Thursday, April 4, 2013

کبھی رئیسانی بھی مینگل تھا

تحریر: ملک سراج اکبر

 پاکستان فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے گذشتہ روز اپنے دورہِ کوئٹہ میں بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ گیا رہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیں ۔ انھوں نے چند سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے پر ’’ خوش آمدید‘‘ بھی کہا ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ  سے بالاتر ہے کہ فوج کے سربراہ کیوں کر سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے  کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن یہ بات سمجھ میں ضرورآتی ہے کہ ان کا اشارہ کن جماعتوں کی طرف ہے۔ ماضی قریب میں فوج کی ایسی کوئی روایت نہیں رہی ہے کہ تعلقات عامہ کے ادارہ آئی ایس پی آر کی جانب سے باقاعدہ ایک بیان میں سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی تلقین کی جائےاور یہ بھی کہا جائے کہ فوج انھیں خوش آمد کہے گی۔ ماضی میں انتخابات کے حوالے سے فوج کی ایک واضح پالیسی رہی  ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کو توڑ کر پاکستان مسلم لیگ ق بنائی جائے اور پاکستان پیپلز پارٹی میں فیصل صالح حیات اور راو سکندر اقبال کی قیادت میں فاروڈ بلاک بناکر فوج نواز حکومت قائم کی جائےاور جوفوجی کشتی میں سوار نہیں ہوں گے ان کے لئے ذولفقار علی بھٹو کے وہ الفاظ کافی ہیں جو انھوں نے بنگالیوں کے بارے میں کہے تھے کہ ’’ جہنم میں جاو‘‘۔ 
 پی پی پی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے پر ملک کے سیاسی حلقوں اور حتیٰ کہ میڈیا میں بھی لوگوں کو مبارکبادیاں دی جانے لگیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ ایک سویلین حکومت سے دوسری سویلین حکومت کو اقتدار منتقل ہورہی ہے۔لیکن بلوچستان کے تناظر میں اس پیش رفت کو دوسرے نقطہ نظر سے دیکھنے  کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں جو شورش ایک نیم سویلین دور حکومت میں شروع ہوئی وہ دوسری حکومت کے پانچ سالوں تک بدستور جاری رہی اور یوں پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں اپنے دور حکومت میں بلوچستان کے مسئلہ کو حل نہیں کرسکیں۔ ہم نے بار بار کہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے نا کہ عسکری یا انتظامی۔ لہٰذہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے سیاسی طرائق آزمائے جائیں لیکن اگر دس سال کی نام نہاد جمہوری دور میں بھی ایک سیاسی مسئلے کا پر امن حل نہ ڈھونڈا جاسکے تو یہ ایک پریشان کردینے والی بات ہے۔ 
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل کی وطن واپسی اور عام انتخابات میں حصہ لینے پر ان حلقوں میں بڑی خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے جو کہ وفاق پاکستان پر اب بھی یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان میڈیا اور سول سوسائٹی نے سردار مینگل کی واپسی پر بے حد خوشی کا اظہار کیا اور بلوچستان میں ہونے والے عام انتخابات سے اتنی زیادہ توقعات وابستہ کی جارہی ہیں جیسے پاکستان کے اصلی انتخابات کا مرکز بلوچستان ہی ہے۔ ہر طرف یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ مینگل کی واپسی کے بعد بلوچستان کے حالات کیسے ہوں گے۔ جو لوگ بلوچستان کے زمینی حقائق اور مقامی سیاست سے واقف ہیں وہ تو بہت کم ہی پرامید نظر آتے ہیں لیکن جو اسلام آباد اور لاہور میں بیٹھے ٹیلی فون پر بلوچستان کے حالات پتہ کررہے ہیں سمجھتے ہیں کہ اختر مینگل کے آنے کے بعد اب بلوچستان کے تمام مسائل حل ہوں گے اور صوبے میں جو شورش ہے وہ ختم ہوجائے گی۔ 
