تحریر: ملک سراج اکبر
ہر سیاسی تجزیہ نگار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی پیشن گوئی درست ثابت ہولیکن کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی بُری پیشن گوئی بھی سچ ثابت ہو اور اس سے زیادہ بری بات یہ ہوگی کہ وہ پیشن گوئی بہت جلد ہی درست نکلے۔ ابھی چند دن پہلے ہی ہم نے اپنے مضمون ’’ سرمچارگردی‘‘ میں بلوچ قوم پرستوں خاص کر بلوچ لبریشن فرنٹ(بی ایل ایف) اور بلوچ نیشنل فرنٹ (بی این ایف) کو یاد دلایا تھا کہ وہ اپنی عاقبت نا اندیشی اور غلط حکمت عملی سے مکران میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے لئے بلوچ مخالف سرگرمیوں کے لئے راہ ہموار کررہے ہیںکہ وہ خضدار کے بلوچ مسلح دفاعی تنظیم کی طرز پر نئے سرکار نواز مسلح تنظیمیں مکران میں بھی قائم کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ قوم پرست مقامی بلوچ آبادی کی قومی وابستگی کا غلط وقت پر غلط پیمانے پر امتحان لے رہے رہیں جس کے پیش نظر ممکن ہے کہ بہت سارے مقامی لوگ بی این ایف کو یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ بلوچ ہونے کے ناطے ہم نے آپ کے ساتھ کافی حد تک سنگتی کی لیکن آپ نے ہماری سنگتی کا مثبت جواب نہیں دیا اور اب ہمارے گھروں میں چولہہ بُجنے والا ہے اور آپ کوصرف اپنی سیاست کی پڑی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری دونوں پیشن گوئیاں درست ثابت ہوگئیں۔
مکران میں کیبل ٹی وی کے کاروبار سے وابستہ تمام افراد مقامی بلوچ ہیں جنھوں نے بلوچیت کے حوالے سے قوم پرستوں کے ساتھ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر تین ہفتوں تک لگاتار تعاون کیا اور پرائیوٹ نیوز چینلز پر بلوچستان سے متعلق خبروں کی عدم کوریج کے خلاف بی این ایف کی بائیکاٹ پر رضاکارانہ طور پر تمام چینلزبند کئے لیکن اس تمام عرصے میں بی این ایف نے مقامی کیبل آپریٹرز کی مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ کسی بھی چینل پر خبریں چلانے کا فیصلہ کیبل آپریٹر یا مقامی صحافی نہیں کرتے بلکہ یہ اہم فیصلے بڑے شہروںمیں بیٹھے ایڈیٹرز اور چینلز کے مالکان کرتے ہیں اوران تک کیبل آپریٹرز کی رسائی نہیں ہے۔اب کیبل آپریٹرز کا کہنا ہے کہ ایک حکومت پسندزیر زمین تنظیم لشکرِ بقائے پاکستان نے انھیں دھمکی دی ہے کہ اگر انھوں نے کیبل سروس دوبارہ شروع نہیں کی تو ان پر جان لیوا حملے کئے جائیں گے۔
بچارے کیبل آپریٹر مخمصے کا شکار ہیں کہ بی این ایف قوم پرست اور بلوچ دوست ہونے کے باوجود انکی جانوں کو درپیش خطرات کے باوجود اپنی بائیکاٹ ختم کرنے پر تیار نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان مقامی لوگوں کے گھروں میں چولہہ جلنا بند ہوگیا ہے اس کی بھی انھیں کوئی پروا نہیں ہے۔یو ں آج کے اخبارات میں بلوچ کیبل آپریٹرز نے برملا انداز میں بے این ایف کو کہا دیاہے کہ ہم نے بلوچیت کے ناطے آپ کے ساتھ جتنا تعاون کرنا تھا کر لیا لیکن آپ ہماری مجبوریوں کوسمجھ نا پائے۔
