Sunday, March 24, 2013

اور جنرل مشرف واقعی واپس لوٹ گئے

تحریر: ملک سراج اکبر 

جنرل مشرف  کے بیشتر ناقدین کا خیال تھا کہ وہ عام انتخابات سے پہلے وطن واپس لوٹنے کے اپنے طے شدہ اعلان سے مکر جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ اتوار کے روز بالآخر لندن اور دبئی میںاپنی چار سالہ جلاوطنی ختم کرکے واپس وطن لوٹ گئے۔ پاکستانی سیاست میں تئیس مارچ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور جنرل مشرف کی بھی دلی خواہش ہوئی ہوگی کہ وہ یوم پاکستان ہی کو واپس لوٹیں لیکن اس روز مینار پاکستان کے سائے تلے پاکستان تحریک انصاف کا جو بڑاجلسہ ہونے والاتھا اس کے پیش نظر انھوں نے اپنی واپسی کے لئے چوبیس مارچ کا انتخاب کیا تاکہ انھیں میڈیا میں مناسب کوریج ملے۔ ابھی تک یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آخر وہ واپس کیوں آئے ہیں کیوں کہ ان کی آمد کے ایک روز پہلے تحریک طالبا ن پاکستان نے انھیں’’ واصل جہنم‘‘ کرنے کی دھمکی بھی دی  تھی جب کہ ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی کوئی سیاسی ساکھ بھی نہیں ہے جس کو لے کر یہ گمان جائے کہ اہم انتخابی کامیابیاں جنرل مشرف کے لئے منتظر تھیں اور اگر وہ ملک سے باہر رہتے تو قیمتی ووٹوں سے محروم رہ جاتے۔ 
جب جنرل مشرف اقتدار سے بے دخل ہوئے تھے تو پی پی پی کی حکومت نے انھیں بڑے احترام سے گارڈ آف ہانر دے کر ملک سےباہر جانے کا موقع دیا۔ وطن واپسی پر جنرل مشرف بے حد تنہا ہونے کے باوجود بھی بڑے پراعتماد لگے رہےتھے۔کراچی پہنچتے ہی انھوں نے کہا کہ ان کا دل خون کے آنسو رورہا ہے کہ وہ پاکستان کو جس حال میں چھوڑ کر چلے گئے تھے اس کا حال اب بدتر ہوگیا ہے۔ حالات کا پتہ نہیں لیکن ایک بات واضح ضرور ہے کہ جنرل مشرف جب ملک چھوڑ کر گئے تھے تو ان کے خلاف عوامی غم و غصہ زیادہ تھا اور چار سال بعد جب وہ واپس ملک لوٹے ہیں تو اس نفرت میں کمی نہیں آئی ہے۔ پاکستان میں جنرل مشرف کے دوست بہت کم اور مخالفین زیادہ ہیں۔ ملک کی دو سب سے بڑی جماعتیں پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ مختلف وجوہات کی بنا پر ان سے نالاں ہیں۔  
بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو ایک فوجی انقلا ب کے ذریعے جب انھوں نے میاں محمد نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور سابق وزیراعظم اور ان کے بھائی شہباز شریف کو سعودی عرب جلاوطن کردیا تب سے شریف برادران ان سے سیاسی انتقام لینے کے لئے بے قرار ہیں اور اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ وہ جنرل مشرف سے بدلہ لے لیں۔ جب کہ دوسری طرف پی پی پی اگرچہ جنرل مشرف سے قومی مفاہمتی آرڈینس یا این آر او کے تحت ڈیل کرکے اقتدار میں آئی اور جنرل مشرف کو راہِ فرار فراہم کیا لیکن پارٹی کے شریک چئیرمین بلاول بھٹو زرداری جنرل مشرف کو اپنی والدہ کا قاتل سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جنرل مشرف جنرل ضیا الحق کی طرح ’’ خوش قسمت ‘‘ نہیں رہے کہ دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات استواراور برقرار رکھتے۔انھوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر پاکستانی مذہبی جماعتوں کی دشمنی مول لی اوریہ دشمنی اپنی انتہا کو اس وقت پہنچی جب جولائی دو ہزار سات کو جنرل مشرف نے اسلام آباد کے لال مسجد میں آپریشن کیا جس کے نتیجے میں ایک سو دو افراد ہلاک ہوئے۔ لال مسجد آپریشن کے ردعمل میں پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی کا قیام عمل میں آیا۔ جنرل مشرف سے مسلم لیگ اور پی پی پی شاید سیاسی و عدالتی طریقے سے انتقام لینا چائیں گے لیکن مذہبی جماعتیں اس معاملے میں ان کے ساتھ کوئی رعایت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔جب جنرل مشرف اقتدار میں تھے تو ان پر مذہبی شدت پسند عناصر نے کم از کم تین قاتلانہ حملے کئے جن میں وہ بال بال بچ گئے۔ لیکن جس زمانے میں یہ حملے ہوئے تھے اس وقت پاکستانی طالبان اتنے مضبوط نہیں تھے جتنے وہ آج بن چکے ہیں۔ٹی ٹی پی کے لہجے میں جنرل مشرف کے لئےکوئی نرمی نہیں ہے اورانھوں نے ایک تازہ ترین ویڈیو میں یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جنرل مشرف کو جان سے ماردیں گے۔ 