سردار مینگل کے آنے کے بعد بلوچستان میں اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے اسے دیکھ کر مجھے پانچ سال پہلے کے وہ دن یاد آتے ہیں جب نواب رئیسانی بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ پی پی پی نے مفاہمت کا نعرہ لگاہ کر انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی بھی حاصل کی لیکن بلوچستان میں تو حالات ہی کچھ اور تھے۔ ہر طرف امید کی کرنیں نظر آنے لگیں۔ نواب اسلم رئیسانی ان دنوں اگر عوام میں مقبول نہیں تھے تو متنازعہ بھی نہیں تھے۔انھوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے میڈیا میں اعلان کردیا کہ بلوچ مزحمت کاروں سے ان کے رابطے شروع ہوگئے ہیں اور بہت جلد ہی صوبے کے تمام معاملات مذاکرات سے حل کئے جائیں گے۔ جب اسلم بھوتانی اور اسلم رئیسانی بلا مقابلہ بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر اور قائد ایوان منتخب ہوئے تو لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ نواب رئیسانی کی سیاست میں جادو ہے۔ وہ جہاں بھی قدم رکھتے ہیں تو لوگ ان کی بات مان لیتے ہیں ۔ ان کے فیصلے کے خلاف کو آواز تلک بلند نہیں کرتا اور یوں پانچ سالوں تک بلوچستان اسمبلی میں نواب رئیسانی اسی طرح حکومت کرتے رہے۔ لیکن فرق صرف یہ ہے کہ جب رئیسانی نے اپنے پانچ سال مکمل کئے اس وقت تک ان پر ایک ناکام قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا اور وہ اپنے ہی صوبے میں خود کو اتنا غیر محفوظ سمجھتے تھے کہ کئی کئی مہینے اسلام آباد میں گزارتے تھے۔ 
جو لو گ سمجھتے ہیں کہ اختر مینگل کے آنے سے بلوچستان کے حالات یکسر بدل جائیں گے انھیں ایک لمحے کے لئے رئیسانی کی ناکامی کی وجوہات تلاش کرنی چائیں۔بلوچستان کے لوگ ان راہوں سے اس سے پہلے بھی گزرے ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب پی پی پی کی حکومت قائم ہوئی اور بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لئے بابراعوان کوئٹہ تشریف لائے تو انھوں نے کوئٹہ پریس کلب میں صحافیوں کے ساتھ ایک نشست رکھی اور ان سے پوچھا کہ بلوچستان کے حالات کیسے بہتر کئے جاسکتے ہیں۔ میں نے اپنی بات شروع کرتے ہوئے بابر اعوان سے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن ایسا آئے کہ ہم آپ کو بھی وفاقی حکومت کی طرف سے پہلے بھی بلوچستان آنے اور ناکام لوٹنے والے نمائندوں وسیم سجاد اور مشاہد حسین سید کی طرح یاد کریں ۔ میری بات کاٹتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے پی پی پی بلوچستان کے صدر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے مذاقاً کہا ’’ استغفراللہ‘‘ یعنی آپ ہمارا موازنہ مسلم لیگ ق سے کررہے ہیں۔ لشکری نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہوگا اور بلوچستان کا مسئلہ ضرور حل ہوگا لیکن ایساکیوں نہیں ہوا؟ اس لئے کہ ملک میں اقتدار کے جو اصل مالک ہیں وہ نہ صرف مسائل کا حل نہیں چاہتے بلکہ ان کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ وہ جمہوری نمائندوں کے راستے میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کردیں کہ لوگ ان سے نفرت کرنا شروع کردیں۔ 
بلوچ سیاسی حلقوں میں لوگ یہ پوچھ رہے کہ اختر مینگل کی واپسی کے بعد بلوچستان کا مستقبل کیسا ہوگا بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ واپس آنے کے بعد اختر مینگل کا سیاسی مستقبل کیسا ہوگا؟ کیااگر وہ ناکام ہوجاتے ہیں تو واپس قوم پرست کیمپ میں جاسکیں گے؟ کیا وہ خود ہی اس بات پر خوش اور راضی ہیں کہ وہ ایک اور نیا اسلم رئیسانی بن جائیں جنھیں وفاق اتنا استعمال( اوررسوا) کرے کہ پانچ سال بعد وہ وفاق کے رئیں اور نا ہی صوبے کے۔ 

No comments:

Post a Comment