Saturday, March 30, 2013

انتخابی بائیکاٹ کیوں بلوچ مفاد میں ہے؟

تحریر: ملک سراج اکبر 

شاید ہم نے یہ کالم لکھنے میں کافی دیر کردی۔ اب کون انتخابات کا بائیکاٹ کرےگا ؟ فیصلے تو ہوگئے ہیں۔ دو بلوچ قوم پرست جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور نیشنل پارٹی (این پی) نے تو عام انتخابات میں حصہ لینے کا باضابطہ فیصلہ کرلیا ہے اور ان کے نمائندوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرنا بھی شروع کردیا ہے ۔ شایدبائیکاٹ کی بات اب محض تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔سردار اختر مینگل کی وطن واپسی اور انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے پر  لوگوں کو حیرت نہیں البتہ مایوسی ضرور ہوئی ہے۔ ایک بار پھر بی این پی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کے قول اور فعل میں کھلا تضاد ہے۔ اگر آپ سردار اختر مینگل کے انٹرویوز کا جائزہ لیں تو وہ حکومت پاکستان کے رویے سے خوش ہیں اور نہ ہی امن و امان کے حوالے سے موجود ہ حالات سے مطمئین ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے انتخابات میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
خود اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل جو کہ آزاد بلوچستان کے حامی ہیں نے بی بی سی اردو سروس کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ ان کے بھائی ( اختر مینگل) نے کراچی میں ہونے والے بی این پی کے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں انتخابی بائیکاٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔تاہم سردار مینگل کے فیصلے پر خود حکومت کو بڑی خوشی ہوئی۔ کیوں کہ آخر کارکوئی نا کوئی بلوچ قوم پرست سرکار کو ہاتھ لگا ہے جو ان کے انتخابی عمل کا حصہ بنے کو تیار ہوگیا ہے۔ بصورت دیگر جو اہم بلوچ رہنما ہیں وہ تو کسی بھی سرکاری پیشکش، پیکج پر راضی نہیں ہورہے۔  اور بلوچ قوم پرستوں کی شمولیت کے بغیر انتخابات کی کوئی حثیت نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چائیے کہ گورنر ، نگران وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کو بالکل غیر جانب دار رہناچائیے اور انتخابی موسم میں تو ان سے اور زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجودہ تینوں حضرات نےاپنے اپنے اخباری بیانات میں بلوچ قوم پرستوں کے اس فیصلے کو سراہا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔
 اختر مینگل نے اپنی جماعت کے فیصلے پر لبیک کہہ کر خود کو تنقید کا ہدف ضرور بنایا ہے لیکن ان پر نزلہ گرنا اب ایک قدرتی بات ہے کیوں کہ وہ ہی بی این پی کے سربراہ ہیں لیکن بی این پی کے فیصلوں پر اب ایسے لوگ اثر انداز ہونے لگے ہیں جو سردار مینگل کی ملک میں غیر موجودگی میں حکومتی حلقوں سے قریب رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی اپنی کوئی سیاسی ساکھ نہیں ہے لیکن مینگل اور بی این پی کے صدقے سے ان کی مقامی سیاست چمکتی ہے، ٹی وی پر انٹرویوز آتے ہیں اور سرکاری ٹھیکےبھی مل جاتے ہیں۔اختر مینگل کو ملک میں واپس آنے پر مجبور کرنے والے پارٹی کے یہ لوگ ان کی جان کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں اور ان کی سیاسی ساکھ جو کہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے کے بعد مجروح ہوئی تھی کو اور بگاڑنے کے پیچھے پڑے ہیں۔
 کل کو اگر اختر مینگل کو کچھ ہوجاتا ہے تو ان عناصر سے کچھ بھی نہیں جاتا کیوں کہ ان کے مفادات ذاتی ہیں نا کہ قومی۔ ایسے لوگ اگلے روز ہی کسی اور سیاسی پارٹی میں جاکر شمولیت کرلیں گے۔ ان لوگوں کو سیاسی ابن الوقت کہا جاتا ہے اور ایسے مفاد پرست عناصر آ پ کو ہر جماعت میں ملتے ہیں لیکن قوم پرست جماعتوں میں ایسے عناصر کی موجودگی زدیادہ خطرناک ہے کیوں کہ جب وہ اپنی جماعت یا اس کے رہنما کو تنہائی میں چھوڑدیتے ہیں تو اس کا نقصان مسلم لیگ ق یا پی پی پی کے کسی ایم پی اے یا ایم این اے کے چھوڑنے سے زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ قوم پرست جماعتوں کی سیاست نظریاتی ہوتی ہے اور ان کو جس طرح کی سرکاری مخالفت و خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے دوسری جماعتوں کو واسطہ نہیں پڑتا۔
 اس طرح کی سیاسی بے وفائی کی ایک بڑی مثال نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی ہے جس میں نواب بگٹی کے سائے تلے آکر آغا شاہد بگٹی ( جمہوری وطن پارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری )  اور امان اللہ کنرانی  ( سابق سیکرٹری اطلاعات اوربلوچستان کے موجودہ ایڈوکیٹ جنرل) جیسے غیر سیاسی لوگ بھی راتوں رات مشہور ہوگئیے اور ہر ٹی وی چینل پر نظر آنے لگے لیکن نواب بگٹی کی شہادت کے بعد ان لوگوں کا قوم پرستی اور بلوچ حقوق کے ساتھ کوئی رشتہ باقی نہیں رہا۔ 
اسی طرح بی این پی میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو بار بار سردار مینگل کو مشتعل کرتے رہے لیکن سردار صاحب یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خود ان کا ، ان کی جماعت اور ان کے فیملی کا بلوچستان کی سیاست میں کتنا اہم کردار ہے۔ ان کو بدستور دونوں طرف سے للکارا گیا۔ ایک طرف پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے بار بار یہ عندیہ دیا کہ مینگل اور ان کی جماعت ملک دشمن ،غیر جمہوری، غیر لچکدار اور غیر مقبول ہیں تو دوسری طرف بی ایس او آزاد، بلوچ ری پبلکن پارٹی، بلوچ نیشنل فرنٹ اور بلوچ نیشنل موومنٹ جیسی جماعتوں  نے مینگل کی قوم پرستی اور وطن دوستی پر سوال اٹھانا شروع کیا۔ حالاں کہ یہ تمام جماعتیں ایسی  ہیں جن کا بلوچستان میں کوئی ووٹ بینک نہیں ہے بلکہ وہ  مسلح تنظیموں کا نام استعمال کرکے اپنی سیاست چمکارہی ہیںاور یوں  مشتعل مینگل صاحب دونوں فریقین کو غلط ثابت کرنے کے دوڑ میں وطن واپس چلے گئے اور بلا مشروط طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔ 
جو لوگ الیکشن کے حق میں ہیں وہ بار بار یہ کہتے ہیں کہ الیکشن جمہوری عمل کا ایک اہم حصہ ہیں اور ان کا بائیکاٹ ایک غیر جمہوری عمل ہے۔ لیکن یہ درست نہیں ہے کیوں کہ بائیکاٹ اورواک آوٹ جیسے عمل خود جمہوریت کا حصہ ہیں اور ہم عموماً دیکھتے ہیں کہ خود اقوام متحدہ کے نظام میں بھی یہ سہولیت موجود ہے کہ اگر کوئی ملک ایک متنازعہ مسئلے پر ووٹ نہیں دینا چاہتا تو وہ رائے دہی سے اجتناب کرتا ہے۔ اسی طرح انتخابات میں حصہ لینے یا نا لینے سے کوئی جمہوری یا غیر جمہوری نہیں بنتا کیوں کہ بلوچستان کا مسئلہ محض حکومت کی تشکیل  یا فنڈز کی فراہمی نہیں ہے۔
نواب بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان کی سیاست یکسر بدل گئی ہے اور یہاں انتخابات کا مفہوم باقی ملک میں ہونے والے انتخابات سے بالکل مختلف ہے۔ بلوچستان میں انتخابات ایک پیمانہ بن گئے ہیں جس سے صوبے کے لوگوں کی ناراضگی کا ناپا جائےاورہر پانچ سال کے بعد یہ موقع آجاتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ اسلام آباد کو یہ بتائیں کہ وہ کس حد تک ان کی پالیسوں سے خوش ہیں اور کس حد تک ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ لہذہ اگر بلوچ قوم پرست انتخابات میں غیر مشروط طور پر حصہ لیتے ہیں تو اس کا  یہ مطلب لیا جائے گا کہ انھیں وفاق سے کوئی شکایت نہیں اور انھیں صوبے میں سب کچھ ٹھیک ٹھا ک نظر آتا ہے۔ 
 بلوچ جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں لیکن یہ صیح وقت نہیں ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں کیوں کہ انتخابات میں جانے سے پہلے لازمی ہے کہ بلوچوں پر پی پی پی کے دور حکومت  میں ہونے والے مظالم کا حساب لیا جائے اورسابقہ جمہوری حکومت نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن اور گوادر پورٹ کے حوالے سے جو اہم فیصلے کئے ہیں ان پر بلوچ خدشات کی شنوائی کی جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو انتخابات کا مطلب یہ ہے کہ بلوچ اپنے اوپر ہونے والے ہرظلم اور اپنے وسائل کے استحصال کو فراموش اور درگزر کرے گا اور انتخابات کا یہ مطلب لیا جائے کہ جو نئی حکومت قائم ہوگی اسے بھی ہر قسم کی آزادی ہوگی کہ وہ بلوچستان میں جو چاہے کرے۔
 سردار اختر مینگل جب پچھلے سال ستمبر میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے تو ہم نے ان کے فیصلے پر کڑی نقطہ چینی کی تھی جس پر وہ خود اور بی این پی کے دیگر ساتھی ناراض ہوگئے تھے لیکن ہم نے اس سلسلے میں جو پیشن گوئی کی تھی وہ بالکل سچ ثابت ہوئی کہ سردار صاحب کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگااور اس ناکامی کا اعتراف خود سردار صاحب کے اس خط میں کیا گیا ہے جو انھوں نے پاکستان واپس جانے سے پہلے سپریم کورٹ کو لکھا تھا جس میں انھوں نے یہ شکایت کی تھی کہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں ابھی بھی تواتر کے ساتھ مل رہی ہیں۔ 
چوں کہ بی این پی خود کو بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت سمجھتی ہے تو لازمی ہے کہ وہ بلوچستان کو درپیش اہم سیاسی مسائل کو اٹھائے۔ بلوچستان کا مسئلہ صرف انسانی حقو ق کا نہیں ہے اور نا ہی بی این پی انسانی حقوق کی کوئی تنظیم ہے۔ بلوچ قوم پرستوں کو لاپتہ افراد اور مسخ شدہ افراد پر سیاست کرنے کے بجائے دیگر اہم امور پر سیاست کرنی چائیےاور جو کام وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کا ہے وہ انھیں کرنا چائیے۔ بلوچ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری یہ ہونی چائیے کہ وہ قوم کو سیاسی شعوردیں ۔ اس وقت بلوچستان کے حوالے سے دنیا بھر میں جوسیمینار اور مظاہرے ہورہے ہیں وہ صرف اور صرف انسانی حقو ق کے موضوع پر ہورہے ہیں اور ان میں بہت کم ایسے ہیں جو بلوچستان کے سیاسی مسئلے پر توجہ دیتے ہیں۔ بلوچستان ایک سیاسی مسئلہ ہے۔
سردار مینگل نےاپنی جان اور سیاسی مستقبل کو داو پر رکھ کر اگر پاکستان جانے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو یہ ان کے لیئے ایک سنہرا موقع ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کریں کہ بلوچستان میں عام انتخابات فی الحال ملتوی کئے جائیں تاکہ سابقہ دور حکومت میں جو لوگ بلوچوں کے قتل عام میں ملوث تھے پہلے نگران حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ اسی طرح انتخابات سے پہلے بلوچستان کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئےآئینی و قانونی ضمانتیں دی جائے اور گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے کے فیصلے کو التوا میں رکھا جائے۔ اس سلسلے میں سردار مینگل اگر ایسا کوئی مطالبہ کرتے ہیں تو مسلم لیگ نواز، تحریک انصاف سمیت الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری یقیناً ان کے مطالبے کو سنجیدگی سے لیں گے۔ 

