تحریر: ملک سراج اکبر
کافی قیاس آرائیوں کے بعد ملک بھر کی طرح گیارہ مئی کو بلوچستان میں بھی عام انتخابات مشکل حالات میں سہی لیکن منعقد ہوہی گئے۔ صوبہ بھر میں ووٹر ٹرن آوٹ بہت ہی کم رہاجس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ضلع آواران میں کامیاب ہونے والے امیدوار قدوس بزنجو نے صرف چھ سو چالیس ووٹ حاصل کئے۔بلوچ نیشنل فرنٹ نے انتخابات سے سے پہلے اور انتخاب کے دن ایک انتہائی کامیاب شٹرڈاون اور پہیہ جام ہڑتال کیا جس کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے اور ووٹ دینے باہر نہیں نکلے۔لیکن تمام نا مساعد حالات میں بلوچستان میں ایسے عام انتخابات منعقد کرنا جن میں بلوچ اور پشتون قوم پرستوں نے بھی حصہ لیا حکومتی نقطہ نظر سے ایک بڑی کامیابی ہے۔ نصیرآباد میں ہونے والے ایک بم دھماکے علاوہ جس میں سولہ افراد ہلاک ہوئے باقی ماندہ بلوچستان میں انتخابات پرامن رہے اور جس طرح کے بڑے حملوں کا خدشہ تھا وہ پیش نہیں آئے۔ چھوٹے موٹے واقعات اور دھاندلی کے الزامات تو ہر انتخاب میں لگتے رہتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ہی لوگ فراموش کردیتے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ گیارہ مئی بلوچ علیحدگی پسند اور سرکار دنوں کے لئے بیک وقت فتح اور شکست کا دن تھا ۔ اب اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ کو ن سکے کو کس رخ سے دیکھتا ہے اور وہ انتخابی نتائج کی کس طرح تشریح کرتے ہیں۔
ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں ایک بار پھر کوئی ایک جماعت واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔بلوچستان انتخابی حوالے سےملک کا سب سےمنقسم صوبہ ہے جہاں بلوچ قوم پرستی کا دعویٰ دار ہونے کے باوجود بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی ایک ساتھ مل بیٹھ کر کسی بھی مسئلے پر اکٹھے کام نہیں کرسکتیں ۔اسی طرح جمعیت علمائے اسلام بھی دو دھڑوں (فضل الرحمن اور نظریاتی) میں تقسیم ہے۔ پشتونوں کی ترجمانی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کرتی ہیں جب کہ وفاق پر یقین رکھنے والی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ( نواز اور قائد اعظم ) دنوں بڑی حدتک اپنا وجود رکھتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی تا حال خود کو بلوچستان کی سیاست میں تاحال منوا نہیں سکی ہیں اور ان کی صوبائی پارلیمان میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔
حتمی نتائج تاحال برآمد نہیں ہوئے ہیں ۔ ابھی تک جو غیر حتمی نتائج سامنے آئے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے کی سیاست میں قدرے تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے۔اس ضمن میں سب سے خوش گوار تبدیلی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی طرف سے دیکھنے میں ملی ہے جنھوں نے ایک غیر حتمی اندازے کے مطابق مشترکہ طور پر پینسٹھ نشستوں پر مشتمل صوبائی اسمبلی کی اٹھارہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ دنوں جماعتوں نے سابقہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جب کہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے مقابلے میں نیشنل پارٹی کو انتخابی مہم کے دوران آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیموں کی طرف سے غیرمعمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت کے سربراہ اور سابق سینٹر ڈاکٹر عبدالمالک کے انتخابی مہم پر دو مرتبہ حملے ہوئے جن میں وہ بال بال بچ گئے۔ ان تمام حالات کے باوجود نیشنل پارٹی نے میدان نہیں چھوڑا اور نہ ہی اپنی سیاست سے دستبردار ہوگئی۔خود ڈاکٹر مالک بلوچ بھی صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوگئے ہیں۔
