پاکستان پیپلزپارٹی بلوچستان کے سابق صدر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے صوبے کے ایک اعلیٰ سطحی اکیس رکنی وفد کے ساتھ رائےونڈ میں سابق وزیرا عظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کرکے پاکستان مسلم لیگ نواز میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان کیا ہے۔ان کے ساتھ جن رہنماوں نے ملک میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے ان میں ہمایوں عزیز کرد، راحیلہ درانی، اسماعیل گجر اور طاہر محمود خان بھی شامل ہیں۔ اگرچہ نوابزادہ لشکری رئیسانی نے پی پی پی کے ساتھ اختلافات کی بنیاد پر گذشتہ سال ہی اپنی جماعت سے کنارہ کشی اختیار کی تھی جس کے بعد یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ شاید وہ جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہوں گے لیکن انھوں نے ایک سال انتظار کرنے کے بعد اپنے فیصلے کا باضابطہ طورپر اعلان کیا۔ لشکری کئی مرتبہ اپنے اخباری بیانات اور پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ رحمن ملک کے بیانات کو جواز بنا کر پی پی پی کی بلوچستان پالیسی پر تنقید کرتے تھے اور ان کا کہنا رہا ہےکہ ان کی سابق جماعت نے انتخابات سے پہلے بلوچستان میں حالات بہتر بنانے کے لئے جو وعدے کئے تھے وہ نبھائےنہیں۔
بلوچستان سے اتنی بڑی تعداد میں با اثرسیاسی و قبائلی شخصیات کی مسلم لیگ میں شمولیت کی دووجوہات ہوسکتی ہیں۔
پہلی تو یہ کہ پی پی پی نے واقعی اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں بلوچستان کے لوگوں کو مایوس کیا ۔ جنرل مشرف کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد پی پی پی کے پاس ایک سنہرا موقع آیا اور اسے وفاق اور صوبے میں اپنی حکومت کا فائدہ اٹھانا چائیے تھا اور بلوچستان کے دیرینہ مسائل کو مذاکرات اور افہام وتفہیم سے حل کرنا چائیے تھا لیکن اس دوران بلوچوں کو لگاتارمسخ شدہ لاشیں ملیں اور جنرل مشرف کے دور میں لاپتہ ہونے والے افراد کبھی بازیاب نہ ہوسکے۔ جب کہ دوسری طرف پی پی پی کے دورِ حکومت میںہزارہ برادری پر ہونے والے حملوںمیں غیرمعمولی شدت دیکھنے میں آئی اور حکومت نے دہشت گردی کے ان تمام کارروائیوں کے خلاف کوئی مربوط پالیسی تشکیل نہیں دی اور نہ ہی کسی دہشت گرد کو سزاملی جس سے عوام کو احساس تحفظ ہو کہ حکومت واقعی ان کی جان و مال کی حفاظت میں سنجیدہ ہے۔اس سے بڑھ کر یہ کہ پی پی پی نے بلوچستان میں اپنی ہی منتخب شدہ جمہوری حکومت فوج کے ڈرسے اکھاڑ کر پھینک دیاور صوبے میں غیر ضروری طور پر گورنر راج نافذ کی جس سےیہ بات ظاہر ہوگئکہ پی پی پی کے دل میں چھوٹے صوبوں کے عوامی مینڈیٹ کا کوئی احترام نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بلوچستان میں چند ایک قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کو چھوڑ کر کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو نظریہ کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرے۔یہاں لوگوں کو ان کی قبائلی حثییت سے ووٹ ملتے ہیں چائے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے کیوں نا ہو۔لشکری رئیسانی سے پہلے بھی ہم نے دیکھا ہے کہ یہاں لوگوں نے اپنی سیاسی جماعتیں بدلی ہیں لیکن اس فیصلے سےان کے ووٹ بینک پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ مثلاً سردار فتح محمد محمدحسنی اگر پی پی پی میں رہے یا ق لیگ میں اس سے ان کی سیاسی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا اسی طرح اگر سردار ثنااللہ زہر نیشنل پارٹی میں رہے یا اپنی ہی علیحدہ سے نیشنل پارٹی بنالی اس کے باوجود وہ اقتدار میں رہے۔ ذولفقار علی مگسی جب ن لیگ میں تھے تو وزیراعلیٰ رہے اور جب ق لیگ میں چلے گئے تو گورنر بن گئے۔