Sunday, March 24, 2013

بلوچ قوم پرست اور انتخابی دلدل


تحریر: ملک سراج اکبر

یہ بلوچ سیاست کے لئے ایک مایوس کن امرہے کہ عام انتخابات میں اب دو مہینے سے کم عرصہ رہ گیا ہے لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی ( بی این پی) ابھی تک واضح طور پر یہ فیصلہ نہیں کرسکی ہے کہ آیا وہ الیکشن میں حصہ لے گی یا نہیں۔یوں لگتا ہے کہ بی این پی سے زیادہ تو اب جنرل مشرف کو سیاست کی سمجھ بوجھ  ہوگئی ہے جو ٹی وی چینلز پر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہی تو الیکشن کاموسم ہے اگر میں ابھی پاکستان نہیں جاوں گا تو کب جاوںگا؟ مشرف پوچھتے ہیں کہ میں نے سیاسی جماعت کس لئے بنائی ہے؟اسی لئے تو بنائی ہے کہ انتخابات میں حصہ لوں۔ 
اس کے برعکس بی این پی کی قیادت کی طرف سے پچھلے ایک مہینے کے اخباری بیانات کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ  پارٹی کے صدرسردار اختر مینگل شدید دباو اور کنفیوژن کا شکار ہیں اور یہ فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں کہ وہ اس صورت حال میں کیا کریں۔کبھی وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں انتخابات ممکن نہیں ہیں اور ان کے لئے  انتخابات سے زیادہ بلوچستان کے لوگ اہمیت رکھتے ہیں۔سردار مینگل نے وطن واپس آنے کا فیصلہ تو کرلیا ہے اور بی این پی نے اپنے رہنماوں کو انتخابات کے لئے کاغذات جمع کرانے کے لئے تیار رہنے کو بھی کہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پارٹی یہ بھی کہتی ہے کہ حتمی فیصلہ سینٹر ل کمیٹی ہی کرے گی۔ملک کے دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح بی این پی کے بھی تمام فیصلوں کا حقیقی مرکز وہ محور مینگل فیملی ہی ہے اور سینٹرل کمیٹی مینگل کےکسی فیصلے کو ویٹو ہرگز نہیں کرسکتی۔ 
 اگر بی این پی الیکشن میں حصہ لینے کا با ضابطہ اعلان کربھی لیتی ہے تو یہ ایک کافی تاخیر فیصلہ ہوگا جس سے بی این پی کی بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگے گا ۔ کوئی سیاسی جماعت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو وہ دو مہینوں کے اندر اندر انتخابی تیاری نہیں کرسکتی۔
 امریکہ میں صدارتی انتخابات چند ماہ قبل ہی مکمل ہوگئے اورآئندہ انتخابات چار سال کے بعد ہونے والے ہیں لیکن ڈیمو کریٹک پارٹی اور ری پبلکن اپنی تیاریوں میں ابھی سے لگے ہوئے ہیں۔ بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں سیاست دانوں، امیدواروں اور کارکناں کی زندگیوں کو خطرہ ہے اور انتخابات میں خفیہ اداروں کی طرف سے دھندلی کا ہر وقت خدشہ ہوتاہے وہاں سیاسی جماعتوں کا خواب خرگوش کے مزے لینا سمجھ سے بالاترہے۔ 
دو ماہ سے کم عرصے میں بی این پی انتخابات کے لئے کیا تیاری کرے گی اورکیا یا ناقص سیاسی حکمت عملی نہیں ہے کہ ایک پارٹی الیکشن جیسے اہم عمل کی پلاننگ نہ کرسکے جس کے لئے تیار رہنے کے لئے سیاسی جماعتوں کے پاس پانچ سال کی مہلت ہوتی ہے۔ 
 بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی  نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے فوری بعدسب سے پہلا یہ  کام کیا کہ سردار اختر مینگل کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور انھیں دعوت دی کہ جب وہ وطن واپس آئیں گے تو ان سے بھی مل لیں۔ اخباری اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سردار مینگل ان سے ملنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ بلوچستان کی سیاست میں قوم پرستوں کے لئے کسی بھی اعلیٰ حکومتی رہنما سے یہ کہہ کر ملنا آسان ہوتا ہے کہ ہم سیاسی نہیں بلکہ قبائلی حوالے سے ملے تھے اور ہماری ملاقات میں کوئی سیاسی بات زیر بحث نہیں رہی۔  اس طرح کی ملاقاتیں  ماضی میں گورنر مگسی اور گزین مری اور خان قلات کے درمیان ہوتی رہی ہیں اور کچھ عرصہ پہلے بی این پی کے سرپرست اعلیٰ سردار عطااللہ مینگل اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ مرحوم جام محمد یوسف کے مابین کراچی میں ہوئی تھی۔لیکن ایسے ملاقاتوں پر بہت جلدی ہی اخباری وضاحتیں آجاتی ہیں کہ یہ ملاقات قبائلی و خاندانی سطح پر ہوئی تھی نا کہ سیاسی و انتظامی حوالے سے۔ ہم ان ملاقاتوںمیں کوئی نقص نہیں دیکھتے کیوں کہ سیاست میں ملاقاتیں اور مذاکرات ریڑھ کی ہڈی کی حثییت رکھتی ہیں اور یہ  ملاقاتیں ہونی بھی چائیں تاکہ تمام فریقین ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں لیکن  اگر ان ملاقاتوں کو خفیہ رکھا جائے تو پھر ان پر تنقید کرنا جائز ہوگا۔ نیز ان ملاقاتوں پر اس بنا پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگر ان کی تردید کی جائے یا بلوچ قو م اور پارٹی ورکرز کو لاعلم رکھا جائے ۔ جب رہنما ملتے ہیں تو لوگوں کو پتہ ہونا چائیے کہ ان کے درمیان کیا باتیں ہوئیں کیوں کہ یہ ان لوگوں کا بنیادی حق بنتا ہے اور یہ عام لوگ نہیں بلکہ وہ کارکن ہیں جو اپنے رہنماوں کی سیاست پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں اور ان کی سیاسی فلسفے اور وابستگی کی وجہ سے انھیں کبھی  لاپتہ ہونا پڑتا ہے تو کبھی اپنی جان گنوانی پڑتی ہے ۔کسی بھی اہم سیاسی عمل سے کارکناں کو لاعلم رکھنا جرم  کے مترادف ہے۔ کارکناں کو پتہ ہونا چائیے کہ ان کے رہنما کیا سوچ رہے ہیں اور کس سمت جارہے ہیں۔ 
بی این پی اس بات سے انکاری ضرور ہے کہ ان کے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کوئی روابط ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ بی این پی سپریم کورٹ کے توسط سے ریاست اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تواتر کے ساتھ رابطے میں رہی ہے۔عجیب بات ہے کہ سپریم کورٹ کی خود پاکستان پیپلز پارٹی اورکبھی کبھار پاکستان فوج سے نہیں بنتی اور حکومتی لوگ افتخار چوہدری کی من مانیوں کے حوالے سے وقتاًفوقتاً شکایت کرتے رہتے ہیں لیکن بی این پی کو سپریم کورٹ سے کوئی شکایت نہیں اور سردار مینگل اپنی واپسی سے پہلے سپریم کورٹ ہی کو خط لکھتے ہیں۔ اگر بی این پی کو سپریم کورٹ پر اعتبار ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ انھیں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بھروسہ نہ ہو۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سردار مینگل آخری بار جب سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے چھ نکاتی مطالبات پیش کئے تو اس کا کیانتیجہ نکلا؟ کیا سپریم کورٹ نے کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا کہ اس عدالتی فیصلے کا کیا بنا؟ 
بی این پی اور نیشنل پارٹی خفیہ طور پر سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کےحوالے سے بات چیت کرتی رہی ہیں۔ نیشنل پارٹی کے ذرائع کے مطابق پارٹی کےمرکزی صدر ڈاکٹر مالک بلوچ اور سیکرٹری جنرل طاہر بزنجو گذشتہ ہفتےاختر مینگل سے ملنے دبئی چلے گئے۔اگرچہ دونوں جماعتیں ایک عرصہ سے آپس میں بات چیت کرتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے درمیان کسی انتخابی اتحاد کا قیام مشکل نظر آتا ہے۔ بی این پی سمجھتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ اصل میں اس سے مذاکرات چاہتی ہے اور جب تک وہ الیکشن میں حصہ نہ لے تب تک ان انتخابات کی کوئی حثیت نہیں ہوگی۔ بی این پی خود کو نیشنل پارٹی سے بڑی پارٹی سمجھتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کے کئی مرکزی رہنما اور کارکن پچھلے چند سالوں میں ہلاک کئے گئے ہیں جب کہ اس کے برعکس نیشنل پارٹی کا بنیادی گلہ یہ ہے کہ بی این پی کے فیصلوں کا مرکزمحور سردار اختر مینگل ہیں۔ این پی کومتوسط طبقے کی پارٹی ہونے پر بڑا ناز ہے ۔ اس کی قیادت پہلے ڈاکٹر عبدالحی کے پاس تھی اور پھر پارٹی نے اندرونی انتخابات کرواکر ڈاکٹر مالک بلوچ کو اپنا صدر منتخب کیا۔ دونوں رہنماوں کا تعلق متوسط بلوچ گھرانوں سے ہے۔ این پی کو شکایت ہے کہ بی این پی کی قیادت سرداروں (یعنی سردار اختر مینگل) کے ہاتھوں میں ہے اور وہ اپنے فیصلے جمہوری انداز میں کم اور قبائلی سوچ کے ساتھ زیادہ کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نیشنل پارٹی یہ دیتی ہے کہ جب نواب اکبر بگٹی ہلاک کئے گئے تو سردار اختر مینگل نے ان سے مشورہ تک نہیں کئے اور یکدم ایک جلسے میں پارلیمان سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا حالاں کہ اس وقت بی این پی چار جماعتی بلوچ اتحاد کا حصہ تھی۔ ( اتحاد میں شامل باقی دو جماعتیں نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی اور شہید بالاچ مری کی حقِ توار پارٹی تھیں)۔ نیشنل پارٹی کے ذرائع کہتے ہیں کہ اختر مینگل اس بات پر بضد ہیں کہ الیکشن کے حوالے سے جو فیصلے ہوں وہ فی الحال میڈیا کے سامنے نہ لائے جائیں اور این پی کے رہنما جواباً پوچھتے ہیں کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ انتخابی تیاریوں میں لگ جائیں اور یکدم اختر مینگل یہ اعلان کردیں کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ کررہے ہیں۔ خوداین پی نے تو یہ فیصلہ کرہی لیا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے گی اور نہیں چاہتی کہ وہ سردار مینگل کے کسی فیصلے کے پابند ہوں۔
نیشنل پارٹی اور بی این پی کے درمیان اعتماد کی کمی کی ایک اور وجہ انتخابی نشستوں کی تقسیم ہے۔ نیشنل پارٹی  کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ان کی جماعت نے دن رات کام کرکے پورے صوبے میں ممبر سازی اور یونٹ سازی کی ہے جب کہ اس دوران بی این پی کے مرکزی رہنما ملک سے باہر رہے ہیں اور بی این پی نے بمشکل ممبرسازی کی ہے۔ ان کی یہ بات درست ہے۔ تین سال قبل میں کوئٹہ پریس کلب میں نیشنل پارٹی کی ایک تقریب کے شرکا کی بڑی تعداد دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کوئٹہ شہر میں این پی ( جس کا مرکز مکران رہا ہے) جیسی پارٹی اتنے سارے لوگ اکھٹا کرے کہ لوگوں کو کرسی تو کُجا زمین پر بیٹھنے کی جگہ نہ ملے۔لہٰذہ این پی کہتی ہے کہ یہ نا مناسب ہے کہ ممبر سازی کا کام ہم کریں اور انتخابی ٹکٹ بی این پی کے امیدوار لے جائیں۔ 
جب بی این پی اور نیشنل پارٹی الیکشن میں حصہ لیں گی تو بلوچ قوم ان سے مایوس ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ ان کی سیاسی سوچ پرسرمچاروں اور پارلیمان مخالف عناصر کا غلبہ ہے۔ بلکہ مایوسی اس بات پر ہوگی کہ دنوں پارٹیاں  پاکستان فوج، پی پی پی کی حکومت اور نگران حکومت سے کوئی ایک مطالبہ بھی نہیں منوا سکیں جس کو لے کر بلوچوں کو تسلی ہو کہ ان کی قیادت کے مطالبات کی وفاق نے شنوائی کی۔ اسٹبلشمنٹ اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹی ہے۔ بی این پی اور این پی کے پاس بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کے لئے کوئی انتخابی فامولا ہے اور نہ ہے حکومت پاکستان کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے ان کے پاس مطالبات یا سفارشات کی کوئی فہرست ہے۔ انتخابات میں بلامشروط طور پر حصہ لینا بلوچ قوم پرست جماعتوں کی نااہلی کی ایک واضح مثال ہوگی اور اس سے اس بات کی عکاسی ہوگی کہ وہ پارلیمان میں واپس آنے پر کس حد تک بے قرار ہیں۔ چوں کہ بی این پی اور این پی دونوں سیاسی جماعتیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا حق بنتا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں لیکن بغیر کسی انتخابی منشور اور روڑ میپ کے انتخابات میں جانا بغیر تلوار کے جنگ میں جانے کی مانند ہے۔آنے والے انتخابات ان کے لئے ایک نیا سیاسی دلدل بن سکتے ہیں۔ 