بچارے کیبل آپریٹر مخمصے کا شکار ہیں کہ بی این ایف قوم پرست اور بلوچ دوست ہونے کے باوجود انکی جانوں کو درپیش خطرات کے باوجود اپنی بائیکاٹ ختم کرنے پر تیار نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان مقامی لوگوں کے گھروں میں چولہہ جلنا بند ہوگیا ہے اس کی بھی انھیں کوئی پروا نہیں ہے۔یو ں آج کے اخبارات میں بلوچ کیبل آپریٹرز نے برملا انداز میں بے این ایف کو کہا دیاہے کہ ہم نے بلوچیت کے ناطے آپ کے ساتھ جتنا تعاون کرنا تھا کر لیا لیکن آپ ہماری مجبوریوں کوسمجھ نا پائے۔
مکران کے کیبل آپریٹرز کے بے زاری اور تنظیم لشکرِ بقائے پاکستان کا قیام اپنی جگہ پر لیکن بنیادی طور پر بی این ایف نے کیبل نیوز کے بائیکاٹ کا جو فیصلہ کیا تھا وہ جذبات پر مبنی تھا اور اس سے یہی بات ظاہرہوئی کہ قوم پرست قیادت کو خود بلوچستان کی میڈیا اور اس کے ڈھانچے کے بارے میںحقائق کا پتہ نہیں اور جب تک قوم پرست اس ڈھانچے کو نہیں سمجھتے اس وقت تک اس طرح کےبائیکاٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ
تاریکی سے نفرت کرنے سے بہتر ہے کہ آپ ایک شمع روشن کریں ۔ کیبل آپریٹرز پر تنقید کرنے سے پہلے بلوچ قوم پرستوں کو درج ذیل باتوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں کام کرنے والے تمام بڑے میڈیا اداروں مثلاً جنگ، جیو، دا نیوز،ڈان، ، ایکسپریس، آج ٹی وی، دنیا ٹی وی، سما ٹی وی، بی بی سی، وائس آف امریکہ وغیر ہ وغیر ہ کے کوئٹہ بیورو آفیس میں بلوچ صحافی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔قوم پرست رہنماوں نے کبھی اس مسئلے پر آواز بلند نہیں کی کہ اگر جنگ اخبار سالانہ کروڑوں روپے کے اشتہارات حکومت بلوچستان سے لے رہا ہے تو وہاں اتنے بڑے دفتر میں پانچ فیصد بلوچ بھی برسر روزگار کیوں نہیں ہیں؟ جنگ اخبار میں ایڈیٹرز، رپورٹرز، فوٹو گرافر تو بہت دور کی بات ہے، کتنے بلوچوں کو بطور ڈرائیور، باورچی اور چوکیدار نوکری دی جاتی ہے؟ اسی طرح سے روزنامہ مشرق بھی ہر سال کروڑوں روپے بلوچستان کے محکمہ تعلقات عامہ سےاشتہارات کے مد میں لیتا ہے لیکن وہاں بھی آپ کو بمشکل کوئی بلوچ صحافی یا لوئر لیول کا اسٹاف ممبر نظر آتا ہے۔
مندرجابالا تمام میڈیا اداروں میں بلوچ صحافی نہ ہونے کے برابر ہیں اور نہ ہی بلوچوں کو نوکری دی جاتی ہے۔ لیکن کیا بلوچ قوم پرستوں نے کبھی اس مسئلے پر آواز بلند کی ہے؟ کیا ایکسپریس یا مشرق لاہور یا پشاور کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر قلات یا مستونگ کا صحافی بن سکتا ہے؟ا گر نہیں تو ایسا کیوں ہے کہ بلوچستان میں تمام بڑے اخبارات، ٹی وی چینلز اور نیوز ایجنسیوں کے دروازے بلوچو ں پر بند ہیں اور ان اہم عہدوں پر باہر سے آئے ہوئے صحافی براجمان ہیں؟ جو قوم پرست کسی اخبار کے دفتر میں ایک بلوچ کو بطور چپڑاسی اور ڈرائیور نوکری نہیں دلاسکتے وہ گوادر پورٹ اور ریکوڈیک میں بلوچوں کے مفادات کا کیا تحفظ کریں گے؟ کیا اس مسئلے کا اٹھانا بلوچ قوم پرستوں کی ذمہ داری نہیں تھی؟
