Monday, April 29, 2013

بلوچستان: اساتذہ اور انتخابات

تحریر: ملک سراج اکبر 

گورنمنٹ ٹیچرزایسوسی ایشن (جی ٹی اے) نے عام انتخابات سے دو ہفتے قبل پولنگ ڈیوٹی دینے سے انکار کرکے حکومت بلوچستان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کوغیرمتوقع وسنگین مسائل سےدوچار کیا ہے کیوں کہ انتخابی عمل کا پورا دارو مدار پولنگ اسٹاف پر ہوتا ہےاور یہ ذمہ داری سرکاری اسکولوں کے اساتذہ نبھاتے آرہے ہیں۔ 
جی ٹی اے سمیت کسی بھی یونین کا مقصد اپنے اراکین کی فلاح و بہبود اور تحفظ کو یقینی بنانا ہوتا ہےاور بلوچستان میں انتخابی عمل کو درپیش چیلنجزکے پیش نظر اساتذہ کےحقوق کی علم برداری تنظیم جی ٹی اے نے جو فیصلہ کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔اس فیصلے کےمطابق بلوچستان کے گیارہ اضلاع سےتعلق رکھنے والے اٹھارہ ہزار سے  زائد اساتذہ کو بتایا گیا ہےکہ اگر وہ اپنی مرضی سے الیکشن والے دن ڈیوٹی پر جانا چاہتے ہیں تو ان پر کوئی قدغن نہیں لگایا جائے گا لیکن اگر کوئی استاد چاہتاہے کہ اس روز ڈیوٹی نہ دے تب بھی جی ٹی اے ان پر کوئی زور نہیں دے گی۔ 
جی ٹی اے کے فیصلے کی حکومتی اورقوم پرست حلقے مختلف انداز میں تشریح کررہے ہیں ۔حکومت سمجھتی ہے کہ چند اساتذہ آزادی پسند بلوچ قوتوں کی حمایت کررہے ہیں اور سیکورٹی کا بہانا بنا کر وہ مزحمت کاروں کے بائیکاٹ کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں جب کہ قوم پرستوں کے حامی مکتبہ فکرکا خیال ہے کہ اساتذہ کے فیصلے سے بلوچ آزادی پسندوں کے موقف کو تقویت ملی ہے۔ اورتمام اساتذہ مزحمت کاروں کی سیاسی حکمت عملی کے سامنے سربسجود ہوگئے ہیں۔ ہمارے خیال میں دونوں کی رائے مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ 
اگرچہ جی ٹی اے کے تمام اراکین سرکاری ملازم ہیں اور تنخواہ حکومت سے لیتے ہیں لیکن وہ پالیسی اور یونین سازی کے معاملے میں آزاد ہیں۔ بلوچ علاقوں میںجو لوگ جی ٹی اے کے فیصلہ ساز عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر نے زمانہ طالب علمی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے سیاست اور یونین سازی سیکھی۔ تاہم بلوچ علاقوں میں زیادہ تر اساتذہ کا تعلق بی این پی  مینگل یا عوامی، نیشنل پارٹی اور  جمعیت علمائے اسلام سے ہے۔ کئی ایسے اساتذہ بھی ہیں جن کی تعینانی سے لے کر ٹرانسفر اور پوسٹنگ تک سب  کچھ انہی پارلیمان پرست جماعتوں کی مرہونِ منت ہے ۔لیکن اس کے باوجود لگتا ہے کہ اس فیصلے میں کوئی سیاست شامل نہیں بلکہ جی ٹی اے نے یہ فیصلہ بڑی دیانت داری،نیک نیتی اورپیشہ وارانہ انداز میں کیا ہے۔ با الفاظِ دیگر بلوچستان کے حالات اس وقت کسی قسم کے انتخابی عمل کے لئے سازگار نہیں ہیں۔