اور جنرل مشرف واقعی واپس لوٹ گئے

تحریر: ملک سراج اکبر 

جنرل مشرف  کے بیشتر ناقدین کا خیال تھا کہ وہ عام انتخابات سے پہلے وطن واپس لوٹنے کے اپنے طے شدہ اعلان سے مکر جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ اتوار کے روز بالآخر لندن اور دبئی میںاپنی چار سالہ جلاوطنی ختم کرکے واپس وطن لوٹ گئے۔ پاکستانی سیاست میں تئیس مارچ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور جنرل مشرف کی بھی دلی خواہش ہوئی ہوگی کہ وہ یوم پاکستان ہی کو واپس لوٹیں لیکن اس روز مینار پاکستان کے سائے تلے پاکستان تحریک انصاف کا جو بڑاجلسہ ہونے والاتھا اس کے پیش نظر انھوں نے اپنی واپسی کے لئے چوبیس مارچ کا انتخاب کیا تاکہ انھیں میڈیا میں مناسب کوریج ملے۔ ابھی تک یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آخر وہ واپس کیوں آئے ہیں کیوں کہ ان کی آمد کے ایک روز پہلے تحریک طالبا ن پاکستان نے انھیں’’ واصل جہنم‘‘ کرنے کی دھمکی بھی دی  تھی جب کہ ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی کوئی سیاسی ساکھ بھی نہیں ہے جس کو لے کر یہ گمان جائے کہ اہم انتخابی کامیابیاں جنرل مشرف کے لئے منتظر تھیں اور اگر وہ ملک سے باہر رہتے تو قیمتی ووٹوں سے محروم رہ جاتے۔ 
جب جنرل مشرف اقتدار سے بے دخل ہوئے تھے تو پی پی پی کی حکومت نے انھیں بڑے احترام سے گارڈ آف ہانر دے کر ملک سےباہر جانے کا موقع دیا۔ وطن واپسی پر جنرل مشرف بے حد تنہا ہونے کے باوجود بھی بڑے پراعتماد لگے رہےتھے۔کراچی پہنچتے ہی انھوں نے کہا کہ ان کا دل خون کے آنسو رورہا ہے کہ وہ پاکستان کو جس حال میں چھوڑ کر چلے گئے تھے اس کا حال اب بدتر ہوگیا ہے۔ حالات کا پتہ نہیں لیکن ایک بات واضح ضرور ہے کہ جنرل مشرف جب ملک چھوڑ کر گئے تھے تو ان کے خلاف عوامی غم و غصہ زیادہ تھا اور چار سال بعد جب وہ واپس ملک لوٹے ہیں تو اس نفرت میں کمی نہیں آئی ہے۔ پاکستان میں جنرل مشرف کے دوست بہت کم اور مخالفین زیادہ ہیں۔ ملک کی دو سب سے بڑی جماعتیں پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ مختلف وجوہات کی بنا پر ان سے نالاں ہیں۔  
بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو ایک فوجی انقلا ب کے ذریعے جب انھوں نے میاں محمد نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور سابق وزیراعظم اور ان کے بھائی شہباز شریف کو سعودی عرب جلاوطن کردیا تب سے شریف برادران ان سے سیاسی انتقام لینے کے لئے بے قرار ہیں اور اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ وہ جنرل مشرف سے بدلہ لے لیں۔ جب کہ دوسری طرف پی پی پی اگرچہ جنرل مشرف سے قومی مفاہمتی آرڈینس یا این آر او کے تحت ڈیل کرکے اقتدار میں آئی اور جنرل مشرف کو راہِ فرار فراہم کیا لیکن پارٹی کے شریک چئیرمین بلاول بھٹو زرداری جنرل مشرف کو اپنی والدہ کا قاتل سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جنرل مشرف جنرل ضیا الحق کی طرح ’’ خوش قسمت ‘‘ نہیں رہے کہ دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات استواراور برقرار رکھتے۔انھوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر پاکستانی مذہبی جماعتوں کی دشمنی مول لی اوریہ دشمنی اپنی انتہا کو اس وقت پہنچی جب جولائی دو ہزار سات کو جنرل مشرف نے اسلام آباد کے لال مسجد میں آپریشن کیا جس کے نتیجے میں ایک سو دو افراد ہلاک ہوئے۔ لال مسجد آپریشن کے ردعمل میں پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی کا قیام عمل میں آیا۔ جنرل مشرف سے مسلم لیگ اور پی پی پی شاید سیاسی و عدالتی طریقے سے انتقام لینا چائیں گے لیکن مذہبی جماعتیں اس معاملے میں ان کے ساتھ کوئی رعایت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔جب جنرل مشرف اقتدار میں تھے تو ان پر مذہبی شدت پسند عناصر نے کم از کم تین قاتلانہ حملے کئے جن میں وہ بال بال بچ گئے۔ لیکن جس زمانے میں یہ حملے ہوئے تھے اس وقت پاکستانی طالبان اتنے مضبوط نہیں تھے جتنے وہ آج بن چکے ہیں۔ٹی ٹی پی کے لہجے میں جنرل مشرف کے لئےکوئی نرمی نہیں ہے اورانھوں نے ایک تازہ ترین ویڈیو میں یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جنرل مشرف کو جان سے ماردیں گے۔ 
مشرف مخالف جذبات کا ایک گڑھ بلوچستان ہے لیکن جو لوگ بشمول سیاسی تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ صرف نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت ہے تو وہ دراصل اس تمام صورت حال کی سنگینی سے لاعلم ہیں۔نواب بگٹی کی ہلاکت پاکستان مخالف جذبات میں ایک سنگِ میل ضرور ثابت ہوا لیکن مشرف سے بلوچوں کی نفرت شاید اس دن شروع ہوئی جب انھوں نے ٹیلی ویژن پر مکا لہرا کر بلوچوں کو دھمکی دی کہ تمہیں ایسا ہٹ کیا جائے گا کہ تمہیں پتہ تک نہیں چلے گا کہ کس طرف سے تمہیں ہٹ کیا گیا کیوں کہ یہ ستر کا زمانہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں مشرف نے فوجی آپریشن کرکے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا اور سینکڑوں نوجوانوں کو لاپتہ کیا اوروہ ان تمام افراد کے مجرم ہیں۔ 
جب جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کیا تواس وقت عدلیہ بہت کمزورتھی لیکن اب وہ نہ صرف بہت مضبوط ہوگئی ہے بلکہ اس کے جج صاحبان اپنی انا کو خوش رکھنے کے لئے ذاتی انتقام لینے سے گریز بھی نہیں کرتے۔ پاکستان میں آج عدلیہ باقاعدہ ایک سیاسی فریق بن گئی ہے جس کے زیادہ تر فیصلے ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر کیئے جاتے ہیں۔ لہٰذہ یہ بات خارج از امکان نہیں کہ چیف جسٹس چوہدری جنرل مشرف سے اپنی تذلیل اور برطرفی کا پورا بدلا لیں گے۔ اسی طریقے سے پاکستانی میڈیا جسے مشرف کے دور میں بند کیا گیا تھا سابق فوجی سربراہ سے خوش نہیں ہے۔گذشتہ روز ہیومن رائٹس واچ نے بھی ایک تفصیلی بیان میں پاکستان حکومت پر ضرور دیا   ہے کہ وہ جنرل مشرف کا ان کی واپسی پر احتساب کرے کیوں کہ ان کے دور حکومت میں پاکستان میں انسانی حقوق کی بے پناہ مالی ہوئی ہوئی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ کا بیان شدید سخت ہے اور اس کے کسی گوشے میں بھی جنرل مشرف کے لئے ہمدردی جھلکتی نہیں ہے۔
 ان تمام نا مساعد حالات میں اگر جنرل مشرف کے لئے کوئی روشن امکان دیکھنے میں آیا ہے تو وہ صرف سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے ان کی ضمانت کی تین درخواستوں کی قبولیت  ہے لیکن سند ھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو حرف ِ آخر نہیں سمجھنا چائیے ۔ سپریم کورٹ ان فیصلوں کو کسی وقت بھی رد کرسکتی ہے۔ 
اس بات سے قطعی نظر کہ جنرل مشرف گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیتے ہیں یا نہیں ان کی وطن واپسی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں فوج تین مرتبہ اقتدار پر قابض رہی ہے اورملک کی تاریخ کے آدھے حصے سے زیادہ عرصے میں فوج نے حکمرانی کی وہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی سابق فوجی آمر باقاعدہ ایک نئی سیاست کئیریر کا آغاز کررہا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ خان اورجنرل ضیا الحق کو کبھی اقتدار کے بعد سیاست میں آنے کا موقع نہیں ملا۔جنرل مشرف نے پاکستانی کی سیاست کو ایک نئے آزمائش میں ڈال دیا ہے۔
کیا فوج اپنے ایک سابق سربراہ کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کی اجازت دے گی؟ اگر ہاں تو فوج خود اپنے پاوں پر کلہاڑی مارد ے گی اور مستقبل میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے  دروازے بند کرے گی۔ ہونا تو یہی چائیے لیکن ایسا نہیں لگتا کہ فوج مستقل بنیادوں پر بیرکوں میں جانے اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں فوج نے اقتدار میں قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن مسئلہ صرف یہ ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد فوج کا مورال اتنا گر گیا کہ فوجیوںمیں یہ سکت  باقی نہ رہی کہ وہ غیر جمہوری انداز میں اقتدار پر قبضہ جمائیں ۔جن لوگوں نے جنرل کیانی کے بارے میں یہ پیشن گوئی کی تھی کہ وہ فوج کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں وہ غلط ثابت ہوئے۔  فوج نے براہ راست اقتدار میں آئے بغیر کیری لوگر بل ،نیٹو سپلائی کی بندش اور میمو گیٹ اسکینڈل کے دوران اہم سیاسی فیصلے کئے ۔ شاید فوج سمجھ گئی ہے کہ اب ماضی کی طرح حکومت کرنا مشکل ہوگیا ہے تو اب بلاواسطہ جنرل مشرف، عمران خان ، طاہر القادری اور ایم کیو ایم جیسی قوتوں کی مدد سےایک ایسا نیا سیاسی بلاک تشکیل دیا جائے تو فوج کے سیاسی مفادات کو مستقل طور پر تحفظ دے اور پی پی پی و مسلم لیگ کی سیاسی اجارہ داری ختم کرے۔ اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرےگا لیکن ان تمام اہم فیصلوں کے لئے جنرل مشرف کی پاکستان اور سیاست میں موجود ہونا بہت ہی لازمی ہے۔ 

