Wednesday, April 10, 2013

روزنامہ توار پر حملہ

تحریر: ملک سراج اکبر 

چھ اپریل کو نامعلوم افراد نے کراچی میں واقع روزنامہ ’’ توار‘‘ پر رات کی تاریکی میں حملہ کرکے دفتر نذر آتش کردیا اور وہاں موجود تمام کمپیوٹرز اور دیگر آلات کو توڑدیا۔ روزنامہ ’’ توار ‘‘ کا کہنا ہے اس سے پہلے بھی اخبار کو دھمکیاں ملتی رہی ہیں جب کہ مذکورہ اخبار سے وابستہ کئی صحافی ہلاک کئے جاچکے ہیں جب کہ اس سےماضی میں  منسلک رہنے والے ایک اور صحافی حاجی عبدالرزاق بلوچ چند روز قبل کراچی سے لاپتہ ہوگئے تھے اورتاحال ان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔
 روزنامہ ’’ توار‘‘ نے ڈیکلریشن تو مستونگ شہر سے حاصل کی ہے لیکن اس کی اشاعت کراچی سے ہوتی ہے۔ایک طرف کراچی سے اخبار کی اشاعت کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کی بروقت ترسیل ممکن ہوتی ہے تو دوسری طرف کراچی میں آباد بلوچ آبادی کو بھی بروقت ایک ایسا اخبار ملتاہے جس کو پڑھ کر بلوچستان کے حالات سے آگاہی ہو۔ اگر چہ بلوچ کمیونٹی میں روزنامہ انتخاب سب سے زیادہ پڑھا جا نے والا اخبار رہا ہے لیکن چند سالوں میں روزنامہ توار کی مقبولیت میں بے پنا ہ اضافہ ہوا ہے کیوں کہ توار کا جھکاو بلوچ آزادی پسند قوتوں کی طرف ہے اور اس میں شائع ہونے والے مضامین بھی بیشتر بلوچستان کی تحریک سے متعلق ہوتی ہیں۔
 تواربلاشبہ بلوچستان کا ایک نڈر اور بے باک اخبار ہے جس نے بلوچستان میں جاری فوج کشی اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بلاخوف و خطر رپورٹنگ کی ہے۔ یہ اخباراپنی ویب سائیٹ کی وجہ سے بیرون ملک بسنے والے بلوچوں کے لئے تازہ ترین معلومات کا بیش بہا خزانہ ہے۔ یہ بات تو سب کو پتہ ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی کے حوالے سے حالات اتنے برے ہیں کہ وہاں کوئی اخبار نکالنا بہت ہی مشکل کام بن گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اخبار کی اشاعت کا ایک کاروباری پہلو بھی ہے۔چوں کہ بلوچستان میں پرائیوٹ سیکٹر اور فیکٹریاں نہیں ہیں تو ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں اخبارات کو نجی شعبے سے اشتہارات نہیں مل پاتے۔بلوچستان سے نکلنے والے تمام اخبارات اپنی بقا کے لئے سرکاری اشہارات پر انحصار کرتے ہی لیکن جو اخبارات حکومت کی پالیسی پر تنقید کرتے ہیں ان کے لئے سرکاری اشتہارات کے دروازے بھی بند کئے جاتے ہیں۔ 
روزنامہ توار پر ہونے والا حملہ قابل مذمت ہے لیکن اس واقعے پر ہمیں بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ حکومت اس سے پہلے بھی بلوچ اخبارات کی آواز دبانے کی خاطر اس طرح کے حربے استعمال کرتی آرہی ہے۔ ماضی میں کوئٹہ سے نکلنے والے اخبار روزنامہ آساپ کے مدیر اعلیٰ جناب جان محمد دشتی پر قاتلانہ حملہ ہوا اور بعد میں ایف سی نے اخبار کے دفتر کا محاصرہ کیا۔ آخرکار حالات سے تنگ آکر آساپ نے اپنی اشاعت ہی ہمیشہ کے لئے بند کردی۔آساپ کےمحاصرے کےاگلے ہفتے ایف سی نے روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے دفاتر کامحاصرہ کیااور جب انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس رویےکا نوٹس لیا تو ایف سی نے اپنے عمل پر نظر ثانی کی۔ 
روزنامہ توار نے جہاں بلوچستان کے مسئلے پر اہم کردار ادا کیا ہے تو وہاں اخبار کے عملے سے چند غلطیاں بھی سرزد ہوئیں جن پر قابو پانے کے ضرورت ہے۔کسی بھی اچھے اخبار کے لئے لازمی ہے کہ وہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو۔ اخبار کی ایک اپنی پالیسی ہونی چائیے اور اخبار کی پالیسی اس حدتک کمزور نہ ہو کے اس پر ایک مخصوص سیاسی شخصیت یا جماعت کا سایہ پڑے۔ ایک اچھا اخبار وہ نہیں ہوتا جس کے ایڈیٹر کی یہ خواہش ہو کہ ایک مخصوص سیاسی گروہ اس سے خوش ہو بلکہ ایک کامیاب ایڈیٹر وہ ہوتا ہے جس کے پاس خود سیاست دان چائے پینے کے بہانے سے چلے جائیں اور اس کی رائے سننے کے لئے اسے ٹیلی فون کریں۔