حالیہ دنوں میں مختلف سیاسی رہنماوں کے قافلے، جلسوں اور گھروں پر ہونے والے حملوں کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اساتذہ نے ایک انتہائی مثبت فیصلہ کیا ہے۔ یقیناً حکومت ان کے اس فیصلے پر خوش نہیں ہوگی اور اگلے روز ہی یہ دھمکیاں دی جائیں گی کہ جو اساتذہ انتخابی ڈیوٹی نہیں دیں گے انھیں برطرف کیا جائے گا یا جیل میں ڈال جائے گا لیکن عملی طور پر اٹھارہ ہزار اساتذہ کو برطرف کرنا ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو چائیے کہ اساتذہ کے فیصلے پر برہم ہونے کے بجائے اپنی کارکردگی کا جائزہ لے۔انتخابی عمل کو سیکورٹی فراہم کرنا نگران حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اور بلوچستان میں حکومت کی ناکامی کا یہ حال ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ جناب غوث بخش باروزئی ایک مہینہ گزرنے کے باجود اپنی کابینہ تک تشکیل نہ دے سکے اور اب نہیں لگتا کہ وہ انتخابات تک کوئی کابینہ تشکیل دیں گے۔ یہ حکومت کی اپنی نااہلی ہے۔ بیشتر اساتذہ کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ اگر بلوچستان میں انتہائی بااثر قبائلی و سیاسی شخصیات محفوظ نہیں ہیں تو اساتذہ کے تحفظ کی ذمہ داری کون لےگا؟ 
 جی ٹی اے کو چائیے کہ وہ تمام اساتذہ کے مفادات اورسالمیت کو مد نظر رکھ کر اپنے فیصلے پر بدستور قائم رہے ۔ دیکھنایہ ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پاکستان فوج اس صورت حال میں اساتذہ کا کیا نیم البدل تلاش کرتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما حاصل خان بزنجو نے اساتذہ سے اپیل کی ہےکہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں لیکن جب بزنجو صاحب کی اپنی جماعت کے سربراہ ڈاکٹر مالک کی رہائش گاہ پر حملے ہورہے ہیں اور وہ انھیں حکومت کی مدد سےتحفظ نہیں دلاپارہے تو وہ اساتذہ کو کیونکر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا مشورہ دےرہے ہیں؟

Wednesday, April 10, 2013

روزنامہ توار پر حملہ

تحریر: ملک سراج اکبر 

چھ اپریل کو نامعلوم افراد نے کراچی میں واقع روزنامہ ’’ توار‘‘ پر رات کی تاریکی میں حملہ کرکے دفتر نذر آتش کردیا اور وہاں موجود تمام کمپیوٹرز اور دیگر آلات کو توڑدیا۔ روزنامہ ’’ توار ‘‘ کا کہنا ہے اس سے پہلے بھی اخبار کو دھمکیاں ملتی رہی ہیں جب کہ مذکورہ اخبار سے وابستہ کئی صحافی ہلاک کئے جاچکے ہیں جب کہ اس سےماضی میں  منسلک رہنے والے ایک اور صحافی حاجی عبدالرزاق بلوچ چند روز قبل کراچی سے لاپتہ ہوگئے تھے اورتاحال ان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔
 روزنامہ ’’ توار‘‘ نے ڈیکلریشن تو مستونگ شہر سے حاصل کی ہے لیکن اس کی اشاعت کراچی سے ہوتی ہے۔ایک طرف کراچی سے اخبار کی اشاعت کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کی بروقت ترسیل ممکن ہوتی ہے تو دوسری طرف کراچی میں آباد بلوچ آبادی کو بھی بروقت ایک ایسا اخبار ملتاہے جس کو پڑھ کر بلوچستان کے حالات سے آگاہی ہو۔ اگر چہ بلوچ کمیونٹی میں روزنامہ انتخاب سب سے زیادہ پڑھا جا نے والا اخبار رہا ہے لیکن چند سالوں میں روزنامہ توار کی مقبولیت میں بے پنا ہ اضافہ ہوا ہے کیوں کہ توار کا جھکاو بلوچ آزادی پسند قوتوں کی طرف ہے اور اس میں شائع ہونے والے مضامین بھی بیشتر بلوچستان کی تحریک سے متعلق ہوتی ہیں۔