نگران حکومت کی نگرانی کون کرے گا؟

تحریر: ملک سراج اکبر

بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نوا ب محمد اسلم رئیسانی نے اس سال تیرہ جنوری کو اپنی حکومت کی برطرفی اور گورنر راج کے نفاذ پر قدرےتحمل کا مظاہر ہ کیا اور جس وقت ان کی کارکردگی پر شدید تنقید کی جارہی تھی تو انھوں نے اس بات میں اپنی عافیت جانی کہ اس عرصے میں وہ ملک سے باہر ہی رئیں۔ گورنر راج کے ساتھ ہی یہ تاثر دیا گیا کہ ان کے اتحادیوں نے انھیں استعفیٰ دینے پر آمادہ کیا ہے  کیوں کہ صوبے میں ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود بلوچستان اسمبلی کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے رہے اور جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نے گورنر راج کی شدید مذمت بھی کی۔ اس وقت یوں لگ رہا تھا کہ اتحادی جماعتیں نواب رئیسانی کو استعفیٰ دینے پر راضی کریں گی اور ایک نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا جائے گا لیکن ایسانہیں ہوا۔ یوں وقت گزرتا گیا اور جہاں ایک طرف ہزارہ اور شعیہ برادری کا غم و غصہ نسبتا ً کم تر ہوتا گیا تو وہاں دوسری طرف گورنر راج کی دومہینے کی آئینی مدت بھی پوری ہوگئی۔ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نواب رئیسانی نہ صرف واپس وطن لوٹے بلکہ انھوں نے استعفیٰ دینے سے بھی یکسر انکار کردیا اور یوں ان کی حکومت خود بخود بحال ہوگئی۔ بلوچستان میں جمہوریت کے تسلسل کی حمایت کرنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم نواب رئیسانی کی حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی کی پردہ پوشی کریں ۔ رئیسانی حکومت بلاشبہ بلوچستان کی تاریخ کی نا اہل ترین حکومت رہی ہے جس کی وجہ سے صوبےکے لوگوں کو اذیت ناک پانچ سال گزارنے پڑے۔ 
 نواب رئیسانی  کو کوئی پسند کرے یا نہ لیکن انھوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کرکے بڑی عقل مندی سے اپنے آپ کو تاریخ کے اوراق میں بد نما ہونے سے بچا لیا۔ اگر ان کی حکومت بحال نہ ہوتی تو وہ تاریخ میں بلوچستان کے اس وزیراعلیٰ کی حیثیت میں یاد کئے جاتے جن کو وفاقی حکومت نے بڑا بے آبرو کرکے نکال دیا۔ ایساتو سردار عطااللہ مینگل کی حکومت کے ساتھ بھی ستر کی دہائی میں ہوا تھا لیکن مینگل صاحب کی حکومت پھر کبھی بحال نہیں ہوئی۔ نواب رئیسانی پر یہ بات اس لئے بھی زیادہ گراں گزرتی کیوں کہ وہ بلوچستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعلیٰ تھے جو بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پانچ سال تک ان کے خلاف کوئی شخص بلوچستان اسمبلی میں کھڑا نہیں ہوا۔ 
اس معاملے میں سردار یار محمد رند کا تذکرہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ وہ اسمبلی کے واحد رکن تھے جنھوں نے نواب رئیسانی کی حکومت کی حمایت نہیں کی۔ یار محمد رند نے تو اپنے رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد پانچ سالوں میں اسمبلی میں قدم نہیں رکھا تو یہ کہنا کہ وہ حزب اختلاف کے واحد رکن تھے کسی اعتبار سے درست نہیں لگتا۔ ان پانچ سالوں میں ان کا اسمبلی کے اندر کوئی وجود نہیں تھا۔اس دوران ان کی سیاست صرف اخباری بیانات تک محدود رہی۔  
 اگر رئیسانی کی جگہ پی پی پی کا کوئی اور رہنما وزیراعلیٰ منتخب ہوتے تو سرداریار محمد یقیناً ان کی حمایت کرتے اور خود صوبائی حکومت میں کسی اہم عہدے پر فائز ہوتے۔ رئیسانی کے ساتھ ان کے قبائلی اختلافات ہیں کیوں کہ نواب رئیسانی یار محمد رند کو اپنے والد اور بلوچستان کے سابق گورنر غوث بخش رئیسانی کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ بصورت دیگر یار محمد رند سیاسی و نظریاتی حوالے سے اتنے پختہ نہیں ہیں کہ وہ اقتدار کو ٹھوکر لگائیں کیوں کہ خود ان کا تعلق کسی زمانے میں نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی سے ہوا کرتا تھا لیکن اقتدار  کے نشے میں وہ جنر ل مشرف کے اتنے بڑے حامی بن گئے کہ جب نواب بگٹی ہلاک کئے گئے تو اس فیصلے کے خلاف انھوں نے احتجاج تک نہیں کیا اور جنرل مشرف کی حمایت یافتہ وفاقی حکومت میں امور کشمیر وشمالی علاقہ جات کے وزیر رہے ۔ 
جمہوریت کے ساتھ جس قدر مذاق نواب رئیسانی کے دور حکومت میں کیا گیا اس کی شاید کہیں اور نظیر ملے لیکن یہ بات قابل دید ہے کہ کس طرح رئیسانی اوران کے ٹولے نے ایک منظم طریقے سے کرپشن کی اور اپنے تمام کالے کرتوں کو جمہوریت کےچادر تلے چھپادیا۔ یہی اس ٹولے کا سب سے بڑا کارنامہ رہا ہے کیوں کہ ان سب کے سیاسی و معاشی مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب بلوچستان میں صوبائی حکومت تشکیل دینے کی باری آئی تو نواب رئیسانی اور اسلم بھوتانی بالترتیب بلامقابلہ وزیراعلیٰ اور اسپیکر منتخب ہوئے۔جمعیت علمائے اسلام کو خوش رکھنے کی خاطر سینئر وزیر کے ساتھ ساتھ دیگر اہم اور ’’ منافع بخش‘‘ وزارتیں دی گئی اور بی این پی عوامی کو بھی اتنا نواز کہ ان کے ہر رکن اسمبلی کو (سید احسان شاہ (وزیر صنعت وحرفت)، اصغر رند (وزیر سماجی بہبود)، اسداللہ بلوچ (وزیر زراعت)، غلام جان بلوچ (وزیر ماحولیات) ، ظفر اللہ زہری (وزیر داخلہ)، اور فوزیہ مری( مشیر وزیراعلیٰ اور بعد میں ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی)بنا یا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ بلوچستان میں جمہوریت بڑی خوش اسلوبی سے رواں دواں ہے۔ 
اسی طرح جب آئین کے بیسویں ترمیم کے تحت نگران وزیراعلیٰ کے لئے قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف کے باہمی مشاورت کی ضرورت پڑی تو ملاوں نے حلوہ کھانا چھوڑ دیا اور حزب اختلاف کی نشستوں پر جاکر بیٹھ گئے۔ نیز دونوں فریقین کے مابین بظاہر افہام و تفہیم سے جس نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا گیا ہے وہ دراصل ان ہی ہم خیال لوگوں  کے مشترکہ مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا اور اس کو جمہوری تقاضو ں سے ہم آہنگ نہیں قرار دیا جاسکتا کیوں کہ جو لوگ پانچ سال تک حکومت کا حصہ رہے ہوں وہ ایک دن کے لئے اپوزیشن  میں بیٹھنے سے حقیقی اپوزیشن نہیں بن جاتےاور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نواب غوث بخش باروزئی رئیسانی حکومت ہی کےمن پسند ہیں ۔ان کے انتخاب میں گورنر نواب ذولفقار علی مگسی کا بڑا اہم کردار ہے اور انھوں نے نگران وزیراعلیٰ کی تلاش فروری کے آخر اور مارچ کےآغاز میں شروع کیا تھا۔ اس سلسلے میں پچیس فروری کو وہ سابق وزیرداخلہ میر شعیب نوشیروانی کے والدمیر کریم نوشیروانی، تین مارچ کو غوث بخش باروزئی اور آٹھ مارچ کو پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کےسربراہ محمود خان اچکزئی کے بھائی ڈاکٹر حامد اچکزئی سے گورنر ہاوس کوئٹہ میں ملے اور یوں آخرکار غوث بخش باروزئی کو نگران وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا۔ 
بلوچستان میں پچھلے ایک ہفتے میں جمہوری اقتدار جس شرمناک طریقے سے منتقل ہوتے ہوئے ہم نے دیکھی ہےوہ بہت ہی مایوس کن ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک نواب ( اسلم رئیسانی ) کو جب ہٹا کر ایک اور نواب (ذولفقار علی مگسی ) کو اقتدار دیا گیااورپھر ایک نواب کے بھائی ( طارق مگسی ) کے مشورے سے اقتدار ایک اور نواب (غوث بخش باروزئی ) کو اقتدار سونپا گیا ۔ یہ ایک شرمنا ک عمل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں اقتدار صرف اشرفیہ اور قبائلی رہنماوں کے پاس رہتی ہے اور عوام کی کوئی حثیت نہیں ہے۔ بلوچستان میں آج بھی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص ( مثلاً علی احمد کرد وغیرہ) یہ خواب نہیں دیکھ سکتے کہ انھیں کسی اہم عہدے پر فائز کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہمارے صوبے کے وہ سردار اور نواب ہیں جن پر اسلام آباد کو فخر ہے حالاں کہ یہ چند افراد جن کےارد گرد اقتدار کی مورتی گھومتی رہتی ہے صوبے کی پس ماندگی کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ بلوچستان میں ان لوگوں کی خلاف جلسے جلوس نہیں ہوتے ۔ کبھی ان سے احتساب نہیں کیا جاتا کیوں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکمرانی تو ہمارے نصیب میں لکھی گئی تھی اور ہم اپنا مقدر کبھی بدل بھی نہیں سکتے۔ 
نگران وزیراعلیٰ نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ ان کے پاس بلوچستان میں صاف اور شفاف انتخابات کرانے اور امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لئے ایک روڑ میپ ہے لیکن بلوچستان کا اصل مسئلہ صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہے۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہونا چائیے کہ پچھلے پانچ سالوں میں نواب رئیسانی اور ان کے ساتھیوں نے بلوچستان کے خزانے کو جس بے دردی سے لوٹا اس کا احتساب ہو نا چائیے۔ بلوچستان کو آغاز حقوق بلوچستان پیکج اور  اٹھارویں ترمیم کے بعد جتنے پیسے ملے وہ رقم کہاں خرچ ہوئی اورکن کن لوگوں نے اپنے جیبوں میں وہ پیسہ ڈالااس کا احتساب لازمی ہے۔ بنیادی طور پر نواب باروزئی جیسے کم اثرو رسوخ رکھنے والے قبائلی و سیاسی شخص کو اس لئے بھی متفقہ طور پر وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا کہ وہ نواب رئیسانی اور ان کے ساتھیوں پر رعب و دبدبہ نہ ڈال سکیں۔ جب تک نگران وزیراعلیٰ سابق حکومت کو احتساب کے کٹہرے میں نہیں لاتے تب تک وہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کریں گے۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وزیر اعلیٰ باروزئی جان بوجھ کر احتساب کے  جھنجٹ اور درد سرد میں نہیں پڑیں گے۔ اور ضرورت اس امر کی ہے کہ نگران حکومت کی بھی نگرانی کی جائے کہ یہ کس کے مفادات کو تحفظ دے رہی ہے۔ 

Wednesday, March 13, 2013

حکومت ، حکومت ہوتی ہے چاہے اہل ہو یا نا اہل

تحریر: ملک سراج اکبر

اخباری اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے معطل وزیر اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے دوہ ماہ کے بعد وطن واپس آنے پر اپنے عہدے سے استعفی ٰ دینے سے انکار کیا ہے۔ پتہ نہیں ان باتوں میں کس حد تک صداقت ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اگر نواب رئیسانی بدستور اپنے عہدے پر قائم رہنے پر بضد رہتے ہیں تو یہ ان کی سیاسی کیرئیر کا سب سے بہترین فیصلہ ہوگا۔ اس بات سے قطع نظر کہ  ان کے استعفیٰ نہ دینے کے فیصلے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے رئیسانی کم از کم ایک حوالے سے  بلوچستان کے اس رواج کی لاج رکھیں گے کہ  یہاں کے لوگ اپنے حقوق پر لڑنے والے لوگ ہیں اور ہم  میں سے کوئی بھی اپنے جمہوری و قانونی حق سے دست بردار نہیں ہوگا۔ دو ماہ گزرنے کے بعد وفاقی حکومت بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے  حق میں کوئی ٹھوس جواز پیش نہیں کرسکی ہے اور نہ ہی گورنر راج سے صوبے کو کوئی فائدہ ہوا۔ 
گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے جب بھی بات شروع ہوتی ہے تو نواب رئیسانی کی حکومت کی بد عنوانی اور نا اہلی کی طرف انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں لیکن یہ کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے کہ کسی منتخب حکومت کو یوں وفاقی حکومت کی مرضی سے برطرف کیا جائے۔بلوچستان کی دو سیاسی دنیا ہیں۔ ایک پارلیمانی دنیا اور ایک غیر پارلیمانی دنیا۔ پارلیمانی دنیا میں نواب اسلم رئیسانی اور ان کے ساتھی رہتے ہیں جو پاکستان کو اپنا ملک سمجھتے ہیں، اس کے آئین پر یقین رکھتے ہیں ( یہ دوسری بات ہے کہ نوا ب رئیسانی گذشتہ پانچ سالوں سے اصرار کرتے رہے ہیں کہ انیس سو چالیس کی قرارد دادِ لاہور کے مطابق پاکستان میں ایک عمرانی معائدہ کیا جائے جس کے مطابق پاکستان میں بسنے والی اقوام کو انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے کے بجائے انھیں لسانی ، جغرافیائی اور تاریخی بنیادوں پر  اکھٹے رہنا چائیے)۔جب کہ دوسری دنیا کے لوگ وہ ہیں جو پاکستان سے مکمل خلاصی یا بلوچستان کی آزادی چاہتے ہیں  اور ان کے لئے نواب رئیسانی کی حکومت رہے یا نا رہے، صوبے میں گورنر راج ہو یا نہ ہو انھیں کوئی فکر نہیں پڑتا۔ تاہم جو جو قوتیں پارلیمانی سیاست میں یقین رکھتی ہیں ان میں سے بیشتر نے اصولوں پر ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر نواب رئیسانی کو تنہا چھوڑ دیا  جو کہ قابل افسوس بات ہے۔  دس جنوری کے دھماکوں کے بعد ہم نے بلوچ حال کے  ایک اداریہ میں کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ نواب رئیسانی اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائے کیوں کہ وہ صوبے میں امن و امان بحال کرنے میں یکسر ناکام ہوگئے ہیں لیکن جس طرح ان کی  حکومت کو ہٹایا گیا ہمارے خیال میں اب ان کے لئے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کی بلوچستان کے امور میں مداخلت کے خلاف کھڑے ہوں۔  ناکامیاں اور خراب کارکردگی جمہوری حکومت کا بنیاد ی حصہ ہیں اور ان  خامیوں سے دنیا کا کوئی ملک پاک نہیں ۔ ہونے یا چائیے تھا کہ تھا کہ بلوچستان کے ووٹرز کو یہ حق دیا جاتا کہ وہ آنے والے انتخابات میں نواب رئیسانی کی حکومت کو برطرف کرتے لیکن اس وقت کا انتظار نہیں کیا گیا جس سے اب بلوچستان میں قائم ہونے والی  مستقبل کی ہر حکومت پر بر طرفی کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔ 
اسی ہفتے صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے دو مہینے پورے ہوجائیں گے اور وفاقی حکومت بلوچستان میں گورنر راج کے خاتمے کے معاملے میں مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس سے قبل بائیس فروری کو وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ بلوچستان کی حکومت چودہ مارچ کو بحال کی جائے گی لیکن اب وفاق اس فیصلے سے مکر گئی  ہے کیوں خود پی پی پی کی صوبائی قیادت ( صادق عمرانی گروپ)  اور انتخابات میں حصہ لینے کے لئے بےچین نیشنل پارٹی جیسی جماعتیں سازشیں کررہی ہیں تاکہ جلد از جلد صوبے میں  نگران حکومت قائم کی جائے اور انتخابات منعقد   کئےجائیں۔ 
نواب رئیسانی کو چائیے کہ وہ اپنے فیصلے پر اٹل رئیں  کیوں کہ انھیں نہ صرف بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طور  پر منتخب کیا تھا بلکہ گورنر راج سے پہلے بھی بلوچستان اسمبلی نے انھیں اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ وہ بلوچستان کے نااہل وزیراعلیٰ ہو یا اہل، ان کو  اپنی مدت پوری کرنے کا پورا اختیار ہے کیوں کہ حکومت حکومت ہوتی ہے چاہے وہ اہل ہو یا نا اہل اور اس کے مستقبل کا فیصلہ صرف انتخابات کے دوران ہونا چائیے۔ 

