تحریر: ملک سراج اکبر
گورنمنٹ ٹیچرزایسوسی ایشن (جی ٹی اے) نے عام انتخابات سے دو ہفتے قبل پولنگ ڈیوٹی دینے سے انکار کرکے حکومت بلوچستان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کوغیرمتوقع وسنگین مسائل سےدوچار کیا ہے کیوں کہ انتخابی عمل کا پورا دارو مدار پولنگ اسٹاف پر ہوتا ہےاور یہ ذمہ داری سرکاری اسکولوں کے اساتذہ نبھاتے آرہے ہیں۔
جی ٹی اے سمیت کسی بھی یونین کا مقصد اپنے اراکین کی فلاح و بہبود اور تحفظ کو یقینی بنانا ہوتا ہےاور بلوچستان میں انتخابی عمل کو درپیش چیلنجزکے پیش نظر اساتذہ کےحقوق کی علم برداری تنظیم جی ٹی اے نے جو فیصلہ کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔اس فیصلے کےمطابق بلوچستان کے گیارہ اضلاع سےتعلق رکھنے والے اٹھارہ ہزار سے زائد اساتذہ کو بتایا گیا ہےکہ اگر وہ اپنی مرضی سے الیکشن والے دن ڈیوٹی پر جانا چاہتے ہیں تو ان پر کوئی قدغن نہیں لگایا جائے گا لیکن اگر کوئی استاد چاہتاہے کہ اس روز ڈیوٹی نہ دے تب بھی جی ٹی اے ان پر کوئی زور نہیں دے گی۔
جی ٹی اے کے فیصلے کی حکومتی اورقوم پرست حلقے مختلف انداز میں تشریح کررہے ہیں ۔حکومت سمجھتی ہے کہ چند اساتذہ آزادی پسند بلوچ قوتوں کی حمایت کررہے ہیں اور سیکورٹی کا بہانا بنا کر وہ مزحمت کاروں کے بائیکاٹ کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں جب کہ قوم پرستوں کے حامی مکتبہ فکرکا خیال ہے کہ اساتذہ کے فیصلے سے بلوچ آزادی پسندوں کے موقف کو تقویت ملی ہے۔ اورتمام اساتذہ مزحمت کاروں کی سیاسی حکمت عملی کے سامنے سربسجود ہوگئے ہیں۔ ہمارے خیال میں دونوں کی رائے مکمل طور پر درست نہیں ہے۔
اگرچہ جی ٹی اے کے تمام اراکین سرکاری ملازم ہیں اور تنخواہ حکومت سے لیتے ہیں لیکن وہ پالیسی اور یونین سازی کے معاملے میں آزاد ہیں۔ بلوچ علاقوں میںجو لوگ جی ٹی اے کے فیصلہ ساز عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر نے زمانہ طالب علمی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے سیاست اور یونین سازی سیکھی۔ تاہم بلوچ علاقوں میں زیادہ تر اساتذہ کا تعلق بی این پی مینگل یا عوامی، نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سے ہے۔ کئی ایسے اساتذہ بھی ہیں جن کی تعینانی سے لے کر ٹرانسفر اور پوسٹنگ تک سب کچھ انہی پارلیمان پرست جماعتوں کی مرہونِ منت ہے ۔لیکن اس کے باوجود لگتا ہے کہ اس فیصلے میں کوئی سیاست شامل نہیں بلکہ جی ٹی اے نے یہ فیصلہ بڑی دیانت داری،نیک نیتی اورپیشہ وارانہ انداز میں کیا ہے۔ با الفاظِ دیگر بلوچستان کے حالات اس وقت کسی قسم کے انتخابی عمل کے لئے سازگار نہیں ہیں۔
حالیہ دنوں میں مختلف سیاسی رہنماوں کے قافلے، جلسوں اور گھروں پر ہونے والے حملوں کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اساتذہ نے ایک انتہائی مثبت فیصلہ کیا ہے۔ یقیناً حکومت ان کے اس فیصلے پر خوش نہیں ہوگی اور اگلے روز ہی یہ دھمکیاں دی جائیں گی کہ جو اساتذہ انتخابی ڈیوٹی نہیں دیں گے انھیں برطرف کیا جائے گا یا جیل میں ڈال جائے گا لیکن عملی طور پر اٹھارہ ہزار اساتذہ کو برطرف کرنا ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو چائیے کہ اساتذہ کے فیصلے پر برہم ہونے کے بجائے اپنی کارکردگی کا جائزہ لے۔انتخابی عمل کو سیکورٹی فراہم کرنا نگران حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اور بلوچستان میں حکومت کی ناکامی کا یہ حال ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ جناب غوث بخش باروزئی ایک مہینہ گزرنے کے باجود اپنی کابینہ تک تشکیل نہ دے سکے اور اب نہیں لگتا کہ وہ انتخابات تک کوئی کابینہ تشکیل دیں گے۔ یہ حکومت کی اپنی نااہلی ہے۔ بیشتر اساتذہ کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ اگر بلوچستان میں انتہائی بااثر قبائلی و سیاسی شخصیات محفوظ نہیں ہیں تو اساتذہ کے تحفظ کی ذمہ داری کون لےگا؟
جی ٹی اے کو چائیے کہ وہ تمام اساتذہ کے مفادات اورسالمیت کو مد نظر رکھ کر اپنے فیصلے پر بدستور قائم رہے ۔ دیکھنایہ ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پاکستان فوج اس صورت حال میں اساتذہ کا کیا نیم البدل تلاش کرتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما حاصل خان بزنجو نے اساتذہ سے اپیل کی ہےکہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں لیکن جب بزنجو صاحب کی اپنی جماعت کے سربراہ ڈاکٹر مالک کی رہائش گاہ پر حملے ہورہے ہیں اور وہ انھیں حکومت کی مدد سےتحفظ نہیں دلاپارہے تو وہ اساتذہ کو کیونکر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا مشورہ دےرہے ہیں؟

No comments:
Post a Comment