شاید ہم نے یہ کالم لکھنے میں کافی دیر کردی۔ اب کون انتخابات کا بائیکاٹ کرےگا ؟ فیصلے تو ہوگئے ہیں۔ دو بلوچ قوم پرست جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور نیشنل پارٹی (این پی) نے تو عام انتخابات میں حصہ لینے کا باضابطہ فیصلہ کرلیا ہے اور ان کے نمائندوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرنا بھی شروع کردیا ہے ۔ شایدبائیکاٹ کی بات اب محض تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔سردار اختر مینگل کی وطن واپسی اور انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے پر لوگوں کو حیرت نہیں البتہ مایوسی ضرور ہوئی ہے۔ ایک بار پھر بی این پی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کے قول اور فعل میں کھلا تضاد ہے۔ اگر آپ سردار اختر مینگل کے انٹرویوز کا جائزہ لیں تو وہ حکومت پاکستان کے رویے سے خوش ہیں اور نہ ہی امن و امان کے حوالے سے موجود ہ حالات سے مطمئین ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے انتخابات میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
خود اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل جو کہ آزاد بلوچستان کے حامی ہیں نے بی بی سی اردو سروس کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ ان کے بھائی ( اختر مینگل) نے کراچی میں ہونے والے بی این پی کے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں انتخابی بائیکاٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔تاہم سردار مینگل کے فیصلے پر خود حکومت کو بڑی خوشی ہوئی۔ کیوں کہ آخر کارکوئی نا کوئی بلوچ قوم پرست سرکار کو ہاتھ لگا ہے جو ان کے انتخابی عمل کا حصہ بنے کو تیار ہوگیا ہے۔ بصورت دیگر جو اہم بلوچ رہنما ہیں وہ تو کسی بھی سرکاری پیشکش، پیکج پر راضی نہیں ہورہے۔ اور بلوچ قوم پرستوں کی شمولیت کے بغیر انتخابات کی کوئی حثیت نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چائیے کہ گورنر ، نگران وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کو بالکل غیر جانب دار رہناچائیے اور انتخابی موسم میں تو ان سے اور زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجودہ تینوں حضرات نےاپنے اپنے اخباری بیانات میں بلوچ قوم پرستوں کے اس فیصلے کو سراہا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔
اختر مینگل نے اپنی جماعت کے فیصلے پر لبیک کہہ کر خود کو تنقید کا ہدف ضرور بنایا ہے لیکن ان پر نزلہ گرنا اب ایک قدرتی بات ہے کیوں کہ وہ ہی بی این پی کے سربراہ ہیں لیکن بی این پی کے فیصلوں پر اب ایسے لوگ اثر انداز ہونے لگے ہیں جو سردار مینگل کی ملک میں غیر موجودگی میں حکومتی حلقوں سے قریب رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی اپنی کوئی سیاسی ساکھ نہیں ہے لیکن مینگل اور بی این پی کے صدقے سے ان کی مقامی سیاست چمکتی ہے، ٹی وی پر انٹرویوز آتے ہیں اور سرکاری ٹھیکےبھی مل جاتے ہیں۔اختر مینگل کو ملک میں واپس آنے پر مجبور کرنے والے پارٹی کے یہ لوگ ان کی جان کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں اور ان کی سیاسی ساکھ جو کہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے کے بعد مجروح ہوئی تھی کو اور بگاڑنے کے پیچھے پڑے ہیں۔
کل کو اگر اختر مینگل کو کچھ ہوجاتا ہے تو ان عناصر سے کچھ بھی نہیں جاتا کیوں کہ ان کے مفادات ذاتی ہیں نا کہ قومی۔ ایسے لوگ اگلے روز ہی کسی اور سیاسی پارٹی میں جاکر شمولیت کرلیں گے۔ ان لوگوں کو سیاسی ابن الوقت کہا جاتا ہے اور ایسے مفاد پرست عناصر آ پ کو ہر جماعت میں ملتے ہیں لیکن قوم پرست جماعتوں میں ایسے عناصر کی موجودگی زدیادہ خطرناک ہے کیوں کہ جب وہ اپنی جماعت یا اس کے رہنما کو تنہائی میں چھوڑدیتے ہیں تو اس کا نقصان مسلم لیگ ق یا پی پی پی کے کسی ایم پی اے یا ایم این اے کے چھوڑنے سے زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ قوم پرست جماعتوں کی سیاست نظریاتی ہوتی ہے اور ان کو جس طرح کی سرکاری مخالفت و خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے دوسری جماعتوں کو واسطہ نہیں پڑتا۔