Thursday, March 7, 2013

کیبل بائیکاٹ اور پس پردہ حقا ئق

تحریر: ملک سراج اکبر

ہر سیاسی تجزیہ نگار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی پیشن گوئی درست ثابت ہولیکن کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی بُری پیشن گوئی بھی سچ ثابت ہو اور اس سے زیادہ بری بات یہ ہوگی کہ وہ پیشن گوئی بہت جلد ہی درست نکلے۔ ابھی چند دن پہلے ہی ہم نے اپنے مضمون ’’ سرمچارگردی‘‘ میں بلوچ قوم پرستوں خاص کر بلوچ لبریشن فرنٹ(بی ایل ایف) اور بلوچ نیشنل فرنٹ  (بی این ایف) کو یاد دلایا تھا کہ وہ اپنی عاقبت نا اندیشی اور غلط حکمت عملی سے مکران میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے لئے بلوچ مخالف سرگرمیوں کے لئے راہ ہموار کررہے ہیںکہ وہ خضدار کے بلوچ مسلح دفاعی تنظیم کی طرز پر نئے سرکار نواز مسلح تنظیمیں مکران میں بھی قائم کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ قوم پرست مقامی بلوچ آبادی کی قومی وابستگی کا غلط وقت پر غلط پیمانے پر امتحان لے رہے رہیں  جس کے پیش نظر ممکن ہے کہ بہت سارے مقامی لوگ بی این ایف کو یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ بلوچ ہونے کے ناطے ہم نے آپ کے ساتھ کافی حد تک سنگتی کی لیکن آپ نے ہماری سنگتی کا مثبت جواب نہیں دیا  اور اب ہمارے گھروں میں چولہہ بُجنے والا ہے اور آپ کوصرف اپنی سیاست کی پڑی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری دونوں پیشن گوئیاں درست ثابت ہوگئیں۔  
مکران میں کیبل ٹی وی کے کاروبار سے وابستہ تمام افراد مقامی بلوچ ہیں جنھوں نے بلوچیت کے حوالے سے قوم پرستوں کے ساتھ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر تین ہفتوں تک لگاتار تعاون کیا اور پرائیوٹ نیوز چینلز پر بلوچستان  سے متعلق خبروں کی عدم کوریج کے خلاف بی این ایف کی بائیکاٹ پر رضاکارانہ طور پر تمام چینلزبند کئے لیکن اس تمام عرصے میں بی این ایف نے مقامی کیبل آپریٹرز کی مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ کسی بھی چینل پر خبریں چلانے کا فیصلہ کیبل آپریٹر یا مقامی صحافی نہیں کرتے بلکہ یہ اہم فیصلے بڑے شہروںمیں بیٹھے ایڈیٹرز اور چینلز کے مالکان  کرتے ہیں اوران تک کیبل آپریٹرز کی رسائی نہیں ہے۔اب کیبل آپریٹرز کا کہنا ہے کہ ایک حکومت پسندزیر زمین تنظیم لشکرِ بقائے پاکستان نے انھیں دھمکی دی ہے کہ اگر انھوں نے کیبل سروس دوبارہ شروع نہیں کی تو ان پر جان لیوا حملے کئے جائیں گے۔
 بچارے کیبل آپریٹر مخمصے کا شکار ہیں کہ بی این ایف قوم پرست اور بلوچ دوست ہونے کے باوجود انکی جانوں کو درپیش خطرات کے باوجود اپنی بائیکاٹ ختم کرنے پر تیار نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان مقامی لوگوں کے گھروں میں چولہہ جلنا بند ہوگیا ہے اس  کی بھی انھیں کوئی پروا نہیں ہے۔یو ں آج کے اخبارات میں بلوچ کیبل آپریٹرز نے برملا انداز میں بے این ایف کو کہا  دیاہے کہ ہم نے بلوچیت کے ناطے آپ کے ساتھ جتنا تعاون کرنا تھا کر لیا لیکن آپ ہماری مجبوریوں کوسمجھ نا پائے۔
مکران کے کیبل آپریٹرز کے بے زاری اور تنظیم لشکرِ بقائے پاکستان کا قیام اپنی جگہ پر لیکن بنیادی طور پر بی این ایف نے کیبل نیوز کے بائیکاٹ کا جو فیصلہ کیا تھا وہ جذبات پر مبنی تھا اور اس سے یہی بات ظاہرہوئی کہ قوم پرست قیادت کو خود بلوچستان کی میڈیا اور اس کے ڈھانچے کے بارے میںحقائق کا پتہ نہیں اور جب تک قوم پرست اس ڈھانچے کو نہیں سمجھتے اس وقت تک اس طرح کےبائیکاٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ 
تاریکی سے نفرت کرنے سے بہتر ہے کہ آپ ایک شمع روشن کریں ۔ کیبل آپریٹرز پر تنقید کرنے سے پہلے بلوچ قوم پرستوں کو درج ذیل باتوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ 
بلوچستان میں کام کرنے والے تمام بڑے میڈیا اداروں مثلاً جنگ، جیو،  دا نیوز،ڈان، ، ایکسپریس، آج ٹی وی، دنیا ٹی وی، سما ٹی وی، بی بی سی، وائس آف امریکہ وغیر ہ وغیر ہ کے کوئٹہ بیورو آفیس میں بلوچ صحافی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔قوم پرست رہنماوں نے کبھی اس مسئلے پر آواز بلند نہیں کی کہ اگر جنگ اخبار سالانہ کروڑوں روپے کے اشتہارات حکومت بلوچستان سے لے رہا ہے تو وہاں اتنے بڑے دفتر میں پانچ فیصد بلوچ بھی برسر روزگار کیوں نہیں ہیں؟ جنگ اخبار میں ایڈیٹرز، رپورٹرز، فوٹو گرافر تو بہت دور کی بات ہے، کتنے بلوچوں کو بطور ڈرائیور، باورچی اور چوکیدار نوکری دی جاتی ہے؟ اسی طرح سے روزنامہ مشرق بھی ہر سال کروڑوں روپے  بلوچستان کے محکمہ تعلقات عامہ سےاشتہارات کے مد میں لیتا ہے لیکن وہاں بھی آپ کو بمشکل کوئی بلوچ صحافی یا لوئر لیول کا اسٹاف ممبر نظر آتا ہے۔
مندرجابالا تمام میڈیا اداروں میں بلوچ صحافی نہ ہونے کے برابر ہیں اور نہ ہی بلوچوں کو نوکری دی جاتی ہے۔ لیکن کیا بلوچ قوم پرستوں نے کبھی اس مسئلے پر آواز بلند کی ہے؟ کیا ایکسپریس  یا مشرق لاہور یا پشاور کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر قلات یا مستونگ کا صحافی بن سکتا ہے؟ا گر نہیں تو ایسا کیوں ہے کہ بلوچستان میں تمام بڑے اخبارات، ٹی وی چینلز اور نیوز ایجنسیوں کے دروازے بلوچو  ں پر بند ہیں اور ان اہم عہدوں پر باہر سے آئے ہوئے صحافی براجمان ہیں؟ جو قوم پرست کسی اخبار کے دفتر میں ایک بلوچ کو بطور چپڑاسی اور ڈرائیور نوکری نہیں دلاسکتے وہ گوادر پورٹ اور ریکوڈیک میں بلوچوں کے مفادات کا کیا تحفظ کریں گے؟  کیا اس مسئلے کا اٹھانا بلوچ قوم پرستوں کی ذمہ داری نہیں تھی؟
 کیا قوم پرستی صرف الیکشن میں حصہ لینے یا پہیہ جام ہڑتا ل کرنے کا نام ہے؟ جب آپ کے لوگ اہم میڈیا اداروں میں نہیں ہوں گے تو آپ کی خبریں  کیسے کیبل ٹی وی پر آئیں گی؟  ممتاز بزرگ صحافی صدیق بلوچ ہر وقت یاد کرتے ہیں کہ کس طرح میر غوث بخش بزنجو نے انھیں ڈان اخبار میں نوکری حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔ بعد میں یہی صدیق بلوچ چالیس سال تک ڈان جیسے بڑے اخبار کے ساتھ وابستہ رہا اور پھر بلوچستان کو آزادی اور بلوچستان ایکسپریس جیسے اہم اخبارات دئیے اور ہم جیسے سینکڑوں بلوچ صحافیوں کی تربیت بھی اسی ایک شخص نے کی ۔ لیکن آج کے بلوچ سیاسست دان کے پاس غوث بخش بزنجو والی سوچ کہاں کہ کسی بلوچ نوجوان کو ایک بڑے ادارے میں نوکری دلائے تاکہ آگے چل کر وہ اپنی منزل خود تلاش کرسکیں۔
 کیا آج عثمان ایڈوکیٹ اور روف مینگل خضدار آنے والے حامد میر سے یہ گذارش نہیں کرسکتے کہ چار بلوچ  نوجوانوں کو جیو ٹی وی کراچی اور اسلام آباد میں نوکریاں دیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بہتر ہوں؟ غوث بخش بزنجو نے صدیق بلوچ پر جو سرمایہ کاری کی اس کا نتیجہ ہمیں آج چار دھائیوں کے بعدآج مل رہاہے ۔ اسی طرح آج کے بلوچ رہنمااگر بلوچ نوجوانوں کو اہم قومی اخبارات اور چینلز میں بطور رپورٹر نوکریاں حاصل کرنے میں مدد کریں گے تو چند سال بعد یہی نوجوان بڑے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر نیو ز بنیں گے۔افسوس کا مقام ہے کہ ہماراآج کا سیاست دان زندہ باد مردہ باد سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا تو پھر وہ بلوچ نوجوان پر کیا سرمایہ کاری کرےگا جس کا پھل ہمیں آج سے چالیس سال بعد ملے؟
کوئٹہ میں کام کرنے والے کتنے ایسے صحافی ہیں جو بلوچی زبان بولتے ہیں اور جنھوں نے کبھی ( سرکاری دوروں کے علاوہ)   کبھی کوئٹہ سے باہر قدم رکھا ہے؟  کچھ عرصہ پہلے  بلوچ صحافیوں کے ایک وفد نے راقم الحروف کی قیادت میں سردار اختر مینگل سےان کے بھائی جاوید مینگل کے ریلوئے ہاوسنگ سوسائٹی  کوئٹہ والے گھر میں ملاقات کی اور انھیں  بلوچستان بھر میں کام کرنے والے تما م میڈیا اداروں میں بلوچوں اور دیگر اقوام کے تناسب کے حوالے سے باقاعدہ ایک فہرست پیش کی ۔ کوئٹہ کے میڈیا میں بلوچوں کا تناسب بمشکل پانچ فیصد تھا اور میں نے ان سے کہا کہ سردار صاحب بلوچوں کے پاس پڑھے لکھے تربیت یافتہ صحافیوں کی کمی نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ان اداروں میں بلوچوں کو نوکریاں نہیں ملتی ہیں کیوں کہ جس طرح پاکستانی فوج بلو چ سیاستدانوں پر بھروسہ نہیں کرتی اسی طرح سے قومی اخبارات اور چینلز کے مالکان بلوچ صحافیوں پر اعتبار نہیں کرتے اور اس مسئلے پر ہمیں بلوچ قوم پرست سیاست دانوں کی حمایت کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ کسی جماعت سے جڑی ہوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بلوچستان کا ایک قومی مسئلہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے میڈیا میں روزگار پر سب سے پہلا حق مقامی لوگوں کا ہونا چائیے اور میرٹ کا تقاضہ یہ ہے کہ مذکورہ صحافی مقامی زبانوں، تاریخ اور جغرافیہ سے واقف ہو۔سردار اختر مینگل نے اس حوالے سےکبھی ہمارے ساتھ پھر بات نہیں کی اور ہم نے وہی فہرست بعد میں نیشنل پارٹی  ، بی ایس او آزاد اور بی آر پی کےرہنماوں کے ساتھ  بھی شئیر کیا اور کہا کہ بلوچستان کے حقوق کی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک آپ بلوچ صحافیوں کے حقو ق کی بات نہیں کرتے۔ کسی ایک بلوچ رہنما نے اس بات کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی آج بھی کسی بلوچ قوم پرست جماعت کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ جب وہ بلوچستان کے حقو ق کی بات کریں تو اس بات کو بھی سامنے لائیں کہ کن کن اداروں ( یا این جی اوز میں) بلوچوں کو نوکریاں دی گئی ہیں۔ جب ایف سی کی سفارش پر ہمارے محترم صحافی دوست شہزادہ ذولفقار کو ان کی نوکری سے برخاست کیا گیا تو اس وقت تو کوئی قوم پرست ان کے شانہ بشانہ کھڑا نہیں ہوا۔ 
بلوچستان کے میڈیا میں بلوچ نوجوانوں کو روزگار دلانے میں اپنا کردار ادا کر نا تو کُجا بہت سارے بلوچ رہنما بشمول بلوچ مسلح تنظیمیں غیر بلوچ صحافیوں کو نوازنے اور پرموٹ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ الجزیرہ راتوں رات کیسے دنیا کا ایک بہت بڑا نیوز چینل بن گیا؟ اس لئے کہ نائن الیون کے بعد القاعدہ نے اپنی تمام ویڈیوز صرف الجزیرہ کو دیں تاکہ پوری دنیا خبر حاصل کرنے کی خاطر عربوں کے چینل الجزیر ہ  سے رابطہ کرے اسی طرح طالبا ن نے بھی یہ حکمت عملی اپنائی اوراپنی ہر بڑی خبر پشتون صحافیوں رحیم اللہ یوسف زئی ، سلیم صافی، سمیع یوسف زئی وغیر ہ  کو دی تاکہ پوری دنیا کے نزدیک طالبان کے حوالے سے خبروں کا مرکز و محور ان کے اپنے پشتون ہی ہوں۔ 
کیا ان دس سالوں میں بی ایل اے، بی ایل ایف وغیر ہ نے کبھی یہ کوشش کی کہ اپنی اہم خبریں اور ویڈیوز صرف بلوچ صحافیوں کو دیں تاکہ ان کی اتنی اہمیت ہو کہ پوری دنیا سے لوگ بلوچستان اور بلوچ کے حوالے سے خبر حاصل کرنے کے لئے کسی بلوچ صحافی سے رابطہ کریں؟ہم نے بلوچستان کی پوری تحریک میں ایک بلوچ صحافی تیار نہیں کیا ۔غیر بلوچ صحافیوں کو نوازنے کا سلسلہ بی ایل اے نے خود دو ہزار چار میں اس وقت شروع کیا جب آن لائن نامی نیوز ایجنسی کو سب سے پہلے کاہان میں ایک گوریلا کیمپ میں مدعو کیا گیااور سرمچاروں کی تصویریں بنائی گئیں۔ اس کے بعد جان سولیکی کے اغوا کی خصوصی ویڈیو بھی اسی ایجنسی  کو فراہم کی گئی تھی ۔
 بلوچ قوم پرستوں کا یہ حال رہا ہے کہ وہ اپنی پریس کانفرنس کا آغاز چندمخصوص صحافیوں کی عدم موجودگی میں تو شروع ہی نہیں کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک بلوچ قوم پرست رہنما نے یہ کہہ کر اپنی پریس کانفرنس شروع نہیں کی کہ این این آئی کے بیورو چیف عاشق بٹ صاحب تشریف نہیں لائے تھے۔ ہمارے ساتھ بیٹھے ایک بلوچ صحافی نے سرگوشی کی ’’اے وامارا و ا ہیچ مردم بے نکناں‘‘ ( یہ (لیڈر) لوگ ہمیں (صحافیوں کو) تو بالکل انسان ہی نہیں گردانتے ) ۔آج بھی جب بلوچ صحافی رہنماوں کو فون کرکے خبر لیتے ہیں تو بلوچ رہنما جواب میں کہتے ہیں کہ اپنے لئے خبربناو یا نہیں لیکن مہربانی کرکے اس خبر کی ایک کاپی آن لائن اور این این  آئی نیوز ایجنسی کو ضرور دے دیں۔ جہاں بلوچ رہنماوں کا رویہ ہی اس قدر منفی ہو کہ خود بلوچ صحافیوں کو نظر انداز کریں اور ان اداروں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ترجیح دیں جن کے حوالے سے پھر بی این ایف یہ شکایت بھی کرتی ہے کہ ان کی خبریں نہیں لگتی ہیں تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیبل چینلز کے بائیکاٹ کا کوئی جواز بندتا بھی ہے یا نہیں؟ اگر میڈیا کے حوالے سے بلوچ رہنماوں کا  رویہ دوغلاپن کا شکار ہے تو پھر 
 بچارے کیبل آپریٹزر کا کیا قصور ہے؟ جہاں قومی تحریکوں میں اسٹریٹجک سوچ اور پلاننگ کی کمی ہو تووہاں لوگ سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ ان کی قومی تحریک کا دار ومدار  ایک پریس ریلیز کی اشاعت اور ٹی وی پر چلنے والے ایک ٹیکر سے ہے۔ یہ قوم پرست تحریک اور اس کے رہنماوں کے لئےلمحہ فکریہ ہے۔ 