مشرف مخالف جذبات کا ایک گڑھ بلوچستان ہے لیکن جو لوگ بشمول سیاسی تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ صرف نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت ہے تو وہ دراصل اس تمام صورت حال کی سنگینی سے لاعلم ہیں۔نواب بگٹی کی ہلاکت پاکستان مخالف جذبات میں ایک سنگِ میل ضرور ثابت ہوا لیکن مشرف سے بلوچوں کی نفرت شاید اس دن شروع ہوئی جب انھوں نے ٹیلی ویژن پر مکا لہرا کر بلوچوں کو دھمکی دی کہ تمہیں ایسا ہٹ کیا جائے گا کہ تمہیں پتہ تک نہیں چلے گا کہ کس طرف سے تمہیں ہٹ کیا گیا کیوں کہ یہ ستر کا زمانہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں مشرف نے فوجی آپریشن کرکے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا اور سینکڑوں نوجوانوں کو لاپتہ کیا اوروہ ان تمام افراد کے مجرم ہیں۔ 
جب جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کیا تواس وقت عدلیہ بہت کمزورتھی لیکن اب وہ نہ صرف بہت مضبوط ہوگئی ہے بلکہ اس کے جج صاحبان اپنی انا کو خوش رکھنے کے لئے ذاتی انتقام لینے سے گریز بھی نہیں کرتے۔ پاکستان میں آج عدلیہ باقاعدہ ایک سیاسی فریق بن گئی ہے جس کے زیادہ تر فیصلے ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر کیئے جاتے ہیں۔ لہٰذہ یہ بات خارج از امکان نہیں کہ چیف جسٹس چوہدری جنرل مشرف سے اپنی تذلیل اور برطرفی کا پورا بدلا لیں گے۔ اسی طریقے سے پاکستانی میڈیا جسے مشرف کے دور میں بند کیا گیا تھا سابق فوجی سربراہ سے خوش نہیں ہے۔گذشتہ روز ہیومن رائٹس واچ نے بھی ایک تفصیلی بیان میں پاکستان حکومت پر ضرور دیا   ہے کہ وہ جنرل مشرف کا ان کی واپسی پر احتساب کرے کیوں کہ ان کے دور حکومت میں پاکستان میں انسانی حقوق کی بے پناہ مالی ہوئی ہوئی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ کا بیان شدید سخت ہے اور اس کے کسی گوشے میں بھی جنرل مشرف کے لئے ہمدردی جھلکتی نہیں ہے۔
 ان تمام نا مساعد حالات میں اگر جنرل مشرف کے لئے کوئی روشن امکان دیکھنے میں آیا ہے تو وہ صرف سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے ان کی ضمانت کی تین درخواستوں کی قبولیت  ہے لیکن سند ھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو حرف ِ آخر نہیں سمجھنا چائیے ۔ سپریم کورٹ ان فیصلوں کو کسی وقت بھی رد کرسکتی ہے۔ 
اس بات سے قطعی نظر کہ جنرل مشرف گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیتے ہیں یا نہیں ان کی وطن واپسی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں فوج تین مرتبہ اقتدار پر قابض رہی ہے اورملک کی تاریخ کے آدھے حصے سے زیادہ عرصے میں فوج نے حکمرانی کی وہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی سابق فوجی آمر باقاعدہ ایک نئی سیاست کئیریر کا آغاز کررہا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ خان اورجنرل ضیا الحق کو کبھی اقتدار کے بعد سیاست میں آنے کا موقع نہیں ملا۔جنرل مشرف نے پاکستانی کی سیاست کو ایک نئے آزمائش میں ڈال دیا ہے۔
کیا فوج اپنے ایک سابق سربراہ کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کی اجازت دے گی؟ اگر ہاں تو فوج خود اپنے پاوں پر کلہاڑی مارد ے گی اور مستقبل میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے  دروازے بند کرے گی۔ ہونا تو یہی چائیے لیکن ایسا نہیں لگتا کہ فوج مستقل بنیادوں پر بیرکوں میں جانے اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں فوج نے اقتدار میں قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن مسئلہ صرف یہ ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد فوج کا مورال اتنا گر گیا کہ فوجیوںمیں یہ سکت  باقی نہ رہی کہ وہ غیر جمہوری انداز میں اقتدار پر قبضہ جمائیں ۔جن لوگوں نے جنرل کیانی کے بارے میں یہ پیشن گوئی کی تھی کہ وہ فوج کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں وہ غلط ثابت ہوئے۔  فوج نے براہ راست اقتدار میں آئے بغیر کیری لوگر بل ،نیٹو سپلائی کی بندش اور میمو گیٹ اسکینڈل کے دوران اہم سیاسی فیصلے کئے ۔ شاید فوج سمجھ گئی ہے کہ اب ماضی کی طرح حکومت کرنا مشکل ہوگیا ہے تو اب بلاواسطہ جنرل مشرف، عمران خان ، طاہر القادری اور ایم کیو ایم جیسی قوتوں کی مدد سےایک ایسا نیا سیاسی بلاک تشکیل دیا جائے تو فوج کے سیاسی مفادات کو مستقل طور پر تحفظ دے اور پی پی پی و مسلم لیگ کی سیاسی اجارہ داری ختم کرے۔ اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرےگا لیکن ان تمام اہم فیصلوں کے لئے جنرل مشرف کی پاکستان اور سیاست میں موجود ہونا بہت ہی لازمی ہے۔ 

No comments:

Post a Comment