اس طرح کی سیاسی بے وفائی کی ایک بڑی مثال نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی ہے جس میں نواب بگٹی کے سائے تلے آکر آغا شاہد بگٹی ( جمہوری وطن پارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری ) اور امان اللہ کنرانی ( سابق سیکرٹری اطلاعات اوربلوچستان کے موجودہ ایڈوکیٹ جنرل) جیسے غیر سیاسی لوگ بھی راتوں رات مشہور ہوگئیے اور ہر ٹی وی چینل پر نظر آنے لگے لیکن نواب بگٹی کی شہادت کے بعد ان لوگوں کا قوم پرستی اور بلوچ حقوق کے ساتھ کوئی رشتہ باقی نہیں رہا۔
اسی طرح بی این پی میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو بار بار سردار مینگل کو مشتعل کرتے رہے لیکن سردار صاحب یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خود ان کا ، ان کی جماعت اور ان کے فیملی کا بلوچستان کی سیاست میں کتنا اہم کردار ہے۔ ان کو بدستور دونوں طرف سے للکارا گیا۔ ایک طرف پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے بار بار یہ عندیہ دیا کہ مینگل اور ان کی جماعت ملک دشمن ،غیر جمہوری، غیر لچکدار اور غیر مقبول ہیں تو دوسری طرف بی ایس او آزاد، بلوچ ری پبلکن پارٹی، بلوچ نیشنل فرنٹ اور بلوچ نیشنل موومنٹ جیسی جماعتوں نے مینگل کی قوم پرستی اور وطن دوستی پر سوال اٹھانا شروع کیا۔ حالاں کہ یہ تمام جماعتیں ایسی ہیں جن کا بلوچستان میں کوئی ووٹ بینک نہیں ہے بلکہ وہ مسلح تنظیموں کا نام استعمال کرکے اپنی سیاست چمکارہی ہیںاور یوں مشتعل مینگل صاحب دونوں فریقین کو غلط ثابت کرنے کے دوڑ میں وطن واپس چلے گئے اور بلا مشروط طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔
خود اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل جو کہ آزاد بلوچستان کے حامی ہیں نے بی بی سی اردو سروس کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ ان کے بھائی ( اختر مینگل) نے کراچی میں ہونے والے بی این پی کے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں انتخابی بائیکاٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔تاہم سردار مینگل کے فیصلے پر خود حکومت کو بڑی خوشی ہوئی۔ کیوں کہ آخر کارکوئی نا کوئی بلوچ قوم پرست سرکار کو ہاتھ لگا ہے جو ان کے انتخابی عمل کا حصہ بنے کو تیار ہوگیا ہے۔ بصورت دیگر جو اہم بلوچ رہنما ہیں وہ تو کسی بھی سرکاری پیشکش، پیکج پر راضی نہیں ہورہے۔ اور بلوچ قوم پرستوں کی شمولیت کے بغیر انتخابات کی کوئی حثیت نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چائیے کہ گورنر ، نگران وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کو بالکل غیر جانب دار رہناچائیے اور انتخابی موسم میں تو ان سے اور زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجودہ تینوں حضرات نےاپنے اپنے اخباری بیانات میں بلوچ قوم پرستوں کے اس فیصلے کو سراہا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔
اختر مینگل نے اپنی جماعت کے فیصلے پر لبیک کہہ کر خود کو تنقید کا ہدف ضرور بنایا ہے لیکن ان پر نزلہ گرنا اب ایک قدرتی بات ہے کیوں کہ وہ ہی بی این پی کے سربراہ ہیں لیکن بی این پی کے فیصلوں پر اب ایسے لوگ اثر انداز ہونے لگے ہیں جو سردار مینگل کی ملک میں غیر موجودگی میں حکومتی حلقوں سے قریب رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی اپنی کوئی سیاسی ساکھ نہیں ہے لیکن مینگل اور بی این پی کے صدقے سے ان کی مقامی سیاست چمکتی ہے، ٹی وی پر انٹرویوز آتے ہیں اور سرکاری ٹھیکےبھی مل جاتے ہیں۔اختر مینگل کو ملک میں واپس آنے پر مجبور کرنے والے پارٹی کے یہ لوگ ان کی جان کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں اور ان کی سیاسی ساکھ جو کہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے کے بعد مجروح ہوئی تھی کو اور بگاڑنے کے پیچھے پڑے ہیں۔
کل کو اگر اختر مینگل کو کچھ ہوجاتا ہے تو ان عناصر سے کچھ بھی نہیں جاتا کیوں کہ ان کے مفادات ذاتی ہیں نا کہ قومی۔ ایسے لوگ اگلے روز ہی کسی اور سیاسی پارٹی میں جاکر شمولیت کرلیں گے۔ ان لوگوں کو سیاسی ابن الوقت کہا جاتا ہے اور ایسے مفاد پرست عناصر آ پ کو ہر جماعت میں ملتے ہیں لیکن قوم پرست جماعتوں میں ایسے عناصر کی موجودگی زدیادہ خطرناک ہے کیوں کہ جب وہ اپنی جماعت یا اس کے رہنما کو تنہائی میں چھوڑدیتے ہیں تو اس کا نقصان مسلم لیگ ق یا پی پی پی کے کسی ایم پی اے یا ایم این اے کے چھوڑنے سے زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ قوم پرست جماعتوں کی سیاست نظریاتی ہوتی ہے اور ان کو جس طرح کی سرکاری مخالفت و خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے دوسری جماعتوں کو واسطہ نہیں پڑتا۔
اس طرح کی سیاسی بے وفائی کی ایک بڑی مثال نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی ہے جس میں نواب بگٹی کے سائے تلے آکر آغا شاہد بگٹی ( جمہوری وطن پارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری ) اور امان اللہ کنرانی ( سابق سیکرٹری اطلاعات اوربلوچستان کے موجودہ ایڈوکیٹ جنرل) جیسے غیر سیاسی لوگ بھی راتوں رات مشہور ہوگئیے اور ہر ٹی وی چینل پر نظر آنے لگے لیکن نواب بگٹی کی شہادت کے بعد ان لوگوں کا قوم پرستی اور بلوچ حقوق کے ساتھ کوئی رشتہ باقی نہیں رہا۔
اسی طرح بی این پی میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو بار بار سردار مینگل کو مشتعل کرتے رہے لیکن سردار صاحب یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خود ان کا ، ان کی جماعت اور ان کے فیملی کا بلوچستان کی سیاست میں کتنا اہم کردار ہے۔ ان کو بدستور دونوں طرف سے للکارا گیا۔ ایک طرف پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے بار بار یہ عندیہ دیا کہ مینگل اور ان کی جماعت ملک دشمن ،غیر جمہوری، غیر لچکدار اور غیر مقبول ہیں تو دوسری طرف بی ایس او آزاد، بلوچ ری پبلکن پارٹی، بلوچ نیشنل فرنٹ اور بلوچ نیشنل موومنٹ جیسی جماعتوں نے مینگل کی قوم پرستی اور وطن دوستی پر سوال اٹھانا شروع کیا۔ حالاں کہ یہ تمام جماعتیں ایسی ہیں جن کا بلوچستان میں کوئی ووٹ بینک نہیں ہے بلکہ وہ مسلح تنظیموں کا نام استعمال کرکے اپنی سیاست چمکارہی ہیںاور یوں مشتعل مینگل صاحب دونوں فریقین کو غلط ثابت کرنے کے دوڑ میں وطن واپس چلے گئے اور بلا مشروط طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔
جو لوگ الیکشن کے حق میں ہیں وہ بار بار یہ کہتے ہیں کہ الیکشن جمہوری عمل کا ایک اہم حصہ ہیں اور ان کا بائیکاٹ ایک غیر جمہوری عمل ہے۔ لیکن یہ درست نہیں ہے کیوں کہ بائیکاٹ اورواک آوٹ جیسے عمل خود جمہوریت کا حصہ ہیں اور ہم عموماً دیکھتے ہیں کہ خود اقوام متحدہ کے نظام میں بھی یہ سہولیت موجود ہے کہ اگر کوئی ملک ایک متنازعہ مسئلے پر ووٹ نہیں دینا چاہتا تو وہ رائے دہی سے اجتناب کرتا ہے۔ اسی طرح انتخابات میں حصہ لینے یا نا لینے سے کوئی جمہوری یا غیر جمہوری نہیں بنتا کیوں کہ بلوچستان کا مسئلہ محض حکومت کی تشکیل یا فنڈز کی فراہمی نہیں ہے۔