Tuesday, March 5, 2013

شریف لوگ

تحریر: ملک سراج اکبر

پاکستان پیپلزپارٹی بلوچستان کے سابق صدر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے صوبے کے ایک اعلیٰ سطحی اکیس  رکنی وفد کے ساتھ رائےونڈ میں سابق وزیرا عظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کرکے پاکستان مسلم لیگ نواز میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان کیا ہے۔ان کے ساتھ جن رہنماوں نے ملک میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے ان میں ہمایوں عزیز کرد، راحیلہ درانی، اسماعیل گجر اور طاہر محمود خان بھی شامل ہیں۔ اگرچہ نوابزادہ لشکری رئیسانی نے پی پی پی کے ساتھ اختلافات کی بنیاد پر گذشتہ سال ہی اپنی جماعت سے کنارہ کشی  اختیار کی تھی جس کے بعد یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ شاید وہ جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہوں گے لیکن انھوں نے ایک سال انتظار کرنے کے بعد اپنے فیصلے کا باضابطہ طورپر اعلان کیا۔ لشکری کئی مرتبہ اپنے اخباری بیانات اور پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ رحمن ملک کے بیانات کو جواز بنا کر پی پی پی کی بلوچستان پالیسی پر تنقید کرتے تھے اور ان کا کہنا رہا ہےکہ ان کی سابق جماعت نے انتخابات سے پہلے بلوچستان میں حالات بہتر بنانے کے لئے جو وعدے کئے تھے وہ نبھائےنہیں۔ 
بلوچستان سے اتنی بڑی تعداد میں با اثرسیاسی و  قبائلی شخصیات کی مسلم لیگ میں شمولیت کی دووجوہات ہوسکتی ہیں۔
 پہلی تو یہ کہ پی پی پی نے واقعی  اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں بلوچستان کے لوگوں کو مایوس کیا ۔ جنرل مشرف کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد پی پی پی کے پاس ایک سنہرا موقع آیا اور اسے وفاق اور صوبے میں اپنی حکومت کا فائدہ اٹھانا چائیے تھا اور بلوچستان کے دیرینہ مسائل کو مذاکرات اور افہام وتفہیم سے حل کرنا چائیے تھا لیکن اس دوران بلوچوں کو لگاتارمسخ شدہ لاشیں ملیں اور جنرل مشرف کے دور میں لاپتہ ہونے والے افراد کبھی بازیاب نہ ہوسکے۔ جب کہ دوسری طرف پی پی پی کے دورِ حکومت میںہزارہ برادری پر ہونے والے حملوںمیں غیرمعمولی شدت دیکھنے میں آئی اور حکومت نے دہشت گردی کے ان تمام کارروائیوں کے خلاف کوئی مربوط پالیسی تشکیل نہیں دی اور نہ ہی کسی دہشت گرد کو سزاملی جس سے عوام کو احساس تحفظ ہو کہ حکومت واقعی ان کی جان و مال کی حفاظت میں سنجیدہ ہے۔اس سے بڑھ کر یہ کہ پی پی پی نے بلوچستان میں اپنی ہی منتخب شدہ جمہوری حکومت فوج کے ڈرسے اکھاڑ کر پھینک دیاور صوبے میں غیر ضروری طور پر گورنر راج نافذ کی جس سےیہ بات ظاہر ہوگئکہ پی پی پی کے دل میں چھوٹے صوبوں کے عوامی مینڈیٹ کا کوئی احترام نہیں ہے۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ بلوچستان میں چند ایک قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کو چھوڑ کر کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو نظریہ کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرے۔یہاں لوگوں کو ان کی قبائلی حثییت سے ووٹ ملتے ہیں چائے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے کیوں نا ہو۔لشکری رئیسانی سے پہلے بھی ہم نے دیکھا ہے کہ یہاں لوگوں نے اپنی سیاسی جماعتیں بدلی ہیں لیکن اس فیصلے سےان کے ووٹ بینک پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ مثلاً سردار فتح محمد محمدحسنی اگر پی پی پی میں رہے یا ق لیگ میں اس سے ان کی سیاسی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا اسی طرح اگر سردار ثنااللہ زہر نیشنل پارٹی میں رہے یا اپنی ہی علیحدہ سے نیشنل پارٹی بنالی اس کے باوجود وہ اقتدار میں رہے۔ ذولفقار علی مگسی جب ن لیگ میں تھے تو وزیراعلیٰ رہے اور جب ق لیگ میں چلے گئے تو گورنر بن گئے۔ 
چنانچہ بلوچستان ایک ایساصوبہ ہے جہاں نظریاتی پارلیمانی سیاست کا رواج محدود ہےاور سیاسی رہنما اسی سمت دوڑتے ہیں جہاں انھیں اقتدار نظر آئے۔ بہت سارے سیاسی و قبائلی رہنماوں کو پتہ چل گیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن کافی مضبوط ہے اور اس کی حکومت  بنے کے امکانات بھی روشن ہیں تو وہ ابھی ہی سے اپنی بوریا ں بستر باندھ کر ن لیگ کی طرف روانہ ہورہے ہیں تا کہ اقتدار کے مزے لینے میں وہ دیر سے نہ پہنچیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر آنے والے دنوں میں اور بہت سارے رہنما خاص کر ق لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین بلوچستان اسمبلی ایک مرتبہ پھر ن لیگ  میں شامل ہوں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سارے اہم قبائلی و سیاسی شخصیات کا ایک سیاسی جماعت میں ہونا اچھی بات  ہے یا نہیں؟ہمارے خیال میں اس کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں۔ جب بہت ساری اہم شخصیات ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی ہوتی ہیں تو اس بات کا ڈر لگتا ہے کہ اگر ن لیگ اقتدار میں آجاتی ہے تو وہ ان سب کو خوش رکھنے کے لئے وہ سب کچھ کرے گی جو پی پی پی نے اپنے دورِ حکومت میں کیا یعنی ہر رکن اسمبلی کو وزارت یا مشیری کے قلم دان سونپ دئیے جس سے بدعنوانی کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اسی طریقے سے ہم دیکھتے ہیں کہ جب بہت با اختیار شخصیات بیک وقت ایک ہی جماعت میں ہوتی ہیں تو وہاںمعمولی باتو ں پر اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں، نئے فارورڈ بلاک بن جاتے ہیں اور مخلوط حکومتیں گرنے لگتی ہیں۔ 
لشکری رئیسانی کی شمولیت سے پہلے ہی بلوچستان کی اہم شخصیات چیف آف جھالاوان سردار ثنا اللہ زہری، سابق گورنر و کورکمانڈر جنرل عبدالقادر اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کے بڑے فرزند جنگیز مری ن لیگ میں شامل رہے ہیں اور اب دیکھنا ہے کہ ن لیگ لشکری رئیسانی جیسی اہم شخصیت کو کس مقام پر رکھے گی اور ان کے ساتھ آئے ہوئے دیگر وزرا کو ن لیگ کس طرح سے نوازے گی تاکہ وہ ایک بار پھر اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ 
ان تازہ واقعات کے ساتھ ہی بلوچستان میں انتخابی گہماگہمی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے اور ن لیگ ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے حوالے سے وہی وعدے کررہی ہے جو اقتدار میں آنے سےپہلے پیپلز پارٹی نے بھی کئے تھے کہ وہ صوبے میں فوج کشی کا خاتمہ کرےگی اور لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے گا لیکن ہم نے دیکھا کہ پی پی پی کے دورِ حکومت میں بلوچستان میں بہت زیادہ خون ِ نا حق بہا گیا اور اس کا کبھی احتساب بھی نہیں ہوا۔ اب کیا ن لیگ کے پاس جادو کی کوئی چھڑی ہے جس کو لے کر وہ بلوچستان کے حالات درست کرے گی کیوں کہ عمران خان کی طرح میاں نواز شریف بھی اپنی جماعت میں ان لوگوں کو شامل کررہے ہیں جن کو لوگوں نے پہلے ہی سے آزمایا ہے اور جب ان کو اقتدار کا موقع بھی ملا  لیکن انھوں نے عوام کے لئے کچھ کرنے  کے بجائے محض اپنا مقدر سنوارا۔  یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ شریف لوگ ( کردارنہیں بلکہ سیاسی وابستگی کے حوالے سے) اکھٹے ہوکر بلوچستان میں عام انتخابات کے بعد کیا بڑی تبدیلی لاتے ہیں۔ 