چنانچہ بلوچستان ایک ایساصوبہ ہے جہاں نظریاتی پارلیمانی سیاست کا رواج محدود ہےاور سیاسی رہنما اسی سمت دوڑتے ہیں جہاں انھیں اقتدار نظر آئے۔ بہت سارے سیاسی و قبائلی رہنماوں کو پتہ چل گیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن کافی مضبوط ہے اور اس کی حکومت بنے کے امکانات بھی روشن ہیں تو وہ ابھی ہی سے اپنی بوریا ں بستر باندھ کر ن لیگ کی طرف روانہ ہورہے ہیں تا کہ اقتدار کے مزے لینے میں وہ دیر سے نہ پہنچیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر آنے والے دنوں میں اور بہت سارے رہنما خاص کر ق لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین بلوچستان اسمبلی ایک مرتبہ پھر ن لیگ میں شامل ہوں گے۔
چنانچہ بلوچستان ایک ایساصوبہ ہے جہاں نظریاتی پارلیمانی سیاست کا رواج محدود ہےاور سیاسی رہنما اسی سمت دوڑتے ہیں جہاں انھیں اقتدار نظر آئے۔ بہت سارے سیاسی و قبائلی رہنماوں کو پتہ چل گیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن کافی مضبوط ہے اور اس کی حکومت بنے کے امکانات بھی روشن ہیں تو وہ ابھی ہی سے اپنی بوریا ں بستر باندھ کر ن لیگ کی طرف روانہ ہورہے ہیں تا کہ اقتدار کے مزے لینے میں وہ دیر سے نہ پہنچیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر آنے والے دنوں میں اور بہت سارے رہنما خاص کر ق لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین بلوچستان اسمبلی ایک مرتبہ پھر ن لیگ میں شامل ہوں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سارے اہم قبائلی و سیاسی شخصیات کا ایک سیاسی جماعت میں ہونا اچھی بات ہے یا نہیں؟ہمارے خیال میں اس کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں۔ جب بہت ساری اہم شخصیات ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی ہوتی ہیں تو اس بات کا ڈر لگتا ہے کہ اگر ن لیگ اقتدار میں آجاتی ہے تو وہ ان سب کو خوش رکھنے کے لئے وہ سب کچھ کرے گی جو پی پی پی نے اپنے دورِ حکومت میں کیا یعنی ہر رکن اسمبلی کو وزارت یا مشیری کے قلم دان سونپ دئیے جس سے بدعنوانی کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اسی طریقے سے ہم دیکھتے ہیں کہ جب بہت با اختیار شخصیات بیک وقت ایک ہی جماعت میں ہوتی ہیں تو وہاںمعمولی باتو ں پر اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں، نئے فارورڈ بلاک بن جاتے ہیں اور مخلوط حکومتیں گرنے لگتی ہیں۔
لشکری رئیسانی کی شمولیت سے پہلے ہی بلوچستان کی اہم شخصیات چیف آف جھالاوان سردار ثنا اللہ زہری، سابق گورنر و کورکمانڈر جنرل عبدالقادر اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کے بڑے فرزند جنگیز مری ن لیگ میں شامل رہے ہیں اور اب دیکھنا ہے کہ ن لیگ لشکری رئیسانی جیسی اہم شخصیت کو کس مقام پر رکھے گی اور ان کے ساتھ آئے ہوئے دیگر وزرا کو ن لیگ کس طرح سے نوازے گی تاکہ وہ ایک بار پھر اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور نہ ہوں۔
ان تازہ واقعات کے ساتھ ہی بلوچستان میں انتخابی گہماگہمی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے اور ن لیگ ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے حوالے سے وہی وعدے کررہی ہے جو اقتدار میں آنے سےپہلے پیپلز پارٹی نے بھی کئے تھے کہ وہ صوبے میں فوج کشی کا خاتمہ کرےگی اور لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے گا لیکن ہم نے دیکھا کہ پی پی پی کے دورِ حکومت میں بلوچستان میں بہت زیادہ خون ِ نا حق بہا گیا اور اس کا کبھی احتساب بھی نہیں ہوا۔ اب کیا ن لیگ کے پاس جادو کی کوئی چھڑی ہے جس کو لے کر وہ بلوچستان کے حالات درست کرے گی کیوں کہ عمران خان کی طرح میاں نواز شریف بھی اپنی جماعت میں ان لوگوں کو شامل کررہے ہیں جن کو لوگوں نے پہلے ہی سے آزمایا ہے اور جب ان کو اقتدار کا موقع بھی ملا لیکن انھوں نے عوام کے لئے کچھ کرنے کے بجائے محض اپنا مقدر سنوارا۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ شریف لوگ ( کردارنہیں بلکہ سیاسی وابستگی کے حوالے سے) اکھٹے ہوکر بلوچستان میں عام انتخابات کے بعد کیا بڑی تبدیلی لاتے ہیں۔

No comments:
Post a Comment