کیا قوم پرستی صرف الیکشن میں حصہ لینے یا پہیہ جام ہڑتا ل کرنے کا نام ہے؟ جب آپ کے لوگ اہم میڈیا اداروں میں نہیں ہوں گے تو آپ کی خبریں کیسے کیبل ٹی وی پر آئیں گی؟ ممتاز بزرگ صحافی صدیق بلوچ ہر وقت یاد کرتے ہیں کہ کس طرح میر غوث بخش بزنجو نے انھیں ڈان اخبار میں نوکری حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔ بعد میں یہی صدیق بلوچ چالیس سال تک ڈان جیسے بڑے اخبار کے ساتھ وابستہ رہا اور پھر بلوچستان کو آزادی اور بلوچستان ایکسپریس جیسے اہم اخبارات دئیے اور ہم جیسے سینکڑوں بلوچ صحافیوں کی تربیت بھی اسی ایک شخص نے کی ۔ لیکن آج کے بلوچ سیاسست دان کے پاس غوث بخش بزنجو والی سوچ کہاں کہ کسی بلوچ نوجوان کو ایک بڑے ادارے میں نوکری دلائے تاکہ آگے چل کر وہ اپنی منزل خود تلاش کرسکیں۔
کیا آج عثمان ایڈوکیٹ اور روف مینگل خضدار آنے والے حامد میر سے یہ گذارش نہیں کرسکتے کہ چار بلوچ نوجوانوں کو جیو ٹی وی کراچی اور اسلام آباد میں نوکریاں دیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بہتر ہوں؟ غوث بخش بزنجو نے صدیق بلوچ پر جو سرمایہ کاری کی اس کا نتیجہ ہمیں آج چار دھائیوں کے بعدآج مل رہاہے ۔ اسی طرح آج کے بلوچ رہنمااگر بلوچ نوجوانوں کو اہم قومی اخبارات اور چینلز میں بطور رپورٹر نوکریاں حاصل کرنے میں مدد کریں گے تو چند سال بعد یہی نوجوان بڑے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر نیو ز بنیں گے۔افسوس کا مقام ہے کہ ہماراآج کا سیاست دان زندہ باد مردہ باد سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا تو پھر وہ بلوچ نوجوان پر کیا سرمایہ کاری کرےگا جس کا پھل ہمیں آج سے چالیس سال بعد ملے؟
مندرجابالا تمام میڈیا اداروں میں بلوچ صحافی نہ ہونے کے برابر ہیں اور نہ ہی بلوچوں کو نوکری دی جاتی ہے۔ لیکن کیا بلوچ قوم پرستوں نے کبھی اس مسئلے پر آواز بلند کی ہے؟ کیا ایکسپریس یا مشرق لاہور یا پشاور کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر قلات یا مستونگ کا صحافی بن سکتا ہے؟ا گر نہیں تو ایسا کیوں ہے کہ بلوچستان میں تمام بڑے اخبارات، ٹی وی چینلز اور نیوز ایجنسیوں کے دروازے بلوچو ں پر بند ہیں اور ان اہم عہدوں پر باہر سے آئے ہوئے صحافی براجمان ہیں؟ جو قوم پرست کسی اخبار کے دفتر میں ایک بلوچ کو بطور چپڑاسی اور ڈرائیور نوکری نہیں دلاسکتے وہ گوادر پورٹ اور ریکوڈیک میں بلوچوں کے مفادات کا کیا تحفظ کریں گے؟ کیا اس مسئلے کا اٹھانا بلوچ قوم پرستوں کی ذمہ داری نہیں تھی؟
کیا قوم پرستی صرف الیکشن میں حصہ لینے یا پہیہ جام ہڑتا ل کرنے کا نام ہے؟ جب آپ کے لوگ اہم میڈیا اداروں میں نہیں ہوں گے تو آپ کی خبریں کیسے کیبل ٹی وی پر آئیں گی؟ ممتاز بزرگ صحافی صدیق بلوچ ہر وقت یاد کرتے ہیں کہ کس طرح میر غوث بخش بزنجو نے انھیں ڈان اخبار میں نوکری حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔ بعد میں یہی صدیق بلوچ چالیس سال تک ڈان جیسے بڑے اخبار کے ساتھ وابستہ رہا اور پھر بلوچستان کو آزادی اور بلوچستان ایکسپریس جیسے اہم اخبارات دئیے اور ہم جیسے سینکڑوں بلوچ صحافیوں کی تربیت بھی اسی ایک شخص نے کی ۔ لیکن آج کے بلوچ سیاسست دان کے پاس غوث بخش بزنجو والی سوچ کہاں کہ کسی بلوچ نوجوان کو ایک بڑے ادارے میں نوکری دلائے تاکہ آگے چل کر وہ اپنی منزل خود تلاش کرسکیں۔