Monday, March 4, 2013

اچھے یا برے ‘ہمارے تو ساتھی تھے

تحریر: ملک سراج اکبر

بلوچستان میں آج کل آزادی پسند بلوچ قوم پرستوں اور ذرائع ابلاغ کے تعلقات شدید کشیدہ ہیں۔ ماضی میں تو صحافی دبے الفاظ میں کہتے تھے کہ انھیں مختلف ذرائع سے دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن اب یہ اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔صحافی جہاں اپنے آپ کو بے یارو مدد گار سمجھ رہے ہیں وہاں قو م پرست ان پر ترس کھانے کو تیار ہیں اور نہ ہی ان کی مجبوریوں کو سمجھنے پر آمادہ ہیں۔
 جس کی لاٹھی اس کی بھینس  کے مصداق جس نے قوم پرستوں کے ساتھ زیادہ بحث و تکرار کی تو وہ بھی ان کا اگلا ہدف بن سکتا ہے۔ لہٰذہ بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے قلات پریس  کلب کے صدرمحمود جان آفریدی کی ہلاکت کے بعد اب صحافیوں نے اپنے احتجاج کا دائرہ کار بھی محدود کردیا ہے اور اب ہر صحافی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ آفریدی کے بعد کس کی باری ہے اور اگلی گولی کس کی طرف سے آئے گی؟ میں محمود جان آفریدی کو ذاتی طور پر نہیں جانتاتھا  لیکن ان کا اس لئے احترام کرتا ہوں کہ جب میں اسکول اور کالج کا ایک طالب علم تھا تب سے روزنامہ انتخاب میں ضلع قلات کے حوالے سے ان کی سیاسی ڈائری پڑھتا تھا اور میرے دل میں ان کے لئے بے پناہ احترام پیدا ہوا کیوں کہ ان کا شمار بلوچستان کے بہترین ضلعی نامہ نگاران میں ہوتا تھا اور ان کی سیاسی ڈائریوں میں ایک رپورٹر کی محنت بخوبی جھلکتی تھی۔
محمود جان آفریدی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں اس سال ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد چار ہوگئی ہے۔ آفریدی کے جانے سے بلوچستان کے ضلعی سطح کی صحافت میں ایک پر نا ہونے والا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ بلوچ قوم پرست خوش ہوں یا نالیکن ہمارا دل اس دن بھی خون کے آنسو رویا تھا جب بی ایل اے نے ہمارے صحافی دوست ڈاکٹر چشتی مجاہد کو ہم سے جدا کیا۔ جس روز جامعہ بلوچستان میں ہمیں ابلاغ عامہ پڑھانے والی میڈم ناظمہ طالب کو سریاب روڑ پر ہلاک کیا گیا اس روز بھی ہمارے ڈر کا یہ عالم تھا کہ قوم پرست نا راض نہ ہوں  ہم نے باتھ روم میں گھس کر میڈم ناظمہ کے لئے چھپ چھپ کر دھاڑیں ماریں۔
 جس دن خضدار میں حاجی وصی قریشی کو یہ دھمکی ملی کہ وہ آزادی اخبار کی تقسیم چھوڑ دے یا ورنہ سرمچاروں کو بتایا جائے گا کہ حاجی وصی پاکستان فوج کا مخبر ہے اور اسے جان سے ماردیا جائے تو حاجی نے ہنس کر کہا ان نادانوں کو پتہ نہیں کہ خود میں نے خضدار میں اتنا عرصہ گزارا  ہے جتنی مجھے دھمکی دینے والے نوجوانوں کی پوری عمر بھی نہیں ہے لیکن اس بچارے کی کون سنتا ،سرمچاروں نے حاجی وصی کے ایجنٹ ہونے کی افواہ پر یقین کرلیا اور یوں چند دنوں بعد ان کا سینہ بھی گولیوں سےچھلنی کردیا گیا اور وہ بھی اپنے  خالق حقیقی سے جاملے۔ حاجی وصی مخبر تھا کیوں کہ اس نے مجھ سے اصرار کیا کہ میں وڈھ سے پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اور تشدد کا نشانہ بنے والے نوجوان صحافی جاوید لہڑی کا انٹرویو کروں ۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے رپورٹرز ویدآوٹ بارڈر کے ساتھ جاوید کا انٹرویوکرایا تاکہ ایجنسیوں کے تشدد کے بعد انھیں صحافیوں کے حقو ق کے لئے کام کرنے والے کسی غیر ملکی  ادارے کی طرف سے مالی مدد ملے تاکہ وہ جاکر اپنا علاج و معالجہ کرائیں۔شاید وہ وڈھ کے ایک صحافی کی مدد   نہ کرتے تو ہی بہتر ہوتا۔ 
 بچارے ڈاکٹر چشی مجاہد سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بالاچ مری کے حوالے سے گستاخانہ ہیڈلائن اخبار ِ جہان میں کس نے شائع کیا؟ کسی نے یہ سمجھنے کی کوشش تک نہیں کی کہ بچارے رپورٹر کا کام خبر ارسال کرنا ہوتا ہے اور اس پر ہیڈلائنز کا تعین کراچی میں بیٹھے سب ایڈیٹرز کرتے ہیں نا کہ رپورٹر لیکن ان کو ایک ہیڈ لائن ( جو انھوں نے لکھی تک نہ تھی) کے پاداش میں اپنی جان گنوانی پڑی۔ کسی نے یہ دیکھنا گوارا نہیں کیا کہ مرحوم ڈاکٹر نے نواب بگٹی کی ہلاکت کے چند دنوں کے اندر اندر نواب کی  شہادت کی بعد سب سے پہلی کتاب شائع کی جس کےایک ہی مہینے میں چار ایڈیشن فروخت ہوئے۔بلوچستان کا صحافی کس کے سامنے فریاد کرے؟ حکومت تو خود صحافیوں کی ہلاکت میں ملوث ہے اور انصاف کے طلب گار بلوچ قوم پرستوں کو بھی تمام صحافی مخبر نظر آتے ہیں۔ ایک ایک کرکے سب کو ماریں گے تاکہ رہے بانس اور نہ بجھے بانسری۔
 جس طرح گھروں میں بھائیوں کے درمیان  چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں تو اسی طرح  بلوچ اور پشتون اقوام کے مابین بھی دیگر سیاسی امور پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن بلوچ لبریشن فرنٹ کی جانب سے بی بی سی اردو کے صحافی ایوب ترین کو دھمکی دینا انتہائی غلط فعل تھا۔جن بلوچ صحافیوں نے پشتون صحافیوں کے ساتھ کوئٹہ میں کام کیا ہے انھیں کم از کم ان صحافیوں کی اچھائیوں کا اعتراف کرنا چائیے جنھوں نے ہر موقع پر بلوچوں کا ساتھ دیا۔ اس موقع پر صرف تین ایسے پشتون صحافیوں کا تذکرہ کرنا لازمی سمجھتا ہوں۔ 
کچھ عرصہ پہلے تک کوئٹہ پریس کلب میں (گنتی کے چند ایک صحافیوں کو چھوڑ کر) بلوچ صحافیوں کو ممبر شپ تک نہیں دی جاتی تھی کیوں کہ پریس کلب پر رشید بیگ کی قیادت میں پنجابی لابی کا قبضہ تھا۔ پریس کلب کے  صدر سے لے کر چوکیدار اور باروچی تک سب کے سب کشمیر اور پنجاب سے آئے ہوئے تھے۔ بلوچ صحافی جب کوئٹہ  پریس کلب میں داخل ہوتے تو ان سے پوچھا جاتا ’’جی بھئی، خیر تو ہے؟ کس سےملنا ہے؟ کسی کام کے سلسلے میں  آئے ہو کیا؟‘‘ ۔ 
بلوچ اور پشتون صحافیوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک اس وقت ختم ہوا جب پشتون صحافی ایوب ترین نے پہلی مرتبہ کہا کہ مقامی صحافیوں کے ساتھ ناانصافی کی انتہا ہوگئ ہے اور پریس کلب پر ایک مخصوص ٹولے کی اجارہ داری قبول نہیں ہوگی اور پریس کلب میں بلوچ اور پشتون صحافیوں کو ممبر شپ دینی چائیے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس ایوب ترین نے مقامی بلوچ اور پشتون صحافیوں کے لئے ایک تاریخی تحریک چلائی آج وہ اپنی ہی سرزمین سے بھاگنے پر مجبور ہوگیا ہے کیوں کہ بلوچ ان پر بلوچ دشمنی کا تہمت لگاتے ہیں۔ آخر بلو چ کب تک اپنے دوست اور دشمن کو پہچاننے سے انکارکرتے رہیں گےاور اتنے اہم دوستوں کو ناراض کریں گے؟ 
اگرچہ ایوب ترین نے پریس کلب میں بلوچ اور پشتوں صحافیوں کے لئے جد و جہد کا آغاز کیا لیکن جس صحافی نے حقیقی معنوں میں دور دراز سے آئے ہوئے مقامی صحافیوں کو پہلی مرتبہ ممبر شپ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا اور جنھوں نے یہ کہا کہ یہ پریس کلب آپ کی اپنی ہے کوئی اور نہیں بلکہ ایک اور پشتون صحافی حاجی عبدالرحمن اچکزئی  ( سابق سیکریٹری جنرل کوئٹہ پریس کلب) تھے۔ ۔ اللہ جنت نصیب کرے ہمارے مرحوم دوست سیف الرحمن کو ( جو سما ٹی وی کے لئے رپورٹنگ کرتے ہوئے دو ماہ قبل کوئٹہ کے بم دھماکے  میں شہید ہوئے ) جنھوں نے حاجی عبدالرحمن کے ساتھ دن رات رابطے کرکے پہلی  مرتبہ نوجوان بلوچ صحافیوں کے لئے ممبر شپ کے دروازےکھولے حالاں کہ مجھے بخوبی یاد ہے کس طرح چند نام نہاد سئینر صحافیوں کو عبدالرحمن اچکزائی کی یہ پالیسی ناخوش گوار گزرتی تھی لیکن وہ ان کے سامنے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ 
 جب یہی سیف لالہ شہید ہوئے تو ایوب ترین نے اسلام آباد سے بی بی سی کے لئے ان کے نام کالم لکھا۔ حاجی عبدالرحمن اچکزائی اگر ذاتی دلچسپی نہ لیتے تو شاید ہی کسی نئے بلوچ صحافی کو کوئٹہ پریس کلب کی ممبر شپ ملتی۔ اسی طرح سے ایک اور پشتون صحافی جنھوں نے دن رات بلوچ صحافیوں کے مسائل اور انھیں درپیش خطرات کے خلاف آواز بلند کی ہے وہ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر اور ہمارے مہربان دوست عیسیٰ ترین ہیں۔ عیسیٰ ا س بات پر قابل تحسین ہیں کہ انھوں نے ہر مظلوم صحافی کے حق میں مظاہرے کروائے چائے انھیں جس کسی نے بھی ہلاک کیا ہو۔ 
تمام خطرات کے باوجود عیسیٰ ترین اور بی یو جے نے  بلوچستان کے صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی قدر کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔  یہ لوگ ہمارے سماج کے وہ اثاثے ہیں جو نفرتوں کے بیچ میں مثبت سوچ اور بھائی چارے کو فروغ  دے رہے ہیں۔ آج کے نفسانفسی کے دور میں یہ فریضہ سرانجام دینا بہت ہی کٹھن کام ہے۔ زندہ جاوید معاشروںکی  ایک علامت یہ  بھی ہےکہ وہ اپنے محسنوں کی قدر کرے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ میری حتیٰ الوسع کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کالمز میں تمام قومتیوں، فرقوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی احترام کو فروغ دوں۔ نفرتیں پھیلانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ نفرت جنگل کے اس آگ کی مانند ہے جو اپنا راستہ خود تلاش کرتی ہےلیکن محبت اور بھائی چارہ کا کوئی آسان درس نہیں ہوتا بلکہ محبت تو اس بیچ کی طرح ہوتی ہےجسے بونا پڑتا ہے اور پھر اس کی مسلسل نگہداشت کرنی پڑتی ہےکیوں کہ تھوڑی سے لاپروائی سے محبت کا پودا مرسکتا ہے۔ 
 بلوچستان کے سماج کو مردہ پرستی سے نکلنا ہوگا اور ان جیتے ہیروز کی قدر کرنی چائیے جو ہر روز اپنی جانوں اور ذاتی مفادات کو ایک کونے میں رکھ کر دوسروں کے لئے زندگی آسان تر بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جونئیر ساتھیوں کے لئے بہتر مواقع پید ا ہوں۔ افسو س کہ آج بلوچستان میں قلم بندوق کے مقابلے میں بہت  ہی ناتواں ہوگیا ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ قلم زندہ اور مردہ، دوست اور دشمن ، سب کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قبر یں کود کود کر کہتا ہے کہ کوئی کچھ بھی کہے میڈم ناظمہ طالب اور محمود آفریدی جب تک زندہ تھے وہ ہمیں سیکھانے والے رہے اور جب  ہم میں نہ رہے تو بلوچستان کے شہیدوں میں شامل ہوگئے ۔ سیاست تو چلتی رہتی ہے، نفرتیں بڑھتی رہتی ہیں ،محبت اپنا راستہ تلاش کرتی رہے گی اور ظلم بڑھتا جائے گالیکن ہر سماج میں چندسقراط کو زندہ رہنا چائیے جنھیں زہر کا پیالہ پینا پڑے تاکہ سچ پر آنچ  نہ آئے۔ 

