی ہے۔  اب تو صرف آپ کو فیس بک پر سلام صابر اور قاضی داد ریحان لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔  میر وماہر خود لکھتے ہیں اور خود ہی لوگوں کو ٹیگ کرتے ہیں۔  نوجوانو ں کو جب پڑھنے کے لئے اچھا لڑیچر دستیاب نہ ہو تو وہ رحمت بلوچ کی شتروگن سنہا کے ساتھ تصویر کو ’’ لائیک ‘‘ نہیں کریں گے تو اور کیا کریں؟جو لوگ رحمت بلوچ کی تصویر نہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ یقینا  گدھے پر بیٹھے ڈاکٹر مالک اور حاصل بزنجو کی فوٹو شاپ شدہ کسی تصویر پر فاضلانہ گالی لکھ رہے ہوتے ہیں ۔ ادھر جان بلیدی نیشنل پارٹی کو پڑنے والی تمام گالیوں سے لاتعلق اور بے فکر ہوکر نیشنل پارٹی کی تازہ ترین پریس ریلیز کی نوٹ شائع کررہےہوتے ہیں اور کوئٹہ کے روزناموں سے لے کر سالانموں کے رپورٹرز کو ٹیگ کرنا ہرگز نہیں بھولتے۔اور یوں زندگی کی گاڑی رواں دواں  ہوتی ہے۔ ہم قلمکار اپنی نئی نسل کو صحت مند لٹریچر دینے میں بالکل ناکام ہوگئے ہیں۔ 
ان حالات میں ہمارے سنجیدہ قلم کار دوستوں نے جان بچا کر خاموشی اختیار کرلی ہے تو کچھ نے گالی گلو چ کی صحافت سے کنارہ کشی اختیار کیا ہوا ہے۔ بلوچستان کی صحافتی نثر کو موت اس دن آئی جب  ’’آساپ ‘‘ اخبار کے مدیر  اعلیٰ جان محمد دشتی پر کوئٹہ میں  قاتلانہ حملہ ہوا ۔ اس حملے کے چند مہینے بعد ’’آساپ‘‘ اخبار بند ہوگیا ۔ ’’آساپ‘‘ نے بلوچستان کی صحافتی تاریخ کا رخ ہی موڈ دیا ۔ اپنی اشاعت کے ساتھ ہی تربت اور کوئٹہ سے بیک وقت نکلنے والے اس اخبار نے نئے لکھاریوں کی ایک نئی نسل پیدا کی۔ اس اخبار  نے بلوچستان کے کونے کونے سے نئے قلم کار دریافت کئے۔یہ بلوچستان کی تاریخ کا تا حال واحد اخبار تھا جس نے لکھنے والوں کو ان کی تحاریر کے عوض باقاعدہ معاوضہ دیا۔ بلوچستان کے ابھرتے ہوئے لکھنے والوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا گیا جہاں باقاعدگی سے ان کی تحاریر کے اصلاح کا اہتمام کیا جاتا تھا۔’’آساپ‘‘ بلاشبہ بلوچستان کے لکھاریوں کا سب سے بڑامکتب تھا۔ اس ادارے نے ہماری نئی نسل میں اعتماد پیدا کیا۔ آساپ نے لیڈرشپ نوجوانوں کے ہاتھوں میں دے دی اور ہمیں سوچنے پر مجبور کردیا کہ ایک کالم نویس ہونے کے لئے لازمی نہیں ہے کہ آپ کی عمر (مرحوم) ارشاد احمد حقانی  یا ہارون الرشید کے برابر ہو۔ اس اخبار نے عابد میر جیسے نو عمر کو اپنا ایڈیٹر بنا کر ہماری سوچ ہی بدل دی کہ ایڈیٹر بننے کے لئے آپ کو محمود شام جیسی بڑی عمر نہیں بلکہ عابد جیسی صلاحیتیں چائیں۔ عابد سچ ہی کہتے ہیں کہ جس کسی کو آساپ کا چسکا لگا ہے وہ پھر کسی اور اخبار کا نہ ہوسکتا۔
اس بلاگ پر آپ کوبکرے  کا ڈی این اے کثرت سے ملے گا۔ ارے بھئ بکرے کا ڈی این اے کیا ہوتا ہے؟ یہ تو بتا نا ہی بھول گیا کہ بکرے کا ڈی این اے کیا ہوتا ہے۔ بکرے کے ڈی این اے سے مراد بکرے کی طرح ’’ میں میں میں‘‘ کرنا ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ میراذاتی بلاگ ہے تو اس میں ، میں اپنے تجربات کے حوالے  بات کروں گا۔کبھی کسے ایونٹ کے بارے میں لکھوں گا تو کبھی کسی فلم کے بارے میں۔ کبھی میں نےیہ کیا تو کبھی میں نے وہ کہا۔ اگر کسی کو میر ی ڈائر ی میں کوئی بات پسند آجاتی ہے اور کسی کا بھلا ہوجاتا ہے تو یہ میری خوش قسمتی۔ یار ڈائری کا مقصد اور کیا ہوتا ہے؟ میری ڈائری میرے بارے ہی میں ہوگی ناں؟میرے ایک دوست فیس بک کے وال کے حوالے سے مذاقاً کہتے ہیں کہ ’’ یار میر وال ہے۔ میں پر پیشاب کروں یا لکھوں ’’ یہا ں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ میر ی مرضی۔ کیا  دنیا اس قدر عدم  برداشت کا شکار ہوگئی ہے کہ ہم اپنی دیوار کا فیصلہ بھی نہیں کرسکتےتھے؟