 تواربلاشبہ بلوچستان کا ایک نڈر اور بے باک اخبار ہے جس نے بلوچستان میں جاری فوج کشی اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بلاخوف و خطر رپورٹنگ کی ہے۔ یہ اخباراپنی ویب سائیٹ کی وجہ سے بیرون ملک بسنے والے بلوچوں کے لئے تازہ ترین معلومات کا بیش بہا خزانہ ہے۔ یہ بات تو سب کو پتہ ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی کے حوالے سے حالات اتنے برے ہیں کہ وہاں کوئی اخبار نکالنا بہت ہی مشکل کام بن گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اخبار کی اشاعت کا ایک کاروباری پہلو بھی ہے۔چوں کہ بلوچستان میں پرائیوٹ سیکٹر اور فیکٹریاں نہیں ہیں تو ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں اخبارات کو نجی شعبے سے اشتہارات نہیں مل پاتے۔بلوچستان سے نکلنے والے تمام اخبارات اپنی بقا کے لئے سرکاری اشہارات پر انحصار کرتے ہی لیکن جو اخبارات حکومت کی پالیسی پر تنقید کرتے ہیں ان کے لئے سرکاری اشتہارات کے دروازے بھی بند کئے جاتے ہیں۔ 
روزنامہ توار پر ہونے والا حملہ قابل مذمت ہے لیکن اس واقعے پر ہمیں بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ حکومت اس سے پہلے بھی بلوچ اخبارات کی آواز دبانے کی خاطر اس طرح کے حربے استعمال کرتی آرہی ہے۔ ماضی میں کوئٹہ سے نکلنے والے اخبار روزنامہ آساپ کے مدیر اعلیٰ جناب جان محمد دشتی پر قاتلانہ حملہ ہوا اور بعد میں ایف سی نے اخبار کے دفتر کا محاصرہ کیا۔ آخرکار حالات سے تنگ آکر آساپ نے اپنی اشاعت ہی ہمیشہ کے لئے بند کردی۔آساپ کےمحاصرے کےاگلے ہفتے ایف سی نے روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے دفاتر کامحاصرہ کیااور جب انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس رویےکا نوٹس لیا تو ایف سی نے اپنے عمل پر نظر ثانی کی۔ 
روزنامہ توار نے جہاں بلوچستان کے مسئلے پر اہم کردار ادا کیا ہے تو وہاں اخبار کے عملے سے چند غلطیاں بھی سرزد ہوئیں جن پر قابو پانے کے ضرورت ہے۔کسی بھی اچھے اخبار کے لئے لازمی ہے کہ وہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو۔ اخبار کی ایک اپنی پالیسی ہونی چائیے اور اخبار کی پالیسی اس حدتک کمزور نہ ہو کے اس پر ایک مخصوص سیاسی شخصیت یا جماعت کا سایہ پڑے۔ ایک اچھا اخبار وہ نہیں ہوتا جس کے ایڈیٹر کی یہ خواہش ہو کہ ایک مخصوص سیاسی گروہ اس سے خوش ہو بلکہ ایک کامیاب ایڈیٹر وہ ہوتا ہے جس کے پاس خود سیاست دان چائے پینے کے بہانے سے چلے جائیں اور اس کی رائے سننے کے لئے اسے ٹیلی فون کریں۔
 توار  سے سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اس اخبار نے ان لوگوں کواپنے اداراتی صفحات پر جگہ دی جنھوں نے بلوچوں کے درمیان غلط فہمیاں پھیلائیں۔بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ساتھ لوگوں کی سیاسی وابستگیاں اور اختلافات ہیں لیکن کسی اخبار کے لئے یہ اچھی بات نہیں ہے کہ وہ ان جماعتوں کے خلاف ایک پمفلٹ بن جائے۔ اسی طرح توار نے وش نیوز ٹیلی ویژن چینل کے خلاف بی این ایف کے موقف کی جس حد تک حمایت کی اس سے بہت سارے لوگوں کو مایوسی ہوئی۔کچھ عرصہ سے ایسا لگ رہا ہے کہ توار نے وش نیوز کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ایک بلوچ اخبار کا کسی اور بلوچ ادارے کے ساتھ اس طرح کا رویہ ناقابل فہم اور قابل افسوس ہے۔