کیا آج عثمان ایڈوکیٹ اور روف مینگل خضدار آنے والے حامد میر سے یہ گذارش نہیں کرسکتے کہ چار بلوچ نوجوانوں کو جیو ٹی وی کراچی اور اسلام آباد میں نوکریاں دیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بہتر ہوں؟ غوث بخش بزنجو نے صدیق بلوچ پر جو سرمایہ کاری کی اس کا نتیجہ ہمیں آج چار دھائیوں کے بعدآج مل رہاہے ۔ اسی طرح آج کے بلوچ رہنمااگر بلوچ نوجوانوں کو اہم قومی اخبارات اور چینلز میں بطور رپورٹر نوکریاں حاصل کرنے میں مدد کریں گے تو چند سال بعد یہی نوجوان بڑے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر نیو ز بنیں گے۔افسوس کا مقام ہے کہ ہماراآج کا سیاست دان زندہ باد مردہ باد سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا تو پھر وہ بلوچ نوجوان پر کیا سرمایہ کاری کرےگا جس کا پھل ہمیں آج سے چالیس سال بعد ملے؟
کوئٹہ میں کام کرنے والے کتنے ایسے صحافی ہیں جو بلوچی زبان بولتے ہیں اور جنھوں نے کبھی ( سرکاری دوروں کے علاوہ) کبھی کوئٹہ سے باہر قدم رکھا ہے؟ کچھ عرصہ پہلے بلوچ صحافیوں کے ایک وفد نے راقم الحروف کی قیادت میں سردار اختر مینگل سےان کے بھائی جاوید مینگل کے ریلوئے ہاوسنگ سوسائٹی کوئٹہ والے گھر میں ملاقات کی اور انھیں بلوچستان بھر میں کام کرنے والے تما م میڈیا اداروں میں بلوچوں اور دیگر اقوام کے تناسب کے حوالے سے باقاعدہ ایک فہرست پیش کی ۔ کوئٹہ کے میڈیا میں بلوچوں کا تناسب بمشکل پانچ فیصد تھا اور میں نے ان سے کہا کہ سردار صاحب بلوچوں کے پاس پڑھے لکھے تربیت یافتہ صحافیوں کی کمی نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ان اداروں میں بلوچوں کو نوکریاں نہیں ملتی ہیں کیوں کہ جس طرح پاکستانی فوج بلو چ سیاستدانوں پر بھروسہ نہیں کرتی اسی طرح سے قومی اخبارات اور چینلز کے مالکان بلوچ صحافیوں پر اعتبار نہیں کرتے اور اس مسئلے پر ہمیں بلوچ قوم پرست سیاست دانوں کی حمایت کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ کسی جماعت سے جڑی ہوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بلوچستان کا ایک قومی مسئلہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے میڈیا میں روزگار پر سب سے پہلا حق مقامی لوگوں کا ہونا چائیے اور میرٹ کا تقاضہ یہ ہے کہ مذکورہ صحافی مقامی زبانوں، تاریخ اور جغرافیہ سے واقف ہو۔سردار اختر مینگل نے اس حوالے سےکبھی ہمارے ساتھ پھر بات نہیں کی اور ہم نے وہی فہرست بعد میں نیشنل پارٹی ، بی ایس او آزاد اور بی آر پی کےرہنماوں کے ساتھ بھی شئیر کیا اور کہا کہ بلوچستان کے حقوق کی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک آپ بلوچ صحافیوں کے حقو ق کی بات نہیں کرتے۔ کسی ایک بلوچ رہنما نے اس بات کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی آج بھی کسی بلوچ قوم پرست جماعت کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ جب وہ بلوچستان کے حقو ق کی بات کریں تو اس بات کو بھی سامنے لائیں کہ کن کن اداروں ( یا این جی اوز میں) بلوچوں کو نوکریاں دی گئی ہیں۔ جب ایف سی کی سفارش پر ہمارے محترم صحافی دوست شہزادہ ذولفقار کو ان کی نوکری سے برخاست کیا گیا تو اس وقت تو کوئی قوم پرست ان کے شانہ بشانہ کھڑا نہیں ہوا۔