پشتون علاقوں میں ترقی پسند ، سکیولر پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کا انتخاب ایک انتہائی خوش آئند امرہے کیوں کہ اگر پشتونخواہ بلوچ قوم پرستوں کی طرح میدان کچھ اور عرصہ کے لئے چھوڑ دیتی تو ان کے علاقے طالبا ن اور ان کی حامی جمعیت علمائے اسلام کے رحم و کرم پر ہوتے۔ اگلے سال افغانستان کی جنگ کےخاتمے کے تناظر میں یہ انتخابی کامیابی بہت ہی اہم ہے کیوں کہ کوئی یہ بات مانے یا نہیں لیکن کوئٹہ شہر طالبان کی اعلیٰ قیادت کا مرکز ہے اور اگلے سال امریکی افواج کے انخلاتک کوئٹہ شہر میں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے اہم ملاقاتیں اور فیصلے ہوتے رئیں گے۔ اگر پاکستان کا یہ موقف ہے کہ جب تک افغانستان کے حوالے سے وہ کسی فیصلے میں شریک نہ ہو تب تک ایسا کوئی فیصلہ سود مند ثابت نہیں ہوگا تو اسی طرح یہ بات بھی اہم ہے کہ جب تک پشتون قوم پرستوں کو افغانستان میں پاکستانی پالیسی اور عزائم کے بارے میں پتہ نہیں چلے گا تب تک پاکستان کی افغان پالیسی پشتون قوم کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پشتون خواہ بلوچستان حکومت یا اپوزیشن میں جاکر افغانستان اور طالبان کے حوالے سے کیا موقف اختیار کرتی ہے۔کیا پشتونخواہ میپ صوبہ خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے حشر سے سبق سیکھے گی اور طالبا ن پر اپنا موقف نرم کرے گی یا سخت موقف اپنا کر خود کو دوسری اے این پی بنالے گی؟
پشتونخواہ میپ اور نیشنل پارٹی ماضی میں کئی پلیٹ فارم پر اکھٹی رہی ہیں اوردنوں میں ایک بات قدرے مشترک ہے کہ وہ ترقی پسند سیکولر سیاست پر یقین رکھتی ہیں۔ ان کے اقتدار میں آنے سے شاید مذہبی انتہاپسندوں کی کارروائیوں میں کمی نہیں آئے ( کیوں کہ ان کی سرپرستی راولپنڈی اور جنوبی پنجاب سے ہوتی ہے) لیکن اس بات کا اطمینان تو ضرور ہوگاکہ بلوچستان مکمل طور پر مذہبی قوتوں کے قبضے میں نہیں ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی ( بی این پی مینگل ) کی کارکردگی خلافِ توقع مایوس کن رہی ہے۔ خود بی این پی کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست پر تو کامیاب ہوگئے ہیں لیکن مجوعی طور پر انھوں نے انتخابی عمل پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہےاور دیگر نشستوں پر دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں۔ مینگل کا کہنا ہے کہ کئی نشستوں پر جہاں ان کی جماعت کے امیدوار جیت رہے تھے وہاں پر نتائج کو جان بوجھ کر روکا گیا ہے تا کہ نتائج کو حکومت کے حامیوں کے حق میں تبدیل کیا جائے۔ انھوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ متنازعہ نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرایا جائے ۔ بصورت دیگر وہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی رٹ دائر کریں گے۔
ایسا نہیں لگتا کہ بی این پی کو اپنے موقف پر زیادہ پزیرائی ملے گی کیوں کہ ان کے ہم خیال پشتونخواہ اور نیشنل پارٹی اپنی کارکردگی سے قدرے مطمین نظر آتی ہیں اور وہ نہیں چائیں گی کہ انتخابات کی ساکھ پر کوئی انگلی اٹھے جس سے خود ان کی کامیابی کو بھی شک کی نگاہوں سے دیکھا جائے۔ جب کہ بلوچوں کی بڑی تعداد نے سرے ہی سے بی این پی کے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔
آزادی پسند قوتیں سردار مینگل سے ہمدردی نہیں کرتے اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بی این پی اپنی انتخابی شکست کو ہضم کرنے پر تیار نہیں ہے اور یوں اپنی ناکامی کے ردعمل میں ایک بار پھر بلوچ مظلومیت کا کارڑ استعمال کر رہی ہے۔ لیکن لوگ کب تک مینگل کا اس طرح اعتبار کریں گے۔ انھیں تو پہلے بھی کہا گیا تھا کہ پاکستانی ادارے ایسے ہی ہیں اور آپ کو پتہ ہونا چائیے کہ اقتدار کا سرچشمہ فوج ہے نا کہ پارلیمان لیکن آپ نے تو کسی اور بلوچ رہنما کے مشورے کی شنوائی نہیں کی۔ جب بی این پی انتخابات میں جارہی تھی تو ان کے بہت سارے رہنما سمجھ رہے تھے کہ آزادی پسند رہنما دراصل بی این پی کی شہرت پر جلتے ہیں اور ان سے بی این پی کی مقبولیت برداشت نہیں کی جاتی ۔ یہ محض ان کی خوش فہمی تھی جس کا اب وہ خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ بی این پی اب نا سرمچاورں کے کیمپ میں ہے نا حکومتی کیمپ میں۔بی این پی اب صرف اپنی ہی کیمپ میں محدود ہوکر رہ گئی ہے جس پر ہمیں افسوس ضرور ہے لیکن اس کی ذمہ داری خود سردار مینگل کے عاقبت نا اندیش مشیروں پر عائد ہوتی ہے۔
