یہ بلوچ سیاست کے لئے ایک مایوس کن امرہے کہ عام انتخابات میں اب دو مہینے سے کم عرصہ رہ گیا ہے لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی ( بی این پی) ابھی تک واضح طور پر یہ فیصلہ نہیں کرسکی ہے کہ آیا وہ الیکشن میں حصہ لے گی یا نہیں۔یوں لگتا ہے کہ بی این پی سے زیادہ تو اب جنرل مشرف کو سیاست کی سمجھ بوجھ ہوگئی ہے جو ٹی وی چینلز پر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہی تو الیکشن کاموسم ہے اگر میں ابھی پاکستان نہیں جاوں گا تو کب جاوںگا؟ مشرف پوچھتے ہیں کہ میں نے سیاسی جماعت کس لئے بنائی ہے؟اسی لئے تو بنائی ہے کہ انتخابات میں حصہ لوں۔
اس کے برعکس بی این پی کی قیادت کی طرف سے پچھلے ایک مہینے کے اخباری بیانات کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ پارٹی کے صدرسردار اختر مینگل شدید دباو اور کنفیوژن کا شکار ہیں اور یہ فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں کہ وہ اس صورت حال میں کیا کریں۔کبھی وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں انتخابات ممکن نہیں ہیں اور ان کے لئے انتخابات سے زیادہ بلوچستان کے لوگ اہمیت رکھتے ہیں۔سردار مینگل نے وطن واپس آنے کا فیصلہ تو کرلیا ہے اور بی این پی نے اپنے رہنماوں کو انتخابات کے لئے کاغذات جمع کرانے کے لئے تیار رہنے کو بھی کہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پارٹی یہ بھی کہتی ہے کہ حتمی فیصلہ سینٹر ل کمیٹی ہی کرے گی۔ملک کے دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح بی این پی کے بھی تمام فیصلوں کا حقیقی مرکز وہ محور مینگل فیملی ہی ہے اور سینٹرل کمیٹی مینگل کےکسی فیصلے کو ویٹو ہرگز نہیں کرسکتی۔
اگر بی این پی الیکشن میں حصہ لینے کا با ضابطہ اعلان کربھی لیتی ہے تو یہ ایک کافی تاخیر فیصلہ ہوگا جس سے بی این پی کی بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگے گا ۔ کوئی سیاسی جماعت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو وہ دو مہینوں کے اندر اندر انتخابی تیاری نہیں کرسکتی۔
امریکہ میں صدارتی انتخابات چند ماہ قبل ہی مکمل ہوگئے اورآئندہ انتخابات چار سال کے بعد ہونے والے ہیں لیکن ڈیمو کریٹک پارٹی اور ری پبلکن اپنی تیاریوں میں ابھی سے لگے ہوئے ہیں۔ بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں سیاست دانوں، امیدواروں اور کارکناں کی زندگیوں کو خطرہ ہے اور انتخابات میں خفیہ اداروں کی طرف سے دھندلی کا ہر وقت خدشہ ہوتاہے وہاں سیاسی جماعتوں کا خواب خرگوش کے مزے لینا سمجھ سے بالاترہے۔
دو ماہ سے کم عرصے میں بی این پی انتخابات کے لئے کیا تیاری کرے گی اورکیا یا ناقص سیاسی حکمت عملی نہیں ہے کہ ایک پارٹی الیکشن جیسے اہم عمل کی پلاننگ نہ کرسکے جس کے لئے تیار رہنے کے لئے سیاسی جماعتوں کے پاس پانچ سال کی مہلت ہوتی ہے۔
بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے فوری بعدسب سے پہلا یہ کام کیا کہ سردار اختر مینگل کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور انھیں دعوت دی کہ جب وہ وطن واپس آئیں گے تو ان سے بھی مل لیں۔ اخباری اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سردار مینگل ان سے ملنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ بلوچستان کی سیاست میں قوم پرستوں کے لئے کسی بھی اعلیٰ حکومتی رہنما سے یہ کہہ کر ملنا آسان ہوتا ہے کہ ہم سیاسی نہیں بلکہ قبائلی حوالے سے ملے تھے اور ہماری ملاقات میں کوئی سیاسی بات زیر بحث نہیں رہی۔ اس طرح کی ملاقاتیں ماضی میں گورنر مگسی اور گزین مری اور خان قلات کے درمیان ہوتی رہی ہیں اور کچھ عرصہ پہلے بی این پی کے سرپرست اعلیٰ سردار عطااللہ مینگل اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ مرحوم جام محمد یوسف کے مابین کراچی میں ہوئی تھی۔لیکن ایسے ملاقاتوں پر بہت جلدی ہی اخباری وضاحتیں آجاتی ہیں کہ یہ ملاقات قبائلی و خاندانی سطح پر ہوئی تھی نا کہ سیاسی و انتظامی حوالے سے۔ ہم ان ملاقاتوںمیں کوئی نقص نہیں دیکھتے کیوں کہ سیاست میں ملاقاتیں اور مذاکرات ریڑھ کی ہڈی کی حثییت رکھتی ہیں اور یہ ملاقاتیں ہونی بھی چائیں تاکہ تمام فریقین ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں لیکن اگر ان ملاقاتوں کو خفیہ رکھا جائے تو پھر ان پر تنقید کرنا جائز ہوگا۔ نیز ان ملاقاتوں پر اس بنا پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگر ان کی تردید کی جائے یا بلوچ قو م اور پارٹی ورکرز کو لاعلم رکھا جائے ۔ جب رہنما ملتے ہیں تو لوگوں کو پتہ ہونا چائیے کہ ان کے درمیان کیا باتیں ہوئیں کیوں کہ یہ ان لوگوں کا بنیادی حق بنتا ہے اور یہ عام لوگ نہیں بلکہ وہ کارکن ہیں جو اپنے رہنماوں کی سیاست پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں اور ان کی سیاسی فلسفے اور وابستگی کی وجہ سے انھیں کبھی لاپتہ ہونا پڑتا ہے تو کبھی اپنی جان گنوانی پڑتی ہے ۔کسی بھی اہم سیاسی عمل سے کارکناں کو لاعلم رکھنا جرم کے مترادف ہے۔ کارکناں کو پتہ ہونا چائیے کہ ان کے رہنما کیا سوچ رہے ہیں اور کس سمت جارہے ہیں۔
بی این پی اس بات سے انکاری ضرور ہے کہ ان کے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کوئی روابط ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ بی این پی سپریم کورٹ کے توسط سے ریاست اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تواتر کے ساتھ رابطے میں رہی ہے۔عجیب بات ہے کہ سپریم کورٹ کی خود پاکستان پیپلز پارٹی اورکبھی کبھار پاکستان فوج سے نہیں بنتی اور حکومتی لوگ افتخار چوہدری کی من مانیوں کے حوالے سے وقتاًفوقتاً شکایت کرتے رہتے ہیں لیکن بی این پی کو سپریم کورٹ سے کوئی شکایت نہیں اور سردار مینگل اپنی واپسی سے پہلے سپریم کورٹ ہی کو خط لکھتے ہیں۔ اگر بی این پی کو سپریم کورٹ پر اعتبار ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ انھیں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بھروسہ نہ ہو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سردار مینگل آخری بار جب سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے چھ نکاتی مطالبات پیش کئے تو اس کا کیانتیجہ نکلا؟ کیا سپریم کورٹ نے کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا کہ اس عدالتی فیصلے کا کیا بنا؟
بی این پی اور نیشنل پارٹی خفیہ طور پر سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کےحوالے سے بات چیت کرتی رہی ہیں۔ نیشنل پارٹی کے ذرائع کے مطابق پارٹی کےمرکزی صدر ڈاکٹر مالک بلوچ اور سیکرٹری جنرل طاہر بزنجو گذشتہ ہفتےاختر مینگل سے ملنے دبئی چلے گئے۔اگرچہ دونوں جماعتیں ایک عرصہ سے آپس میں بات چیت کرتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے درمیان کسی انتخابی اتحاد کا قیام مشکل نظر آتا ہے۔ بی این پی سمجھتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ اصل میں اس سے مذاکرات چاہتی ہے اور جب تک وہ الیکشن میں حصہ نہ لے تب تک ان انتخابات کی کوئی حثیت نہیں ہوگی۔ بی این پی خود کو نیشنل پارٹی سے بڑی پارٹی سمجھتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کے کئی مرکزی رہنما اور کارکن پچھلے چند سالوں میں ہلاک کئے گئے ہیں جب کہ اس کے برعکس نیشنل پارٹی کا بنیادی گلہ یہ ہے کہ بی این پی کے فیصلوں کا مرکزمحور سردار اختر مینگل ہیں۔ این پی کومتوسط طبقے کی پارٹی ہونے پر بڑا ناز ہے ۔ اس کی قیادت پہلے ڈاکٹر عبدالحی کے پاس تھی اور پھر پارٹی نے اندرونی انتخابات کرواکر ڈاکٹر مالک بلوچ کو اپنا صدر منتخب کیا۔ دونوں رہنماوں کا تعلق متوسط بلوچ گھرانوں سے ہے۔ این پی کو شکایت ہے کہ بی این پی کی قیادت سرداروں (یعنی سردار اختر مینگل) کے ہاتھوں میں ہے اور وہ اپنے فیصلے جمہوری انداز میں کم اور قبائلی سوچ کے ساتھ زیادہ کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نیشنل پارٹی یہ دیتی ہے کہ جب نواب اکبر بگٹی ہلاک کئے گئے تو سردار اختر مینگل نے ان سے مشورہ تک نہیں کئے اور یکدم ایک جلسے میں پارلیمان سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا حالاں کہ اس وقت بی این پی چار جماعتی بلوچ اتحاد کا حصہ تھی۔ ( اتحاد میں شامل باقی دو جماعتیں نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی اور شہید بالاچ مری کی حقِ توار پارٹی تھیں)۔ نیشنل پارٹی کے ذرائع کہتے ہیں کہ اختر مینگل اس بات پر بضد ہیں کہ الیکشن کے حوالے سے جو فیصلے ہوں وہ فی الحال میڈیا کے سامنے نہ لائے جائیں اور این پی کے رہنما جواباً پوچھتے ہیں کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ انتخابی تیاریوں میں لگ جائیں اور یکدم اختر مینگل یہ اعلان کردیں کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ کررہے ہیں۔ خوداین پی نے تو یہ فیصلہ کرہی لیا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے گی اور نہیں چاہتی کہ وہ سردار مینگل کے کسی فیصلے کے پابند ہوں۔
نیشنل پارٹی اور بی این پی کے درمیان اعتماد کی کمی کی ایک اور وجہ انتخابی نشستوں کی تقسیم ہے۔ نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ان کی جماعت نے دن رات کام کرکے پورے صوبے میں ممبر سازی اور یونٹ سازی کی ہے جب کہ اس دوران بی این پی کے مرکزی رہنما ملک سے باہر رہے ہیں اور بی این پی نے بمشکل ممبرسازی کی ہے۔ ان کی یہ بات درست ہے۔ تین سال قبل میں کوئٹہ پریس کلب میں نیشنل پارٹی کی ایک تقریب کے شرکا کی بڑی تعداد دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کوئٹہ شہر میں این پی ( جس کا مرکز مکران رہا ہے) جیسی پارٹی اتنے سارے لوگ اکھٹا کرے کہ لوگوں کو کرسی تو کُجا زمین پر بیٹھنے کی جگہ نہ ملے۔لہٰذہ این پی کہتی ہے کہ یہ نا مناسب ہے کہ ممبر سازی کا کام ہم کریں اور انتخابی ٹکٹ بی این پی کے امیدوار لے جائیں۔
جب بی این پی اور نیشنل پارٹی الیکشن میں حصہ لیں گی تو بلوچ قوم ان سے مایوس ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ ان کی سیاسی سوچ پرسرمچاروں اور پارلیمان مخالف عناصر کا غلبہ ہے۔ بلکہ مایوسی اس بات پر ہوگی کہ دنوں پارٹیاں پاکستان فوج، پی پی پی کی حکومت اور نگران حکومت سے کوئی ایک مطالبہ بھی نہیں منوا سکیں جس کو لے کر بلوچوں کو تسلی ہو کہ ان کی قیادت کے مطالبات کی وفاق نے شنوائی کی۔ اسٹبلشمنٹ اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹی ہے۔ بی این پی اور این پی کے پاس بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کے لئے کوئی انتخابی فامولا ہے اور نہ ہے حکومت پاکستان کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے ان کے پاس مطالبات یا سفارشات کی کوئی فہرست ہے۔ انتخابات میں بلامشروط طور پر حصہ لینا بلوچ قوم پرست جماعتوں کی نااہلی کی ایک واضح مثال ہوگی اور اس سے اس بات کی عکاسی ہوگی کہ وہ پارلیمان میں واپس آنے پر کس حد تک بے قرار ہیں۔ چوں کہ بی این پی اور این پی دونوں سیاسی جماعتیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا حق بنتا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں لیکن بغیر کسی انتخابی منشور اور روڑ میپ کے انتخابات میں جانا بغیر تلوار کے جنگ میں جانے کی مانند ہے۔آنے والے انتخابات ان کے لئے ایک نیا سیاسی دلدل بن سکتے ہیں۔
