Sunday, March 24, 2013

نگران حکومت کی نگرانی کون کرے گا؟

تحریر: ملک سراج اکبر

بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نوا ب محمد اسلم رئیسانی نے اس سال تیرہ جنوری کو اپنی حکومت کی برطرفی اور گورنر راج کے نفاذ پر قدرےتحمل کا مظاہر ہ کیا اور جس وقت ان کی کارکردگی پر شدید تنقید کی جارہی تھی تو انھوں نے اس بات میں اپنی عافیت جانی کہ اس عرصے میں وہ ملک سے باہر ہی رئیں۔ گورنر راج کے ساتھ ہی یہ تاثر دیا گیا کہ ان کے اتحادیوں نے انھیں استعفیٰ دینے پر آمادہ کیا ہے  کیوں کہ صوبے میں ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود بلوچستان اسمبلی کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے رہے اور جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نے گورنر راج کی شدید مذمت بھی کی۔ اس وقت یوں لگ رہا تھا کہ اتحادی جماعتیں نواب رئیسانی کو استعفیٰ دینے پر راضی کریں گی اور ایک نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا جائے گا لیکن ایسانہیں ہوا۔ یوں وقت گزرتا گیا اور جہاں ایک طرف ہزارہ اور شعیہ برادری کا غم و غصہ نسبتا ً کم تر ہوتا گیا تو وہاں دوسری طرف گورنر راج کی دومہینے کی آئینی مدت بھی پوری ہوگئی۔ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نواب رئیسانی نہ صرف واپس وطن لوٹے بلکہ انھوں نے استعفیٰ دینے سے بھی یکسر انکار کردیا اور یوں ان کی حکومت خود بخود بحال ہوگئی۔ بلوچستان میں جمہوریت کے تسلسل کی حمایت کرنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم نواب رئیسانی کی حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی کی پردہ پوشی کریں ۔ رئیسانی حکومت بلاشبہ بلوچستان کی تاریخ کی نا اہل ترین حکومت رہی ہے جس کی وجہ سے صوبےکے لوگوں کو اذیت ناک پانچ سال گزارنے پڑے۔ 
 نواب رئیسانی  کو کوئی پسند کرے یا نہ لیکن انھوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کرکے بڑی عقل مندی سے اپنے آپ کو تاریخ کے اوراق میں بد نما ہونے سے بچا لیا۔ اگر ان کی حکومت بحال نہ ہوتی تو وہ تاریخ میں بلوچستان کے اس وزیراعلیٰ کی حیثیت میں یاد کئے جاتے جن کو وفاقی حکومت نے بڑا بے آبرو کرکے نکال دیا۔ ایساتو سردار عطااللہ مینگل کی حکومت کے ساتھ بھی ستر کی دہائی میں ہوا تھا لیکن مینگل صاحب کی حکومت پھر کبھی بحال نہیں ہوئی۔ نواب رئیسانی پر یہ بات اس لئے بھی زیادہ گراں گزرتی کیوں کہ وہ بلوچستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعلیٰ تھے جو بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پانچ سال تک ان کے خلاف کوئی شخص بلوچستان اسمبلی میں کھڑا نہیں ہوا۔ 
اس معاملے میں سردار یار محمد رند کا تذکرہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ وہ اسمبلی کے واحد رکن تھے جنھوں نے نواب رئیسانی کی حکومت کی حمایت نہیں کی۔ یار محمد رند نے تو اپنے رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد پانچ سالوں میں اسمبلی میں قدم نہیں رکھا تو یہ کہنا کہ وہ حزب اختلاف کے واحد رکن تھے کسی اعتبار سے درست نہیں لگتا۔ ان پانچ سالوں میں ان کا اسمبلی کے اندر کوئی وجود نہیں تھا۔اس دوران ان کی سیاست صرف اخباری بیانات تک محدود رہی۔  