نواب بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان کی سیاست یکسر بدل گئی ہے اور یہاں انتخابات کا مفہوم باقی ملک میں ہونے والے انتخابات سے بالکل مختلف ہے۔ بلوچستان میں انتخابات ایک پیمانہ بن گئے ہیں جس سے صوبے کے لوگوں کی ناراضگی کا ناپا جائےاورہر پانچ سال کے بعد یہ موقع آجاتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ اسلام آباد کو یہ بتائیں کہ وہ کس حد تک ان کی پالیسوں سے خوش ہیں اور کس حد تک ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ لہذہ اگر بلوچ قوم پرست انتخابات میں غیر مشروط طور پر حصہ لیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ انھیں وفاق سے کوئی شکایت نہیں اور انھیں صوبے میں سب کچھ ٹھیک ٹھا ک نظر آتا ہے۔
بلوچ جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں لیکن یہ صیح وقت نہیں ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں کیوں کہ انتخابات میں جانے سے پہلے لازمی ہے کہ بلوچوں پر پی پی پی کے دور حکومت میں ہونے والے مظالم کا حساب لیا جائے اورسابقہ جمہوری حکومت نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن اور گوادر پورٹ کے حوالے سے جو اہم فیصلے کئے ہیں ان پر بلوچ خدشات کی شنوائی کی جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو انتخابات کا مطلب یہ ہے کہ بلوچ اپنے اوپر ہونے والے ہرظلم اور اپنے وسائل کے استحصال کو فراموش اور درگزر کرے گا اور انتخابات کا یہ مطلب لیا جائے کہ جو نئی حکومت قائم ہوگی اسے بھی ہر قسم کی آزادی ہوگی کہ وہ بلوچستان میں جو چاہے کرے۔
سردار اختر مینگل جب پچھلے سال ستمبر میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے تو ہم نے ان کے فیصلے پر کڑی نقطہ چینی کی تھی جس پر وہ خود اور بی این پی کے دیگر ساتھی ناراض ہوگئے تھے لیکن ہم نے اس سلسلے میں جو پیشن گوئی کی تھی وہ بالکل سچ ثابت ہوئی کہ سردار صاحب کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگااور اس ناکامی کا اعتراف خود سردار صاحب کے اس خط میں کیا گیا ہے جو انھوں نے پاکستان واپس جانے سے پہلے سپریم کورٹ کو لکھا تھا جس میں انھوں نے یہ شکایت کی تھی کہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں ابھی بھی تواتر کے ساتھ مل رہی ہیں۔
نواب بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان کی سیاست یکسر بدل گئی ہے اور یہاں انتخابات کا مفہوم باقی ملک میں ہونے والے انتخابات سے بالکل مختلف ہے۔ بلوچستان میں انتخابات ایک پیمانہ بن گئے ہیں جس سے صوبے کے لوگوں کی ناراضگی کا ناپا جائےاورہر پانچ سال کے بعد یہ موقع آجاتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ اسلام آباد کو یہ بتائیں کہ وہ کس حد تک ان کی پالیسوں سے خوش ہیں اور کس حد تک ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ لہذہ اگر بلوچ قوم پرست انتخابات میں غیر مشروط طور پر حصہ لیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ انھیں وفاق سے کوئی شکایت نہیں اور انھیں صوبے میں سب کچھ ٹھیک ٹھا ک نظر آتا ہے۔
بلوچ جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں لیکن یہ صیح وقت نہیں ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں کیوں کہ انتخابات میں جانے سے پہلے لازمی ہے کہ بلوچوں پر پی پی پی کے دور حکومت میں ہونے والے مظالم کا حساب لیا جائے اورسابقہ جمہوری حکومت نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن اور گوادر پورٹ کے حوالے سے جو اہم فیصلے کئے ہیں ان پر بلوچ خدشات کی شنوائی کی جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو انتخابات کا مطلب یہ ہے کہ بلوچ اپنے اوپر ہونے والے ہرظلم اور اپنے وسائل کے استحصال کو فراموش اور درگزر کرے گا اور انتخابات کا یہ مطلب لیا جائے کہ جو نئی حکومت قائم ہوگی اسے بھی ہر قسم کی آزادی ہوگی کہ وہ بلوچستان میں جو چاہے کرے۔
سردار اختر مینگل جب پچھلے سال ستمبر میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے تو ہم نے ان کے فیصلے پر کڑی نقطہ چینی کی تھی جس پر وہ خود اور بی این پی کے دیگر ساتھی ناراض ہوگئے تھے لیکن ہم نے اس سلسلے میں جو پیشن گوئی کی تھی وہ بالکل سچ ثابت ہوئی کہ سردار صاحب کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگااور اس ناکامی کا اعتراف خود سردار صاحب کے اس خط میں کیا گیا ہے جو انھوں نے پاکستان واپس جانے سے پہلے سپریم کورٹ کو لکھا تھا جس میں انھوں نے یہ شکایت کی تھی کہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں ابھی بھی تواتر کے ساتھ مل رہی ہیں۔
چوں کہ بی این پی خود کو بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت سمجھتی ہے تو لازمی ہے کہ وہ بلوچستان کو درپیش اہم سیاسی مسائل کو اٹھائے۔ بلوچستان کا مسئلہ صرف انسانی حقو ق کا نہیں ہے اور نا ہی بی این پی انسانی حقوق کی کوئی تنظیم ہے۔ بلوچ قوم پرستوں کو لاپتہ افراد اور مسخ شدہ افراد پر سیاست کرنے کے بجائے دیگر اہم امور پر سیاست کرنی چائیےاور جو کام وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کا ہے وہ انھیں کرنا چائیے۔ بلوچ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری یہ ہونی چائیے کہ وہ قوم کو سیاسی شعوردیں ۔ اس وقت بلوچستان کے حوالے سے دنیا بھر میں جوسیمینار اور مظاہرے ہورہے ہیں وہ صرف اور صرف انسانی حقو ق کے موضوع پر ہورہے ہیں اور ان میں بہت کم ایسے ہیں جو بلوچستان کے سیاسی مسئلے پر توجہ دیتے ہیں۔ بلوچستان ایک سیاسی مسئلہ ہے۔
سردار مینگل نےاپنی جان اور سیاسی مستقبل کو داو پر رکھ کر اگر پاکستان جانے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو یہ ان کے لیئے ایک سنہرا موقع ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کریں کہ بلوچستان میں عام انتخابات فی الحال ملتوی کئے جائیں تاکہ سابقہ دور حکومت میں جو لوگ بلوچوں کے قتل عام میں ملوث تھے پہلے نگران حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ اسی طرح انتخابات سے پہلے بلوچستان کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئےآئینی و قانونی ضمانتیں دی جائے اور گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے کے فیصلے کو التوا میں رکھا جائے۔ اس سلسلے میں سردار مینگل اگر ایسا کوئی مطالبہ کرتے ہیں تو مسلم لیگ نواز، تحریک انصاف سمیت الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری یقیناً ان کے مطالبے کو سنجیدگی سے لیں گے۔
سردار مینگل نےاپنی جان اور سیاسی مستقبل کو داو پر رکھ کر اگر پاکستان جانے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو یہ ان کے لیئے ایک سنہرا موقع ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کریں کہ بلوچستان میں عام انتخابات فی الحال ملتوی کئے جائیں تاکہ سابقہ دور حکومت میں جو لوگ بلوچوں کے قتل عام میں ملوث تھے پہلے نگران حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ اسی طرح انتخابات سے پہلے بلوچستان کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئےآئینی و قانونی ضمانتیں دی جائے اور گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے کے فیصلے کو التوا میں رکھا جائے۔ اس سلسلے میں سردار مینگل اگر ایسا کوئی مطالبہ کرتے ہیں تو مسلم لیگ نواز، تحریک انصاف سمیت الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری یقیناً ان کے مطالبے کو سنجیدگی سے لیں گے۔