‘‘۔میں چاہتا ہوں کہ اس بلاگ پر اپنے تجربات شئیر کروں لیکن میں سقراط ہوں اور نہ ہی لقمان ِ حکیم۔ جوبات آپ کو ناگوار گزرے اس کو درگزر کریں ۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے آپ کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چائیے۔کبھی خود پہ بھی ہنسا سیکھنا ہوگا۔ میں جب اپنی ڈائر ی لکھتا ہوں تو   کوشش ہوگی کہ وہ غیر اخباری زبان  میں ہو۔ کبھی کبھار ادبی چاشنی برقرار رکھنے کے لئے گندے  گندے الفاظ بھی زیر قلم آئیں گے۔میں منٹو،چغتائی یا عینی نہیں ہوںلیکن ان کی بے باک تحاریر نے مجھے بے حد مثاثر ضرور کیا ہے۔قارئین کی رائے بڑی اچھی بات ہوتی ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ ہر تحریر کے بعد کسی شخص پر ’’جواب شکوہ ‘‘لکھناواجب ہوجائے۔ میں چاہتاہوں کہ دوست اپنی ذہانت ، عقل اور  وقت  دوسرے  اچھے کاموں میں گزاریں ۔ہم انتاکشری نہیں کھیل رہے ۔ہر تحریر کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ سو فیصد درست ہو۔ میری رائے ایک فرد کی رائے ہےجو غلط بھی ہوسکتی ہے لیکن اچھے معاشرے اور اچھے قلم کار کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ نئے خیالات کو لے کر نئے بحث و مباحثے کو جنم دیتا ہے۔ جب میں نے حامد میر کی تحریر کا جواب دیا تھا تو میں  نے جان بوجھ کر کہا تھا کہ اس تحریر میں حامد میر ایک بہانہ ضرور  ہےلیکن  اس کا اصل مقصد اپنے لوگوں کو  دیگر اہم امور پر باشعور کرنا  تھا۔  
اس بلاگ کا مقصدبلوچستان کی اردو صحافت میں ایک لبرل پلیٹ فارم کر آغاز کرنا ہے۔ میں شاعر نہیں ہوں ۔ لہذہ میں ’’واہ واہ‘‘ کا شوقین نہیں ہوں۔ اس بلاگ پر آپ کو بہت ساری ایسی تحاریر نظر آئیں گی جن سےآپ سو فیصد اختلاف کریں گے اور  مجھے اس بات پر بڑی خوشی ہوگی  کیو ں کہ میں نہیں چاہتا کہ میر ی سوچ اکثریت کی طرح ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ میں منفرد  طریقے سے سوچوں ۔میں چاہتا ہوں کہ اپنے سماج کے ان موضوعات پر لکھوں جن کے بارے میں اکثریت کی سوچ روایتی ہے ۔
 میں نے پانچ سال تک پنجگور میں ’’ دی اوئیس اسکول ‘‘ میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا ۔ دوہزار چار میں کوئٹہ میں حصولِ تعلیم کے لئے جانے کے پیش نظر  پنجگورچھوڑنا پڑا لیکن اپنے پیچھے کئی ہزار طالبہ و طالبا ت بھی چھوڑ دئے۔  میں چاہتا ہوں کہ اپنے طالبہ و طالبات کے ساتھ ایک بار پھر رابطہ جوڑوں۔  لگتا ہے کہ کمبختوں کو میں نے جتنی انگریز ی پڑھائی تھی وہ سب بھول  گئے ہیں اور کوئی میری انگریزی تحاریر پڑھتا ہی نہیں ۔تو سوچا کہ وہ  گفتگو دو بارہ اردو میں شروع کروں۔  (یہ بات تو صرف میں مذاقاً کہہ رہا ہوں ۔ مجھے اپنے طلبہ پر بہت  فخر ہےکہ آج وہ میڈیکل کالجز اور لا کالجز میں زیر تعلیم ہیں۔ کچھ پی سی ایس اور سی ایس ایس کے امتحانات  میں امتیازی نمبروں کے ساتھ کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔ لگے رہو منا بھائی۔)۔ لیکن اس بلاگ کا  مرکز و محور بلوچستان کی سیاست ہوگی۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ بلاگ محض ایک ڈائری نہ رہے بلکہ مستقبل کے مورخین کو بلوچستان پر تحقیق  کرتے وقت اس بلاگ سے فائدہ ہو۔ لہذہ اس ان صفحا ت پر آپ کو ایک سے زیادہ مرتبہ لمبی تحاریر نظر آئیں گی تاکہ جہاں جہاں تاریخی حقائق و واقعات کی درستگی مقصود ہو وہاں کوتاہی نہ ہو۔ 
ایک مرتبہ پھر میں ان دس ہزار افراد کا بے حد ممنوں ہوں جھنوں نے دنیا کے کونے کونے سے وقت نکال کر اس بلاگ کو وزٹ کیا۔ میں آپ کا بے حد شکرگزار ہوں۔ 
زندگی کی ہر دعا آپ کے نام۔