 توار  سے سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اس اخبار نے ان لوگوں کواپنے اداراتی صفحات پر جگہ دی جنھوں نے بلوچوں کے درمیان غلط فہمیاں پھیلائیں۔بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ساتھ لوگوں کی سیاسی وابستگیاں اور اختلافات ہیں لیکن کسی اخبار کے لئے یہ اچھی بات نہیں ہے کہ وہ ان جماعتوں کے خلاف ایک پمفلٹ بن جائے۔ اسی طرح توار نے وش نیوز ٹیلی ویژن چینل کے خلاف بی این ایف کے موقف کی جس حد تک حمایت کی اس سے بہت سارے لوگوں کو مایوسی ہوئی۔کچھ عرصہ سے ایسا لگ رہا ہے کہ توار نے وش نیوز کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ایک بلوچ اخبار کا کسی اور بلوچ ادارے کے ساتھ اس طرح کا رویہ ناقابل فہم اور قابل افسوس ہے۔توار جیسے اہم اخبار کو اپنی ذمہ داریوں کو احساس ہونا چائیے کہ قلمی ناموں سے تحریر کئے گئے مضامین میں لوگوں کی ذات پر جو حملے ہوتے ہیں وہ صحت مندانہ صحافت نہیں ہے۔ روزنامہ توار کو چائیے کہ اپنے حامیوں کا دائرہ کارچند سیاسی جماعتوں سے بڑھا ئے اور زندگی کے ہرشعبے میں اپنے لئے ہمدرد تلاش کرے۔ جو لوگ توار پر حملے کی مذمت کرتے ہیں لیکن مکران میں کیبل نیوز کی بندش اور قلات میں صحافی محمود آفریدی کی ہلاکت کی مذمت نہیں کرتے وہ دراصل آزادی ِ صحافت کے حامی نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے علمبردار  ہیں۔ جو لوگ وش نیوز کو بُرا کہیں اور توار کوا چھا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ توار کے بھی دوست نہیں ہیں بلکہ  وہ چاہتے ہیں کہ توار کو اپنا پمفلٹ یا ترجما ن بنالیں۔
 اسی طرح توار پر ہونے والے حملے کے بعد بی ایس او آزاد کے سابق سیکرٹری اطلاعات سلام صابر نے روزنامہ آزادی کے خلاف جو گمراہ کن پروپگنڈے کا آغاز کیا ہے وہ بھی ایک اچھے رویے کی عکاسی نہیں کرتا۔ان کا کہنا ہے کہ اگر توار پر حملہ ہوا ہے تو روزنامہ آزادی پر حملے کیوں نہیں ہورہے جس کا مطلب ہے کہ وہ خود چند عناصر کا اکسارہے ہیں کہ ایک اوربلوچ اخبار پر حملہ کیا جائے۔یہ غیر ذمہ داری اور سیاسی نا پختگی کی انتہا ہے۔ 
 بی ایس او آزاد کے اعلیٰ عہدہ داران کو اس طرح کی غیرذمہ دارانہ رویے کا نوٹس لینا چائیے کیوں کہ روزنامہ آزادی کے مدیراعلیٰ محترم صدیق بلوچ پانچ دہائیوں سے صحافت کے میدان میں بلوچستان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور انھوں نے بلوچ قوم کی جتنی خدمت کی ہے وہ شاید تمام بلوچ سیاسی جماعتوں نے مل کر بھی نہیں کی ہے۔ ہم اپنی تاریخ کے ایک ایسے موڈ پر کھڑے ہیں جہاں ہماری صحافت، ادب اور تعلیمی اداروں کو ہماری سیاست اور سیاسی جماعتوں پر حاوی ( نا کہ ان کے تابع) ہونا چائیے کیوں کہ غلط سیاست نے لوگوں کو مایوس کرنا شروع کردیا ہے۔ 
جب تک توار جیسے اخبارات دیگر بلوچ سیاسی جماعتوں اور صحافیوں کے خلاف استعمال ہوتے رہیں گے تب تک چندعناصر کو موقع ملے گا کہ ایک ایک کرکے تمام بلوچ اداروں پر وار کریں۔اس وقت توار کی حتی الوسع کوشش یہ ہونے چائیے کہ اپنی ادارتی پالیسی کو تمام سیاسی جماعتوں سے آزاد کرے اور وہ باتیں لکھے جس سے قوم مضبوط اور متحد ہو۔ اگر کچھ اور نہیں ہوسکتا تو کم از کم ان قلم کاروں کی حوصلہ شکنی کی جائے تو توار کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے دوسری بلوچ جماعتوں اور رہنماوں پر ذاتی حملے کرتے ہیں۔ جہاں سیاسی اختلاف ایک اچھے جمہوری معاشرے کی عکاسی کرتا ہے وہاں ذاتی حملے ، الزام تراشی، فتویٰ گردن زدنی، گالی گلوچمعاشرے کےزوال پزیر ہونے کی علامات بن جاتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment