Monday, March 4, 2013

اچھے یا برے ‘ہمارے تو ساتھی تھے

تحریر: ملک سراج اکبر

بلوچستان میں آج کل آزادی پسند بلوچ قوم پرستوں اور ذرائع ابلاغ کے تعلقات شدید کشیدہ ہیں۔ ماضی میں تو صحافی دبے الفاظ میں کہتے تھے کہ انھیں مختلف ذرائع سے دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن اب یہ اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔صحافی جہاں اپنے آپ کو بے یارو مدد گار سمجھ رہے ہیں وہاں قو م پرست ان پر ترس کھانے کو تیار ہیں اور نہ ہی ان کی مجبوریوں کو سمجھنے پر آمادہ ہیں۔
 جس کی لاٹھی اس کی بھینس  کے مصداق جس نے قوم پرستوں کے ساتھ زیادہ بحث و تکرار کی تو وہ بھی ان کا اگلا ہدف بن سکتا ہے۔ لہٰذہ بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے قلات پریس  کلب کے صدرمحمود جان آفریدی کی ہلاکت کے بعد اب صحافیوں نے اپنے احتجاج کا دائرہ کار بھی محدود کردیا ہے اور اب ہر صحافی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ آفریدی کے بعد کس کی باری ہے اور اگلی گولی کس کی طرف سے آئے گی؟ میں محمود جان آفریدی کو ذاتی طور پر نہیں جانتاتھا  لیکن ان کا اس لئے احترام کرتا ہوں کہ جب میں اسکول اور کالج کا ایک طالب علم تھا تب سے روزنامہ انتخاب میں ضلع قلات کے حوالے سے ان کی سیاسی ڈائری پڑھتا تھا اور میرے دل میں ان کے لئے بے پناہ احترام پیدا ہوا کیوں کہ ان کا شمار بلوچستان کے بہترین ضلعی نامہ نگاران میں ہوتا تھا اور ان کی سیاسی ڈائریوں میں ایک رپورٹر کی محنت بخوبی جھلکتی تھی۔
محمود جان آفریدی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں اس سال ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد چار ہوگئی ہے۔ آفریدی کے جانے سے بلوچستان کے ضلعی سطح کی صحافت میں ایک پر نا ہونے والا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ بلوچ قوم پرست خوش ہوں یا نالیکن ہمارا دل اس دن بھی خون کے آنسو رویا تھا جب بی ایل اے نے ہمارے صحافی دوست ڈاکٹر چشتی مجاہد کو ہم سے جدا کیا۔ جس روز جامعہ بلوچستان میں ہمیں ابلاغ عامہ پڑھانے والی میڈم ناظمہ طالب کو سریاب روڑ پر ہلاک کیا گیا اس روز بھی ہمارے ڈر کا یہ عالم تھا کہ قوم پرست نا راض نہ ہوں  ہم نے باتھ روم میں گھس کر میڈم ناظمہ کے لئے چھپ چھپ کر دھاڑیں ماریں۔
 جس دن خضدار میں حاجی وصی قریشی کو یہ دھمکی ملی کہ وہ آزادی اخبار کی تقسیم چھوڑ دے یا ورنہ سرمچاروں کو بتایا جائے گا کہ حاجی وصی پاکستان فوج کا مخبر ہے اور اسے جان سے ماردیا جائے تو حاجی نے ہنس کر کہا ان نادانوں کو پتہ نہیں کہ خود میں نے خضدار میں اتنا عرصہ گزارا  ہے جتنی مجھے دھمکی دینے والے نوجوانوں کی پوری عمر بھی نہیں ہے لیکن اس بچارے کی کون سنتا ،سرمچاروں نے حاجی وصی کے ایجنٹ ہونے کی افواہ پر یقین کرلیا اور یوں چند دنوں بعد ان کا سینہ بھی گولیوں سےچھلنی کردیا گیا اور وہ بھی اپنے  خالق حقیقی سے جاملے۔ حاجی وصی مخبر تھا کیوں کہ اس نے مجھ سے اصرار کیا کہ میں وڈھ سے پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اور تشدد کا نشانہ بنے والے نوجوان صحافی جاوید لہڑی کا انٹرویو کروں ۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے رپورٹرز ویدآوٹ بارڈر کے ساتھ جاوید کا انٹرویوکرایا تاکہ ایجنسیوں کے تشدد کے بعد انھیں صحافیوں کے حقو ق کے لئے کام کرنے والے کسی غیر ملکی  ادارے کی طرف سے مالی مدد ملے تاکہ وہ جاکر اپنا علاج و معالجہ کرائیں۔شاید وہ وڈھ کے ایک صحافی کی مدد   نہ کرتے تو ہی بہتر ہوتا۔ 