Sunday, March 3, 2013

لندن کانفرنس: روہراباکر سے پیٹر تیچل تک

تحریر: ملک سراج اکبر


تئیس فروری کو یو این پی او نامی تنظیم نے لندن میں بلوچستان کے مستقبل کے موضوع پر ایک اہم کانفرنس کا انعقاد کیا۔ یو این پی او کے نام سے تو یوں لگتا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کی کوئی ذیلی تنظیم ہے لیکن درحقیقت یہ محض ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کا مقصد دنیا کے ان لوگوں اور اقوام کی آواز بلند کرنا ہے جن کی دنیا میں بہت کم شنوائی ہوتی ہے۔ بلوچستان کی نمائندگی اس تنظیم میں نورالدین مینگل کررہے ہیں اور اس کانفرنس کے انعقاد میں بھی ان کی دن رات کی محنت شامل ہے۔ نورالدین مینگل اس حوالے سے قابل تحسین ہیں کہ انھوں نے  اس کانفرنس کے توسط سے بلوچستان کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش کی بلکہ وہ اس بات پر زیادہ  داد کے مستحق ہیں کہ ایک نوجوان بلوچ کارکن کی حیثیت سے وہ  مختلف بلوچ سیاسی رہنماوں، دانشوروں اور اپنے دل میں بلوچستان کا درد رکھنے والے  غیر ملکیوں کو اکھٹا کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں۔

بلوچستان میں اس وقت کیا ہور ہا ہے اور بلوچ کیا چاہتے ہیں اس پر زیادہ بحث ومباحثے کی ضرورت نہیں ہےکیوں کہ میرے قارئین کی اکثریت ان تمام باتوں سے پہلے ہی سے واقف ہے ۔ میں کوشش کروںگا کہ اس بات پربحث کروں کہ ہم نے لندن کانفرنس سے کیا سیکھا اور اس کے شروع میں’’ بلوچستان کا مستقبل‘‘ کے نام سے جس موضوع کا انتخاب کیا گیا تھا اسی کے حوالے سے غور کیا جائے کہ اس کانفرنس کے بعد ہمیں بلوچستان کا مستقبل کیسا نظر آتا ہے۔
لند ن کانفرنس سے کم از کم تین باتیں عیاں ہوئیں۔
اول، امریکی رکن کانگریس ڈینا روہراباکر ابھی تک بلوچستان کے حق ِ خود ارادیت کے حامی ہیں اور انھوں نے پچھلے سال فروری میں بلوچستان کے موضوع پر کانگریس میں جس اجلاس کی سماعت کی تھی وہ محض ایک اتفاق نہیں تھا بلکہ وہ بلوچستان کے معاملےمیں میں ابھی تک دلچسپی لے رہے ہیں کیوں کہ کانگریس کی سماعت کے بعد انھوں نے بلوچستان کی آزادی کے حق میں ایک قرارداد بھی پیش کی اور نیشنل پریس کلب میں ستائیس مارچ کو ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ لند ن کانفرنس میں انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ پتہ چلے کہ کتنے فیصد بلوچ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور کتنے آزادی کے حق میں ہیں۔
دوئم، لند ن کانفرنس سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی پسند بلوچ قوم پرست آنے والے عام انتخابات سے بالکل لاتعلق ہیں اوران میں  کوئی دلچسپی نہیں لے رہے بلکہ ان کی مسلسل کوشش یہ ہے کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے لئے عالمی سطح پر کانفرنس اور سیمینار کے ذریعے  حمایت حاصل کریں۔
سوئم، لند ن میں مقیم پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے لاہور سے نکلنے والے ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کو بتایا کہ بلوچوں کے مطالبات ’’ بکواس اور ناقابل قبول ‘‘  ہیں جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ  پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں کو عالمی سطح پر بلوچوں کی پر امن جدوجہد بھی ناقابل قبول ہے ۔ ( اس سے پہلے میں امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر شیری رحمن کی بلوچستان پر ہونے والی ایک کانفرنس کی مخالفت  کے حوالے سے لکھ چکا ہوں)۔
تاہم لندن کانفرنس کے بعد مجھے یوں لگتا ہے کہ بلوچوں کے لئے دو مقررین نے مستقبل کے راستے کا تعین کیا ہے اور ان میں سے  انھیں ایک راستے کا انتخاب کرنا پڑےگا۔ 
میں مستقبل کے اس روڈ میپ کو دو مکاتبِ فکر میں تقسیم کرتا ہوں۔ پہلے مکتبہ فکر کی سربراہی  ڈینا روہرا باکر جیسے اراکین کانگریس کررہے ہیں جنھیں خود امریکی کانگریس میں زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا کیوں کہ روہراباکر ایک جذباتی اور موسمی سیاست دان ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ پاکستان کے بڑی حامی تھے لیکن جب ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تب سے وہ پاکستان کے دشمن بن کر ابھرے ہیں۔ وہ ہر اس شخض اور قوم کو اپنا دوست سمجھتے ہیں جو پاکستان کو اپنا دشمن سمجھے۔بلوچوں سے ان کی محبت تحقیق پر مبنی نہیں ہےبلکہ وہ تو بلوچستان کے مسئلے پر ہونے والے اجلاس میں بلوچ کو ’’بالوک‘‘ کہہ رہے تھے لیکن ان کی وجہ سے بلوچوں میں غیر حقیقت پسندانہ توقعات نے جنم لیا  ہے اور کچھ  لوگ سمجھنے لگے کہ اب تو امریکہ ( کی حکومت) بلوچوں کی حمایت کررہی ہے اور کچھ عرصے کے بعد بلوچستان آزاد ہوگا۔ کانگریس میں ڈینا روہرا باکر جیسے چار سو چونتیس دیگر اراکین ِ ہیں ۔ لہذہ ایک رکن کانگریس کی رائے کو اتنی اہمیت دینی چائیے جتنا اس کا حق ہے اور جتنا اس کےبساط میں ہے۔ پچھلے مہینے ہم نے ایک رکن کانگریس کے اسٹاف ممبر سے  پوچھا کہ ان کے کانگریس مین بلوچستان کی تحریک کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو انھوں نے ہنس کر کہا کہ ہم بلوچستان کی ضرور حمایت کریں گے بشرطیکہ بلوچوں کی وکالت کوئی سنجیدہ کانگریس مین کرے نا کہ روہرا باکر جن کے ساتھ  بہت کم سنجیدہ اراکین کانگریس کام کرنے کو تیار ہوں گے۔  
 انھوں نے بلوچستان میں ریفرنڈم کا جو مشورہ دیا ہے وہ بلوچستان کے موجودہ حالات  میں بلوچ قوم پرستوں کے لئے خود کشی کے برابر ہے۔ پاکستانی حکومت نے مختلف طرائق سے  آزادی پسند بلوچوں کے لیے دروازے اس  قدر بند کئے ہوئے ہیں کہ ان کے لئے صوبائی اسمبلی میں دس نشستیں جیتنا بھی ناممکن ہے۔  
دوسری طرف برطانیہ کی گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کے دیرینہ ہمدرد پیٹر تیچل نے نسبتاً حوصلہ شکن لیکن اہم باتیں کیں جن پر بلوچ قوم پرستوں کو ڈینا روہراباکر کی باتوں سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ جو فیصلے بلوچ قوم کے لئے ان کےاپنے رہنما کرسکتے ہیں وہ ڈینا روہرا باکر اور پیٹر تیچل نہیں کرسکتے۔ پیٹر تیچل نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کو اس وقت تین سنگین خامیوں کا سامنا ہے جن پر بروقت قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔
اول، انھوں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک میں اتحاد و یکجہتی کی بہت کمی ہے جس کا باقاعدہ فائدہ ان کے دشمنوں کو ہورہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اختلاف رائے اچھی بات ہے لیکن اس وقت تمام قوتوں کو ان کم سے کم نکات پر یکجاہ ہونا چائیے  جن پر وہ متفق ہیں۔ انھوں نے کہا جب تک بلوچ غیر متحدرئیں گے تب تک ان کی آزادی کی منظر دور سے دور تر چلی جائے گی۔ انھوں نے اس سلسلے میں ستر کی دہائی میں انگولا کی آزادی کی تحریک کا جنوبی افریقہ میں نسل پرستی  کے خلاف تحریک کے ساتھ موازنہ کیا اور کہا کہ انگولا میں آزادی  کا سفر اس لئے طویل ہوگیا تھا کیوں کہ وہاں تین گروہ بیک وقت علیحدہ  علیحدہ  جنگ لڑرہے تھے اور آزاد ہونے کےبعد تینوں گروہوں کے مابین اس بات پر ایک نئی خانہ جنگی شروع ہوئی کہ ملک پر قبضہ کس کا ہوگا۔ جب کہ ا سکے مقابلے میں جنوبی افریقہ کے لئے نسل پرستی کا خاتمہ آسان تر ہوا کیوں کہ سب نے افریقن نیشنل کانگریس  کے پلیٹ فارم پر جد وجہد کی۔
دوسری بات جس پر پیٹر تیچل نے توجہ مبذول کی وہ بلوچ قومی تحریک میں فیصلہ سازی کے اعلیٰ سطح پر خواتین کی عدم شمولیت ہے۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ چند خواتین بھر پور طریقے سے تحریک میں حصہ لے رہی ہیں لیکن بقول ان کے یہ ناکافی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے لندن کانفرنس کے حاضرین اور مقررین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ  یہاں خواتین کدھر ہیں؟  انھوں نے کہا کہ لندن اور جنیوا میں بھی بلوچوں کے جو مظاہرے ہوتے ہیں ان میں پچانوے فیصد مرد ہوتے ہیں۔ جب تک قومی تحریکوں میں خواتین برابر کی شریک نہیں ہوتی ہیں وہ تحریکیں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گی۔ 
تیسری اور اہم بات جس پر پیٹر تیچل نے اظہار افسوس کیاوہ بلوچوں کی طرف  سےآزادی کے لئے روڑ میپ کی عدم موجودگی  ہے۔ انھوں نے کہا جب تک بلوچ ایک ایسا متفقہ دستاویز تیار نہیں کرتے جس میں وہ پاکستان اور ایران اور باقی دنیا کو یہ بتا سکیں کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں اور جو کچھ چاہتے ہیں اسے کیسے حاصل کریں گے تب تک دنیا میں کوئی انھیں سنجیدگی سے نہیں لےگا اور نہ ہی ان پرمظالم ڈھانے والے ممالک پر کوئی دباو ڈالا جاسکے گا۔
بلوچوں کے لئے مستقبل کےیہی دو راستے ہیں۔ اگر وہ ڈینا روہرا باکر جیسے جذباتی سیاست دانوں کو اپنا ہیرو مانیں گے اور یہ سمجھتے رہیں گے کہ  آج نہیں تو کل وہ آزاد ہوں گے تو شاید وہ خود فریبی کا شکار رہیں گےلیکن اگر وہ پیٹر تیچل جیسےحقیقت پسند سیاستدانوں کی باتوں پر غور کریں گے تو انھیں پتہ چلے گا کہ آزادی آج یا کل ملنے والی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے لئے لازمی ہے کہ سب سے پہلے اپنے اندرونی خامیوں پر قابو پالینا چائیے اورذہنی طور پر تیار ہونا چائیے کہ آزادی ایک یا دودن میں نہیں ملتی اس کے لئے دہائیاں، صدیاں اور ہزاریے لگتے ہیں اور بلوچ قومی تحریک اس دن صیح معنوں میں شروع ہوگی جب تمام رہنما اور جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے۔