تحریر: ملک سراج اکبر
تئیس فروری کو یو این پی او نامی تنظیم نے لندن میں بلوچستان کے مستقبل کے موضوع پر ایک اہم کانفرنس کا انعقاد کیا۔ یو این پی او کے نام سے تو یوں لگتا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کی کوئی ذیلی تنظیم ہے لیکن درحقیقت یہ محض ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کا مقصد دنیا کے ان لوگوں اور اقوام کی آواز بلند کرنا ہے جن کی دنیا میں بہت کم شنوائی ہوتی ہے۔ بلوچستان کی نمائندگی اس تنظیم میں نورالدین مینگل کررہے ہیں اور اس کانفرنس کے انعقاد میں بھی ان کی دن رات کی محنت شامل ہے۔ نورالدین مینگل اس حوالے سے قابل تحسین ہیں کہ انھوں نے اس کانفرنس کے توسط سے بلوچستان کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش کی بلکہ وہ اس بات پر زیادہ داد کے مستحق ہیں کہ ایک نوجوان بلوچ کارکن کی حیثیت سے وہ مختلف بلوچ سیاسی رہنماوں، دانشوروں اور اپنے دل میں بلوچستان کا درد رکھنے والے غیر ملکیوں کو اکھٹا کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں۔
بلوچستان میں اس وقت کیا ہور ہا ہے اور بلوچ کیا چاہتے ہیں اس پر زیادہ بحث ومباحثے کی ضرورت نہیں ہےکیوں کہ میرے قارئین کی اکثریت ان تمام باتوں سے پہلے ہی سے واقف ہے ۔ میں کوشش کروںگا کہ اس بات پربحث کروں کہ ہم نے لندن کانفرنس سے کیا سیکھا اور اس کے شروع میں’’ بلوچستان کا مستقبل‘‘ کے نام سے جس موضوع کا انتخاب کیا گیا تھا اسی کے حوالے سے غور کیا جائے کہ اس کانفرنس کے بعد ہمیں بلوچستان کا مستقبل کیسا نظر آتا ہے۔
لند ن کانفرنس سے کم از کم تین باتیں عیاں ہوئیں۔
اول، امریکی رکن کانگریس ڈینا روہراباکر ابھی تک بلوچستان کے حق ِ خود ارادیت کے حامی ہیں اور انھوں نے پچھلے سال فروری میں بلوچستان کے موضوع پر کانگریس میں جس اجلاس کی سماعت کی تھی وہ محض ایک اتفاق نہیں تھا بلکہ وہ بلوچستان کے معاملےمیں میں ابھی تک دلچسپی لے رہے ہیں کیوں کہ کانگریس کی سماعت کے بعد انھوں نے بلوچستان کی آزادی کے حق میں ایک قرارداد بھی پیش کی اور نیشنل پریس کلب میں ستائیس مارچ کو ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ لند ن کانفرنس میں انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ پتہ چلے کہ کتنے فیصد بلوچ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور کتنے آزادی کے حق میں ہیں۔
دوئم، لند ن کانفرنس سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی پسند بلوچ قوم پرست آنے والے عام انتخابات سے بالکل لاتعلق ہیں اوران میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے بلکہ ان کی مسلسل کوشش یہ ہے کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے لئے عالمی سطح پر کانفرنس اور سیمینار کے ذریعے حمایت حاصل کریں۔
سوئم، لند ن میں مقیم پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے لاہور سے نکلنے والے ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کو بتایا کہ بلوچوں کے مطالبات ’’ بکواس اور ناقابل قبول ‘‘ ہیں جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں کو عالمی سطح پر بلوچوں کی پر امن جدوجہد بھی ناقابل قبول ہے ۔ ( اس سے پہلے میں امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر شیری رحمن کی بلوچستان پر ہونے والی ایک کانفرنس کی مخالفت کے حوالے سے لکھ چکا ہوں)۔