 اگر رئیسانی کی جگہ پی پی پی کا کوئی اور رہنما وزیراعلیٰ منتخب ہوتے تو سرداریار محمد یقیناً ان کی حمایت کرتے اور خود صوبائی حکومت میں کسی اہم عہدے پر فائز ہوتے۔ رئیسانی کے ساتھ ان کے قبائلی اختلافات ہیں کیوں کہ نواب رئیسانی یار محمد رند کو اپنے والد اور بلوچستان کے سابق گورنر غوث بخش رئیسانی کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ بصورت دیگر یار محمد رند سیاسی و نظریاتی حوالے سے اتنے پختہ نہیں ہیں کہ وہ اقتدار کو ٹھوکر لگائیں کیوں کہ خود ان کا تعلق کسی زمانے میں نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی سے ہوا کرتا تھا لیکن اقتدار  کے نشے میں وہ جنر ل مشرف کے اتنے بڑے حامی بن گئے کہ جب نواب بگٹی ہلاک کئے گئے تو اس فیصلے کے خلاف انھوں نے احتجاج تک نہیں کیا اور جنرل مشرف کی حمایت یافتہ وفاقی حکومت میں امور کشمیر وشمالی علاقہ جات کے وزیر رہے ۔ 
جمہوریت کے ساتھ جس قدر مذاق نواب رئیسانی کے دور حکومت میں کیا گیا اس کی شاید کہیں اور نظیر ملے لیکن یہ بات قابل دید ہے کہ کس طرح رئیسانی اوران کے ٹولے نے ایک منظم طریقے سے کرپشن کی اور اپنے تمام کالے کرتوں کو جمہوریت کےچادر تلے چھپادیا۔ یہی اس ٹولے کا سب سے بڑا کارنامہ رہا ہے کیوں کہ ان سب کے سیاسی و معاشی مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب بلوچستان میں صوبائی حکومت تشکیل دینے کی باری آئی تو نواب رئیسانی اور اسلم بھوتانی بالترتیب بلامقابلہ وزیراعلیٰ اور اسپیکر منتخب ہوئے۔جمعیت علمائے اسلام کو خوش رکھنے کی خاطر سینئر وزیر کے ساتھ ساتھ دیگر اہم اور ’’ منافع بخش‘‘ وزارتیں دی گئی اور بی این پی عوامی کو بھی اتنا نواز کہ ان کے ہر رکن اسمبلی کو (سید احسان شاہ (وزیر صنعت وحرفت)، اصغر رند (وزیر سماجی بہبود)، اسداللہ بلوچ (وزیر زراعت)، غلام جان بلوچ (وزیر ماحولیات) ، ظفر اللہ زہری (وزیر داخلہ)، اور فوزیہ مری( مشیر وزیراعلیٰ اور بعد میں ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی)بنا یا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ بلوچستان میں جمہوریت بڑی خوش اسلوبی سے رواں دواں ہے۔ 
اسی طرح جب آئین کے بیسویں ترمیم کے تحت نگران وزیراعلیٰ کے لئے قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف کے باہمی مشاورت کی ضرورت پڑی تو ملاوں نے حلوہ کھانا چھوڑ دیا اور حزب اختلاف کی نشستوں پر جاکر بیٹھ گئے۔ نیز دونوں فریقین کے مابین بظاہر افہام و تفہیم سے جس نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا گیا ہے وہ دراصل ان ہی ہم خیال لوگوں  کے مشترکہ مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا اور اس کو جمہوری تقاضو ں سے ہم آہنگ نہیں قرار دیا جاسکتا کیوں کہ جو لوگ پانچ سال تک حکومت کا حصہ رہے ہوں وہ ایک دن کے لئے اپوزیشن  میں بیٹھنے سے حقیقی اپوزیشن نہیں بن جاتےاور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نواب غوث بخش باروزئی رئیسانی حکومت ہی کےمن پسند ہیں ۔ان کے انتخاب میں گورنر نواب ذولفقار علی مگسی کا بڑا اہم کردار ہے اور انھوں نے نگران وزیراعلیٰ کی تلاش فروری کے آخر اور مارچ کےآغاز میں شروع کیا تھا۔ اس سلسلے میں پچیس فروری کو وہ سابق وزیرداخلہ میر شعیب نوشیروانی کے والدمیر کریم نوشیروانی، تین مارچ کو غوث بخش باروزئی اور آٹھ مارچ کو پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کےسربراہ محمود خان اچکزئی کے بھائی ڈاکٹر حامد اچکزئی سے گورنر ہاوس کوئٹہ میں ملے اور یوں آخرکار غوث بخش باروزئی کو نگران وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا۔ 
بلوچستان میں پچھلے ایک ہفتے میں جمہوری اقتدار جس شرمناک طریقے سے منتقل ہوتے ہوئے ہم نے دیکھی ہےوہ بہت ہی مایوس کن ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک نواب ( اسلم رئیسانی ) کو جب ہٹا کر ایک اور نواب (ذولفقار علی مگسی ) کو اقتدار دیا گیااورپھر ایک نواب کے بھائی ( طارق مگسی ) کے مشورے سے اقتدار ایک اور نواب (غوث بخش باروزئی ) کو اقتدار سونپا گیا ۔ یہ ایک شرمنا ک عمل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں اقتدار صرف اشرفیہ اور قبائلی رہنماوں کے پاس رہتی ہے اور عوام کی کوئی حثیت نہیں ہے۔ بلوچستان میں آج بھی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص ( مثلاً علی احمد کرد وغیرہ) یہ خواب نہیں دیکھ سکتے کہ انھیں کسی اہم عہدے پر فائز کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہمارے صوبے کے وہ سردار اور نواب ہیں جن پر اسلام آباد کو فخر ہے حالاں کہ یہ چند افراد جن کےارد گرد اقتدار کی مورتی گھومتی رہتی ہے صوبے کی پس ماندگی کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ بلوچستان میں ان لوگوں کی خلاف جلسے جلوس نہیں ہوتے ۔ کبھی ان سے احتساب نہیں کیا جاتا کیوں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکمرانی تو ہمارے نصیب میں لکھی گئی تھی اور ہم اپنا مقدر کبھی بدل بھی نہیں سکتے۔ 
نگران وزیراعلیٰ نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ ان کے پاس بلوچستان میں صاف اور شفاف انتخابات کرانے اور امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لئے ایک روڑ میپ ہے لیکن بلوچستان کا اصل مسئلہ صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہے۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہونا چائیے کہ پچھلے پانچ سالوں میں نواب رئیسانی اور ان کے ساتھیوں نے بلوچستان کے خزانے کو جس بے دردی سے لوٹا اس کا احتساب ہو نا چائیے۔ بلوچستان کو آغاز حقوق بلوچستان پیکج اور  اٹھارویں ترمیم کے بعد جتنے پیسے ملے وہ رقم کہاں خرچ ہوئی اورکن کن لوگوں نے اپنے جیبوں میں وہ پیسہ ڈالااس کا احتساب لازمی ہے۔ بنیادی طور پر نواب باروزئی جیسے کم اثرو رسوخ رکھنے والے قبائلی و سیاسی شخص کو اس لئے بھی متفقہ طور پر وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا کہ وہ نواب رئیسانی اور ان کے ساتھیوں پر رعب و دبدبہ نہ ڈال سکیں۔ جب تک نگران وزیراعلیٰ سابق حکومت کو احتساب کے کٹہرے میں نہیں لاتے تب تک وہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کریں گے۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وزیر اعلیٰ باروزئی جان بوجھ کر احتساب کے  جھنجٹ اور درد سرد میں نہیں پڑیں گے۔ اور ضرورت اس امر کی ہے کہ نگران حکومت کی بھی نگرانی کی جائے کہ یہ کس کے مفادات کو تحفظ دے رہی ہے۔ 

1 comment:

  1. DO you think corruption is the main problem in Baluchistan? or.............???

    ReplyDelete