اخباری اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے معطل وزیر اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے دوہ ماہ کے بعد وطن واپس آنے پر اپنے عہدے سے استعفی ٰ دینے سے انکار کیا ہے۔ پتہ نہیں ان باتوں میں کس حد تک صداقت ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اگر نواب رئیسانی بدستور اپنے عہدے پر قائم رہنے پر بضد رہتے ہیں تو یہ ان کی سیاسی کیرئیر کا سب سے بہترین فیصلہ ہوگا۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کے استعفیٰ نہ دینے کے فیصلے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے رئیسانی کم از کم ایک حوالے سے بلوچستان کے اس رواج کی لاج رکھیں گے کہ یہاں کے لوگ اپنے حقوق پر لڑنے والے لوگ ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی اپنے جمہوری و قانونی حق سے دست بردار نہیں ہوگا۔ دو ماہ گزرنے کے بعد وفاقی حکومت بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے حق میں کوئی ٹھوس جواز پیش نہیں کرسکی ہے اور نہ ہی گورنر راج سے صوبے کو کوئی فائدہ ہوا۔
گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے جب بھی بات شروع ہوتی ہے تو نواب رئیسانی کی حکومت کی بد عنوانی اور نا اہلی کی طرف انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں لیکن یہ کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے کہ کسی منتخب حکومت کو یوں وفاقی حکومت کی مرضی سے برطرف کیا جائے۔بلوچستان کی دو سیاسی دنیا ہیں۔ ایک پارلیمانی دنیا اور ایک غیر پارلیمانی دنیا۔ پارلیمانی دنیا میں نواب اسلم رئیسانی اور ان کے ساتھی رہتے ہیں جو پاکستان کو اپنا ملک سمجھتے ہیں، اس کے آئین پر یقین رکھتے ہیں ( یہ دوسری بات ہے کہ نوا ب رئیسانی گذشتہ پانچ سالوں سے اصرار کرتے رہے ہیں کہ انیس سو چالیس کی قرارد دادِ لاہور کے مطابق پاکستان میں ایک عمرانی معائدہ کیا جائے جس کے مطابق پاکستان میں بسنے والی اقوام کو انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے کے بجائے انھیں لسانی ، جغرافیائی اور تاریخی بنیادوں پر اکھٹے رہنا چائیے)۔جب کہ دوسری دنیا کے لوگ وہ ہیں جو پاکستان سے مکمل خلاصی یا بلوچستان کی آزادی چاہتے ہیں اور ان کے لئے نواب رئیسانی کی حکومت رہے یا نا رہے، صوبے میں گورنر راج ہو یا نہ ہو انھیں کوئی فکر نہیں پڑتا۔ تاہم جو جو قوتیں پارلیمانی سیاست میں یقین رکھتی ہیں ان میں سے بیشتر نے اصولوں پر ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر نواب رئیسانی کو تنہا چھوڑ دیا جو کہ قابل افسوس بات ہے۔ دس جنوری کے دھماکوں کے بعد ہم نے بلوچ حال کے ایک اداریہ میں کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ نواب رئیسانی اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائے کیوں کہ وہ صوبے میں امن و امان بحال کرنے میں یکسر ناکام ہوگئے ہیں لیکن جس طرح ان کی حکومت کو ہٹایا گیا ہمارے خیال میں اب ان کے لئے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کی بلوچستان کے امور میں مداخلت کے خلاف کھڑے ہوں۔ ناکامیاں اور خراب کارکردگی جمہوری حکومت کا بنیاد ی حصہ ہیں اور ان خامیوں سے دنیا کا کوئی ملک پاک نہیں ۔ ہونے یا چائیے تھا کہ تھا کہ بلوچستان کے ووٹرز کو یہ حق دیا جاتا کہ وہ آنے والے انتخابات میں نواب رئیسانی کی حکومت کو برطرف کرتے لیکن اس وقت کا انتظار نہیں کیا گیا جس سے اب بلوچستان میں قائم ہونے والی مستقبل کی ہر حکومت پر بر طرفی کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔
اسی ہفتے صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے دو مہینے پورے ہوجائیں گے اور وفاقی حکومت بلوچستان میں گورنر راج کے خاتمے کے معاملے میں مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس سے قبل بائیس فروری کو وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ بلوچستان کی حکومت چودہ مارچ کو بحال کی جائے گی لیکن اب وفاق اس فیصلے سے مکر گئی ہے کیوں خود پی پی پی کی صوبائی قیادت ( صادق عمرانی گروپ) اور انتخابات میں حصہ لینے کے لئے بےچین نیشنل پارٹی جیسی جماعتیں سازشیں کررہی ہیں تاکہ جلد از جلد صوبے میں نگران حکومت قائم کی جائے اور انتخابات منعقد کئےجائیں۔
نواب رئیسانی کو چائیے کہ وہ اپنے فیصلے پر اٹل رئیں کیوں کہ انھیں نہ صرف بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طور پر منتخب کیا تھا بلکہ گورنر راج سے پہلے بھی بلوچستان اسمبلی نے انھیں اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ وہ بلوچستان کے نااہل وزیراعلیٰ ہو یا اہل، ان کو اپنی مدت پوری کرنے کا پورا اختیار ہے کیوں کہ حکومت حکومت ہوتی ہے چاہے وہ اہل ہو یا نا اہل اور اس کے مستقبل کا فیصلہ صرف انتخابات کے دوران ہونا چائیے۔

No comments:
Post a Comment