ایسا نہیں لگتا کہ بی این پی کو اپنے موقف پر زیادہ پزیرائی ملے گی کیوں کہ ان کے ہم خیال پشتونخواہ اور نیشنل پارٹی اپنی کارکردگی سے قدرے مطمین نظر آتی ہیں اور وہ نہیں چائیں گی کہ انتخابات کی ساکھ پر کوئی انگلی اٹھے جس سے خود ان کی کامیابی کو بھی شک کی نگاہوں سے دیکھا جائے۔ جب کہ بلوچوں کی بڑی تعداد نے سرے ہی سے بی این پی کے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔
آزادی پسند قوتیں سردار مینگل سے ہمدردی نہیں کرتے اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بی این پی اپنی انتخابی شکست کو ہضم کرنے پر تیار نہیں ہے اور یوں اپنی ناکامی کے ردعمل میں ایک بار پھر بلوچ مظلومیت کا کارڑ استعمال کر رہی ہے۔ لیکن لوگ کب تک مینگل کا اس طرح اعتبار کریں گے۔ انھیں تو پہلے بھی کہا گیا تھا کہ پاکستانی ادارے ایسے ہی ہیں اور آپ کو پتہ ہونا چائیے کہ اقتدار کا سرچشمہ فوج ہے نا کہ پارلیمان لیکن آپ نے تو کسی اور بلوچ رہنما کے مشورے کی شنوائی نہیں کی۔ جب بی این پی انتخابات میں جارہی تھی تو ان کے بہت سارے رہنما سمجھ رہے تھے کہ آزادی پسند رہنما دراصل بی این پی کی شہرت پر جلتے ہیں اور ان سے بی این پی کی مقبولیت برداشت نہیں کی جاتی ۔ یہ محض ان کی خوش فہمی تھی جس کا اب وہ خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ بی این پی اب نا سرمچاورں کے کیمپ میں ہے نا حکومتی کیمپ میں۔بی این پی اب صرف اپنی ہی کیمپ میں محدود ہوکر رہ گئی ہے جس پر ہمیں افسوس ضرور ہے لیکن اس کی ذمہ داری خود سردار مینگل کے عاقبت نا اندیش مشیروں پر عائد ہوتی ہے۔
صوبائی حکومت کی تشکیل میں پاکستان مسلم لیگ نواز کا بڑا اہم کردار ہوگاکیوں کہ وفاق اور پنجاب میں نون لیگ کی حکومت بنے گی ۔اگرچہ نواز شریف نے انتخابات سے پہلے ہی اختر مینگل سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن اب انتخابی نتائج کی آمد کے بعد مینگل کے وزیر اعلیٰ بننے کی امیدیں کم ہوگئی ہیں کیوں کہ بی این پی کے پاس صوبائی اسمبلی میں بہت کم نشستیں ہیں۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ میں شامل چند پشتون رہنماوں کی خواہش ہوگی کہ اس بار پشتون وزیراعلیٰ منتخب کیا جائے لیکن اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت سارے بلوچوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ بلوچستان کی سیاست کچھ ایسی ہے کہ لوگوں کا تعلق کسی بھی جماعت اور نظریے سے کیوں نا وہ اپنی لسانی اور قومی وابستگوں کو یکدم بالائے تاک نہیں رکیں گے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بلوچوں کی خواہش ہوگی کہ کوئی بلوچ ہی وزیر اعلیٰ بنے خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو اور پشتونوں کی بھی یعنی خواہش ہوگی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سردار اختر مینگل بلوچستان کی سیاست سے باہر ہوگئے ہیں۔انھوں نے انتخابی دھاندلی پر آواز بلند کرکے یہ اشاردہ دیا ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف مضبوط رہنما بن کر ابھر سکتے ہیں۔ وہ اپنی جماعت کے ان کئی رہنماوں کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتے جنھیں مبینہ طور پر دھاندلی کی وجہ سے مختلف نشستوں پر شکست ہوئی ہے۔ ان حالات میں میاں نواز شریف اور اختر مینگل کے راستے الگ ہوتے نظر آتے ہیں۔ اگر نواز شریف اختر مینگل کے موقف کی تائید کرتے ہیں کہ بلوچستان میں واقعی دھاندلی ہوئی تھی توپھر آنے والی پوری صوبائی حکومت کی ساکھ مجروح ہوگی اور اس کا نواز شریف کو کوئی فائد ہ نہیں پہنچے گا۔