 بچارے ڈاکٹر چشی مجاہد سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بالاچ مری کے حوالے سے گستاخانہ ہیڈلائن اخبار ِ جہان میں کس نے شائع کیا؟ کسی نے یہ سمجھنے کی کوشش تک نہیں کی کہ بچارے رپورٹر کا کام خبر ارسال کرنا ہوتا ہے اور اس پر ہیڈلائنز کا تعین کراچی میں بیٹھے سب ایڈیٹرز کرتے ہیں نا کہ رپورٹر لیکن ان کو ایک ہیڈ لائن ( جو انھوں نے لکھی تک نہ تھی) کے پاداش میں اپنی جان گنوانی پڑی۔ کسی نے یہ دیکھنا گوارا نہیں کیا کہ مرحوم ڈاکٹر نے نواب بگٹی کی ہلاکت کے چند دنوں کے اندر اندر نواب کی  شہادت کی بعد سب سے پہلی کتاب شائع کی جس کےایک ہی مہینے میں چار ایڈیشن فروخت ہوئے۔بلوچستان کا صحافی کس کے سامنے فریاد کرے؟ حکومت تو خود صحافیوں کی ہلاکت میں ملوث ہے اور انصاف کے طلب گار بلوچ قوم پرستوں کو بھی تمام صحافی مخبر نظر آتے ہیں۔ ایک ایک کرکے سب کو ماریں گے تاکہ رہے بانس اور نہ بجھے بانسری۔
 جس طرح گھروں میں بھائیوں کے درمیان  چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں تو اسی طرح  بلوچ اور پشتون اقوام کے مابین بھی دیگر سیاسی امور پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن بلوچ لبریشن فرنٹ کی جانب سے بی بی سی اردو کے صحافی ایوب ترین کو دھمکی دینا انتہائی غلط فعل تھا۔جن بلوچ صحافیوں نے پشتون صحافیوں کے ساتھ کوئٹہ میں کام کیا ہے انھیں کم از کم ان صحافیوں کی اچھائیوں کا اعتراف کرنا چائیے جنھوں نے ہر موقع پر بلوچوں کا ساتھ دیا۔ اس موقع پر صرف تین ایسے پشتون صحافیوں کا تذکرہ کرنا لازمی سمجھتا ہوں۔ 
کچھ عرصہ پہلے تک کوئٹہ پریس کلب میں (گنتی کے چند ایک صحافیوں کو چھوڑ کر) بلوچ صحافیوں کو ممبر شپ تک نہیں دی جاتی تھی کیوں کہ پریس کلب پر رشید بیگ کی قیادت میں پنجابی لابی کا قبضہ تھا۔ پریس کلب کے  صدر سے لے کر چوکیدار اور باروچی تک سب کے سب کشمیر اور پنجاب سے آئے ہوئے تھے۔ بلوچ صحافی جب کوئٹہ  پریس کلب میں داخل ہوتے تو ان سے پوچھا جاتا ’’جی بھئی، خیر تو ہے؟ کس سےملنا ہے؟ کسی کام کے سلسلے میں  آئے ہو کیا؟‘‘ ۔ 
بلوچ اور پشتون صحافیوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک اس وقت ختم ہوا جب پشتون صحافی ایوب ترین نے پہلی مرتبہ کہا کہ مقامی صحافیوں کے ساتھ ناانصافی کی انتہا ہوگئ ہے اور پریس کلب پر ایک مخصوص ٹولے کی اجارہ داری قبول نہیں ہوگی اور پریس کلب میں بلوچ اور پشتون صحافیوں کو ممبر شپ دینی چائیے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس ایوب ترین نے مقامی بلوچ اور پشتون صحافیوں کے لئے ایک تاریخی تحریک چلائی آج وہ اپنی ہی سرزمین سے بھاگنے پر مجبور ہوگیا ہے کیوں کہ بلوچ ان پر بلوچ دشمنی کا تہمت لگاتے ہیں۔ آخر بلو چ کب تک اپنے دوست اور دشمن کو پہچاننے سے انکارکرتے رہیں گےاور اتنے اہم دوستوں کو ناراض کریں گے؟ 
اگرچہ ایوب ترین نے پریس کلب میں بلوچ اور پشتوں صحافیوں کے لئے جد و جہد کا آغاز کیا لیکن جس صحافی نے حقیقی معنوں میں دور دراز سے آئے ہوئے مقامی صحافیوں کو پہلی مرتبہ ممبر شپ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا اور جنھوں نے یہ کہا کہ یہ پریس کلب آپ کی اپنی ہے کوئی اور نہیں بلکہ ایک اور پشتون صحافی حاجی عبدالرحمن اچکزئی  ( سابق سیکریٹری جنرل کوئٹہ پریس کلب) تھے۔ ۔ اللہ جنت نصیب کرے ہمارے مرحوم دوست سیف الرحمن کو ( جو سما ٹی وی کے لئے رپورٹنگ کرتے ہوئے دو ماہ قبل کوئٹہ کے بم دھماکے  میں شہید ہوئے ) جنھوں نے حاجی عبدالرحمن کے ساتھ دن رات رابطے کرکے پہلی  مرتبہ نوجوان بلوچ صحافیوں کے لئے ممبر شپ کے دروازےکھولے حالاں کہ مجھے بخوبی یاد ہے کس طرح چند نام نہاد سئینر صحافیوں کو عبدالرحمن اچکزائی کی یہ پالیسی ناخوش گوار گزرتی تھی لیکن وہ ان کے سامنے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ 
 جب یہی سیف لالہ شہید ہوئے تو ایوب ترین نے اسلام آباد سے بی بی سی کے لئے ان کے نام کالم لکھا۔ حاجی عبدالرحمن اچکزائی اگر ذاتی دلچسپی نہ لیتے تو شاید ہی کسی نئے بلوچ صحافی کو کوئٹہ پریس کلب کی ممبر شپ ملتی۔ اسی طرح سے ایک اور پشتون صحافی جنھوں نے دن رات بلوچ صحافیوں کے مسائل اور انھیں درپیش خطرات کے خلاف آواز بلند کی ہے وہ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر اور ہمارے مہربان دوست عیسیٰ ترین ہیں۔ عیسیٰ ا س بات پر قابل تحسین ہیں کہ انھوں نے ہر مظلوم صحافی کے حق میں مظاہرے کروائے چائے انھیں جس کسی نے بھی ہلاک کیا ہو۔ 
تمام خطرات کے باوجود عیسیٰ ترین اور بی یو جے نے  بلوچستان کے صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی قدر کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔  یہ لوگ ہمارے سماج کے وہ اثاثے ہیں جو نفرتوں کے بیچ میں مثبت سوچ اور بھائی چارے کو فروغ  دے رہے ہیں۔ آج کے نفسانفسی کے دور میں یہ فریضہ سرانجام دینا بہت ہی کٹھن کام ہے۔ زندہ جاوید معاشروںکی  ایک علامت یہ  بھی ہےکہ وہ اپنے محسنوں کی قدر کرے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ میری حتیٰ الوسع کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کالمز میں تمام قومتیوں، فرقوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی احترام کو فروغ دوں۔ نفرتیں پھیلانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ نفرت جنگل کے اس آگ کی مانند ہے جو اپنا راستہ خود تلاش کرتی ہےلیکن محبت اور بھائی چارہ کا کوئی آسان درس نہیں ہوتا بلکہ محبت تو اس بیچ کی طرح ہوتی ہےجسے بونا پڑتا ہے اور پھر اس کی مسلسل نگہداشت کرنی پڑتی ہےکیوں کہ تھوڑی سے لاپروائی سے محبت کا پودا مرسکتا ہے۔ 
 بلوچستان کے سماج کو مردہ پرستی سے نکلنا ہوگا اور ان جیتے ہیروز کی قدر کرنی چائیے جو ہر روز اپنی جانوں اور ذاتی مفادات کو ایک کونے میں رکھ کر دوسروں کے لئے زندگی آسان تر بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جونئیر ساتھیوں کے لئے بہتر مواقع پید ا ہوں۔ افسو س کہ آج بلوچستان میں قلم بندوق کے مقابلے میں بہت  ہی ناتواں ہوگیا ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ قلم زندہ اور مردہ، دوست اور دشمن ، سب کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قبر یں کود کود کر کہتا ہے کہ کوئی کچھ بھی کہے میڈم ناظمہ طالب اور محمود آفریدی جب تک زندہ تھے وہ ہمیں سیکھانے والے رہے اور جب  ہم میں نہ رہے تو بلوچستان کے شہیدوں میں شامل ہوگئے ۔ سیاست تو چلتی رہتی ہے، نفرتیں بڑھتی رہتی ہیں ،محبت اپنا راستہ تلاش کرتی رہے گی اور ظلم بڑھتا جائے گالیکن ہر سماج میں چندسقراط کو زندہ رہنا چائیے جنھیں زہر کا پیالہ پینا پڑے تاکہ سچ پر آنچ  نہ آئے۔ 

2 comments:

  1. ملک سراج اکبر جان من ھر وھدءَ تئی بنشتانکاں واناں ۔بازین گپانی سرا منا اختلاف ھم بیت بلے کیشتر تئی بنشاتکانی تہا راستی و گواچنی پدربیت ۔تئی اے نبشتانک ھم باز جوان انت پمن ءُ پا ھما وانوکاں یک راہشون و سبق ے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    باور بلوچ ،اسلام آباد

    ReplyDelete
  2. Malik sb, Excellent column and keep it up....

    ReplyDelete