توار جیسے اہم اخبار کو اپنی ذمہ داریوں کو احساس ہونا چائیے کہ قلمی ناموں سے تحریر کئے گئے مضامین میں لوگوں کی ذات پر جو حملے ہوتے ہیں وہ صحت مندانہ صحافت نہیں ہے۔ روزنامہ توار کو چائیے کہ اپنے حامیوں کا دائرہ کارچند سیاسی جماعتوں سے بڑھا ئے اور زندگی کے ہرشعبے میں اپنے لئے ہمدرد تلاش کرے۔ جو لوگ توار پر حملے کی مذمت کرتے ہیں لیکن مکران میں کیبل نیوز کی بندش اور قلات میں صحافی محمود آفریدی کی ہلاکت کی مذمت نہیں کرتے وہ دراصل آزادی ِ صحافت کے حامی نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے علمبردار  ہیں۔ جو لوگ وش نیوز کو بُرا کہیں اور توار کوا چھا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ توار کے بھی دوست نہیں ہیں بلکہ  وہ چاہتے ہیں کہ توار کو اپنا پمفلٹ یا ترجما ن بنالیں۔
 اسی طرح توار پر ہونے والے حملے کے بعد بی ایس او آزاد کے سابق سیکرٹری اطلاعات سلام صابر نے روزنامہ آزادی کے خلاف جو گمراہ کن پروپگنڈے کا آغاز کیا ہے وہ بھی ایک اچھے رویے کی عکاسی نہیں کرتا۔ان کا کہنا ہے کہ اگر توار پر حملہ ہوا ہے تو روزنامہ آزادی پر حملے کیوں نہیں ہورہے جس کا مطلب ہے کہ وہ خود چند عناصر کا اکسارہے ہیں کہ ایک اوربلوچ اخبار پر حملہ کیا جائے۔یہ غیر ذمہ داری اور سیاسی نا پختگی کی انتہا ہے۔ 
 بی ایس او آزاد کے اعلیٰ عہدہ داران کو اس طرح کی غیرذمہ دارانہ رویے کا نوٹس لینا چائیے کیوں کہ روزنامہ آزادی کے مدیراعلیٰ محترم صدیق بلوچ پانچ دہائیوں سے صحافت کے میدان میں بلوچستان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور انھوں نے بلوچ قوم کی جتنی خدمت کی ہے وہ شاید تمام بلوچ سیاسی جماعتوں نے مل کر بھی نہیں کی ہے۔ ہم اپنی تاریخ کے ایک ایسے موڈ پر کھڑے ہیں جہاں ہماری صحافت، ادب اور تعلیمی اداروں کو ہماری سیاست اور سیاسی جماعتوں پر حاوی ( نا کہ ان کے تابع) ہونا چائیے کیوں کہ غلط سیاست نے لوگوں کو مایوس کرنا شروع کردیا ہے۔ 
جب تک توار جیسے اخبارات دیگر بلوچ سیاسی جماعتوں اور صحافیوں کے خلاف استعمال ہوتے رہیں گے تب تک چندعناصر کو موقع ملے گا کہ ایک ایک کرکے تمام بلوچ اداروں پر وار کریں۔اس وقت توار کی حتی الوسع کوشش یہ ہونے چائیے کہ اپنی ادارتی پالیسی کو تمام سیاسی جماعتوں سے آزاد کرے اور وہ باتیں لکھے جس سے قوم مضبوط اور متحد ہو۔ اگر کچھ اور نہیں ہوسکتا تو کم از کم ان قلم کاروں کی حوصلہ شکنی کی جائے تو توار کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے دوسری بلوچ جماعتوں اور رہنماوں پر ذاتی حملے کرتے ہیں۔ جہاں سیاسی اختلاف ایک اچھے جمہوری معاشرے کی عکاسی کرتا ہے وہاں ذاتی حملے ، الزام تراشی، فتویٰ گردن زدنی، گالی گلوچمعاشرے کےزوال پزیر ہونے کی علامات بن جاتے ہیں۔

Thursday, April 4, 2013

کبھی رئیسانی بھی مینگل تھا

تحریر: ملک سراج اکبر