اس کے برعکس بی این پی کی قیادت کی طرف سے پچھلے ایک مہینے کے اخباری بیانات کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ پارٹی کے صدرسردار اختر مینگل شدید دباو اور کنفیوژن کا شکار ہیں اور یہ فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں کہ وہ اس صورت حال میں کیا کریں۔کبھی وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں انتخابات ممکن نہیں ہیں اور ان کے لئے انتخابات سے زیادہ بلوچستان کے لوگ اہمیت رکھتے ہیں۔سردار مینگل نے وطن واپس آنے کا فیصلہ تو کرلیا ہے اور بی این پی نے اپنے رہنماوں کو انتخابات کے لئے کاغذات جمع کرانے کے لئے تیار رہنے کو بھی کہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پارٹی یہ بھی کہتی ہے کہ حتمی فیصلہ سینٹر ل کمیٹی ہی کرے گی۔ملک کے دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح بی این پی کے بھی تمام فیصلوں کا حقیقی مرکز وہ محور مینگل فیملی ہی ہے اور سینٹرل کمیٹی مینگل کےکسی فیصلے کو ویٹو ہرگز نہیں کرسکتی۔
اگر بی این پی الیکشن میں حصہ لینے کا با ضابطہ اعلان کربھی لیتی ہے تو یہ ایک کافی تاخیر فیصلہ ہوگا جس سے بی این پی کی بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگے گا ۔ کوئی سیاسی جماعت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو وہ دو مہینوں کے اندر اندر انتخابی تیاری نہیں کرسکتی۔
امریکہ میں صدارتی انتخابات چند ماہ قبل ہی مکمل ہوگئے اورآئندہ انتخابات چار سال کے بعد ہونے والے ہیں لیکن ڈیمو کریٹک پارٹی اور ری پبلکن اپنی تیاریوں میں ابھی سے لگے ہوئے ہیں۔ بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں سیاست دانوں، امیدواروں اور کارکناں کی زندگیوں کو خطرہ ہے اور انتخابات میں خفیہ اداروں کی طرف سے دھندلی کا ہر وقت خدشہ ہوتاہے وہاں سیاسی جماعتوں کا خواب خرگوش کے مزے لینا سمجھ سے بالاترہے۔
دو ماہ سے کم عرصے میں بی این پی انتخابات کے لئے کیا تیاری کرے گی اورکیا یا ناقص سیاسی حکمت عملی نہیں ہے کہ ایک پارٹی الیکشن جیسے اہم عمل کی پلاننگ نہ کرسکے جس کے لئے تیار رہنے کے لئے سیاسی جماعتوں کے پاس پانچ سال کی مہلت ہوتی ہے۔
بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے فوری بعدسب سے پہلا یہ کام کیا کہ سردار اختر مینگل کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور انھیں دعوت دی کہ جب وہ وطن واپس آئیں گے تو ان سے بھی مل لیں۔ اخباری اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سردار مینگل ان سے ملنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ بلوچستان کی سیاست میں قوم پرستوں کے لئے کسی بھی اعلیٰ حکومتی رہنما سے یہ کہہ کر ملنا آسان ہوتا ہے کہ ہم سیاسی نہیں بلکہ قبائلی حوالے سے ملے تھے اور ہماری ملاقات میں کوئی سیاسی بات زیر بحث نہیں رہی۔ اس طرح کی ملاقاتیں ماضی میں گورنر مگسی اور گزین مری اور خان قلات کے درمیان ہوتی رہی ہیں اور کچھ عرصہ پہلے بی این پی کے سرپرست اعلیٰ سردار عطااللہ مینگل اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ مرحوم جام محمد یوسف کے مابین کراچی میں ہوئی تھی۔لیکن ایسے ملاقاتوں پر بہت جلدی ہی اخباری وضاحتیں آجاتی ہیں کہ یہ ملاقات قبائلی و خاندانی سطح پر ہوئی تھی نا کہ سیاسی و انتظامی حوالے سے۔ ہم ان ملاقاتوںمیں کوئی نقص نہیں دیکھتے کیوں کہ سیاست میں ملاقاتیں اور مذاکرات ریڑھ کی ہڈی کی حثییت رکھتی ہیں اور یہ ملاقاتیں ہونی بھی چائیں تاکہ تمام فریقین ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں لیکن اگر ان ملاقاتوں کو خفیہ رکھا جائے تو پھر ان پر تنقید کرنا جائز ہوگا۔ نیز ان ملاقاتوں پر اس بنا پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگر ان کی تردید کی جائے یا بلوچ قو م اور پارٹی ورکرز کو لاعلم رکھا جائے ۔ جب رہنما ملتے ہیں تو لوگوں کو پتہ ہونا چائیے کہ ان کے درمیان کیا باتیں ہوئیں کیوں کہ یہ ان لوگوں کا بنیادی حق بنتا ہے اور یہ عام لوگ نہیں بلکہ وہ کارکن ہیں جو اپنے رہنماوں کی سیاست پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں اور ان کی سیاسی فلسفے اور وابستگی کی وجہ سے انھیں کبھی لاپتہ ہونا پڑتا ہے تو کبھی اپنی جان گنوانی پڑتی ہے ۔کسی بھی اہم سیاسی عمل سے کارکناں کو لاعلم رکھنا جرم کے مترادف ہے۔ کارکناں کو پتہ ہونا چائیے کہ ان کے رہنما کیا سوچ رہے ہیں اور کس سمت جارہے ہیں۔
بی این پی اس بات سے انکاری ضرور ہے کہ ان کے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کوئی روابط ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ بی این پی سپریم کورٹ کے توسط سے ریاست اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تواتر کے ساتھ رابطے میں رہی ہے۔عجیب بات ہے کہ سپریم کورٹ کی خود پاکستان پیپلز پارٹی اورکبھی کبھار پاکستان فوج سے نہیں بنتی اور حکومتی لوگ افتخار چوہدری کی من مانیوں کے حوالے سے وقتاًفوقتاً شکایت کرتے رہتے ہیں لیکن بی این پی کو سپریم کورٹ سے کوئی شکایت نہیں اور سردار مینگل اپنی واپسی سے پہلے سپریم کورٹ ہی کو خط لکھتے ہیں۔ اگر بی این پی کو سپریم کورٹ پر اعتبار ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ انھیں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بھروسہ نہ ہو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سردار مینگل آخری بار جب سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے چھ نکاتی مطالبات پیش کئے تو اس کا کیانتیجہ نکلا؟ کیا سپریم کورٹ نے کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا کہ اس عدالتی فیصلے کا کیا بنا؟
بی این پی اور نیشنل پارٹی خفیہ طور پر سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کےحوالے سے بات چیت کرتی رہی ہیں۔ نیشنل پارٹی کے ذرائع کے مطابق پارٹی کےمرکزی صدر ڈاکٹر مالک بلوچ اور سیکرٹری جنرل طاہر بزنجو گذشتہ ہفتےاختر مینگل سے ملنے دبئی چلے گئے۔اگرچہ دونوں جماعتیں ایک عرصہ سے آپس میں بات چیت کرتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے درمیان کسی انتخابی اتحاد کا قیام مشکل نظر آتا ہے۔ بی این پی سمجھتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ اصل میں اس سے مذاکرات چاہتی ہے اور جب تک وہ الیکشن میں حصہ نہ لے تب تک ان انتخابات کی کوئی حثیت نہیں ہوگی۔ بی این پی خود کو نیشنل پارٹی سے بڑی پارٹی سمجھتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کے کئی مرکزی رہنما اور کارکن پچھلے چند سالوں میں ہلاک کئے گئے ہیں جب کہ اس کے برعکس نیشنل پارٹی کا بنیادی گلہ یہ ہے کہ بی این پی کے فیصلوں کا مرکزمحور سردار اختر مینگل ہیں۔ این پی کومتوسط طبقے کی پارٹی ہونے پر بڑا ناز ہے ۔ اس کی قیادت پہلے ڈاکٹر عبدالحی کے پاس تھی اور پھر پارٹی نے اندرونی انتخابات کرواکر ڈاکٹر مالک بلوچ کو اپنا صدر منتخب کیا۔ دونوں رہنماوں کا تعلق متوسط بلوچ گھرانوں سے ہے۔ این پی کو شکایت ہے کہ بی این پی کی قیادت سرداروں (یعنی سردار اختر مینگل) کے ہاتھوں میں ہے اور وہ اپنے فیصلے جمہوری انداز میں کم اور قبائلی سوچ کے ساتھ زیادہ کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نیشنل پارٹی یہ دیتی ہے کہ جب نواب اکبر بگٹی ہلاک کئے گئے تو سردار اختر مینگل نے ان سے مشورہ تک نہیں کئے اور یکدم ایک جلسے میں پارلیمان سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا حالاں کہ اس وقت بی این پی چار جماعتی بلوچ اتحاد کا حصہ تھی۔ ( اتحاد میں شامل باقی دو جماعتیں نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی اور شہید بالاچ مری کی حقِ توار پارٹی تھیں)۔ نیشنل پارٹی کے ذرائع کہتے ہیں کہ اختر مینگل اس بات پر بضد ہیں کہ الیکشن کے حوالے سے جو فیصلے ہوں وہ فی الحال میڈیا کے سامنے نہ لائے جائیں اور این پی کے رہنما جواباً پوچھتے ہیں کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ انتخابی تیاریوں میں لگ جائیں اور یکدم اختر مینگل یہ اعلان کردیں کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ کررہے ہیں۔ خوداین پی نے تو یہ فیصلہ کرہی لیا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے گی اور نہیں چاہتی کہ وہ سردار مینگل کے کسی فیصلے کے پابند ہوں۔
نیشنل پارٹی اور بی این پی کے درمیان اعتماد کی کمی کی ایک اور وجہ انتخابی نشستوں کی تقسیم ہے۔ نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ان کی جماعت نے دن رات کام کرکے پورے صوبے میں ممبر سازی اور یونٹ سازی کی ہے جب کہ اس دوران بی این پی کے مرکزی رہنما ملک سے باہر رہے ہیں اور بی این پی نے بمشکل ممبرسازی کی ہے۔ ان کی یہ بات درست ہے۔ تین سال قبل میں کوئٹہ پریس کلب میں نیشنل پارٹی کی ایک تقریب کے شرکا کی بڑی تعداد دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کوئٹہ شہر میں این پی ( جس کا مرکز مکران رہا ہے) جیسی پارٹی اتنے سارے لوگ اکھٹا کرے کہ لوگوں کو کرسی تو کُجا زمین پر بیٹھنے کی جگہ نہ ملے۔لہٰذہ این پی کہتی ہے کہ یہ نا مناسب ہے کہ ممبر سازی کا کام ہم کریں اور انتخابی ٹکٹ بی این پی کے امیدوار لے جائیں۔
جب بی این پی اور نیشنل پارٹی الیکشن میں حصہ لیں گی تو بلوچ قوم ان سے مایوس ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ ان کی سیاسی سوچ پرسرمچاروں اور پارلیمان مخالف عناصر کا غلبہ ہے۔ بلکہ مایوسی اس بات پر ہوگی کہ دنوں پارٹیاں پاکستان فوج، پی پی پی کی حکومت اور نگران حکومت سے کوئی ایک مطالبہ بھی نہیں منوا سکیں جس کو لے کر بلوچوں کو تسلی ہو کہ ان کی قیادت کے مطالبات کی وفاق نے شنوائی کی۔ اسٹبلشمنٹ اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹی ہے۔ بی این پی اور این پی کے پاس بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کے لئے کوئی انتخابی فامولا ہے اور نہ ہے حکومت پاکستان کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے ان کے پاس مطالبات یا سفارشات کی کوئی فہرست ہے۔ انتخابات میں بلامشروط طور پر حصہ لینا بلوچ قوم پرست جماعتوں کی نااہلی کی ایک واضح مثال ہوگی اور اس سے اس بات کی عکاسی ہوگی کہ وہ پارلیمان میں واپس آنے پر کس حد تک بے قرار ہیں۔ چوں کہ بی این پی اور این پی دونوں سیاسی جماعتیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا حق بنتا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں لیکن بغیر کسی انتخابی منشور اور روڑ میپ کے انتخابات میں جانا بغیر تلوار کے جنگ میں جانے کی مانند ہے۔آنے والے انتخابات ان کے لئے ایک نیا سیاسی دلدل بن سکتے ہیں۔

Good one
ReplyDelete