تاہم لندن کانفرنس کے بعد مجھے یوں لگتا ہے کہ بلوچوں کے لئے دو مقررین نے مستقبل کے راستے کا تعین کیا ہے اور ان میں سے انھیں ایک راستے کا انتخاب کرنا پڑےگا۔
میں مستقبل کے اس روڈ میپ کو دو مکاتبِ فکر میں تقسیم کرتا ہوں۔ پہلے مکتبہ فکر کی سربراہی ڈینا روہرا باکر جیسے اراکین کانگریس کررہے ہیں جنھیں خود امریکی کانگریس میں زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا کیوں کہ روہراباکر ایک جذباتی اور موسمی سیاست دان ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ پاکستان کے بڑی حامی تھے لیکن جب ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تب سے وہ پاکستان کے دشمن بن کر ابھرے ہیں۔ وہ ہر اس شخض اور قوم کو اپنا دوست سمجھتے ہیں جو پاکستان کو اپنا دشمن سمجھے۔بلوچوں سے ان کی محبت تحقیق پر مبنی نہیں ہےبلکہ وہ تو بلوچستان کے مسئلے پر ہونے والے اجلاس میں بلوچ کو ’’بالوک‘‘ کہہ رہے تھے لیکن ان کی وجہ سے بلوچوں میں غیر حقیقت پسندانہ توقعات نے جنم لیا ہے اور کچھ لوگ سمجھنے لگے کہ اب تو امریکہ ( کی حکومت) بلوچوں کی حمایت کررہی ہے اور کچھ عرصے کے بعد بلوچستان آزاد ہوگا۔ کانگریس میں ڈینا روہرا باکر جیسے چار سو چونتیس دیگر اراکین ِ ہیں ۔ لہذہ ایک رکن کانگریس کی رائے کو اتنی اہمیت دینی چائیے جتنا اس کا حق ہے اور جتنا اس کےبساط میں ہے۔ پچھلے مہینے ہم نے ایک رکن کانگریس کے اسٹاف ممبر سے پوچھا کہ ان کے کانگریس مین بلوچستان کی تحریک کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو انھوں نے ہنس کر کہا کہ ہم بلوچستان کی ضرور حمایت کریں گے بشرطیکہ بلوچوں کی وکالت کوئی سنجیدہ کانگریس مین کرے نا کہ روہرا باکر جن کے ساتھ بہت کم سنجیدہ اراکین کانگریس کام کرنے کو تیار ہوں گے۔
انھوں نے بلوچستان میں ریفرنڈم کا جو مشورہ دیا ہے وہ بلوچستان کے موجودہ حالات میں بلوچ قوم پرستوں کے لئے خود کشی کے برابر ہے۔ پاکستانی حکومت نے مختلف طرائق سے آزادی پسند بلوچوں کے لیے دروازے اس قدر بند کئے ہوئے ہیں کہ ان کے لئے صوبائی اسمبلی میں دس نشستیں جیتنا بھی ناممکن ہے۔
انھوں نے بلوچستان میں ریفرنڈم کا جو مشورہ دیا ہے وہ بلوچستان کے موجودہ حالات میں بلوچ قوم پرستوں کے لئے خود کشی کے برابر ہے۔ پاکستانی حکومت نے مختلف طرائق سے آزادی پسند بلوچوں کے لیے دروازے اس قدر بند کئے ہوئے ہیں کہ ان کے لئے صوبائی اسمبلی میں دس نشستیں جیتنا بھی ناممکن ہے۔
دوسری طرف برطانیہ کی گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کے دیرینہ ہمدرد پیٹر تیچل نے نسبتاً حوصلہ شکن لیکن اہم باتیں کیں جن پر بلوچ قوم پرستوں کو ڈینا روہراباکر کی باتوں سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ جو فیصلے بلوچ قوم کے لئے ان کےاپنے رہنما کرسکتے ہیں وہ ڈینا روہرا باکر اور پیٹر تیچل نہیں کرسکتے۔ پیٹر تیچل نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کو اس وقت تین سنگین خامیوں کا سامنا ہے جن پر بروقت قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔
اول، انھوں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک میں اتحاد و یکجہتی کی بہت کمی ہے جس کا باقاعدہ فائدہ ان کے دشمنوں کو ہورہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اختلاف رائے اچھی بات ہے لیکن اس وقت تمام قوتوں کو ان کم سے کم نکات پر یکجاہ ہونا چائیے جن پر وہ متفق ہیں۔ انھوں نے کہا جب تک بلوچ غیر متحدرئیں گے تب تک ان کی آزادی کی منظر دور سے دور تر چلی جائے گی۔ انھوں نے اس سلسلے میں ستر کی دہائی میں انگولا کی آزادی کی تحریک کا جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف تحریک کے ساتھ موازنہ کیا اور کہا کہ انگولا میں آزادی کا سفر اس لئے طویل ہوگیا تھا کیوں کہ وہاں تین گروہ بیک وقت علیحدہ علیحدہ جنگ لڑرہے تھے اور آزاد ہونے کےبعد تینوں گروہوں کے مابین اس بات پر ایک نئی خانہ جنگی شروع ہوئی کہ ملک پر قبضہ کس کا ہوگا۔ جب کہ ا سکے مقابلے میں جنوبی افریقہ کے لئے نسل پرستی کا خاتمہ آسان تر ہوا کیوں کہ سب نے افریقن نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم پر جد وجہد کی۔
دوسری بات جس پر پیٹر تیچل نے توجہ مبذول کی وہ بلوچ قومی تحریک میں فیصلہ سازی کے اعلیٰ سطح پر خواتین کی عدم شمولیت ہے۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ چند خواتین بھر پور طریقے سے تحریک میں حصہ لے رہی ہیں لیکن بقول ان کے یہ ناکافی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے لندن کانفرنس کے حاضرین اور مقررین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں خواتین کدھر ہیں؟ انھوں نے کہا کہ لندن اور جنیوا میں بھی بلوچوں کے جو مظاہرے ہوتے ہیں ان میں پچانوے فیصد مرد ہوتے ہیں۔ جب تک قومی تحریکوں میں خواتین برابر کی شریک نہیں ہوتی ہیں وہ تحریکیں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گی۔
تیسری اور اہم بات جس پر پیٹر تیچل نے اظہار افسوس کیاوہ بلوچوں کی طرف سےآزادی کے لئے روڑ میپ کی عدم موجودگی ہے۔ انھوں نے کہا جب تک بلوچ ایک ایسا متفقہ دستاویز تیار نہیں کرتے جس میں وہ پاکستان اور ایران اور باقی دنیا کو یہ بتا سکیں کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں اور جو کچھ چاہتے ہیں اسے کیسے حاصل کریں گے تب تک دنیا میں کوئی انھیں سنجیدگی سے نہیں لےگا اور نہ ہی ان پرمظالم ڈھانے والے ممالک پر کوئی دباو ڈالا جاسکے گا۔
بلوچوں کے لئے مستقبل کےیہی دو راستے ہیں۔ اگر وہ ڈینا روہرا باکر جیسے جذباتی سیاست دانوں کو اپنا ہیرو مانیں گے اور یہ سمجھتے رہیں گے کہ آج نہیں تو کل وہ آزاد ہوں گے تو شاید وہ خود فریبی کا شکار رہیں گےلیکن اگر وہ پیٹر تیچل جیسےحقیقت پسند سیاستدانوں کی باتوں پر غور کریں گے تو انھیں پتہ چلے گا کہ آزادی آج یا کل ملنے والی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے لئے لازمی ہے کہ سب سے پہلے اپنے اندرونی خامیوں پر قابو پالینا چائیے اورذہنی طور پر تیار ہونا چائیے کہ آزادی ایک یا دودن میں نہیں ملتی اس کے لئے دہائیاں، صدیاں اور ہزاریے لگتے ہیں اور بلوچ قومی تحریک اس دن صیح معنوں میں شروع ہوگی جب تمام رہنما اور جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے۔

No comments:
Post a Comment