 پاکستان فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے گذشتہ روز اپنے دورہِ کوئٹہ میں بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ گیا رہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیں ۔ انھوں نے چند سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے پر ’’ خوش آمدید‘‘ بھی کہا ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ  سے بالاتر ہے کہ فوج کے سربراہ کیوں کر سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے  کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن یہ بات سمجھ میں ضرورآتی ہے کہ ان کا اشارہ کن جماعتوں کی طرف ہے۔ ماضی قریب میں فوج کی ایسی کوئی روایت نہیں رہی ہے کہ تعلقات عامہ کے ادارہ آئی ایس پی آر کی جانب سے باقاعدہ ایک بیان میں سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی تلقین کی جائےاور یہ بھی کہا جائے کہ فوج انھیں خوش آمد کہے گی۔ ماضی میں انتخابات کے حوالے سے فوج کی ایک واضح پالیسی رہی  ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کو توڑ کر پاکستان مسلم لیگ ق بنائی جائے اور پاکستان پیپلز پارٹی میں فیصل صالح حیات اور راو سکندر اقبال کی قیادت میں فاروڈ بلاک بناکر فوج نواز حکومت قائم کی جائےاور جوفوجی کشتی میں سوار نہیں ہوں گے ان کے لئے ذولفقار علی بھٹو کے وہ الفاظ کافی ہیں جو انھوں نے بنگالیوں کے بارے میں کہے تھے کہ ’’ جہنم میں جاو‘‘۔ 
 پی پی پی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے پر ملک کے سیاسی حلقوں اور حتیٰ کہ میڈیا میں بھی لوگوں کو مبارکبادیاں دی جانے لگیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ ایک سویلین حکومت سے دوسری سویلین حکومت کو اقتدار منتقل ہورہی ہے۔لیکن بلوچستان کے تناظر میں اس پیش رفت کو دوسرے نقطہ نظر سے دیکھنے  کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں جو شورش ایک نیم سویلین دور حکومت میں شروع ہوئی وہ دوسری حکومت کے پانچ سالوں تک بدستور جاری رہی اور یوں پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں اپنے دور حکومت میں بلوچستان کے مسئلہ کو حل نہیں کرسکیں۔ ہم نے بار بار کہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے نا کہ عسکری یا انتظامی۔ لہٰذہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے سیاسی طرائق آزمائے جائیں لیکن اگر دس سال کی نام نہاد جمہوری دور میں بھی ایک سیاسی مسئلے کا پر امن حل نہ ڈھونڈا جاسکے تو یہ ایک پریشان کردینے والی بات ہے۔ 
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل کی وطن واپسی اور عام انتخابات میں حصہ لینے پر ان حلقوں میں بڑی خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے جو کہ وفاق پاکستان پر اب بھی یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان میڈیا اور سول سوسائٹی نے سردار مینگل کی واپسی پر بے حد خوشی کا اظہار کیا اور بلوچستان میں ہونے والے عام انتخابات سے اتنی زیادہ توقعات وابستہ کی جارہی ہیں جیسے پاکستان کے اصلی انتخابات کا مرکز بلوچستان ہی ہے۔ ہر طرف یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ مینگل کی واپسی کے بعد بلوچستان کے حالات کیسے ہوں گے۔ جو لوگ بلوچستان کے زمینی حقائق اور مقامی سیاست سے واقف ہیں وہ تو بہت کم ہی پرامید نظر آتے ہیں لیکن جو اسلام آباد اور لاہور میں بیٹھے ٹیلی فون پر بلوچستان کے حالات پتہ کررہے ہیں سمجھتے ہیں کہ اختر مینگل کے آنے کے بعد اب بلوچستان کے تمام مسائل حل ہوں گے اور صوبے میں جو شورش ہے وہ ختم ہوجائے گی۔ 