بلوچستان کے میڈیا میں بلوچ نوجوانوں کو روزگار دلانے میں اپنا کردار ادا کر نا تو کُجا بہت سارے بلوچ رہنما بشمول بلوچ مسلح تنظیمیں غیر بلوچ صحافیوں کو نوازنے اور پرموٹ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ الجزیرہ راتوں رات کیسے دنیا کا ایک بہت بڑا نیوز چینل بن گیا؟ اس لئے کہ نائن الیون کے بعد القاعدہ نے اپنی تمام ویڈیوز صرف الجزیرہ کو دیں تاکہ پوری دنیا خبر حاصل کرنے کی خاطر عربوں کے چینل الجزیر ہ سے رابطہ کرے اسی طرح طالبا ن نے بھی یہ حکمت عملی اپنائی اوراپنی ہر بڑی خبر پشتون صحافیوں رحیم اللہ یوسف زئی ، سلیم صافی، سمیع یوسف زئی وغیر ہ کو دی تاکہ پوری دنیا کے نزدیک طالبان کے حوالے سے خبروں کا مرکز و محور ان کے اپنے پشتون ہی ہوں۔
کیا ان دس سالوں میں بی ایل اے، بی ایل ایف وغیر ہ نے کبھی یہ کوشش کی کہ اپنی اہم خبریں اور ویڈیوز صرف بلوچ صحافیوں کو دیں تاکہ ان کی اتنی اہمیت ہو کہ پوری دنیا سے لوگ بلوچستان اور بلوچ کے حوالے سے خبر حاصل کرنے کے لئے کسی بلوچ صحافی سے رابطہ کریں؟ہم نے بلوچستان کی پوری تحریک میں ایک بلوچ صحافی تیار نہیں کیا ۔غیر بلوچ صحافیوں کو نوازنے کا سلسلہ بی ایل اے نے خود دو ہزار چار میں اس وقت شروع کیا جب آن لائن نامی نیوز ایجنسی کو سب سے پہلے کاہان میں ایک گوریلا کیمپ میں مدعو کیا گیااور سرمچاروں کی تصویریں بنائی گئیں۔ اس کے بعد جان سولیکی کے اغوا کی خصوصی ویڈیو بھی اسی ایجنسی کو فراہم کی گئی تھی ۔
بلوچ قوم پرستوں کا یہ حال رہا ہے کہ وہ اپنی پریس کانفرنس کا آغاز چندمخصوص صحافیوں کی عدم موجودگی میں تو شروع ہی نہیں کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک بلوچ قوم پرست رہنما نے یہ کہہ کر اپنی پریس کانفرنس شروع نہیں کی کہ این این آئی کے بیورو چیف عاشق بٹ صاحب تشریف نہیں لائے تھے۔ ہمارے ساتھ بیٹھے ایک بلوچ صحافی نے سرگوشی کی ’’اے وامارا و ا ہیچ مردم بے نکناں‘‘ ( یہ (لیڈر) لوگ ہمیں (صحافیوں کو) تو بالکل انسان ہی نہیں گردانتے ) ۔آج بھی جب بلوچ صحافی رہنماوں کو فون کرکے خبر لیتے ہیں تو بلوچ رہنما جواب میں کہتے ہیں کہ اپنے لئے خبربناو یا نہیں لیکن مہربانی کرکے اس خبر کی ایک کاپی آن لائن اور این این آئی نیوز ایجنسی کو ضرور دے دیں۔ جہاں بلوچ رہنماوں کا رویہ ہی اس قدر منفی ہو کہ خود بلوچ صحافیوں کو نظر انداز کریں اور ان اداروں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ترجیح دیں جن کے حوالے سے پھر بی این ایف یہ شکایت بھی کرتی ہے کہ ان کی خبریں نہیں لگتی ہیں تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیبل چینلز کے بائیکاٹ کا کوئی جواز بندتا بھی ہے یا نہیں؟ اگر میڈیا کے حوالے سے بلوچ رہنماوں کا رویہ دوغلاپن کا شکار ہے تو پھر
بچارے کیبل آپریٹزر کا کیا قصور ہے؟ جہاں قومی تحریکوں میں اسٹریٹجک سوچ اور پلاننگ کی کمی ہو تووہاں لوگ سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ ان کی قومی تحریک کا دار ومدار ایک پریس ریلیز کی اشاعت اور ٹی وی پر چلنے والے ایک ٹیکر سے ہے۔ یہ قوم پرست تحریک اور اس کے رہنماوں کے لئےلمحہ فکریہ ہے۔

No comments:
Post a Comment