Thursday, April 4, 2013

حکومت اور صحافی

تحریر: ملک سراج اکبر 


پاکستان کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نے متفقہ طور پر ممتاز صحافی نجم سیٹھی کو صوبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ملک کی دیگر جماعتوں نے بھی اس فیصلے کو سراہا کیوں کہ تمام سیاسی فریقین کا کہنا ہے کہ انھیں نجم سیٹھی کی غیر جانب داری اور ایمان داری پر کوئی شک نہیں ہے۔ہمارے ایک صحافی دوست نے طنزیہ طور پر کہا کہ اگر نگران وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر بھی صدر آصف علی زرداری کے ذہن میں کوئی ٹی وی اینکر آجاتے تو شاید بات الیکشن کمیشن آف پاکستان تک نہیں پہنچتی۔ جب دونوں بڑی پارٹیاں نگران وزیراعظم کے معاملے پراتفاق رائے قائم نہ کرسکے تو عوام اور میڈیا نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اگر سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے پر مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی ہیں تو وہ ملک میں جمہوری نظام کیسے چلاسکیں گی۔باالفاظِ دیگرجمہوریت اور سیاست دانوں کے ناقدین کو یہ موقع ملا کہ سیاست دان ملکی امور چلانے کے اہل نہیں ہیں ۔ 
مجھے نجم سیٹھی کے ساتھ پانچ سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ جب میں بلوچستان میں ڈیلی ٹائمز اور اردو روزنامہ آج کل کا بیورو چیف تھا تو وہ لاہورسے نکلنے والے دنوں اخبارات کے مدیراعلیٰ ( یا ایڈیٹر انچیف) تھے۔اس کے علاوہ میں ان کی زیرادارت نکلنے والے ہفت روزہ انگریزی جرید ہ فرائیڈے ٹائمز کے لئے بھی بلوچستان سے تحاریر لکھتا تھا۔ نجم سیٹھی کا شمار بلاشبہ پاکستان کے بہترین صحافیوں میں سے ہوتا ہے اور بیرون ملک جن چند پاکستانی صحافیوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو ان میں نجم سیٹھی بھی شامل ہیں۔چوں کہ سیٹھی صاحب کا تعلق انگریزی پریس سے رہا ہے تووہ اپنے پیشہ وارانہ زندگی کے بیشتر سالوں تک عام پاکستانیوں کی نظر سے اوجھل تھے لیکن جب انھوں نےجیو ٹی وی پر اپنااردو پروگرام ’’آپس کی بات‘‘ شروع کی توزیادہ سے زیادہ لوگ انھیں جاننے لگے۔ وہ اپنے بے لاگ تبصروں اور بیشتر اوقات درست ثابت ہونے والی پیشن گوئیوں کی وجہ سے بھی بہت  جلدہی اپنے ناظرین میں مقبول ہوگئے۔ ان کی پیشن گوئیوں کے سچ ثابت ہونے کی وجہ سے میں نے انھیں امریکن اخبار ہفنگٹن پوسٹ میں اپنی ایک تحریر میں پاکستان کا والٹر کرانکیٹ قراردیا تھا۔ واٹر کرانکیٹ امریکا کے ایک انتہائی قابل احترام صحافی تھے جنھیں ’’ امریکا کا سب سے قابل اعتبارشخص‘‘ بھی کہا جا تا تھا۔ اگرچہ نجم سیٹھی نے والٹر کرانکیٹ کی طرح فیلڈ رپورٹنگ نہیں کی لیکن ان کی پیشن گوئیوں کے بنیاد پر انھیں اگر پاکستان کا والٹر کرانکیٹ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کیوں کہ ان  کے بیشتر تجزے سچ ثابت ہوتے ہیں۔ 
نجم سیٹھی ایک لبرل سوچ رکھنے والی شخصیت ہیں اور ان کے پروگرام کا انداز ملک کے دیگر اینکر پرسن سے بالکل مختلف ہے۔ وہ روایتی سازشی افکار پر توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی پاکستان میں ہونے والے ہر مسئلے کا ذمہ دار امریکا، بھارت اور اسرائیل کو ٹھہراتے ہیں۔ ان کی اسی روشن خیالی کی وجہ سے پاکستان کا مذہبی طبقہ جس کا قومی میڈیا پر بھی غلبہ ہے ان کے خیالات سے خوش نہیں رہا ہے۔ 
انیس سو ننانوے میں انھیں آئی ایس آئی نے اغوا کیا کیوں کہ انھوں نے مبینہ طور پر ہندوستان میں ایک پاکستان مخالف تقریر کی تھی لیکن بعد میں رہا کئے گئے۔ حالیہ دنوں میں بھی انھیں جان سے ماردینے کی دھمکیاں مل رہی تھیں جن کے پیش نطر وہ اور ان کی اہلیہ محترمہ جگنو محسن امریکا تشریف لائے۔ یہاں وہ ایک عرصہ تک نیو امریکا فاونڈیشن نامی معتبر تھنک ٹھینک سے منسلک رہے۔پاکستان واپس لوٹنے سے قبل انھوں نے خود کو ملنے والی دھمکیوں کا اعلان میڈیا میں کیا جس کے بعد حکومت نے انھیں سیکورٹی فراہم کی۔ اس کے باوجود وہ اپنا ٹی وی شو اپنے گھر ہی میں قائم ایک چھوٹے اسٹوڈیومیں ریکارڈ کرتے رہے ۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی صحافی کو سرکاری نوکری کرنی چائیے یا سیاسی عہدہ سنھبالنا چائیے؟ ہمارے خیال میں نجم سیٹھی نے سرکاری عہدہ قبول کرکے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے جس سے پاکستانی صحافت میں ایک منفی رجحان کو تقویت ملے گیکیوں کہ صحافیوں میں بھی ایک ایسامراعات یافتہ طبقہ رہا ہے جس کو حکومت ہر طرح سے نوازتی رہی ہے۔ پہلے ہی سےکئی صحافی خفیہ اداروں کے پےرول پر ہیں،باقیوں کو حکومت پلاٹوں سے نوازتی ہے اور کچھ اور کو تو غیر ملکی دورے حتیٰ کہ حج اور عمرے بھی کرائے جاتے ہیں تاکہ وہ حکومت  کے حق میں رپورٹنگ کریں۔نجم سیٹھی کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد ایسے لوگوں کی خواہشتات و توقعات میں مزید اضافہ ہوگا کہ کیوں کہ وہ بھی حکومت کی قربت حاصل کرکے کسی  نا کسی طرح مستقبل کے کسی اور نگران حکومت میں بڑے عہدے پر فائز ہونے کے خواہش مند ہوں گے۔حکومت اور سیاسی پارٹیوں کی یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ سرکردہ صحافی ان کے ساتھ ملیں کیوں کہ اس سے میڈیا میں ان کا امیج بہتر بنانےمیں مدد مل سکے گی لیکن صحافیوں کے لئے لازمی ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری لالچ اور خوش آمد میں ناآئیں۔ 

No comments:

Post a Comment