سردار مینگل کے آنے کے بعد بلوچستان میں اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے اسے دیکھ کر مجھے پانچ سال پہلے کے وہ دن یاد آتے ہیں جب نواب رئیسانی بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ پی پی پی نے مفاہمت کا نعرہ لگاہ کر انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی بھی حاصل کی لیکن بلوچستان میں تو حالات ہی کچھ اور تھے۔ ہر طرف امید کی کرنیں نظر آنے لگیں۔ نواب اسلم رئیسانی ان دنوں اگر عوام میں مقبول نہیں تھے تو متنازعہ بھی نہیں تھے۔انھوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے میڈیا میں اعلان کردیا کہ بلوچ مزحمت کاروں سے ان کے رابطے شروع ہوگئے ہیں اور بہت جلد ہی صوبے کے تمام معاملات مذاکرات سے حل کئے جائیں گے۔ جب اسلم بھوتانی اور اسلم رئیسانی بلا مقابلہ بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر اور قائد ایوان منتخب ہوئے تو لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ نواب رئیسانی کی سیاست میں جادو ہے۔ وہ جہاں بھی قدم رکھتے ہیں تو لوگ ان کی بات مان لیتے ہیں ۔ ان کے فیصلے کے خلاف کو آواز تلک بلند نہیں کرتا اور یوں پانچ سالوں تک بلوچستان اسمبلی میں نواب رئیسانی اسی طرح حکومت کرتے رہے۔ لیکن فرق صرف یہ ہے کہ جب رئیسانی نے اپنے پانچ سال مکمل کئے اس وقت تک ان پر ایک ناکام قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا اور وہ اپنے ہی صوبے میں خود کو اتنا غیر محفوظ سمجھتے تھے کہ کئی کئی مہینے اسلام آباد میں گزارتے تھے۔ 
جو لو گ سمجھتے ہیں کہ اختر مینگل کے آنے سے بلوچستان کے حالات یکسر بدل جائیں گے انھیں ایک لمحے کے لئے رئیسانی کی ناکامی کی وجوہات تلاش کرنی چائیں۔بلوچستان کے لوگ ان راہوں سے اس سے پہلے بھی گزرے ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب پی پی پی کی حکومت قائم ہوئی اور بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لئے بابراعوان کوئٹہ تشریف لائے تو انھوں نے کوئٹہ پریس کلب میں صحافیوں کے ساتھ ایک نشست رکھی اور ان سے پوچھا کہ بلوچستان کے حالات کیسے بہتر کئے جاسکتے ہیں۔ میں نے اپنی بات شروع کرتے ہوئے بابر اعوان سے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن ایسا آئے کہ ہم آپ کو بھی وفاقی حکومت کی طرف سے پہلے بھی بلوچستان آنے اور ناکام لوٹنے والے نمائندوں وسیم سجاد اور مشاہد حسین سید کی طرح یاد کریں ۔ میری بات کاٹتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے پی پی پی بلوچستان کے صدر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے مذاقاً کہا ’’ استغفراللہ‘‘ یعنی آپ ہمارا موازنہ مسلم لیگ ق سے کررہے ہیں۔ لشکری نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہوگا اور بلوچستان کا مسئلہ ضرور حل ہوگا لیکن ایساکیوں نہیں ہوا؟ اس لئے کہ ملک میں اقتدار کے جو اصل مالک ہیں وہ نہ صرف مسائل کا حل نہیں چاہتے بلکہ ان کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ وہ جمہوری نمائندوں کے راستے میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کردیں کہ لوگ ان سے نفرت کرنا شروع کردیں۔ 
بلوچ سیاسی حلقوں میں لوگ یہ پوچھ رہے کہ اختر مینگل کی واپسی کے بعد بلوچستان کا مستقبل کیسا ہوگا بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ واپس آنے کے بعد اختر مینگل کا سیاسی مستقبل کیسا ہوگا؟ کیااگر وہ ناکام ہوجاتے ہیں تو واپس قوم پرست کیمپ میں جاسکیں گے؟ کیا وہ خود ہی اس بات پر خوش اور راضی ہیں کہ وہ ایک اور نیا اسلم رئیسانی بن جائیں جنھیں وفاق اتنا استعمال( اوررسوا) کرے کہ پانچ سال بعد وہ وفاق کے رئیں اور نا ہی صوبے کے۔ 

حکومت اور صحافی

تحریر: ملک سراج اکبر 


پاکستان کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نے متفقہ طور پر ممتاز صحافی نجم سیٹھی کو صوبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ملک کی دیگر جماعتوں نے بھی اس فیصلے کو سراہا کیوں کہ تمام سیاسی فریقین کا کہنا ہے کہ انھیں نجم سیٹھی کی غیر جانب داری اور ایمان داری پر کوئی شک نہیں ہے۔ہمارے ایک صحافی دوست نے طنزیہ طور پر کہا کہ اگر نگران وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر بھی صدر آصف علی زرداری کے ذہن میں کوئی ٹی وی اینکر آجاتے تو شاید بات الیکشن کمیشن آف پاکستان تک نہیں پہنچتی۔ جب دونوں بڑی پارٹیاں نگران وزیراعظم کے معاملے پراتفاق رائے قائم نہ کرسکے تو عوام اور میڈیا نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اگر سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے پر مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی ہیں تو وہ ملک میں جمہوری نظام کیسے چلاسکیں گی۔باالفاظِ دیگرجمہوریت اور سیاست دانوں کے ناقدین کو یہ موقع ملا کہ سیاست دان ملکی امور چلانے کے اہل نہیں ہیں ۔ 
مجھے نجم سیٹھی کے ساتھ پانچ سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ جب میں بلوچستان میں ڈیلی ٹائمز اور اردو روزنامہ آج کل کا بیورو چیف تھا تو وہ لاہورسے نکلنے والے دنوں اخبارات کے مدیراعلیٰ ( یا ایڈیٹر انچیف) تھے۔اس کے علاوہ میں ان کی زیرادارت نکلنے والے ہفت روزہ انگریزی جرید ہ فرائیڈے ٹائمز کے لئے بھی بلوچستان سے تحاریر لکھتا تھا۔ نجم سیٹھی کا شمار بلاشبہ پاکستان کے بہترین صحافیوں میں سے ہوتا ہے اور بیرون ملک جن چند پاکستانی صحافیوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو ان میں نجم سیٹھی بھی شامل ہیں۔چوں کہ سیٹھی صاحب کا تعلق انگریزی پریس سے رہا ہے تووہ اپنے پیشہ وارانہ زندگی کے بیشتر سالوں تک عام پاکستانیوں کی نظر سے اوجھل تھے لیکن جب انھوں نےجیو ٹی وی پر اپنااردو پروگرام ’’آپس کی بات‘‘ شروع کی توزیادہ سے زیادہ لوگ انھیں جاننے لگے۔ وہ اپنے بے لاگ تبصروں اور بیشتر اوقات درست ثابت ہونے والی پیشن گوئیوں کی وجہ سے بھی بہت  جلدہی اپنے ناظرین میں مقبول ہوگئے۔ ان کی پیشن گوئیوں کے سچ ثابت ہونے کی وجہ سے میں نے انھیں امریکن اخبار ہفنگٹن پوسٹ میں اپنی ایک تحریر میں پاکستان کا والٹر کرانکیٹ قراردیا تھا۔ واٹر کرانکیٹ امریکا کے ایک انتہائی قابل احترام صحافی تھے جنھیں ’’ امریکا کا سب سے قابل اعتبارشخص‘‘ بھی کہا جا تا تھا۔ اگرچہ نجم سیٹھی نے والٹر کرانکیٹ کی طرح فیلڈ رپورٹنگ نہیں کی لیکن ان کی پیشن گوئیوں کے بنیاد پر انھیں اگر پاکستان کا والٹر کرانکیٹ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کیوں کہ ان  کے بیشتر تجزے سچ ثابت ہوتے ہیں۔ 
نجم سیٹھی ایک لبرل سوچ رکھنے والی شخصیت ہیں اور ان کے پروگرام کا انداز ملک کے دیگر اینکر پرسن سے بالکل مختلف ہے۔ وہ روایتی سازشی افکار پر توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی پاکستان میں ہونے والے ہر مسئلے کا ذمہ دار امریکا، بھارت اور اسرائیل کو ٹھہراتے ہیں۔ ان کی اسی روشن خیالی کی وجہ سے پاکستان کا مذہبی طبقہ جس کا قومی میڈیا پر بھی غلبہ ہے ان کے خیالات سے خوش نہیں رہا ہے۔ 
انیس سو ننانوے میں انھیں آئی ایس آئی نے اغوا کیا کیوں کہ انھوں نے مبینہ طور پر ہندوستان میں ایک پاکستان مخالف تقریر کی تھی لیکن بعد میں رہا کئے گئے۔ حالیہ دنوں میں بھی انھیں جان سے ماردینے کی دھمکیاں مل رہی تھیں جن کے پیش نطر وہ اور ان کی اہلیہ محترمہ جگنو محسن امریکا تشریف لائے۔ یہاں وہ ایک عرصہ تک نیو امریکا فاونڈیشن نامی معتبر تھنک ٹھینک سے منسلک رہے۔پاکستان واپس لوٹنے سے قبل انھوں نے خود کو ملنے والی دھمکیوں کا اعلان میڈیا میں کیا جس کے بعد حکومت نے انھیں سیکورٹی فراہم کی۔ اس کے باوجود وہ اپنا ٹی وی شو اپنے گھر ہی میں قائم ایک چھوٹے اسٹوڈیومیں ریکارڈ کرتے رہے ۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی صحافی کو سرکاری نوکری کرنی چائیے یا سیاسی عہدہ سنھبالنا چائیے؟ ہمارے خیال میں نجم سیٹھی نے سرکاری عہدہ قبول کرکے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے جس سے پاکستانی صحافت میں ایک منفی رجحان کو تقویت ملے گیکیوں کہ صحافیوں میں بھی ایک ایسامراعات یافتہ طبقہ رہا ہے جس کو حکومت ہر طرح سے نوازتی رہی ہے۔ پہلے ہی سےکئی صحافی خفیہ اداروں کے پےرول پر ہیں،باقیوں کو حکومت پلاٹوں سے نوازتی ہے اور کچھ اور کو تو غیر ملکی دورے حتیٰ کہ حج اور عمرے بھی کرائے جاتے ہیں تاکہ وہ حکومت  کے حق میں رپورٹنگ کریں۔نجم سیٹھی کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد ایسے لوگوں کی خواہشتات و توقعات میں مزید اضافہ ہوگا کہ کیوں کہ وہ بھی حکومت کی قربت حاصل کرکے کسی  نا کسی طرح مستقبل کے کسی اور نگران حکومت میں بڑے عہدے پر فائز ہونے کے خواہش مند ہوں گے۔حکومت اور سیاسی پارٹیوں کی یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ سرکردہ صحافی ان کے ساتھ ملیں کیوں کہ اس سے میڈیا میں ان کا امیج بہتر بنانےمیں مدد مل سکے گی لیکن صحافیوں کے لئے لازمی ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری لالچ اور خوش آمد میں ناآئیں۔